ہر انسان کو تین بڑی نعمتیں ملی ہیں :
- جان کی نعمت
- علم کی نعمت
- مال کی نعمت
جان کی نعمت کا شکر یہ ہے کہ اپنی تمام صلاحیتوں کو اطاعت خداوندی میں استعمال کیا جائے۔ پابندی سے نماز پنجگانہ ادا کریں، سنت و نوافل ادا کریں، تہجد، اشراق اور چاشت کے نوافل ادا کریں۔ تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد اور صلوٰۃ التسبیح پڑھیں۔ کھڑے، بیٹھے، لیٹے اللہ کا ذکر کریں۔ ہاتھ پاؤں زبان اور دماغ سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچائیں۔
علم کا شکر یہ ہے کہ علم مفید حاصل کریں یہ آپ کا پیدائشی حق بھی ہے اور آپ پر فرض بھی۔ شکر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔ اس کو دوسروں تک پہنچائیں اور کوئی علمی بات کسی سے نہ چھپائیں، نہ لالچ سے نہ کسی کے ڈر سے۔
مال کا شکر یہ ہے کہ حلال و جائز ذرائع سے مال حاصل کرے، اللہ کی رضا کے لئے غریبوں ناداروں یتیموں اور حاجت مندوں کو ضروریات زندگی بہم پہنچانے میں اسے خرچ کرے۔ فضول و بیہودہ طریقوں سے مال ضائع نہ کرے۔ اظہار غرور و تکبر، جھوٹی نمود و نمائش اور مخلوق خدا کی ایذا رسائی میں صرف نہ کیا جائے۔
مال میں و ہ پالتو جانور بھی شامل ہیں جو قدرت نے ہمارے لئے مسخر فرمائے ہیں۔ جن سے ہمیں اون، کھال، دودھ اور گوشت حاصل ہوتا ہے ان سے ہم سواری و باربرداری کا کام لیتے ہیں۔ ان کے ایک ایک عضو سے ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ان کا شکر یہ ہے کہ ہم ان منافع میں ان کو شریک کریں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ سوار و بار برداری کی سہولتوں سے ان کو بھی بہرہ مند کریں۔ ذبح کریں تو ان کا گوشت دوسروں کو بھی دیں۔ دودھ جیسی نعمت حاصل ہو تو حسب توفیق ناداروں کو ان کا حصہ ادا کریں۔ ان جانوروں کے ذریعے جوئے جیسا حرام کاروبار نہ چلائیں۔ ان کو آپس میں لڑا لڑا کر لہولہان نہ کریں۔
مال کی نعمت کے شکر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس سے جانور خرید کر قربان کئے جائیں۔ قربانی مسلمانوں پر حسب توفیق لازم ہے۔ سورۃ کوثر میں نماز اور قربانی کو ایک ساتھ جمع ہونا اس بات کا غماز ہے کہ جس طرح نماز اپنی شرائط کے ساتھ اوقات مقررہ پر لازم ہے اسی طرح قربانی بھی اپنی شرائط کے ساتھ اوقات مقررہ پر لازم ہے جیسے نماز کسی خاص مقام کے ساتھ مقید نہیں ہر جگہ کے لئے عام ہے اسی طرح قربانی بھی کسی مخصوص جگہ کے لئے نہیں، ہر جگہ کے مسلمانوں کے لئے حکم شرعی ہے۔
امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مٰنی اِهْرَاقِ الدَّم ِواِنَّهُ لَيَاْتِيْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ يَقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِيْبُوْا بِهَا نَفْسًا.
ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
(مشکوٰة ص 128 باب الاضحيه)
احکام فقہ
اصطلاح شرع میں قربانی کا مطلب ہے کہ خاص عمر میں، خاص دن میں، عبادت کی نیت سے، شرائط و سبب کے پائے جانے پر جانور ذبح کرنا۔ قربانی کی دو قسمیں ہیں :
- واجب
- نفلی
واجب کی چند قسمیں ہیں :
- جو غنی و فقیر دونوں پر واجب ہے۔
- فقیر پر لازم ہے، غنی پر نہیں۔
- غنی پر واجب ہے، فقیر پر نہیں۔
1۔ پہلی قسم :
وہ قربانی جو غنی اور فقیر دونوں پر واجب ہے وہ ہے جس کی نذر مان لی جائے۔ غنی ہو یا فقیر نذر ماننے سے دونوں پر قربانی واجب ہوگئی۔
2۔ دوسری قسم :
واجب قربانی کی جو قسم فقیر پر لازم ہے غنی پر نہیں۔ وہ یہ ہے کہ فقیر نے (جس پر قربانی واجب نہ تھی) قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اس کے خریدنے سے اس پر قربانی واجب ہوگئی۔
3۔ تیسری قسم :
واجب قربانی کی جو قسم غنی پر لازم ہے فقیر پر نہیں۔ وہ یہ ہے کہ تمام عاقل بالغ مقیم، صاحب نصاب مسلمان اللہ کی رضا اور سنت ابراہیمی کے احیاء کے لئے شعائرِ اسلام سمجھتے ہوئے جو قربانی کرتے ہیں یہ صرف اغنیاء پر لازم ہے۔ فقراء پر نہیں۔
(عالمگيری، 5 : 91، 92 طبع مصر)
شرائط وجوب
- مسلمان پر قربانی واجب ہے۔
- صاحب نصاب ہونا اگرچہ سال نہ گزرا ہو۔ (جبکہ وجوب زکوٰۃ کے لئے سال گزرنا شرط ہے)۔
- اقامت، مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
- آزاد ہونا۔ غلام پر نہیں۔
- مرد و عورت دونوں پر واجب ہے۔
- بلوغ، نابالغ پر نہیں۔
- مسافر پر اگرچہ واجب نہیں، مگر نفلی طور پر کرے تو ثواب پائے گا۔ حاجی مسافر ہوں تو ان پر قربانی واجب نہیں، مقیم ہوں تو واجب ہے، جیسے اہل مکہ، کہ حج کریں تو چونکہ مسافر نہیں، مقیم ہیں ان پر واجب ہوگی۔
(عالمگیر، 5 : 292)
قربانی کا جانور تین میں سے کسی ایک جنس کا ہونا ضروری ہے۔
- بکری
- اونٹ
- گائے
ہر جنس میں اس کی نوع داخل ہے۔ مذکر، مونث، خصی، غیر خصی سب کی قربانی جائز ہے۔ بھیڑ، دنبہ بکری، بھینس، گائے، اونٹ۔ بکری، بھیڑ، دنبہ صرف ایک آدمی کی طرف سے ہو سکتا ہے جب کہ گائے، بھینس، اونٹ سات کی طرف سے جائز ہے۔ گائے، بھینس، اونٹ میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں، یہ رعایت ہے شرط نہیں لہذا سات سے کم ایک آدمی، دو، تین، چار، پانچ، چھ شریک ہو کر بھی قربانی کریں تو اجازت ہے۔ اگر ایک ہی شخص بلا شرکت غیر قربانی دینا چاہے تو جائز ہے۔ ہاں، سات سے زائد آدمی ایک قربانی میں شریک ہوگئے تو کسی کی نہ ہوئی۔
(هدايه، 4 : 444)
قربانی کے مستحبات
بہتر یہ ہے کہ قربانی کا جانور، قربانی سے کچھ دن پہلے حاصل کر لیا جائے۔ اس کے گلے میں ہار اور جسم پر کپڑا ڈالا جائے۔ قربانی کے بعد یہ تمام چیزیں غرباء میں صدقہ کر دے۔ قربان گاہ تک سختی سے نہیں، پیار سے جانور کو لے جائے، کھینچنے یا گھسیٹنے سے پرہیز کرے۔ قربانی کے جانور کی اون نہ اتارے، دودھ نہ دوہے۔ اگر جانور کو تکلیف ہوتی ہو اور دودھ دوہنا ضروری ہو جائے تو دودھ صدقہ کر دے۔
قربانی کا گوشت اور چمڑا
قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کریں۔
- اپنے لئے
- عزیزوں کیلئے
- غرباء کیلئے
ضرورت ہو تو اس میں کمی بیشی کر سکتا ہے۔ کثیر العیال درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھنے والا قربانی کا کل گوشت یا تہائی سے زیادہ بھی اپنی ضرورت کے لئے رکھ سکتا ہے۔
(فتاویٰ عالمگيری، 5 : 30)
اگر گائے اونٹ وغیرہ کی قربانی ہے تو تمام شرکاء کے حصے وزن کر کے دیئے جائیں، اندازے سے نہیں نیز گوشت کے کسی حصے کو وزن کئے بغیر اور تقسیم کئے بغیر کسی کیلئے مخصوص نہ کیا جائے۔
قربانی کا چمڑا اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ کسی اور کو بھی دے سکتا ہے۔ کسی مسجد مدرسہ، رفاہی ادارے، غریب یتیم، بیوہ وغیرہ کو دے سکتا ہے۔ اگر اسے فروخت کرے تو قیمت صدقہ کرے۔ اپنے استعمال میں نہیں لاسکتا۔ امام مسجد اگر غریب ہے تو بطور اعانت اسے بھی کھال دے سکتے ہیں۔
(بهار شريعت، 15 : 148)
اپیل :
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن تعلیم، صحت اور فلاح عام کے درجنوں منصوبے پورے ملک میں کامیابی سے چلا رہی ہے۔ قربانی کھالیں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن میں جمع کروائیں تاکہ تعلیم، صحت اور فلاح عام کے اجتماعی عظیم منصوبہ جات پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں۔