رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق فرمایا:
اصحابی کالنجوم فبايهم اقتديتم فاهتديتم
’’میرے صحابہ ہدایت کے ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کسی کی پیروی اور اقتداء کرلو گے تم سیدھی راہ پالو گے‘‘۔
(عبد بن حميد، المسند، ج1، ص250، رقم الحديث783)
اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم، صحابہ میں شامل ہیں لیکن ان کے متعلق یوں بھی ارشاد ہوا کہ
ترکت فيکم ما ان اخذتم به لن تضلوا کتاب الله وعترتي اهل بيتی
’’میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھام لیا، تو میرے بعد کبھی بھی تم رستہ نہیں بھولو گے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میری آل‘‘۔
(الجامع الصغير للسيوطی، رقم الحديث: 1942)
لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم نے ان دونوں ارشاداتِ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مانا، ہم نے انہیں سرچشمہ ہدایت نہیں بنایا، ان کے دامن کو نہیں تھاما اور ان کے نقش قدم پر نہیں چلے بلکہ الٹا انہیں محل نزاع بنالیا ہے، ان کی ذات کو لڑائی کا محور اور جھگڑوں کا موضوع بنالیا ہے۔ شاید اس لئے کہ عمل مشکل ہے اور باتیں بنانا آسان۔ تعمیر بڑا بوجھل کام ہے لیکن تخریب بہت ہلکا پھلکا کام ہے، بلندی کی طرف جائیں تو صبر آزما مشقتوں کا سامنا ہوتا ہے لیکن پستی میں گرنا ہو تو اس پر کوئی زور صرف نہیں ہوتا۔
گویا جنہوں نے اندھیروں میں رستے دکھانا تھے، ہم انہی کے گریبانوں سے الجھ گئے اور جن کے دامن تھام کر ہم نے آگ اور پانی کے سمندر عبور کرنا تھے، ہم نے انہیں پہنچانا ہی نہیں۔ کئی صدیوں سے ہم اندھیروں میں گم ہیں اور آگ کے سمندر میں گرنے سے بے نیاز اور بے لحاظ بنے ہوئے ہیں، کیونکہ ہدایت کے ستاروں کو دیکھنے سے عاجز ہیں اور دامنِ رحمت کو تھامنے سے انکاری ہیں۔ اسی لئے ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو ہمارے لئے روشنی کے مینار ہیں اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم واقعی ہمارے اتحاد و اتفاق کے مضبوط ستون ہیں۔ ہم جنگ و جدل میں ایسے پھنسے ہیں کہ دوست اور دشمن میں تمیز کے قابل ہی نہیں رہے اور نہ ہمیں اپنے بھلے اور برے میں فرق کرنے کی توفیق ہورہی ہے۔
یہ بات ہمارے اذہان میں پختہ و مستحکم ہونی چاہئے کہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اتحاد امت، ہماری وحدت اور اتفاق کے ستون ہیں اور انہی کی قربانیوں اور خدمات کی بناء پر آج اسلام زندہ ہے۔
شورائی جمہوریت کا قیام
از روئے قرآن، اسلام میں رائے، فکر اور عقیدہ کی مکمل آزادی ہے، دین میں کوئی جبرو اکراہ نہیں ہے۔ سب جانتے اور مانتے ہیں کہ شرک و بت پرستی گناہ کبیرہ ہے جس کے کبھی نہ بخشنے کا اعلان ربانی موجود ہے، مگر مشرکوں اور بت پرستوں کے مذہب میں مداخلت تو رہی ایک طرف، ان کے بتوں اور معبودوں کو برا کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ اس لئے اسلام پر یہ بے سروپا الزام ہے کہ وہ تشدد اور تلوار سے پھیلا اور مسلمانوں پر یہ بے بنیاد تہمت ہے کہ وہ آزادی فکر و عقیدہ پر یقین نہیں رکھتے یا وہ شدت پسند یا دہشت گرد ہیں۔
