کردارِ مسلم کی بنیادی علامات اور چند تشخصات

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

مسلمان کون ہے؟ کردارِ مسلم کیا ہونا چاہئے؟ کیا آج ہم سیرت و کردار میں مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات جاننے کے لئے ہمیں کردارِ مسلم کی بنیادی علامات اور مسلمانوں کے اہم تشخصات کو جاننا ہوگا۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ’’مسلمان‘‘ کی علامت کا ذکر کچھ یوں فرمایا:

بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهُ ِﷲِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ اَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ.

’’ہاں، جس نے اپنا چہرہ اﷲ کے لیے جھکا دیا (یعنی خود کو اﷲ کے سپرد کر دیا) اور وہ صاحبِ اِحسان ہوگیا تو اس کے لیے اس کا اجر اس کے رب کے ہاں ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اورنہ وہ رنجیدہ ہوں گے‘‘۔

(البقرة، 2: 112)

یہ آیت کریمہ واضح کرتی ہے کہ مسلمان وہ ہے جو خود کو اللہ کے حضور جھکادے۔ اللہ کے حضور جھکانا یہ ہے کہ انسان کے وجود سے صادر ہونے والے ہر فعل، قول، خلق و عادت، رویہ و طریقہ، طرز عمل اور طرز گفتگو میں اللہ کا رنگ نظر آئے، یعنی انسان اخلاق الہٰیہ اور اخلاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متصف نظر آئے۔

اسی لئے باری تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسی ہستیوں سے متعارف کراتا ہے جنہوں نے خود کو اس کے حضور، مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّٰه کے مصداق جھکایا اور مسلمان کا اعزاز پانے والوں میں سے ہوگئے۔ اس وجود مسلم کا تعارف کراتے ہوئے سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا:

مَا کَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰـکِنْ کَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا.

(آل عمران: 67)

’’ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی وہ ہر باطل سے جدا رہنے والے (سچے) مسلمان تھے‘‘۔

باری تعالیٰ اس آیت کریمہ میں ایک مسلمان کا تعارف کروا رہا ہے کہ مسلمان ہمیشہ باطل سے جدا اور حق سے وابستہ ہونے والا ہوتاہے۔۔۔ مسلمان وہ ہے جو شرک کو چھوڑتا ہے اور توحید پر خود کو قائم کرتا ہے۔۔۔ مسلمان وہ ہے جو جھوٹ سے بیزار ہوتا ہے اور سچ کا دلدادہ ہوتا ہے۔۔۔ مسلمان وہ ہے جو پیکر اطاعت ہوتا ہے۔۔۔ اس کا وجود شر نہیں بلکہ خیر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے حضور جھک جانے کے باعث اس کے وجود کا نام ہم نے قرآن میں مسلمان رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

هُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ هٰذَا.

(الحج، 22: 78)

’’اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی ‘‘۔

مسلمان: قول و عملِ احسن کا پیکر

سورہ حم السجدہ میں ایک مسلمان کا سب سے بڑا تعارف کراتے ہوئے قرآن بیان کرتا ہے کہ ایک مسلمان کون ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اﷲِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ.

’’اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے بے شک میں (اﷲل اور رسول a کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں‘‘۔

(حم السجدة، 41: 33)

اس آیت کریمہ نے قول احسن اور عمل احسن کا نام کردارِ مسلم بتایا ہے۔ گویا جس ذات اور شخصیت میں قول احسن کی بہاریں ہیں اور جس وجود میں عمل احسن کے جلوے ہیں یقینا یہی وہ وجود ہے جو اپنا تعارف تحدیث نعمت کے طور اننی من المسلمین سے کراتا ہے۔ یعنی میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وفادار اور فرمانبردار ہوں۔۔۔ میری شناخت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت گزاری ہے۔۔۔ میں مسلمان اس لئے ہوں کہ میں اللہ کے حضور عبادت گزار ہوں اور میں مسلمان اس لئے ہوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا عملدار ہوں اور ان کی سیرت و کردار کا وفا شعار ہوں۔

لفظ مسلمان کے لغوی معانی

عربی لغت میں مسلمان کا معنی کیا بیان کیا گیا ہے؟ آیئے اس پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں:

  1. المسلم هو مظهر للطاعة.

