یوم شہادت 18 ذوالحجہ کی مناسبت سے خصوصی تحریر
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر کا چونیتسواں سال تھا کہ مکہ میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اپنی رسالت کا اعلان فرمادیا۔ گوملکی رسم و رواج اور عرب کے مذہبی تخیل کے لحاظ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے یہ آواز نامانوس تھی، تاہم وہ اپنی فطرت عفت، پارسائی، دیانتداری اور راستبازی کے باعث اس داعی حق کو لبیک کہنے کے لئے بالکل تیار تھے۔
ایک روز وہ حسب معمول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور اسلام کے متعلق گفتگو شروع کی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گفتگو سے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے، ابھی دونوں جانے کا خیال ہی کررہے تھے کہ خود سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر فرمایا ’’عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ! خدا کی جنت قبول کر‘‘ میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دست مبارک میں ہاتھ دے کر حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔
(اصابه ج8، تذکره سعدی بنت کريز)
اس موقع پر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق اموی خاندان سے تھا، جو بنو ہاشم کا حریف تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آئینہ دل خاندانی تعصب کے گردو غبار سے پاک تھا، اس لئے اس قسم کی کوئی پیش بینی ان کے صفائے باطن کو مکدر نہ کرسکی، انہوں نے نہایت آزادی کے ساتھ اپنے خاندان کے خلاف اس زمانہ میں حق کی آواز پر لبیک کہا، جبکہ اس وقت صرف پینتیس یا چھتیس خواتین و حضرات اس شرف سے مشرف ہوئے تھے۔ (ایضاً)
قبول اسلام پر مصائب کا سامنا
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کے چچا حکم بن ابی العاص نے آپ کو پکڑ کر ایک کمرے میں بند کردیا اور کہا کہ تم نے آبائی مذہب ترک کرکے ایک نیا مذہب اختیار کرلیا ہے۔ جب تک تم اس نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے میں تمہیں آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا چچا! خدا کی قسم میں مذہب اسلام کبھی نہیں چھوڑوں گا اور اس دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔
(سيرالصحابه، ج1، ص152)
مکہ میں اسلام کی روز افزوں ترقی سے مشرکین قریش کے غیظ و غضب کی آگ روز بروز زیادہ بڑھتی جارہی تھی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنی وجاہت اور خاندانی عزت کے باوجود عام مسلمانوں کی طرح جفاکاروں کے ظلم و ستم کا نشانہ تھے، ان کو خود ان کے چچا نے باندھ کر مارا، اعزہ و اقارب نے سرد مہری شروع کی اور رفتہ رفتہ ان کی سخت گیری اور جفاکاری یہاں تک بڑھی کہ وہ ان کی برداشت سے باہر ہوگئی اور بالآخر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشارہ سے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ چنانچہ یہ پہلا قافلہ تھا جو حق و صداقت کی محبت میں وطن اور اہل وطن کو چھوڑ کر جلاوطن ہوا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان عثمان اول من هاجر باهله من هذه الامة
’’ میری امت میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی‘‘۔
(اصابه ج8، تذکره رقيه)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حبشہ میں چند سال رہنے کے بعد مکہ واپس آگئے۔ بعد ازاں ہجرت مدینہ کے موقع پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے۔ مواخاتِ مدینہ کے موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں اور حضرت اوس بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مواخات قائم کردی۔
(طبقات، قسم اول، جزو3، ص38)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خصائل