اسلام سے بڑا کوئی روادار مذہب نہیں ہے بلکہ اسلام سے پہلے فکرو عقیدہ کی آزادی اور رواداری سے تو کوئی واقف بھی نہیں تھا۔ اسلام کی اشاعت تو صرف حسن گفتار اور حسن کردار کا نتیجہ ہے۔
اسلام کا نظام حکمرانی، شورائی جمہوریت پر قائم ہے جو مغرب کے نام نہاد سیکولر اور جمہوری نظام سے بہتر اور برتر ہے، اس میں جمہور عوام کی شراکت اور مشاورت کا حکم ہے: امرہم شوری اور شاورہم فی الامر پر عمل ہوتا ہے۔ خود رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کی مشاورت اور اکثریت رائے کو پسند فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر مشاورت کو پسند کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ غزوہ بدر کے موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات سے زیادہ بار مشورہ کیا۔ غزوہ احد کے موقع پر اہل رائے کی بجائے اکثریت کی رائے پر عمل کیا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے حکم ربانی تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہر حال میں مشاورت میں شریک رکھئے۔
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت دنیا میں بادشاہت اور شہنشاہیت تھی یا خانہ بدوش قبائلی زندگی تھی مگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں نظاموں سے بری تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی نئی قسم کی بادشاہت قائم کرنے نہیں آئے تھے بلکہ شورائی جمہوریت کی حکمرانی کے لئے تشریف لائے تھے جو مغربی جمہوریت سے بہتر اور برتر ہے۔ شورائی جمہوریت میں ہر فرد خود کو شریک حکمرانی سمجھتا ہے، اس کی بات سنی اور مانی جاتی ہے۔ اسی پر خلافت راشدہ قائم تھی اور اسی کے لئے اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے قربانیاں دیں اور یوں وہ اتحاد امت کے ستون ثابت ہوئے۔ آیئے! اہلِ بیت اطہار کے اس کردار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
اتحاد امت کے ان ستونوں کا ستون اپنے وقت میں بنو ہاشم کے گل سرسبد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔ وہ سردار بنو ہاشم حضرت ابو طالب کے سرکردہ اور نمایاں فرزند ارجمند ہیں، ان کے بارے ہی میں رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
انا مدينة العلم وعلی بابها.
(ابن اثير، اسد الغابه فی معرفة الصحابه، ج4، ص22)
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں‘‘۔
میرا یہ ایمان ہے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل البشر بعد الانبیاء ہیں کیونکہ میرے نزدیک وہ یار غار بھی ہیں، سفرو حضر میں ایک خادم، ایک محافظ اور ایک جان نثار کی حیثیت سے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے، دائیں بائیں رہے اور امت کا بوجھ اس وقت اٹھایا جب وہ لاوارث ہوکر خطرات میں چاروں طرف سے گھِر چکی تھی، حتی کہ سید امیر علی نے کہا کہ: اگر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ ہوتے تو اسلام پہلے قدم پر ہی بکھر جاتا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
But for him Islam, would melted in the thrown of its birth.
