سوال: کیا عبادت گاہ بنانے کے لیے غیرمسلم کو مکان کرائے پر دینا جائز ہے؟
جواب: اگر آپ کو معلوم ہے کہ جو شخص آپ سے مکان کرائے پر لے رہا ہے وہ وہاں صنم کدہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور مکان میں شرکیہ امور سرانجام دیے جائیں گے تو بہتر ہے اسے مکان نہ دیا جائے۔ کیونکہ یہ برائی کے کام میں تعاون کے مترادف ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.
(المائدة: 2)
’’نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘۔
اس کے برعکس اگر ایسا غیرمسلم جو اہلِ اسلام سے حالتِ جنگ میں نہ ہو، اسے رہائش کے لیے مکان کرائے پر دیا جاسکتا ہے۔ رہائش اختیار کرنے کے بعد اگر غیرمسلم وہاں کوئی غیرشرعی کام کرتا ہے تو مالکِ مکان کو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ فقہ حنفی کے عالی مرتبت امام شمس الدین سرخسی فرماتے ہیں:
’’مسلمان کے ذمی کو مکان رہائش کے لیے دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، پھر اگر وہ اس میں شراب پیئے، صلیب کی پرستش کرے یا سور داخل کرے تو مسلمان کو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ مسلمان نے مکان اس مقصد کے لیے نہیں دیا۔ یہ عمل کرایہ دار کا ہے جس میں مالکِ مکان کا ارادہ شامل نہیں اس لیے وہ گناہگار نہیں ہے‘‘۔
(سرخسی، المبسوط، 16: 39)
اس مسئلے پر امام مرغینانی نے اپنی رائے دیتے ہوئے فرمایا ہے:
و من آجر بيتاً ليتخذ فيه بيت بار او کنيسة او بيعة او يباع فيه الخمر بالسواد فلا باس به.
اگر کوئی مکان کرایہ پر دے اور کرایہ دار اس میں بت خانہ، کلیسا یا شراب خانہ بنا لے تو اس مکان دینے والے پر گناہ نہیں ہے۔
(مرغينانی، الهدايه، 4: 130)
لہٰذا غیرمسلم کو رہائش کے لیے مکان کرایہ پر دینا جائز ہے، لیکن کسی غیرشرعی، کفریہ اور شرکیہ مقصد کے لیے مکان، دکان اور پلاٹ وغیرہ دینا جائز نہیں۔
سوال: طلاق کو نماز کی عدم ادائیگی کے ساتھ مشروط کرنا کیسا ہے؟
جواب: اگر زید نے بیوی سے کہا کہ ’اگر نماز نہیں پڑھے گی تو تجھے طلاق یا تین طلاق‘ اور بیوی نے نماز پڑھ لی تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ آئندہ ان لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام اور حدود کا اس طرح مذاق اڑانا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔
اگر زید نے وقت کی قید لگاتے ہوئے بیوی سے کہا کہ ’اگر ابھی نماز نہیں پڑھے گی تو تجھے طلاق یا تین طلاق‘ یا کہا ’اگر اتنے وقت کے اندر نماز نہیں پڑھے گی تو تجھے طلاق یا تین طلاق‘ اور بیوی نے اْسی وقت یا وقت کے اندر نماز نہیں پڑھی تو طلاق واقع ہو گئی۔ کیونکہ زید نے طلاق کو وقت کی شرط کے ساتھ مشروط کیا تھا اور شرط کے پائے جانے پر مشروط واقع ہو گیا۔ امام مرغینانی فرماتے ہیں:
و اذا اضافة الیٰ شرط وقع عقيب الشرط.
(مرغينانی، الهداية، 1: 251)
جب خاوند نے طلاق کو شرط سے مشروط کیا اور شرط پائی گئی تو طلاق واقع ہو جائے گی۔
لہٰذا زید نے اگر طلاق کو نماز کی عدم ادائیگی کے ساتھ مشروط کیا اور بیوی نے نماز ادا کر لی تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔
سوال: ملکی و غیرملکی بینکوں کے سودی قرضے لوٹانے کے لیے حکومت کا عوام پر ٹیکس لگانا کیسا ہے؟
جواب: اسلامی معیشت ایک متوازن و مفرح طرز حیات ہے۔ یہ ایک ایسا منظم لائحہ عمل ہے جس میں حقوق و فرائض کا حسین امتزاج کارفرما ہے۔ معقول اور منصفانہ ٹیکسوں کا نظام بھی اسلامی معیشت کا ایک تعمیری پہلو ہے۔ زکوٰۃ اور عشر کے علاوہ اسلام میں حکومت کے ٹیکسز کو چند شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے، جیسے:
- اسلامی ریاست کی تعمیر کے لیے ضرورت ہو۔
- ٹیکس بقدر ضرورت لگایا جائے۔
- مصرف صحیح ہو۔
- تعیین و تشخیص صحیح ہو۔
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے یا کسی اور نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زکوٰۃ کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان فی المال لحقا سوی الزکاة.
(ترمذی، السنن، 3: 48، رقم: 659)
’’مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے‘‘۔
درج بالا حدیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ عمرانی معاہدے کے مطابق ریاستی نظام برقرار رکھنے، دفاع اور دیگر امور سلطنت پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے منصفانہ ٹیکس لگانا جائز ہے۔ لیکن ٹیکس ظالمانہ نہیں، منصفانہ ہونا چاہیے۔
ٹیکسز کا مروجہ نظام غیر منصفانہ ہے۔ انکم ٹیکس کے علاوہ تمام بالواسطہ ٹیکسز ہر امیر و غریب پر لگائے جاتے ہیں اور انکم ٹیکس میں اگر چہ آمدنی تو ملحوظ ہوتی ہے مگر اس شخص کے مصارف ملحوظ نہیں رکھے جاتے۔ اسی طرح جائیداد ٹیکس ہر صاحب جائیداد سے بہرحال لازما وصول کیا جاتا ہے، اگرچہ اس کا ذریعہ آمدن کچھ بھی نہ ہو۔ ٹیکس کی تشخیص کا یہ طریقہ صریح ظلم اور حرام ہے۔
اسی طرح ریاستی فلاح و بہبود کے نام پر حکمران غیرملکی بینکوں سے قرضے لیتے ہیں اور انہیں سود سمیت واپس کرنے کے لیے عوام پر ٹیکس عائد کرتے ہیں جو سراسر ظلم اور ناجائز ہے۔ ایسی صورتحال میں عام آدمی کو ایسے ظالمانہ طرزِ حکومت کی تبدیلی کی کوششوں میں شامل ہونا چاہیے۔
سوال: جن دواؤں میں نشہ آور اشیاء شامل ہوں ان کے استعمال کا کیا حکم ہے؟
جواب: کسی بھی قانون کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں حالات واقعات کے پیش نظر کچھ مستثنیات (Exemptions) ہوتی ہیں جن کی بناء پر مخصوص حالات میں قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اسی طرح شریعتِ اسلامیہ میں بھی شرعی اعذار (Excuses) کی بنیاد پر حکمِ شرعی اٹھا لیا جاتا ہے۔ جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سود، خنزیر کا گوشت، مردار اور خون وغیرہ کو قطعی حرام قرار دیا اور ساتھ ہی جان بچانے کی خاطر کھا لینے کی رخصت بھی عنایت فرمائی۔ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اﷲِ ج فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.
(البقرة: 173)
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
- حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ عکل یا عرینہ سے آئے ہوئے کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تو بیمار ہو گئے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے علاج کے لئے اونٹوں کا بول تجویز کیا۔ وہ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیتے رہے یہاں تک کہ ان کے بدن درست ہوگئے۔
(بخاری، الصحيح، 5: 2153، رقم: 5362)
- مردوں پر سونا حرام ہے لیکن حالت مجبوری میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو سونے کی ناک لگوانے کا حکم فرمایا:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ رضی الله عنه اَنَّ جَدَّهُ عَرْفَجَةَ بْنَ اَسْعَدَ قْطِعَ اَنْفُهُ يَوْمَ الْکُلَابِ فَاتَّخَذَ اَنْفًا مِنْ وَرِقٍ فَاَنْتَنَ عَلِيْهِ فَاَمَرَهُ النَّبِی صلیٰ الله عليه وآله وسلم فَاتَّخَذَ اَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ.
’’حضرت عبدالرحمن بن طرفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے دادا جان حضرت عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنہ کی ناک کلاب کے روز کاٹ دی گئی۔ تو انہوں نے چاندی کی ناک لگوا لی تو اس سے بدبو آنے لگی۔ چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے سونے کی ناک لگوا لی۔‘‘
(ابی داؤد، السنن، 4: 92، رقم: 4232)
- اسی طرح بیماری کی وجہ سے مردوں کو ریشم پہننے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی:
عَنْ قَتَادَةَ اَنَّ اَنَسًا حَدَّثَهُمْ اَنَّ النَّبِيَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم رَخَّصَ لِعَبـْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزّْبَيْرِ فِی قَمِيصٍ مِنْ حَرِيرٍ مِنْ حِکَّةٍ کَانَتْ بِهِمَا.
’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی، حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو ریشمی قمیص پہننے کی اجازت مرحمت فرما دی تھی کیونکہ ان دونوں حضرات کے جسم پر خارش تھی۔‘‘
(بخاری، الصحيح، 3: 1069، رقم: 2762)
فقہاء کرام نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے:
الضرورات تبيح المحظورات.
’’ضروتیں ممنوعات کو جائز کر دیتی ہیں۔‘‘
(ابن همام، شرح فتح القدير، 4: 348)
- فقہاء کرام فرماتے ہیں:
يجوز للعليل شرب الدم والبول واکل الميتة للتداوی اذا اخبره طبيب مسلم ان شفاء فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه.
’’اگر ایک مسلمان ڈاکٹر کی رائے میں خون، پیشاب اور مردار کو کھانے سے کسی مریض کو شفاء مل سکتی ہو اور ان کے متبادل کوئی حلال چیز (بطور دواء ) بھی نہ ہو تو ان چیزوں کا کھانا جائز ہے۔‘‘
- (الفتاوی الهندية، 5: 355)
- (ابن عابدين شامی، رد المحتار، 5: 228)
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ جب کسی حلال شے سے علاج ممکن نہ ہو تو مستند ڈاکٹر کے مشورہ سے ایسی ادویات بھی استعمال کی جا سکتی ہیں جن میں حرام اشیاء ملی ہوئی ہوں۔ لہٰذا کوالیفائیڈ ڈاکٹر یا مستند حکیم کی تجویز سے افیون، الکوحل یا دیگر نشہ آور اشیاء حالت مجبوری میں بطور دواء استعمال کرنا جائز ہیں۔