ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں زیادہ کہنا اس لئے غیر ضروری ہے کہ ان کی ذات سے زیادہ خدمات ہی زیر بحث ہیں اور ایک زمانہ اس سے آگاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب کسی سے دین کاکام لینا ہو تو اسباب بھی خود ہی پیدا کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو نوعمری میں ہی ایسے مواقع میسر ہوتے گئے کہ تحریر و تقریر سے لے کر تحقیق و جستجو تک جتنا کام انہوں نے سالوں میں کیا ہے اس کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت کار فرما ہوگی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے چند سال پہلے اپنی دینی خدمات کے ساتھ ساتھ سیاست میں آکر نظام سدھارنے کی کوشش کی۔ ان کی اس میدان خار زار میں آنے کے ہم بھی مخالف رہے ہیں اور اس پر بہت کچھ لکھا بھی ہے۔ یہ دراصل اس امید اور توقع کو مایوسی سے بچانے کے لئے ہماری مخلصانہ کوشش تھی جو مجھ سمیت لاکھوں مسلمانوں کو ڈاکٹر طاہرالقادری سے پیدا ہوچلی تھیں۔ لیکن اچھا ہوا کہ انہوں نے اپنا دامن ان کانٹوں سے جلد چھڑا لیا اور اپنے اصل کام کی طرف مکمل رجوع کرلیا جس کے لئے ان کو تیار کیا گیا تھا اس کا ایک اظہار آج کل دورہ حدیث کی صورت میں دعوت فکر دے رہا ہے۔ اتنی سی عمر میں اتنی تحقیق اور پھر عام فہم انداز بیان خدا کی عنایت خاص سے ہی ممکن ہے اور یہ بھی آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا فیض ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے درس میں عمر اور علم کے لحاظ سے بزرگ لوگ بھی سامعین میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ بخاری شریف وہی ہے جو صدیوں سے پڑھی اور پڑھائی جارہی ہے لیکن ایک خشک مضمون کی طرح مخصوص طلبہ ہی اس کو ظاہری نظر سے پڑھتے رہے جس انداز سے ڈاکٹر صاحب امام بخاری کے مشق کی کیفیات کو سامنے لاکر احادیث کے وہ پہلو بھی نمایاں کررہے ہیں جو اس سے پہلے کم علمی یا کم نظری کی بھینٹ چڑھے رہے۔ کسی نے اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محدث اعظم کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس انداز بیان سے بخاری شریف کو سننے کی کیفیت ہی تبدیل ہوگئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ محض دھماکوں کی خبروں اور آگ و خون کے مناظر سے بھاگتے ہوئے ٹی وی چینل تبدیل کررہا تھا کہ اچانک ڈاکٹر طاہرالقادری کی آواز سماعت سے ٹکرائی۔ تھوڑی دیر بعد واضح ہوگیا کہ دورہ حدیث ہے اور پھر جیسے میرے معمولات میں یہ شامل ہوگیا۔ دن بھر کی جسمانی تھکاوٹ اور ذہنی پریشانیاں اس ایک گھنٹے کے بیان میں گم ہوجاتی ہیں اور پھر سکون و عافیت کے پرکیف لمحات اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ یہ پروگرام دن کے وقت بھی ٹیلی کاسٹ ہوتا ہے لیکن جو سرور رات کو حاصل ہوتا ہے وہ شاید دن کے وقت ممکن نہیں۔
یہ بات شاید قارئین کی دلچسپی کی نہ ہو لیکن مجھے اعتراف ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے باے میں میری معلومات نہایت محدود ہیں۔ ایک صحافی ہونے کے حوالے سے یہ بات کوئی قابل بیان نہیں ہے لیکن یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ میں صرف اسی دورہ حدیث کے کیف آفرین لمحات سے حاصل ہونے والے حظ میں اپنے قارئین کو شامل کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ ایک طرف تو حدیث کو صحیح معنوں میں سمجھ سکیں اور دوسرے ہر طرف نفرت کی بھڑکتی آگ سے جھلستے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کا موجب بن سکیں۔ جہاں تک میری معلومات ہیںڈاکٹر طاہرالقادری صوفیاء عظام کے ورثہ کے امین ہیں۔ جہاں کسی بھی انسان کی پذیرائی اس کے مذہب و عقیدے یا علم و عمل کی بنیاد پر نہیںہوتی اور نہ ہی کوئی انسان اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے نشانہ تضحیک بنتا ہے۔ جس طرح قرون اولیٰ کے بزرگان دین اور صوفیائے کرام نے اپنے پیام محبت سے اسلام کو پھیلایا اسی طرح اب جبکہ دنیا بھر میں اسلام کو جبرو تشدد اور نفرت و حقارت کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے وہ دنیا کو بتارہے ہیں کہ قتل و غارت گری اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانا کسی کا ذاتی فعل تو ہوسکتا ہے اس کا اسلام یا مسلمانوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ بات میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھائی اگرچہ کتنا ہی مشتعل کیوں نہ ہو وہ میری طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کا دورہ حدیث سن لے۔ اگر مثبت اثرات اس کے سامنے نہ آئے تو سزا کا حقدار ہوں گا۔ سیاست کی غلاظت سے مذہب کو لتھیڑنے کی بجائے اور معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنے کی بجائے حضور نبی آخری زمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں کرنا اور سننا ایک افضل عبادت تو ہے ہی بے سکونی کے دور میں راحت و سکون کا خزانہ بھی ہے۔ کبھی کبھی یہ تجربہ بھی کرلینا چاہئے۔