میں یہ سب کچھ اپنے یقین اور ایمان کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بلا شبہ علم نبوی کا دروازہ تھے۔ قاضی صحابہ کرام اور شیر خدا، فاتح خیبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں یہ جانتا ہوں اور بتاسکتا ہوں کہ قرآن کریم کی فلاں فلاں آیت کب، کہاں اور کیسے نازل ہوئی؟ اور اس آیت کا شان نزول، معنی و مفہوم اور مدلول و مقصود کیا ہے؟ جو شخص روز اول سے وقت آخر تک، غار حرا میں قرآن کے نزول سے لے کر ’’اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا‘‘ (المائدۃ: 3) کے نزول تک رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہا ہو، پیغمبر صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزاج، اخلاق اور نبوت کے نشیب و فراز سے پوری طرح آگاہ ہو، تو کیا وہ علم نبوی کے شہر کا ’’باب العلم‘‘ نہیں ہوگا؟۔۔۔ اور اقضیٰ الصحابہ، فصاحت و بلاغت کے امام، بلاشبہ، باب العلم نبوی بھی تھے اور اس کا ثبوت عملی زندگی میں انہوں نے قدم قدم پر دیا۔
تینوں خلفاء راشدین سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دلی تعاون بلکہ بعض اوقات تو سہارا دینے اور ڈھال بننے کا بھی عملی مظاہرہ کیا۔ اس سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کے ارشاد ربانی کے مطابق باہمی محبت اور وضع داری کا بھی ثبوت ملتا ہے اور واضح ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتحاد امت کے لئے اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے پہلے اور ارفع و اعلیٰ ستون تھے۔ اس میں اگر آپ کوفہ کا وہ منظر بھی شامل کرلیں جو ملعون ابن ملجم خارجی کے ہاتھوں شہادت کے وقت دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب اطباء نے امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتادیا کہ آپ کا جان بر ہونا ممکن نظر نہیں آتا تو لوگوں نے مشورہ دیا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کردیجئے تو اس موقع پر انہوں نے جو ارشاد فرمایا وہ جہاں ان کے باب العلم ہونے کا ثبوت ہے وہاں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ شورائی جمہوری نظام کو اپنائے رکھنے پر ان کے یقین کا بھی آئینہ دار ہے اور اپنے ساتھی خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے احترام کا بھی آئینہ دار ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خلافت کو جمہور المسلمین کا حق تصور کرتے تھے جو شوریٰ اور برضا و رغبت بیعت کرنے (دوسرے لفظوں میں آزادانہ رائے دہی) سے وابستہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر میں نامزد کرتا ہوں تو میرے سامنے ایک ایسی ہستی کی مثال موجود ہے جو مجھ سے بہتر تھے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے اپنی کسی وارث کونہیں بلکہ اپنی نظر میں سب سے بہتر اور اس منصب کے اہل حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے عوام کی رضا مندی معلوم کرنے کے بعد) اپنا جانشین نامزد کیا تھا اور اگر کسی کو نامزد نہیں کرتا تو پھر یہ ایک ایسی ہستی کی پیروی ہوگی جو افضل البشر تھے یعنی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہوگی۔ پھر لوگوں نے عرض کیا کہ ہمیں اجازت دے دیجئے کہ ہم حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرلیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا:
لا آمرکم ولا انهاکم
’’میں تمہیں اس کا نہ حکم دیتا ہوں نہ اس سے منع کرتا ہوں‘‘۔
گویا یہ جمہور امت کا حق ہے جسے چاہیں آزادانہ رائے سے اپنا حکمران منتخب کریں۔ اس طرح گویا اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کے سردار حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طرز حکمرانی کے متعلق نبوی مؤقف کو عیاں کردیا اور اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لئے بھی ایک مثالی مؤقف متعین فرمادیا، جسے اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مضبوطی سے سنبھالے رکھا اور جمہور المسلمین کے اس حق کا دفاع کرتے رہے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی بھی دیتے رہے، یوں گویا موروثی جانشینی کو مسترد کرتے رہے۔ عامۃ الناس کی اکثریت اور جمہور المسلمین کے حق کا دفاع کرنے سے ان کے اتحاد کی نہایت مضبوط اور ناقابل شکست بنیاد قائم ہوتی ہے، جس کی پہلی مثال خود رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم فرمائی اور اس کی تائیدی مثال اور موقف سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتحاد امت کا ستون بن گئے جو غیر فانی ستون بھی ہے اور اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لئے زندہ و جاوید اور قابل تقلید نمونہ بھی۔