’’مسلمان وہ ہے جو سراپا اطاعت ہے‘‘۔

(ابن منظور،لسان العرب، ماده مسلم ج12، ص293)

یعنی جس کا وجود اطاعت الہٰی اور اطاعت رسول سے عبارت ہے۔ اس کے وجود میں اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کا رنگ نظر آتا ہے۔

  1. المسلم هو التام الاسلام.

’’مسلمان وہ ہے جس نے خود کو اسلام میں ڈھال لیا ہے‘‘۔

(ايضاً)

یعنی جس کا وجود چلتا پھرتا اسلام ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا عملی اظہار وجود مسلم سے ہوتا ہے۔

  1. هو مومن بها.

’’مسلمان وہ ہے جو تعلیمات اسلام پر ایمان رکھتا ہے‘‘۔

(ايضاً)

یعنی اس کو یقین حاصل ہے کہ اسلام کا ہر عمل اور ہر امر و نہی اس کے نفع کے لئے ہے۔

  1. المسلم هوا لمستسلم لامر الله.

’’مسلمان وہ ہے جو اللہ کے حکم کے سامنے جھک جائے‘‘۔

(ايضاً)

یعنی مسلمان وہ ہے جو اللہ کے حکم کو اپنا قول و فعل اور اخلاق و کردار بنائے۔ جو اپنے نفس امارہ کی خواہش سے اٹھنے والے حکم کو ترک کرے اور اس کے بجائے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردے۔

  1. المسلم هوالمخلص لله العبادة.

’’مسلمان وہ ہے جو عبادت کو اللہ ہی کے لئے خالص کرلے‘‘۔

(ايضاً)

یعنی مسلمان وہ ہے جو ایاک نعبد کا پیکر بن جائے، جو صرف اور صرف اللہ ہی کی عبادت کرے۔ اس کے وجود سے عبادتِ غیر کی ہر صورت کا خاتمہ ہوجائے۔ عبادت میں اس بندے کا اخلاص بڑھتے بڑھتے اس کو ایسا کردے کہ اس کا ہر کام اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہو۔

لفظ کافر کا مفہوم

  1. لفظ اسلام کے مد مقابل لفظ کفر بولا جاتا ہے جس کا معنی چھپانا اور ڈھانپنا ہے۔

(ابوبکر رازی، مختار الصحاح، ماده کفر، ج1، ص239)

  1. کافر کو کافر اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ایمان کو دل میں چھپالیتا ہے اور زبان و دل سے اس کا اظہار نہیں کرتا۔ اسی معنی کو ائمہ عقیدہ امام ابوالحسن اشعری، ابو منصور ماتریدی اور علامہ تفتازانی نے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

الکفر هی الجحد والانکار.

’’کفر کا معنی سخت اور کھلا انکار ہے‘‘۔

(اشعری، مقالات اسلامين، ص140)
(تفتازانی، شرح المقاصد فی علم الکلام، ج2، ص268)

  1. کافر کو کافر اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اسلام کی ہر ہر حقانیت و صداقت پر مبنی شہادت اور حقیقت کو چھپاتا چلا جاتا ہے اور ہر ہر موقع پر تکذیب توحید الہٰی اور تکذیب نبوت و رسالت کا عمل دھراتا چلا جاتا ہے، اس لئے کافر ٹھہرتا ہے۔ اسی بناء پر امام ابن نجیم کہتے ہیں:

الکفر لغة الستر وشرعا تکذيب محمد صلی الله عليه وآله وسلم في شئی مما يثبت عنه ادعاده ضرورة.

