یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کے احسانات کا دائرہ کار صرف امت مسلمہ تک ہی محدود نہیں بلکہ عالم انسانیت اور جمیع عوالم کو بھی محیط ہے۔ انسانیت کو بنیادی حقوق دینے کا معاملہ ہو یا زندگی گزارنے کے ایک مکمل لائحہ عمل کی فراہمی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن میں ہر سطح پر بلاتفریق رنگ و نسل اور علاقہ و مذہب ہر ایک کے لئے امن و رحمت اور محبت کے جواہر موجود ہیں۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب کو اپنے عمل و کردار سے جو حقوق عطا فرمائے، قیامت تک ان کی نظیر پیش کرنا ناممکن ہوگا۔ انسانیت پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احسانات کی ایک طویل فہرست ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وسعتِ رحمت اور اسوہ حسنہ کا اعتراف صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ مستشرقین اور علمی و فکری دنیا کے جن بڑے ناموں کو لیں ہر ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ایک ایک لمحہ رحمت و امن کا برملا اظہار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جارج برناڈشاہ، منٹگمری واٹ، تھامس کارلائل، نپولین پونا پارٹ، کونسٹل ورجیل جارجیو، ایچ جی ویلز، اے جے آر بری، ٹی ڈبلیو آرنلڈ، جان ڈیون پورٹ، ڈاکٹر گستاولی، ایڈورڈ گبن، جان ولیم ڈریپر، چارلس آر ڈاٹسن، ڈی ایس مارگولیتھ الغرض کس کس کا نام لیا جائے جس کے قلم اور زبان نے نام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کے نغمے نہیں الاپے۔
مگر افسوس! تعصب و نفرت کے خمیر سے گندھے ہوئے، بیمار ذہنیت رکھنے والے اور حسد کی آگ میں جلنے والے چند لوگ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراضات اور طعن و تشنیع کے قبیح ترین عمل میں مصروف ہیں۔ گذشتہ ماہ ان بدطینت افراد نے ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے انتہائی توہین آمیز فلم بنا کر ایک مرتبہ پھر اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے۔ اس گھناؤنے اور مکروہ فعل سے پوری دنیا کا امن خطرہ میں پڑ گیا اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی نبی، آسمانی کتاب یا الہامی مذہب کی توہین نہیں کی بلکہ جملہ انبیاء کرام پر ایمان لانا مسلمانوں کے ایمان کی اساس ہے۔ اسلام نے ہمیشہ مذاہب کے احترام کی دعوت دی اور اپنے پیروکاروں کو اس کی تلقین کی ہے۔
اسلامی تعلیمات میں کہیں لَکُمْ دِيْنُکُمْ وَلِيَ دِيْن کے قرآنی الفاظ کے ذریعے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی دی جارہی ہے تو کبھی میثاق مدینہ کے ذریعے مسلمانوں اور یہودیوں کو ریاست مدینہ کے شہری تسلیم کرتے ہوئے امت واحدہ قرار دے کر یکساں حقوق دیئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر صرف امن کے قیام کے لئے طاقت میں ہونے کے باوجود دوسرے فریق کی سخت شرائط کو قبول کیا جا رہا ہے تو کبھی مباہلہ کے لئے نجران سے آنے والے عیسائیوں کے قیام اور عبادت کے لئے مسجد نبوی کے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کا زمانہ ہو یا خلافت راشدہ کے ایام۔۔۔ بنو امیہ و بنو عباس کا دور حکومت ہو یا سلطنت عثمانیہ کا دور اقتدار۔۔۔ قرطبہ، غرناطہ، اندلس، سپین کے علاقے ہوں یا برصغیر کا وسیع خطہ۔۔۔ ہر ایک علاقے میں مسلمان حکمرانوں نے دوسرے مذاہب کے احترام کی روشن اسلامی تعلیم اور عظیم روایت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ صلاح الدین ایوبی بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد وہاں کے عیسائی و یہودی باشندوں سے عدیم النظیر حسن سلوک روا رکھتا ہے۔۔۔ سپین میں مسلم حکمران غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے کس طرح محافظ بنے۔۔۔ برصغیر میں مغل بادشاہوں نے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں غیر مسلم اقوام سے کس طرح کا برتاؤ کیا۔۔۔ تاریخ اقوام عالم اور تاریخ اسلام کا ورق ورق ان تمام باتوں کو اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہے۔