حضرت ابن ثورالفہمی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اس وقت گیا جب آپ محصور تھے، آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میری دس خصلتیں اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہیں:
- میں اسلام قبول کرنے والا چوتھا شخص ہوں۔
- رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دو صاحبزادیوں کو میرے عقد میں دیا۔
- میں کبھی گانے بجانے میں شریک نہیں ہوا۔
- میں کبھی لہو و لعب میں مشغول نہیں ہوا۔
- میں نے کبھی کسی برائی اور بدی کی تمنا نہیں کی۔
- رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرنے کے بعد میں نے کبھی اپنا سیدھا ہاتھ اپنی شرمگاہ کو نہیں لگایا۔
- اسلام لانے کے بعد میں نے ہر جمعہ کو اللہ کے لئے ایک غلام آزاد کیا، اگر اس وقت ممکن نہ ہوا تو بعد میں آزاد کیا۔
- زمانہ جاہلیت یا عہد اسلام میں کبھی زنا کا مرتکب نہیں ہوا۔
- عہد جاہلیت اور زمانہ اسلام میں کبھی چوری نہیں کی۔
- رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے مطابق میں نے قرآن مجید کو جمع کیا۔(تاریخ الخلفائ، ص338)
بطور خلیفہ انتخاب
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زخمی ہونے کے بعد حضرت ابو طلحہ انصاری، حضرت اوس بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت کی کہ حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت عبدالرحمن اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہم کو ایک مکان میں جمع کرنا۔ کسی کو ان کے پاس آنے جانے نہ دینا۔ تین روز کے اندر یہ احباب اتفاق رائے سے اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنالیں اور اگر اختلاف آراء ہو تو کثرت رائے پر عمل کیا جائے۔
جب تمام حضرات اکٹھے ہوئے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آپ کو دستبردار کرلیا اور فرمایا ’’میں اپنے آپ کو اس جماعت سے علیحدہ کرتا ہوں، میں خلیفہ کے انتخاب کی خدمت کو انجام دوں گا‘‘۔ بعد ازاں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور مدینہ کے دیگر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے آراء لیں کہ خلافت کی ذمہ داریاں کس کے سپرد کی جائیں؟ ایک کثیر تعداد سے مشاورت کے بعد بالآخر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں خلافت کا فیصلہ سنایا۔ تمام احباب نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کو اتفاق رائے سے منظورکرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔
جب اہل شوریٰ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو وہ بہت اداس ہوکر کھڑے ہوئے اور منبر رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آکر حمدو ثناء اور صلوۃ و سلام کے بعد یوں خطبہ دیا:
’’تم قلعہ بند گھر میں (اپنے آپ کو سمجھتے) ہو اور عمر کے بقیہ حصے میں ہو، اس لئے تم اپنی (باقی ماندہ) زندگی میں بہت جلد نیک کام سرانجام دو اور جو نیک کام تم کرسکتے ہو اس سے دریغ نہ کرو۔ کیونکہ تمہیں صبح یا شام کوچ کرنا ہوگا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ دنیا مکرو فریب میں لپٹی ہوئی ہے، اس لئے تمہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا نہ کردے۔ تم گزری ہوئی باتوں سے عبرت حاصل کرو اور سرگرمی کے ساتھ (نیک) کام کرو اور غافل نہ رہو کیونکہ وہ (خدا) تم سے غافل نہیں ہے۔
وہ دنیا دار اور ان کے فرزند کہاں ہیں جنہوں نے دنیا میں عمارتیں تعمیر کیں اور عرصہ دراز تک دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کیا دنیا نے انہیں چھوڑا ہے؟ تم بھی دنیا کو وہیں پھینک دو، جہاں اللہ تعالیٰ نے اسے پھینکا ہوا ہے، (اس کے بجائے) آخرت کے طلبگار رہو۔ کیونکہ اللہ نے دنیا کی کیا ہی اچھی مثال دی ہے اور فرمایا: وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَآءِ’’ اے پیغمبر صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! تم انہیں دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو کہ وہ پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا‘‘۔