(ابن نجيم، البحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج5، ص129)

’’لغۃ کفر کا معنی چھپانا ہے اور شرعاً حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بحیثیت اللہ کے رسول جو چیز بطور دعوٰیٔ اسلام اور ضرورت اسلام ثابت ہو اس کا انکار کرنا کفر ہے‘‘۔

اس ضمن میں جمہور اہل اسلام کا یہ موقف بھی اپنے پیش نظر رکھیں کہ اصولاً کفر کا تعلق اعتقاد و عقیدہ سے ہے۔ اگر کوئی شخص عقیدہ میں کافر نہیں اور اپنے عمل فی الاسلام میں تساھل کا طرز عمل رکھتا ہے تو اس بنا پر اس کو کافر نہیں قرار دیا جاسکتا۔

(اردو دائره معارف اسلامية، ج17، ص34)

کردار مسلم کی علامات

آیئے اب ہم کردار مسلم کی کچھ علامات اور نشانیاں ایک مسلمان کے وجود میں تلاش کریں۔ ان علامات اور نشانیوں کا تعین ہم اپنے اپنے تصورات اور نظریات سے نہیں کرتے بلکہ ہم آقا علیہ السلام سے اس بارے رہنمائی لیتے ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کی نگاہ میں ایک مسلمان کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے متعدد فرامین میں ایک مسلم کردار کی کچھ علامات بیان کی ہیں۔ آیئے! ان احادیث مبارکہ سے علاماتِ کردارِ مسلم کا مطالعہ کرتے ہیں:

  1. زبان سے تمام لوگ محفوظ رہیں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

المسلم من سلم المسلمون من لسانه ديده.

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔

(بخاری، الصحيح، باب من سلم المسلمون، رقم11)

اس حدیث مبارکہ کا پہلا حصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کی زبان دوسروں کو تکلیف و اذیت نہ دے۔ اس کی زبان پر کسی کی تحقیر نہ ہو، وہ زبان فحش سے پاک ہو، وہ زبان سب و شتم سے دور ہو، وہ زبان گالی گلوچ سے محفوظ ہو، وہ زبان طعن و تشنیع سے ماوراء ہو۔ اس لئے کہ یہ زبان ہی لوگوں کے درمیان محبت اور یہی لوگوں کے درمیان نفرت پیدا کرتی ہے۔ یہ زبان جوڑتی بھی ہے اور توڑتی بھی ہے۔ یہ زبان دوست بھی بناتی ہے اور دشمن بھی بناتی ہے۔ یہ زبان ہی چھری، کانٹے، چاقو اور تلوار سے بھی زیادہ گہرا زخم لگاتی ہے۔ اسی لئے کسی عربی شاعر نے زبان کی اس خاصیت کا اظہار یوں کیا:

جراحت الاسنان لها التيام
ولا يلتام من جرح باللسان

’’جو زخم چھری و تلوار سے لگایا جائے وہ بھر جاتا ہے اورجو زخم زبان سے لگایا جائے وہ نہیں بھرتا‘‘۔

آج ہماری معاشرتی زندگی، کاروباری زندگی، گھریلو زندگی، دفتری زندگی میں عدم سکون، پریشانی و اضطراب اور نااتفاقی و بے چینی کا سب سے بڑا سبب ہماری نوک دار زبان ہے جو چھری اور تلوار سے بھی زیادہ تیز ہے۔ جو ایسا کاٹتی ہے کہ کسی کو دوستی سے ہی کاٹ دیتی ہے، کسی کو رشتے ہی سے فارغ کردیتی ہے، کسی کو دیرینہ تعلق سے محروم کردیتی ہے، کسی کی لازوال وفائوں کو ایک لمحے میں خاکستر کردیتی ہے۔ یہ زبان بسانے پر آئے تو وفائوں کے گلستان آباد کرتی ہے اور یہ زبان اجاڑنے پر آئے تو پھول چہروں کو مرجھا اور جھلسا دیتی ہے۔ اس زبان کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص مجھے اپنی زبان کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘۔

اس زبان کے شر سے ہم نے دوسرے مسلمانوں کو محفوظ کرنا ہے تب ہی ہماری مسلمانی مسلّم ہوگی۔

صرف مسلمان کا مسلمان ہی کا محافظ ہونا نہیں بلکہ مسلمان ہر ایک انسان کا محافظ ہونا اسلام کی علامت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے:

من سلم الناس من لسانه و يده.