حضرت امام حسن المجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے سیدنا ابو محمد الحسن بن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتحاد امت کے لئے جو نمونہ قائم فرمایا وہ جانشینی میں موروثیت کے مستانوں، اقتدار کے بھوکوں اور کرسی کے پجاریوں کے لئے ایک تازیانہ عبرت ہے۔ خلافت کے مسئلہ پر امت مسلمہ دو منظم جماعتوں میں تقسیم ہوچکی تھی اور خوفناک تصادم سر پر تھا۔ خوارج کا فتنہ اس کے علاوہ تھا۔ اس موقع پر حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوفناک و خطرناک مگر بے سود تصادم کے انجام کو بھانپ لیا تھا۔ اتحاد امت کی خاطر مصالحت کی راہ اختیار کی اور ساتھ ہی اپنے نانا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک پیشین گوئی کو بھی سچا کر دکھایا کہ
ان ابنی هذا سيد ولعل الله ان يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين
’’میرا یہ بیٹا مصالحت کے موقف سے امت کے دو گروہوں کو تصادم سے بچائے گا‘‘۔
(المرقاةشرح مشکوٰة المصابيح، باب المناقب اهل بيت رضي الله تعالیٰ عنهم، ص379)
اس میں کرسی اقتدار کے پجاریوں کے لئے بھی بہت بڑی عبرت ہے جو تخت حکومت کو خلق خدا کی ایک بہت بڑی ذمہ داری اور بوجھ سمجھنے کی بجائے عیش پرستی اور زر اندوزی کا محض کھیل سمجھتے ہیں۔ تاریخ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس مستحسن موقف کو امت کے لئے امن اور اطمینان کا تحفہ اور سنہ41 ہجری کو عام الجماعۃ (یعنی امت مسلمہ کے اکٹھے ہونے اور متفق ہونے کا سال) قرار دیتی ہے۔ اس لئے ان کا یہ مصالحانہ موقف انہیں اتحاد امت کا مضبوط و بہترین ہی نہیں بلکہ سنہری ستون کا درجہ دیتا ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف تو بہت ہی اہم، سبق آموز اور نتائج و اثرات کے لحاظ سے بے حد دور رس ہے، اس سے بحث نہیں کہ آپ مدینۃ النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیوں اور کن حالات میں نکلے تھے؟ مگر دو باتیں بالکل واضح ہیں:
ایک یہ کہ کوفیوں نے انہیں خطوط لکھ کر بلایا تھا مگر بزدلی اور بے وفائی کا مظاہرہ کیا۔
دوسرا یہ کہ اگر سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ بھی نکلتے تو یزید ملعون نے انہیں امن و اطمینان سے جینے نہیں دینا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس لعین کی ہٹ لسٹ میں سب سے اوپر تھے جیسا کہ اس نے مدینہ منورہ پر حملہ کرواکر کبار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک جماعت کو شہید کیا اور شہر میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کیا۔ وہ مکہ مکرمہ میں بھی ایسے ہی اقدام کا عزم رکھتا تھا۔ شہدائے کربلا پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ آج بنو امیہ نے بنو ہاشم سے اپنا انتقام لے کر سینوں کو ٹھنڈا کرلیا ہے۔
مگر یہاں ایسی باتوں میں پڑنے کی بجائے صرف یہ دیکھنا ہے کہ سیدنا امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موقف سے امت مسلمہ کو کیا فائدہ ہوا۔۔۔؟ ان کی شہادت عظمیٰ اپنے اندر کیا پیغام لئے ہوئے ہے۔۔۔؟ اور اتحاد امت کے لئے ان کی کیا خدمات ہیں۔۔۔؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کا موقف خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سچائی اور حقانیت پر مہر تصدیق ہے۔ سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ثابت کردیا کہ اگر خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاذ اللہ! یزید کی مانند حق پر نہ ہوتے تو شمشیر حیدری ہرگز میان میں نہ رہتی کیونکہ بیٹا اپنے والد گرامی سے قوت، شجاعت اور جرات میں بڑھ کر نہ تھا، کس میں جرات تھی کہ حیدر کرار کے ہوتے ہوئے نظام مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روگردانی کرتا یا ناحق منصب خلافت پر قابض ہوسکتا؟ اگر ایسا ہوتا تو کربلا کی نوبت ہی نہ آتی بلکہ فیصلہ مدینہ منورہ میں شمشیر حیدری کرچکی ہوتی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلفائے ثلاثہ کے معاون و مشیر نہ بنتے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ڈھال بننے کی پیشکش نہ فرماتے بلکہ خود حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بھائی کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت کے لئے کھڑے نہ ہوتے۔ یہ حسینی موقف اتحاد امت کی بے حد پختہ بنیاد ہے۔