(طبری، التاريخ الامم والملوک، 2: 275)
خلافت عثمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد میں شام، مصر اور ایران کو فتح کرلیا تھا، نیز ملکی نظم و نسق اور طریقہ حکمرانی کا ایک مستقل دستور العمل بنادیا تھا۔ اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے میدان صاف تھا، انہوں نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نرمی و ملاطفت اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیاست کو اپنا شعار بنایا اور ایک سال تک قدیم طریق نظم و نسق میں کسی قسم کا تغیر نہیں کیا۔ البتہ خلیفہ سابق کی وصیت کے مطابق حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ کوفہ کا والی بناکر بھیجا۔ یہ پہلی تقرری تھی جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے عمل میں آئی۔
(ابن اثير، 3: 61)
عہد عثمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں فتوحات کا سلسلہ نہایت وسیع ہوا۔ افریقہ میں طرابلس، الجزائز، رقہ، مراکش، سپین 27 ہجری میں مفتوح ہوئے۔۔۔ ایران کی فتح تکمیل کوپہنچی۔۔۔ ایران کے متصلہ ملکوں میں افغانستان، خراسان اور ترکستان کا ایک حصہ زیر نگین ہوا۔۔۔ دوسری سمت 31 ہجری میں آرمینیہ اور آذربائیجان کی فتح کے بعد اسلامی سرحد کوہ قاف تک پھیل گئی۔۔۔ اسی طرح ایشیائے کوچک کا ایک وسیع خطہ فتح ہوا۔
بحری فتوحات کا آغاز حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت سے ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احتیاط نے مسلمانوں کو سمندری خطرات میں ڈالنا پسند نہ کیا۔ ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولوالعزمی نے خطرات سے بے پرواہ ہوکر ایک عظیم الشان بیڑا تیار کرکے جزیرہ قبرص (سائپرس) پر 28 ہجری میں اسلامی علَم بلند کیا۔۔۔ اور بحری جنگ میں 31 ھ میں قیصر روم کے بیڑے کو جس میں پانچ سو جنگی جہاز شامل تھے، ایسی شکست دی کہ پھر رومیوں کو کبھی بحری حملہ کی ہمت نہ ہوئی۔
نظامت خلافت
اسلامی حکومت کی ابتداء نظام شوریٰ سے ہوئی، فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو مکمل اور منظم کردیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس نظام کو اپنے ابتدائی عہد میں قائم رکھا۔ لیکن آخر میں بنو امیہ کے استیلاء نے اس میں برہمی پیدا کردی۔ مروان بن حکم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعتماد اور سادگی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر خلافت کے کاروبار میں پورا اثرو رسوخ حاصل کرلیا تھا تاہم جب کبھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی معاملہ کی طرف توجہ دلائی جاتی تو آپ فوراً اس کے تدارک کی سعی ضرور کرتے۔ نیک مشوروں کو قبول کرنے میں تامل نہ فرماتے۔ چنانچہ ولید بن عقبہ کی بادہ نوشی کی طرف توجہ دلائی گئی تو تحقیق کے بعد انہوں نے فوراً اس کو معزول کردیا اور شرعی حد جاری کی۔ اسی طرح جب حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملک میں عام تحقیقات کے لئے وفود بھیجنے کا مشورہ دیا تو فوراً اس کو تسلیم کرلیا۔
عمال کی مجلس شوریٰ
ملکی و انتظامی معاملات میں حکامِ وقت دوسرے غیر ذمہ دار اشخاص کے مقابلہ میں نسبتاً بہتر اور صائب رائے قائم کرسکتے ہیں۔ چنانچہ آج تمام مہذب حکومتوں میں عمال و حکام کی ایک مجلس شوریٰ ہوتی ہے۔ حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آج سے تیرہ سو برس پہلے اس ضرورت کو محسوس کرکے عمال کی ایک مجلس شوریٰ ترتیب دی تھی۔ اس مجلس کے ارکان سے عموماً تحریری آراء طلب کی جاتی تھیں۔ کوفہ میں پہلے پہل جب فتنہ و فساد کی ابتداء ہوئی تو اس کی بیخ کنی کے متعلق تحریر ہی کے ذریعہ سے آراء طلب کی گئی تھیں۔ کبھی کبھی دارالخلافہ میں باقاعدہ اجلاس بھی ہوتے تھے۔ چنانچہ 34ھ میں اصلاحاتِ ملک پر غور کرنے کے لئے جو اجلاس ہوا تھا اس میں تمام اصحاب الرائے اور اکثر عمال و حکام شریک تھے۔