(احمد بن حنبل المسند، 2، ص187، رقم6753)

’’جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوط رہیں‘‘۔

کردار مسلم یہ ہے کہ اس کے وجود سے صرف مسلمان نہیں بلکہ دوسرے تمام انسان بھی محفوظ رہیں۔ اس کی زبان کسی بھی انسان کی دلآزاری نہ کرے، اس کے ہاتھ کسی بھی انسان کا خون نہ بہائیں اور کسی انسان کا مال نہ لوٹیں۔ اگر یہ علامات کسی وجود میں پائی جائیں تو وہ مسلم وجود ہے اور ایک مسلم کردار کا حامل ہے۔

  1. ہاتھ سے دوسرے انسان محفوظ رہیں

کردار مسلم کی دوسری نشانی و علامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ لوگ اس کے ہاتھ سے محفوظ رہیں۔ یعنی اس کے ہاتھ لوگوں کو شر نہ پہنچائیں، اس کے ہاتھوں سے فعل حرام سرزد نہ ہو، اس کا ہاتھ قتل و غارت میں ملوث نہ ہو، اس کا ہاتھ چوری و ڈکیتی میں مصروف نہ ہو، اس کا ہاتھ کرپشن، بدعنوانی اور حرام خوری کا خوگر نہ ہو، اس کا ہاتھ دجل، فراڈ، دھوکہ دہی میں آلہ کار نہ ہو، اس کا ہاتھ ظلم و ستم کرنے، وحشت و بربریت بپا کرنے میں شاغل نہ ہو، اس کا ہاتھ فتنہ و فساد، خونریزی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی میںملوث نہ ہو۔ گویا جس کی زبان سلامتی والی ہے اور جس کے ہاتھ سلامتی والے ہیں وہی مسلمان ہے۔ وہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسندیدہ اور محبوب ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

المسلم اخوالمسلم لا يظلمه ولا يسلمه.

(بخاری، الصحيح، باب لا يظلم المسلم، 2: 862، رقم 2301)

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے‘‘۔

ظلم کرنا یہ ہے کہ کسی انسان کو اس کے حق سے محروم کردیا جائے۔ انسان کسی کا مال ناجائز طریقے سے ہڑپ کرلے، کسی کو اس کی جائیداد سے محروم کردے، کسی کی زمین پر قبضہ کرلے، کسی کا مال لوٹ لے۔ ہر وہ چیز ظلم ہے جو اس کا حق نہیں اور وہ اس چیز کو اس مظلوم سے اپنی قوت و طاقت اور ڈر و دہشت کی بنا پر جبراً چھین لے۔ اس دینے میں مظلوم کی مرضی شامل نہ ہو، تو یہ ظلم ہے۔ ظلم بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ ہو، اس کی ہر صورت ظلم ہے اور اسلام نے اس سے منع کیا ہے۔

  1. مسلمان کے مال، جان اور عزت کی حفاظت

مسلمان کا کردار سلامتی والا ہے اور ہر ظلم سے پاک ہے۔ اسی کردارِ مسلم کا تقاضا ہے کہ ہر مسلمان اپنے اندر اسلام کی یہ علامات پیدا کرے کہ وہ خود کو سراسر سلامتی والا، پرامن اور ہر ظلم سے پاک بنائے اور اس کی عملی تعبیر اپنے وجود سے یوں ظاہر کرے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں بیان فرمایا:

کل المسلم علی المسلم حرام دمه وماله وعرضه.

(مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، 4: 1986، الرقم: 2564)

’’ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت حرام ہے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی اور یہ کلمات مبارکہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اگر ہماری زندگیوں میں آجائیں، ہماری سیرت، عمل اور کردار فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشنی پائے تو اسلامی معاشرے سے بڑا پرامن، بقائے باہمی، سلامتی و آشتی، محبت و پیار اور تحمل و رواداری والا معاشرہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ آج کردار مسلم کا زوال یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات ہماری زندگیوں میں اترتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ ہم نام کے تو مسلمان ہیں مگر عمل میں اسلام نظر نہیں آتا۔

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

کونوا عباد الله اخوانا.

(مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، 4/ 1986، الرقم: 2564)

’’اے اللہ کے بندو باہم بھائی بھائی بن جاؤ‘‘۔

افسوس آج ہم اس فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فراموش کئے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن چکے ہیں۔

  1. کردار مسلم اور متفرق علامات

سوال یہ ہے کہ اخوت بین المسلمین کیسے اور کس طرح قائم ہوسکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا طریقہ بھی خود بتادیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لاَ تَحَاسَدُوْا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَلَا يَبِيْع بَعْضکم عَلی بَيع بَعْض.