صدیوں تک مسلمانوں نے یونان پر حکمرانی کی، کیا یونانی مسلمان بن گئے؟ سلطنت عثمانیہ کے دور میں عیسائی اعلیٰ انتظامی عہدوں پر قائم رہے۔ یورپی اقوام سلطنت عثمانیہ کے سائے تلے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارتی ہیں مگر کسی نے ان کے مذہبی بانیان اور اقدار پر تنقید نہ کی۔ فلسطین پر 400 سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن اس کے باوجود عیسائی وہاں اکثریت میں تھے۔ سپین میں مسلمانوں کے اقتدار کے ماتحت یہودی سب سے زیادہ خوشحال تھے حتی کہ اس دوران یہودیوں میں سے کئی نامور وزراء، شعراء اور سائنسدان بھی ہوئے۔ انہی تمام حقائق کے پیش نظر اسرائیلی سکالر Uri Avenry نے 2007ء میں اپنے ایک آرٹیکل میں برملا کہا تھا کہ ’’ہر یہودی جسے اپنی تاریخ معلوم ہے وہ اسلام کا احسان مند اور گہرے جذبہ تشکر کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلام نے ان کی پچاس نسلوں کو تحفظ فراہم کیا ہے‘‘۔
ان تمام حقائق کے باوجود ٹیری جونز اور سام بیسائل جیسے مکروہ کردار کے حامل لوگ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ بات کتنی افسوس ناک ہے مغربی معاشرہ حیوانات و نباتات کے حقوق کا خیال رکھتا ہوا تو نظر آتا ہے مگر عالم اسلام کے جذبات اور حقوق کی علی الاعلان پامالی کرتا ہے، جس سے اقوام عالم کے درمیان محبت و مودت کی بجائے نفرت کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔ عالمی سطح پر جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ شکوک و شبہات کا شکار ہورہی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس طرح کی مذموم حرکتوں پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے کہ ایک طرف اقوام عالم دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عزم کررہی ہیں اور دوسری طرف ان عوامل کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہیں جو انتہا پسندی کے فروغ اور دہشت گردوں کو افرادی قوت کے ملنے کا جواز بنتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران مسلمانوں کو مشتعل کر کے دہشت گردی و انتہا پسندی پر اسلام کا ٹائیٹل لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس توہین آمیز فلم اور اس طرح کے مذموم اعمال کے ردعمل میں عالم اسلام میں ہونے والے مظاہروں نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔ اس ذلت آمیز مذموم حرکت پر مسلمانان عالم کے دل لخت لخت ہیں۔ آزادی اظہار رائے کی چھتری تلے شرپسند عناصر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت امن و عالم کو تہہ و بالا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کی کاوشیں ہیں تو دوسری طرف ایسے غیر انسانی مکروہ اقدامات دنیا کو تصادم کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ اندریں حالات آئندہ اس طرح کی حرکات کے سد باب کے لئے تین سطحوں پر کام کی ضرورت ہے :
- مسلمان لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں پُرامن احتجاج کریں اور اسکے ذریعے اپنے حکمرانوں کو عالمی سطح پر یہ مسئلہ اٹھانے پر مجبور کریں۔
- مسلمان حکمران OIC کے پلیٹ فارم سے اقوام عالم کو مجبور کریں کہ وہ اقوام متحدہ میں باقاعدہ احترام مذاہب کی قرار داد منظور کرائیں تاکہ کسی بھی طریقہ سے کسی بھی مذہب کے بانی، تعلیمات، مقدس کتاب، اور مقدس ہستیوں کے خلاف کسی بھی طرح کی ہرزہ سرائی ایک جرم اور اس کا مرتکب قابل سزا قرار پائے۔
- ردعمل میں ہونے والے مظاہروں میں دہشت گردانہ اور انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ وہ سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات کو تشدد اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی طرف مائل نہ کر سکیں کیونکہ اس سے مسلمانوں کا کیس مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہو سکتا ہے اور دشمنوں کی سازش بھی یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو مشتعل کر کے انتہا پسندانہ اور تشدد سے بھرپور اقدامات کی طرف مجبور کریں تاکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوسکیں۔
لہذا مسلمانوں کو دانشمندی اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہئے اور عالمی سطح پر موثر حلقوں کو اس معاملہ کی سنگینی سے آگاہ کرنا چاہئے۔ احتجاجی مظاہروں میں اپنے مسلمان بھائیوں اور قومی املاک کا ضیاع کسی طور بھی توہین رسالت کے مرتکب عناصر کو باز رکھنے میں معاون نہیں ہو سکتا۔ یہ سیاست چمکانے اور گھیراؤ جلاؤ کا وقت نہیں ہے۔ آج ہر مسلمان کا کردار اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ لہذا حکمت اور اخلاص پر مبنی کاوشیں ہی دنیا میں موثر کردار ادا کریں گی اور آخرت میں بھی کامیابی کا باعث بنیں گی۔
(ایڈیٹر)