یہ دیکھ کر کہ یزید کی نامزدگی اور تخت نشینی، اس شورائی و جمہوری نظام مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مکمل انحراف ہے اور یہ کہ حرمین شریفین میں کبار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بہت بڑی تعداد بھی اس یزیدی جسارت کے خلاف ہے۔ اہل کوفہ کی دعوت پر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نکل پڑے تھے۔ انہیں امید تھی کہ عراقی شمشیر زن، حرمین شریفین کے اہل حل و عقد کے تعاون سے نیک فطرت شامیوں کو بھی یزید کو مسترد کرنے اور جمہور امت سے آملنے کی کوشش کریں گے۔ مگر حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی یزیدی اوباشوں نے ابن زیاد کی قیادت میں نہ صرف کوفیوں بلکہ عراقیوں کے حوصلے بھی پست کردیئے تھے اور یوں بقول حجاج بن یوسف اہل عراق اہل نفاق کا لباس پہن چکے تھے۔
چنانچہ پیغامات کے تبادلے اور گفتگو کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر واضح ہوچکا تھا کہ اب ان کے سامنے تین راستے رہ گئے ہیں:
- یزید کی بیعت
- شہادت
- مدینہ منورہ واپسی
آخری بات یزیدی اوباشوں نے نہ مانی اور پہلی بات حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوصلہ مند و حق پرست فرزند حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٹھکرادی۔ یہ بہت بڑی عزیمت والا فیصلہ تھا۔ اللہ کی راہ میں اپنا سرپیش کرنا اور اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے عزم و ارادے کو دیکھ کر ان کی جانوں کی قربانی پیش کردینے کا حوصلہ اور جرات صرف اور صرف حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کام تھا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگہ بلند نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ ان کی اس قربانی سے نظام مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شورائی جمہوریت سے یزیدی انحراف بھی ذلت کی موت مرجائے گا اور نظام مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی زندہ و پائندہ ہوجائے گا۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو شہادت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوکر زندہ و پائندہ ہوگئے مگر امت کو مسلک حسینیت عطا فرماگئے۔۔۔ نہیں بلکہ پوری انسانیت کو ہمت و جرات کا سبق پڑھاگئے۔ اب دنیا کی ہر آمریت، یزیدی آمریت کا انجام بد دیکھ کر ترساں و لرزاں رہتی ہے۔ بقول شاعر
اب کوئی کسی سے بیعت طلب نہیں کرتا
کہ اہل تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین کا ہے!!
گذشتہ صدیوں کے دوران اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مسلک حسینیت کو زندہ رکھا ہے۔ نظام مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شورائی جمہوریت کا علم بلند کرکے آمریت کو ہمیشہ ٹھکرایا ہے۔ علمائے حق اور صوفیائے کرام نے بھی دامے، درمے اور سخنے ان کی تائید و حمایت کی ہے۔ چاروں ائمہ فقہ اور چاروں سلاسل کے خلفاء کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اتحاد امت کے یہ ستون آج بھی زندہ و پائندہ اور ہمارے لئے مشعل راہ کا کام دے رہے ہیں۔ دنیا کی نام نہاد سیکولر جمہوریت بے معنی بات ہے مگر نظام مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شورائی جمہوریت ہی بہتر ہے، جس میں جمہور عوام کی آواز بلا امتیاز سنی جاتی ہے۔۔۔ حکام ان کے آقا نہیں بلکہ خادم ہوتے ہیں۔۔۔ حکمران عام آدمی کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔۔۔ یہ جمہوریت انصاف کی بنیاد پر، امن کی بھی ضامن ہے۔ اس میں عقل و ہنر کی بات معتبر ہوتی ہے۔۔۔ اور اس میں موروثی جانشینی بھی مسترد ہے۔ اسی شورائی جمہوریت کے محافظ و نقیب اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں جو آج بھی اتحاد امت کے ستون کا کام دے رہے ہیں۔