’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، اور ایک دوسرے سے منہ نہ موڑو اور تم میں سے کوئی شخص دوسرے کے سودے پر اپنا سودا نہ کرے‘‘۔

  • مزید برآں فرمایا: مسلمان وہ ہے جو:

ولا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره.

’’نہ تو ظلم کرتا ہے، نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ اسے حقیر جانتا ہے‘‘۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

لا يخونه ولا يکذبه ولا يخذله.

(ترمذي، السنن، باب ماجاء في شفقة المسلم، 4/325)

’’مسلمان دوسرے مسلمان سے نہ خیانت کرتا ہے اور نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے‘‘۔

آج ہم اپنے وجودوں میں اس مسلمان کو تلاش کرنا چاہتے ہیں جس کی علامات اور نشانیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کی ہیں۔ یہی علامات اور صفات اگر ہمارے وجودوں میں پائی جائیں تو تبھی ہم کردارِ مسلم کے حامل ہوسکتے ہیں اور اس آیہ کریمہ کے مصداق ھو سمکم المسلمین کے اہل ہوسکتے ہیں۔

مذکورہ فرامین میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل امور کی جانب ہماری توجہ مبذول کروائی۔

  1. مسلمان دوسرے مسلمان سے حسد نہیں کرتا۔ اس لئے کہ حسد انسان میں نفرت و عداوت پیدا کرتا ہے۔ حسد انسان کی نیکیوں کو ختم کرتا ہے۔ حاسد محروم رہتا ہے۔ اس لئے اسلام حسد کے بجائے رشک کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
  2. ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دھوکہ نہ دے اور فراڈ سے مال نہ بنائے۔ اس لئے کہ دھوکے کا مال انسان کو اللہ کی نصرت اور برکت سے محروم کرتا ہے۔
  3. ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ اس لئے کہ بغض دل کا میل ہے جو عداوت کو جنم دیتا ہے اور عداوت انسان کو اللہ کی رحمت اور فضل سے محروم کرتی ہے۔
  4. ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے کسی بھی بناء پر رخ نہ موڑے یعنی قطع تعلقی نہ کرے۔ کسی کے وجود میں اگر شر ہے تو اس کے شر سے بچے لیکن اس کو حقیر جان کر اس کے وجود سے نفرت نہ کرے۔
  5. ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو رسوا نہ کرے۔ ہر نفس عزت کا مستحق ہے۔ کسی بھی انسان کی تذلیل نہ کی جائے۔ کسی کو بھی رسوا نہ کیا جائے، کسی کو بے حیثیت نہ جانا جائے۔ انسان سے بحیثیت انسان پیار کیا جائے اور مسلمان کا بحیثیت مسلمان احترام کیا جائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر ایک شرابی پر حد لگوائی۔وہ سزاکے بعد جانے لگا تو کچھ لوگوں نے اسے کہا: ’’اللہ تجھے رسوا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے یوں نہ کہو اور اس طرح کہہ کر اس پر شیطان کو مسلط نہ کرو‘‘۔

خلاصہ کلام:

خلاصہ کلام یہ ہے وہ کردار مسلم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ اگر کوئی شخص سزا یافتہ بھی ہوگیا ہے پھر بھی اس کی عزت نفس کا پاس کرو۔ اس کو بھی کسی قسم کی گالی نہ دو اور اس کو برا بھلا نہ کہو۔ کہیں ایسا نہ ہو تمہارے اس طرح کہنے سے وہ برائی پر ثابت قدم ہوجائے اور وہ اپنی توبہ و استغفار سے پھر جائے۔ تمہارے اس طرح کہنے سے اس کی عزت نفس مجروح ہوگی۔ درست ہے وہ گنہگار ہے مگر مسلمان ہے اور مسلمان قابل احترام ہے۔ وہ انسان ہے لہذا قابل تکریم ہے۔ باری تعالیٰ ہمیں ان قرآنی اور نبوی تصورات کو اپنی زندگی میں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین