یہ دور تحریکوں اور جماعتوں کا دور ہے مغربی استعمار کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی اسلامی ملکوں میں آزادی اور احیائے اسلام کی تڑپ انگڑائیاں لینے لگی جماعتیں اور تحریکیں بپا ہوئیں اور اسلام پسند لوگ ان سے وابستہ ہونے لگے پھر جنونی کیفیات بھی دیکھنے کو ملیں لیکن بوجوہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کا کام اپنے کمال تک نہ پہنچ سکا، جو تھوڑی بہت پیش رفت ہوتی ہے غیر مرئی قوتیں ساتھ ہی ساتھ اس کے اثرات کو مٹا دیتی ہیں۔ جادئہ حق کے مسافر کسی بھی موڑ پر جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ سفر کٹا نہیں بلکہ منزل دن بدن دور ہوتی چلی جارہی ہے۔
پچھلی ایک صدی میں کام اپنے حجم اور مقدار (Quantity) کے اعتبار سے تو بہت پھیلا ہوا نظر آتا ہے لیکن معیار اور کیفیت (Quality) کے اعتبار سے اتنا وقیع نہیں۔ جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے غنیمت ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے تحریکی قیادتوں اور کارکنوں میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں جس کے باعث منزل مقصود تک رسائی نہیں ہو رہی۔ ان کمزوریوں میں سے سردست صرف ایک گوشے کی جانب توجہ مبذول کروانا مقصود ہے اور وہ نماز ہے جسے اس طرح ادا نہیں کیا جاتا جیسا کہ ادا کرنے کا حق ہے بلکہ بہت سے لوگ تو اس وعید کا مصداق اور مستحق بن چکے ہیں جو سورہ ماعون میں آتی ہے۔
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَO الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَO الَّذِينَ هُمْ يُرَاؤُونَO وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَO
’’ان نمازیوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں جو دکھاوا کرتے ہیں اور برتنے کی معمولی چیز بھی نہیں دیتے‘‘۔
(الماعون، 107 : 4 ۔7)
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ نماز نہ پڑھنے کا انکار نہیں کیا جارہا بلکہ اس بات کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے کہ وہ لوگ ہیں تو نمازی لیکن بربادی ان کا مقدر بن چکی ہے کیونکہ نماز کے لوازمات سے بے خبر ہیں۔ اسلام کی ترویج و اشاعت اورمصطفوی انقلاب کے نعرے لگانے والوں کے لئے غور کا مقام ہے کہ اللہ کی نگاہ میں جو لوگ برباد ہیں وہ بھلا ہمہ جہتی تبدیلی کیسے لاسکتے ہیں۔۔۔ انقلاب تو دوسروں کو آباد کرنے کے لئے لایا جاتا ہے جو خود برباد ہے وہ کسی کو بھلا کیا آباد کرے گا۔
بگاڑ کا سبب
جب کسی خطہ زمین پر اسلامی نظام قائم ہو جاتا ہے تو آسمان سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور زمین اپنے خزانے اگل دیتی ہے۔ خوشحالی، امن اور سلامتی کا دور دورہ ہوتا ہے حکمران عوام پر مہربان ہوتے ہیں اور عوام حکمرانوں کے خیر خواہ، اس کے بعد جب زوال آتا ہے تو بگاڑ کا آغاز نمازوں کو ضائع کرنے سے ہوتا ہے۔ اسلام کی شاندار عمارت کو کمزوری کا سبب بننے والی پہلی اینٹ نمازوں سے لاپرواہی کی صورت میں اپنی جگہ سے کھسکتی ہے پھر ایک ایک کرکے دیگر کمزوریوں کا ظہور ہوتا ہے اور دینی عمارت دھڑام سے نیچے آگرتی ہے جس کی طرف درج ذیل آیات قرآنی میں اشارہ کیا گیا۔
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُواْ الصَّلاَةَ وَاتَّبَعُواْ الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّاO
(مریم، 19 : 59)
’’پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نماز کو برباد کیا اور خواہشات کی پیروی میں لگ گئے وہ جلد ہی آخرت میں خرابی کو دیکھیں گے‘‘۔
نماز ضائع کرنا کئی طرح سے ہوسکتا ہے وجہ کوئی بھی ہو نمازوں کا یہ ضیاع اسلامی اقدار اور اقتدار کی بنیادوں کو کمزور کردیتا ہے بالآخر ایک دن اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور مسلمان مغلوب ہوکر ذلیل و خوار ہوجاتے ہیں کیونکہ اقتدار میں آجانے کے بعد پہلا کام نظام صلوٰۃ کو قائم کرنا ہوتا ہے ملاحظہ ہو فرمان خداوندی ہے۔
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ.
(الحج، 22 : 41)
’’ان کو اگر ہم اقتدار دیں تو یہ نظام صلوٰۃ کو قائم کرتے ہیں‘‘۔
سوچنا چاہئے کہ انقلاب کے بعد انقلابیوں کا پہلا فریضہ نظام صلوٰۃ قائم کرنا ہے جو خود ہی دور ماقبل انقلاب میں نمازوں کے بارے میں سست ہیں ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ انقلاب کے بعد اسلامی نظام کے لئے کار آمد ثابت ہوں گے۔
اصلاح کیسے ممکن ہے؟
’’قیام نماز‘‘ کی اصطلاح اپنے اندر مفاہیم و مطالب کا ایک پورا جہان اور باقاعدہ نظام رکھتی ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ بعض لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن انہیں نمازی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ نماز کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بعض لوگ ایسے ہیں جن کی نمازیں ان کے منہ پر مار دی جاتی ہیں۔ ویسے بھی کامیابی کی ضمانت وہی نماز فراہم کرتی ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھی گئی ہو۔
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَO الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَO
(المومنون، 23 : 1 ، 2)
’’تحقیق آخرت میں وہی مومن کامیاب ہوں گے جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں‘‘
جب نماز اپنے ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ ادا نہ کی جائے صرف فریضہ ٹالنے کی حد تک کام کیا جائے تو نماز پڑھنے والا اصل میں نمازی نہ بنا۔
دل اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا
ویسے بھی سب سے پہلے نماز کے بارے میں ہی سوال کیا جائے گا جو ابتدائی ٹیسٹ میں ناکام ہوجائے اس کا آگے ٹیسٹ انٹرویو نہیں لیا جاتا۔ دوزخیوں سے جب جہنم میں پھینکے جانے کا سبب پوچھا جائے گا تو جواب ہوگا۔
قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَO
(المدثر، 74 : 43)
’’وہ کہیں گے ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں مسلسل دس سال تک جس مسجد میں نماز پڑھائی اس کی دیواریں
کچی تھیں اور چھت کجھور کے پتوں کی بنی ہوئی تھی۔ بارش ہوتی تو کچے فرش پر کیچڑ ہوجاتا
لیکن نمازی پکے تھے گھر یا دفتر میں نماز نہیں پڑھا کرتے تھے بلکہ پانچ وقت اسی مسجد
میں آ کر حاضری دیتے۔ آج کل مسجدیں پکی، خوبصورت اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہوتی ہیں
پنکھوں، قالین، ٹھنڈے اور گرم پانی کا انتظام کیا جاتا ہے حتی کہ ائیر کنڈیشنر اور
ہیٹنگ سسٹم بھی نصب ہوتے ہیں لیکن عام مسلمانوں کو چھوڑیں داعیان دین کی ’’دینی مصروفیات‘‘
مسجد میں نماز باجماعت کی ادائیگی میں مانع ہوجاتی ہیں۔ یہ ستم ظریفی آخر کب تک چلے
گی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسجد سے شغف کا یہ عالم تھا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج مطہرات کے حجرے بھی
مسجد سے متصل بنوائے۔۔۔ جب سفر سے واپسی ہوتی پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرتے
پھر گھر تشریف لاتے۔۔۔ جب کبھی بھی آندھی چلتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً مسجد میں تشریف لے آتے۔ ایک
نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار کے لئے مسجد میں بیٹھے رہنے کی ترغیب دلاتے۔۔۔ اس
کے برعکس الا ماشاء اللہ دعوت دین کا کام کرنے والوں کا حال بھی ہمارے سامنے ہے ان
کا مسجد کے ساتھ کتنا تعلق ہے اور پانچ وقت مسجد میں حاضر ہونے کا کتنا اہتمام کرتے
ہیں۔
جو تحریکی بھائی ’’انقلابی مصروفیات‘‘ کے باعث مسجد میں حاضر نہیں ہوتے غور کا مقام
ہے وہ کتنی بھلائیوں اور سعادتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
بعض احباب مختلف نوعیت کی میٹنگ منعقد کرتے ہیں یا ان میں شریک ہوتے ہیں۔ دوران میٹنگ
اذان ہوتی ہے اللہ کی طرف سے مسجد کی طرف لپکنے کی صدا لگائی جاتی ہے لیکن کسی کے کان
پر جوں تک نہیں رینگتی اور میٹنگ جاری رہتی ہے۔ باجماعت نماز کا ثواب، مسجد میں حاضری
کا اجر اور اللہ کی خوشنودی کا وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ نماز کا وقفہ نہ ھونے کے باعث
کئی لوگ غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میٹنگ کے اختتام پر کسی کا وضو نہیں ہوتا،
کسی کو بھوک لگی ہے، کوئی گھر کی طرف لپکتا ہے، کوئی وضو کے لئے چلا جاتا ہے، کبھی
جماعت ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی۔ جماعت ہو بھی جائے تب بھی سارے شرکائے میٹنگ شامل نہیں
ہوسکتے۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ پہلے نماز پڑھنا ضروری ہے یا میٹنگ جاری رکھنا۔۔۔ کیا
ہماری نظر میں اذان کی پکار کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔۔۔ موذن کہتا ہے نماز کی طرف
لپکو ہم کہتے ہیں ہم دعوتی،تنظیمی اور تربیتی میٹنگ میں مصروف ہیں۔۔۔ موذن کہتا ہے
کامیابی کی طرف آؤ ہم کہتے ہیں کامیابی کے امکانات پر ہی تو ہم غور کررہے ہیں۔۔۔یہ
رویہ اللہ تعالی کے احکامات سے کھلا مذاق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے غضب سے بچائے۔
اب ذرا ملاحظہ فرمائیں مختلف نازک حالتوں میں بھی نماز باجماعت کے بارے میں حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا معمول رہا اور پھر ذرا موازنہ کرلیا جائے کہ ہم نماز کے ساتھ کیا سلوک
روا رکھتے ہیں۔
1۔ سرور جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں تشریف فرما ہیں، اہل خانہ کے ساتھ خوش طبعی کی باتیں ہو رہی
ہیں، یکا یک اذان کی آواز بلند ہوتی ہے اللہ اکبر! اللہ اکبر اور سرور عالم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ
انور متغیر ہونے لگتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر مسجد کی طرف چل دیتے ہیں، حضرت
عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: جب اذان ہوجاتی تو ایسے لگتا کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ہمارے لئے اجنبی بن
گئے ہیں گویا انہیں کسی فرد سے کوئی مطلب نہیں ساری توجہ نماز کی تیاری کی طرف ہوجاتی
اور سارے کام چھوڑ کر مسجد کی جانب چل دیتے۔
اصل میں نمازوں کے اوقات کا تعین اور درمیان میں وقت کا مناسب وقفہ محاسبہ نفس کے لئے
بہت کار آمد ہے۔ کام کاج کو چھوڑ کر بار بارنماز کی طرف آنے سے تربیت مقصود ہے۔ مسجد
میں حاضر نہ ہونے سے اور اپنی مرضی سے سہولت کے مطابق نماز پڑھنے سے نفس میں کئی خرابیاں
پیدا ہوتی ہیں۔
2۔ جنگ اپنے شباب پر ہے ہر طرف تیروں کی برسات اور تلواروں کی چمک ہے، کشتوں کے پشتے
لگ رہے ہیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان نازک ترین لمحات میں بھی نماز کے لئے صفیں درست کرنے
کا حکم دیتے ہیں۔ ایک دستہ آپ کے ساتھ آدھی نماز پڑھ کر چلا جاتا ہے اور دوسرا آکر
اس میں شامل ہوکر نماز باجماعت ہی پڑھتا ہے۔
اب اس کے بعد کسی کے نماز باجماعت چھوڑنے کا کونسا عذر باقی رہ جاتا ہے۔ ویسے بھی فقہا
نے نماز باجماعت چھوڑ دینے کے جو عذر بیان کئے ہیں تلاش بسیار کے باوجود اس فہرست میں
میٹنگ اور اس قبیل کی دوسری دینی و مذہبی مصروفیات کا ذکر کسی کتاب میں نہیں ملا۔
3۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید علیل ہیں۔ نقاہت کے باعث مسجد تک نہیں جاسکتے، فرمایا: ابوبکر
سے کہو نماز پڑھائے، ایک روز تھوڑا سا افاقہ ہوا، اذان سن کر آپ بے چین ہوگئے۔ حضرت
عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے فرمایا مجھے مسجد میں لے چلو۔ ان کے کندھوں پر
سہارا لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلنے لگے، ٹانگوں میں سکت نہیں تھی آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے،
اسی حالت میں مسجد میں پہنچے۔
ذرا سوچئے ہم نے وقت پر مسجد حاضر نہ ہونے کے کون کون سے عذر گھڑ رکھے ہیں، اللہ کے
سامنے کونسا منہ لے کر حاضر ہوں گے۔
4۔ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھانے کے لئے مصلے پر کھڑے ہوئے، نمازیوں کی جانب ایک نگاہ
دوڑائی اور فرمایا میر اجی چاہتا ہے کہ میں ابھی جاؤں اور جاکر ان مسلمانوں کے گھروں
کو آگ لگادوں جو مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نہیں آئے۔
اب اس سے بڑھ کر ناراضگی کا کوئی اور کیا انداز ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کسی کی
سمجھ میں بات نہ آئے تو سوائے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کے اور کیا کیا جاسکتا
ہے۔
ان لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو بغیر کسی سہارے اور ستون کے عمارت
پر چھت ڈالنا چاہتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا۔
الصلوٰة عمادالدين.
’’نماز دین کا ستون ہے‘‘۔
ستون کے بغیر چھت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور ستون کمزور ہوں تو بھی چھت زیادہ
دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر پورے دین کو عمارت سے تشبیہ دی جائے تو اسلامی انقلاب کے
ذریعے مصطفوی نظام کا قیام اسلام کی چھت ہے اور نماز ستون ہے۔ عمارت کے دیگر حصوں میں
ناقص میٹریل لگا کر عمارت کی مضبوطی کا سوچنے والے خوابوں اور سرابوں کی دنیا میں رہتے
ہیں۔ ایمان سے بنیادیں مضبوط کی جائیں۔۔۔ ذکر و اذکار کا پانی دیا جائے۔۔۔ دیگر عبادات
کا مواد جمع کرکے اخوت و محبت کے سیمنٹ سے چنائی کی جائے۔۔۔ نمازوں کے ستون فراہم کئے
جائیں۔۔۔ اور اس کے اوپر انقلاب کے ذریعہ مصطفوی نظام کی چھت ڈالی جائے تو دین کی ایک
مضبوط اور پائیدار عمارت تعمیر ہوگی لیکن ہم خیالی پلاؤ پکانے اور ہوائی قلعے تعمیر
کرنے کے عادی ہوچلے ہیں۔
ہمارے شیخ فرمایا کرتے تھے کہ اگر اللہ کی نگاہ میں کسی شخص کی قدر و قیمت اور مرتبہ
و مقام دیکھنا ہو تو اتنا دیکھ لینا کافی ہے کہ وہ نماز کے لئے کس اعلیٰ درجے کا اہتمام
کرتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ حدیث ہے۔
الصلوٰة معراج المومنين.
’’نماز مومنوں کی معراج ہے‘‘۔
گویا حالت نماز میں ایک شخص اللہ کے انتہائی قرب اور حضور میں ہوتا ہے۔ صحابہ کرام
کی نماز میں محویت کا یہ عالم ہوتا کہ دنیا و مافیھا سے بے خبر ہوجاتے۔ نابینا صحابی
اندھیروں میں چل کر پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرنے مسجد میں آتے۔ خود نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم پر
حملے کا ہر وقت خدشہ رہتا، پہرے دیئے جاتے، احتیاطی تدابیر اپنی جگہ لیکن نماز مسجد
میں آ کر پڑھتے بلکہ امامت بھی خود فرماتے۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، ہندوستان میں حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے وصال سے قبل
وصیت فرمائی کہ میری نماز جنازہ پڑھانے والا چند خوبیوں کا حامل ہونا چاہئے ان میں
سے دو کا تعلق نماز سے ہے کہ اس نے کبھی تکبیر اولیٰ ضائع نہ کی ہو اور زندگی بھر سنت
غیر موکدہ بھی ترک نہ کی ہو، جنازہ پڑا ہوا ہے اور مطلوبہ خوبیوں کا حامل شخص نہیں
مل رہا آخر ایک نقاب پوش آگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھاتا ہے، اس بات پر لرزاں اور ترساں
ہے کہ اس کی پرہیزگاری کا راز فاش ہوگیا ہے، جنازہ سے فارغ ہوئے تو لوگ زیارت کے لئے
آگے بڑھے کہ یہ کون ہستی ہے جو ہم سے آج تک پوشیدہ رہی، جب نقاب ہٹایا گیا تو وہ ہندوستان
کا بادشاہ سلطان شمس الدین التمش تھا۔
وہ مصروف ترین حکمران ہوکر بھی نماز کے لوازمات کے بارے میں اتنے محتاط تھے۔ ہم فرائض
کی پرواہ نہیں کرتے۔ دور انحطاط میں نمازوں کی امامت کو کم تر درجے کا کام سمجھا جانے
لگا۔ بڑے بڑے علماء اور مشائخ اول تو نماز باجماعت پڑھتے ہی نہیں کبھی کبھار آجائیں
تو اکا دکا نمازیں پڑھا دیتے ہیں ورنہ اس مقصد کے لئے تنخواہ دار ملازم امام رکھے ہوتے
ہیں بڑے علماء کے لئے اذان دینا تو مزید کسر شان کا باعث ہے۔ یہ قیامت کی نشانیاں ہیں۔
خیر ہم انقلابی کارکنوں کی بات کررہے تھے مصطفوی انقلاب کے سپاہیو! اللہ آپ کے جذبوں
کو سلامت رکھے لیکن یاد رکھئے نماز باجماعت سے غفلت اور لاپرواہی بربادی کے سوا اور
کچھ نہیں۔ اذان ہوجانے کے بعد ساری مصروفیات منقطع کرکے مسجد کی جانب لپکئے۔ اذان کا
جواب دینے کے لئے تو تلاوت قرآن ترک کر دینے کا حکم ہے کسی اور کام کا کیا جواز باقی
رہ جاتا ہے۔ آپ انقلابی لوگ ہیں رخصتوں پر عمل نہ کیجئے، عزیمت کا راستہ اختیار کیجئے۔
جو شخص گھر، دفتر اور دکان سے مسجد کے لئے نہیں نکل سکتا وہ میدان کار زار میں کب نکلے
گا۔ جو مسجد تک حرکت کا متحمل نہیں ہوسکتا اس کا تحریک اور تحرک سے کیا واسطہ ہوگا۔
کسی بھی انسانی فعل کے واقع ہونے کی وجہ سے دو باتیں ہوسکتی ہیں یا تو مذکورہ کام کسی
سوچی سمجھی سکیم کا نتیجہ ہوگا جس سے کچھ مقاصد حاصل کرنا مقصود ہوں گے بصوت دیگر اس
کا صدور کسی فوری محرک کا باعث ہوا ہوگا۔ ہر فعل کا کوئی مقصد ہونا ضروری نہیں بلکہ
بعض افعال کسی اتفاقی طبعی عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں کیونکہ ہر عمل (Action) کا ایک رد
عمل (Reaction) ہوتا ہے۔ عمل جتنا شدید اور فوری ہوگا اسی تناسب سے رد عمل بھی شدید
اور فوری ہوگا۔ اس میں کسی مقصدیت کا دخل نہیں ہوتا کیونکہ مقصد کے تعین کے لئے وقت
درکار ہوتا ہے جبکہ اندریں حالات رد عمل فوری طور پر سامنے آجاتا ہے۔ اس میں سوچنے
کا موقع نہیں ملتا۔ مثلاً اتفاقاً کہیں گرم چیز کو ہاتھ لگ جائے تو آدمی فوراً اپنا
ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ گویا مقاصد، فعل کے وقوع سے پہلے موجود ہوتے ہیں جبکہ محرک یا
Stimulus اچانک اور فوری طور پر سامنے آتا ہے۔ مقصد کا فوری ہونا ضروری نہیں اس کے
پیچھے سوچے سمجھے منصوبے اور تدبیریں کار فرما ہوتی ہیں۔ کسی بھی کام پر آمادگی اس
کے مقصد کے حوالے سے ہی ہوتی ہے اس لئے کارکنوں کو فعال بنانے کے لئے کسی بھی جماعت
کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقاصد کا واضح تعین کرکے ان کے حصول کا ایک لائحہ عمل متعین
کرے اور ان مقاصد کا بار بار اعادہ کرتے رہنا چاہئے تاکہ منزل کا استحضار رہے ورنہ
کارکن ذرائع کو ہی مقاصد بنا کر ان میں الجھ جاتے ہیں، اس طرح تحریک آہستہ آہستہ دم
توڑ جاتی ہے۔
جس طرح جسمانی تکلیف دہ اور ایذا رساں چیزوں سے انسان طبعی اعتبار سے دور بھاگتا ہے،
تربیت پاکر اس قابل ہوسکتا ہے کہ وہ مذہبی نکتہ نگاہ سے ضرر رساں چیزوں کے بارے میں
بھی ایسا ہی فوری رد عمل ظاہر کرے۔ اللہ کی رضا اور ناراضگی، نیکی اور بدی، معروف اور
منکر جیسے تصورات طاقتور محرک بن جائیں جیسے ہی برائی کا ماحول پائیں فوری طور پر اس
طرح الگ ہوجائیں جیسے انسان اپنے آپ کو آگ میں گرنے سے بچاتا ہے۔ مقصود کے بغیر کسے
کام کو بامقصد نہیں بنایا جاسکتا۔ مقصد واضح ہو تو انسان اس کے حصول کے لئے متعلقہ
اسباب کی فراہمی کے لئے سرگرم عمل ہوجاتا ہے لہذا مقصد ہمہ وقت آنکھوں کے سامنے رہنا
چاہئے اور انسانی زندگی کا مقصد وحید اللہ کی عبادت ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
زندگی کے عظیم مقاصد انسان کو عظمت کی بلندیوں پر فائز کردیتے ہیں۔ مقصد جتنا عظیم
ہوگا اس کے لئے محنت بھی اتنی زیادہ درکار ہوگی۔ انسان جس قدر زیادہ محنت کرے گا اتنا
عظیم ہوتا چلا جائے گا۔ انسانی بچہ جنم لینے کے ساتھ ہی حرکت کرنے لگتا ہے۔ اس کے اعضاء
کی حرکات و سکنات بلا مقصد نہیں ہوتیں۔ بچے کو معلوم ہو یا نہ ہو بہر حال حرکات کے
پیچھے کچھ مقاصد کار فرما ہوتے ہیں۔ یہی مقاصد انسان کی بے قراری اور بے چینی کا سبب
بنتے ہیں۔ حصول مقصد کی تڑپ اسے متحرک رکھتی ہے۔ یہ جبلی بے قراری، آرزؤں، امنگوں اور
خواہشوں کا روپ دھار لیتی ہے۔ یہاں کائنات کا ذرہ ذرہ حرکت پذیر ہے اور تغیر کے علاوہ
کسی چیز کو ثبات نہیں۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے زندگی کے عظیم مقاصد کا حامل ہے اس لئے لامحالہ
اس کی جدوجہد کا سفر طویل بھی ہے اور کٹھن بھی۔ حیاتیاتی ارتقاء کے ساتھ ساتھ انسانی
زندگی عقل اور نفسیاتی اعتبار سے بھی ارتقاء پذیر رہتی ہے۔ انسانی طرز عمل کے سانچے
کی تیاری میں ماحول کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی تعلیم و تعلم، عمل مشق
اور عمل بالیدگی (Maturation) شروع ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ فطری مقاصد کی تکمیل
کے درجہ سے اوپر اٹھ کر ارادی اور آموختہ مقاصد کی جانب بڑھتا ہے۔ انسان محض سیاسی
یا معاشی حیوان نہیں جیسا کہ بعض مغربی دانشوروں کا خیال ہے بلکہ اس کے پیش نظر زندگی
کے کچھ اعلیٰ مقاصد بھی ہوتے ہیں جن کی خاطر وہ نہ صرف اپنی حیوانی ضرورتوں کی قربانی
دیتا ہے بلکہ اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔
جس طرح مشین کو حرکت میں لانے کے لئے گیس، پٹرول اور بجلی کی قوت درکار ہوتی ہے اور
حیوانی جسم کو متحرک کرنے کے لئے خوراک کی طاقت چاہئے۔ اسی طرح اخلاقی و مذہبی زندگی
کا تحرک نظام عبادات کا متقاضی ہوتا ہے جس طرح حرکت اور قوت کے بغیر مشین رک جاتی ہے
اور خوراک کی عدم دستیابی انسانی موت کا سبب بنتی ہے بعینہ روحانی غذا کی عدم فراہمی
سے روح کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ پھر انسان ایک چلتی پھرتی لاش بن جاتا ہے وہ زندہ تو
ہوتا ہے لیکن مُردوں سے بدتر، اس کے برعکس کسی اعلیٰ مقصد کے لئے دی ہوئی جان کی قربانی
زندگی سے کہیں زیادہ قدر و قیمت کی حامل بن جاتی ہے۔
مراسم عبودیت (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ) کے پیچھے احساسِ تقویٰ روح کا کام کرتا
ہے۔ محنت و مشقت اور جدوجہد کی رنگا رنگی اور عملی دوڑ دھوپ اسی روح کے دم قدم سے ہے۔
روح نکل جائے تو جسمانی حرکت بند ہوجاتی ہے۔ اب یہ سمجھنے میں کوئی دقت باقی نہیں رہتی
کہ اعمال میں سستی اور لاپراہی کیوں پائی جاتی ہے۔ اصل میں احساس ایمان و تقویٰ کی
قوت متحرکہ (Driving Force) کمزور ہوتی ہے لہذا عمل کی حرکت کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔
احساس زندہ ہو تو ایک نظام صلوٰۃ بھی انسان کومتحرک رکھنے کے لئے کافی ہے۔ دن میں پانچ
بار موذن کے ذریعے بلایا جاتا ہے۔ انسان بار بار اپنی مصروفیات کو قطع کر کے اللہ کے
دربار میں حاضر ہوجاتا ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا:
وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَO
(البقرہ، 2 : 45)
’’اور یہ (نماز ) بہت مشکل (بھاری) ہے مگر اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے نہیں‘‘۔
احساس بندگی روح کے لئے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔ آکسیجن نہ ہو تو خوراک بھی جزو بدن
بن کر رگوں میں خون نہیں دوڑا سکتی۔ بعض مشینیں آٹو میٹک ہوتی ہیں لیکن ذرا غور کیا
جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کے خود حرکت پذیر رہنے کا بھی ایک نظام ہوتا ہے
جس کا چالو حالت (Working order) میں رہنا ضروری ہے وہ نظام درہم برہم (Disturb) ہوجائے
تو مشین آٹو میٹک ہونے کے باوجود رک جائے گی اور مکینک کے پاس جانا پڑے گا مثلاً آٹو
میٹک گھڑی کی حرکت کا تعلق بازو کی حرکت کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ گھڑی کلائی سے اتار کر
ایک طرف رکھ دیں کچھ عرصہ بعد رک جائے گی۔ اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ متحرک سے متحرک
کارکن بھی کچھ عرصہ مرکز سے رابطہ نہ رکھے تو اس کا تحرک جمود میں بدل جائے گا۔ یہ
ایک قدرتی امر ہے کہ کوئی اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھے تو نادانی کی بات ہوگی۔ رابطہ جس
قدر مضبوط اور تیز تر ہوگا اسی قدر حرکت پذیری میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ جلسے، جلوس،
ریلیاں، اجلاس، سیمینار، میٹنگز اور اسی نوعیت کی دیگر سرگرمیوں میں شرکت کارکن کو
متحرک رکھتی ہے۔
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
شاہین فضاء میں بلاوجہ نہ قلابازیاں لگاتا ہے اور نہ بے سود محو پرواز رہتا ہے بلکہ
یہ ساری مشقت حرکت پذیری کی قوت کو بحال رکھنے کے لئے ہوتی ہے۔ ایک کارکن کے لئے مرکز
اور اس کی قیادت فعالیت کا باعث ہوتی ہے۔ مختلف ذرائع سے یہ رابطہ مضبوط ہوجائے تو
پھر نامساعد حالات میں بھی قدم جادئہ حق سے ڈگمگاتے نہیں اور آدمی امید کا دامن تھامے
رکھتا ہے۔
پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ
جو کارکن شجر جماعت سے وابستہ رہے گا موسم خواہ کتنا ہی خزاں رسیدہ کیوں نہ ہو ایک
دن ضرور بہار آشنا ہوگا۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ مجھے یہ ساری باتیں معلوم ہیں لیکن
طبعی غفلت کے باعث مجھ سے کچھ نہیں ہوتا، جمود کی ایک کیفیت ہے کہ ہمہ وقت طاری رہتی
ہے۔ بقول غالب:
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
اے چارہ گر کچھ اس کا علاج بھی چاہئے۔ اس مرض کا اس کے سوا کچھ علاج نہیں کہ قوت ارادہ
(Will Power) سے کام لیا جائے۔ تحریکی کام کسی شخص کی اولین ترجیح بن جائے اور وہ قوت
ارادی سے بھی کام لے تو کوئی وجہ نہیں کہ جمود نہ ٹوٹے بلکہ احساس گہرا ہوجائے تو راتوں
کی نیند اور دن کا چین کھو جائے گا۔ وہ تو مارا مارا پھرے گا۔۔۔ کہے گا: مجھے بتایا
جائے میں نے کرنا کیا ہے؟ کیا آپ نے دھوپ اور برفانی موسم میں مزدوروں کو کام کرتے
نہیں دیکھا۔۔۔ ایک چوکیدار کا روز مرہ کا معمول کیا ہے۔ اس کا دل نہیں چاہتا کہ وہ
بھی نرم گرم بستر میں نیند کے مزے لے۔۔۔ فیکٹریاں، کارخانے اور ٹریفک ساری رات رواں
دواں رہتے ہیں۔ ان میں کام کرنے والے لوگ آخر کس طرح کام پر پہنچتے ہیں۔ سستی، غفلت
اور لاپرواہی کیوں پاؤں کی زنجیر نہیں بنتی۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ اپنی قوت ارادی
سے کام لے کر ان ساری رکاوٹوں کو عبور کرکے اپنے اپنے کام پر پہنچ جاتے ہیں کیونکہ
روزگار ان کی اولین ترجیح ہے۔ ضروریات زندگی کی فراہمی کا تقاضا ایک زبردست محرک ہے
جو آدمی کو معاشی تگ و دو کے لئے متحرک رکھتا ہے۔ بس سمجھ لیجئے نظام عبادات اور ذکر
و اذکار کا سارا سلسلہ روحانی قوت کے لئے ضروریات کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہاں بھی قوت
ارادی کو کام میں لاکر طبعی غفلت کو دور کرنا ہوتا ہے جب نیکیوں سے محبت اور برائیوں
سے نفرت پیدا ہوجائے تو دینی اور روحانی زندگی میں ایک زبردست تحرک پیدا ہوتا ہے۔ آدمی
جوں جوں آگے بڑھتا ہے پتہ چلتا ہے کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
وہ رفتار میں اضافہ کرتا ہے لیکن ہر جہاں کے بعد جہانوں کی ایک دنیا آباد دیکھ کر مزید
برق رفتاری کی خواہش پیدا ہوتی ہے حتی کہ نوری سال کی رفتار بھی اس کی تسکین کا سامان
نہیں بن سکتی وہ ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کا نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
سیاروں کی تسخیر کے لئے جو تیز رفتار راکٹ بھیجے جاتے ہیں ان میں عام تیل استعمال نہیں
ہوتا بلکہ انتہائی اعلیٰ اور مزکی ایندھن (Fuel) استعمال کیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ
تحرک میں اضافہ کے لئے عمل تزکیہ کو تیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بلندیوں کو چھونے
کا ارادہ رکھنے والے خالص ، نفیس اور عمدہ قسم کا پٹرول استعمال کرتے ہیں۔ یہ امر بھی
قابل توجہ ہے کہ خلانوردوں کا لباس بھی مخصوص ہوتا ہے وہ اپنی وضع قطع سے ہی دوسروں
سے الگ پہچانے جاتے ہیں۔
سردی ہو یا گرمی کھلاڑیوں کو چاق و چوبند رکھنے کے لئے سخت ترین ریاضتوں کے عمل سے
گزارا جاتا ہے۔ فوجی جوانوں سے رات دن جو مشقت کا کام لیا جاتا ہے، پریڈ کروائی جاتی
ہے، ادھر ادھر دوڑایا اور بھگایا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بے معنی کام لگتے ہیں لیکن اصل
میں یہ بھی لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ بڑے معرکے کے لئے تیاری کا عمل ہے۔
عبادات کی اٹھک بیٹھک اور بھاگ دوڑ میں ایک بڑے دن (قیامت) کی تیاری کے مراحل ہیں۔
ان سے روحانی تحرک قائم رہتا ہے۔ انسان کی کہانی خاک کی کہانی نہیں، دمِ جستجو جب لہو
گرم ہوتا ہے تو خاک کا یہ پتلا عالم رنگ و بو کی تسخیر پر بھی قانع نہیں رہتا بلکہ
اس سے بھی آگے کمندیں ڈالنے کے بارے میں سوچتا ہے۔ انسان نہ حیوان ہے اور نہ مشین لیکن
ہر انسان کے اندر ایک حیوان چھپا بیٹھا رہتا ہے اور حیوانی ضروریات کی تکمیل کے لئے
انسان دن رات مشین کی طرح کام کرتا ہے۔ بعض لوگ ان تھک محنت کرنے کے باعث مشین بن جانے
پر بھی فخر کرتے ہیں حالانکہ انسان کی عظمت انسان بننے میں ہے مشین بننے میں نہیں۔
بہر حال یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ فکر معاش کے ساتھ فکر معاد (آخرت) دامن گیر نہ
ہو تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ جسم کے اعضاء اور جوارح ہمارے
منشاء اور مدعا کی تکمیل کے لئے بطور آلات استعمال ہوتے ہیں لیکن آلے کے جائز اور ناجائز
استعمال کی تمام تر ذمہ داری انسان پر عائد ہوتی ہے۔ آپ چھری سے پھل کاٹ سکتے ہیں اور
ناحق کسے کے گلے پر بھی چلائی جاسکتی ہے تو کاٹنے کے ایک آلے سے پھل کاٹیں یا کسی کا
گلہ، ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ یہی وہ اختیار ہے جس کے باعث ہم جوابدہ ہیں لہذا تہذیب
نفس کے لئے جہاں قوت ارادی سے کام لینا ضروری ہے۔ اس سے کہیں بڑھ کر ایک پاکیزہ فضا
درکار ہوتی ہے تاکہ مترتب ہونے والے اثرات زائل ہونے سے بچ جائیں۔ جسطرح صحت کی بہتری
کے لئے اچھی خوراک کی فراہمی لازمی ہے اسی طرح ساتھ ساتھ ان باتوں سے پرہیز بھی ضروری
ہے جو بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ ایک کو پانے کے لئے دوسری چیز سے بچ کر رہنا پڑتا ہے۔
راستہ اگرچہ دشوار ہے لیکن جوابدہی کا احساس بیدار ہوجائے تو مشکل نہیں رہتی۔
کسی بھی کام کو سرانجام دینے کے لئے مطلوبہ شرائط کا پایا جانا نہایت ضروری ہے۔ آپ
کسی چیز کی موجودگی چاہتے ہیں تو پہلے وہ حالات پیدا کرنا ہوں گے جن کے بغیر اس کی
موجودگی ممکن نہ ہو۔ گندم کی فصل موسم سرما میں کاٹی نہیں جاسکتی۔ اس کو پکانے کے لئے
ایک خاص ٹمپریچر اور آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے حتی کہ زمین کی تیاری کے بغیر تو فصل
کو اگایا تک نہیں جاسکتا۔ ایک آدمی کے لئے آموخت کا یہی عمل اس کی تیاری ہے۔ یوں تو
پسند اور ناپسند کا ایک فطری نظام کار فرما ہے۔ ایک اچھا اور خوبصورت منظر ہر ایک کے
لئے راحت جان ہوتا ہے جبکہ بدبو ناگواری کا باعث بنتی ہے۔ پسندیدہ کام میں جی لگتا
ھے اور ناپسندیدہ کام سے جی چرایا جاتا ہے لیکن پسند اور ناپسند کا معیار قابل توجہ
ہے۔ غلط ماحول اس میں خرابی کا باعث بنتا ہے۔
معلوم ہوا ساری رونقیں کارکنوں کے دم قدم سے ہیں۔ کارکن متحرک ہوں تو تحریک کی گاڑی
چلتی ہے۔ ڈبے صحیح حالت (Working Order) میں نہ ہوں تو انجن کی روانی کسی کام کی نہیں
لیکن کارکن اس وقت تک ایک متحرک کارکن نہیں بنتا
جب تک کہ وہ عبادات کے مجاہدوں سے گزر کر کندن نہ ہوجائے۔
مسجد سے شغف
چند احادیث برائے ترغیب
نماز باجماعت میٹنگ سے بہتر ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرز عمل
ستون کے بغیر چھت
تحرک اور نظام عبادات
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مقاصد کا ارتقاء اور عظمت
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
جنبش اور عبادات
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
حاصل بحث