(ابن اثير، ج3: 117)
حکام کی نگرانی
خلیفہ وقت کا سب سے اہم فریضہ حکام اور عمال کی نگرانی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ طبعاً نہایت نرم تھے، بات بات پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور ذاتی حیثیت سے تحمل، بردباری اور چشم پوشی آپ کا شیوہ تھا، لیکن ملکی معاملات میں انہوں نے احتساب اور نکتہ چینی کو اپنا طرز عمل بنایا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال سے ایک بیش قدر رقم ادھار لی جس کو ادا نہ کرسکے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سختی سے بازپرس کی اور معزول کردیا۔۔۔ ولید بن عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بادہ نوشی کی، انہیں معزول کرکے اعلانیہ حد جاری کی۔۔۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیرانہ زندگی اختیار کی تو انہیں بھی ذمہ داری کے عہدہ سے سبکدوش کردیا۔۔۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصر کے خراج میں اضافہ نہ کرسکے تو ان کو علیحدہ کردیا۔
نگرانی کا عام طریقہ یہ تھا کہ دریافت حال کے لئے دربار خلافت سے تحقیقاتی وفود روانہ کئے جاتے تھے جو تمام ممالک کا دورہ کرکے عمال کے طرز عمل اور رعایا کی حالت کا اندازہ کرتے تھے۔ ملکی حالات سے واقفیت پیدا کرنے کے لئے آپ کا یہ معمول تھا کہ جمعہ کے دن منبر پر تشریف لاتے تو خطبہ شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے اطراف ملک کی خبریں پوچھتے اور ان کی بات نہایت غور سے سنتے۔ آپ کی طرف سے اعلان عام تھا کہ جس کسی کو کسی والی سے شکایت ہو وہ حج کے موقع پر بیان کرے۔ اس موقع پر تمام عمال لازمی طور پر طلب کئے جاتے تھے، اس لئے بالمشافہ شکایتوں کی تحقیقات کرکے تدارک فرماتے۔
ملکی نظم و نسق
فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملکی نظم و نسق کا جو دستور العمل مرتب کیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو بعینہ باقی رکھا اور مختلف شعبوں کے جس قدر محکمے قائم ہوچکے تھے، ان کو منظم کرکے ترقی دی۔ یہ اسی نظم و نسق کا اثر تھا کہ ملکی محاصل میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ حضرت عمر کے عہد میں مصر کا خراج 20 لاکھ دینار تھا لیکن عہد عثمانی میں اس کی مقدار 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔
(فتوح البلدان، بلاذری، ص223)
ملکی انتظام اور رعایا کی آسائش دونوں لحاظ سے اس امر کی ضرورت تھی کہ دارالخلافہ کے تمام راستوں کو سہل اور آرام دہ بنایا جائے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ کے راستہ میں موقع بموقع چوکیاں، سرائیں اور چشمے بنوائے۔ نجد کی راہ میں مدینہ سے چوبیس میل کے فاصلہ پر ایک نہایت نفیس سرائے تعمیر کی گئی، اس کے ساتھ ساتھ ایک مختصر بازار بھی بسایا گیا، نیز شیریں پانی کا ایک کنواں بنایا گیا جو بیرالسائب کے نام سے مشہور ہے۔
(ايضاً، ج2، ص217)
خیبر کی سمت سے کبھی کبھی مدینہ میں نہایت ہی خطرناک سیلاب آیا کرتا تھا جس سے شہر کی آبادی اور مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا تھا۔ اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ سے تھوڑے فاصلہ پر مدری کے قریب ایک بند بندھوایا اور نہر کھدوا کر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔ اس بند کا نام بند مہزور ہے۔ رفاہ عامہ کی تعمیرات میں یہ خلیفہ ثالث کا ایک بڑ اکارنامہ ہے۔
(خلاصة الوفاء: 124)
تمام ممالک میں گھوڑوں اور اونٹوں کی پرورش و پرداخت کے لئے نہایت وسیع چراگاہیں بنوائی گئیں۔ سب سے بڑی چراگاہ مقام ربذہ میں تھی، جو مدینہ سے چار منزل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ چراگاہ دس میل لمبی اور اسی قدر چوڑی تھی۔ دوسری چراگاہ مقام نقیع میں تھی جو مدینہ سے بیس میل دور ہے۔ اسی طرح ایک چراگاہ مقام ضربہ میں تھی جو وسعت میں ہر طرف سے چھ چھ میل تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں جب گھوڑوں اور اونٹوں کی کثرت ہوئی تو ان چراگاہوں کو پہلے سے زیادہ وسیع کیا گیا اور ہر چراگاہ کے قریب چشمے تیار کرائے گئے اور منتظمین چراگاہ کے لئے مکانات تعمیر کرائے۔ عہد عثمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ صرف ضربہ کی چراگاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے اسباب
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ سالہ دور خلافت میں ابتدائی چھ سال کامل امن و امان سے گذرے۔ فتوحات کی وسعت، مال غنیمت کی فراوانی، وظائف کی زیادتی، زراعت کی ترقی اور حکومت کے عمدہ نظم و نسق نے تمام ملک میں تمول، فارغ البالی اور عیش و تنعم کو عام کردیا۔ چنانچہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جن کو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسیح الاسلام کا خطاب دیا تھا) اعلانیہ اس کے خلاف وعظ کہتے تھے اور فرماتے تھی کہ ضرورت سے زیادہ مال جمع کرنا ایک مسلمان کے لئے ناجائز ہے۔ شام کا صوبہ جس کے حاکم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، جو صدیوں تک رومی تعیش و تکلفات کا گہوارہ رہ چکا تھا، وہاں کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ یہ برائیاں پیدا ہورہی تھیں۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ برملا ان امراء اور دولت مندوں کے خلاف وعظ کہتے تھے جس سے نظام حکومت میں خلل پڑتا تھا، اس لئے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی استدعا پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو مدینہ بلوالیا۔ مگر اب مدینہ بھی وہ پہلے والا مدینہ نہ رہا تھا۔ بیرونی لوگوں کے بڑے بڑے محل تیار ہوچکے تھے، اس لئے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں سے بھی دلبرداشتہ ہوکر ربذہ نام کے ایک گاؤں میں اقامت اختیار کی۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری زمانہ میں جو فتنہ و فساد برپا ہوا، اس کی حقیقت یہی ہے کہ دولت مندی اور تمول کی کثرت نے مسلمانوں میں بھی اس کے وہ لوازم پیدا کردیئے جو قوموں میں ایسی حالت میں پید اہوجاتے ہیں اور بالآخر ان کے ضعف اور انحطاط کا سبب بنتے ہیں۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ
لا اخاف عليکم الفقر بل اخاف عليکم الدنيا.
مجھے تمہارے فقر و فاقہ سے کوئی خوف نہیں ہے بلکہ تمہاری دولت دنیاوی ہی کے خطرات سے ڈرتا ہوں۔
اس کے علاوہ اس فتنہ و فساد کی پیدائش کے بعض اور اسباب بھی تھے جو کہ حسب ذیل ہیں:
- سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ نسل جو فیض نبوت سے براہ راست مستفیض ہوئی تھی، تقریباً ختم ہوچکی تھی، جو لوگ موجود تھے وہ اپنی کبرسنی کے سبب گوشہ نشین ہورہے تھے اور ان کی اولاد ان کی جگہ لے رہی تھی۔ یہ نوجوان زہدو اتقائ، عدل وانصاف، حق پسندی و راست بازی میں اپنے بزرگوں کے برابر نہ تھے۔
- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ اور مسلمانوں کی پسندیدگی سے امامت و خلافت کے لئے خاندان قریش مخصوص ہوگیا تھا اور بڑے بڑے عہدے بھی زیادہ تر ان ہی کو ملتے تھے، نوجوان قریشی اس کو اپنا حق سمجھ کر دوسرے عرب قبیلوں کو اپنا محکوم سمجھنے لگے تھے۔
- اس وقت کابل سے لے کر مراکش تک تمام علاقہ اسلام کے زیر نگین تھا جس میں سینکڑوں قومیں آباد تھیں، ان محکوم قوموں کے دلوں میں فطرتاً مسلمانوں کے خلاف انتقام کا جذبہ موجود تھا لیکن ان کی قوت کے مقابلہ میں بے بس تھے، اس لئے انہوں نے سازشوں کا جال بچھایا جن میں سب سے آگے مجوسی اور یہودی تھے۔
- حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فطرتاً نیک، ذی مروت اور نرم خو تھے، لوگوں سے سختی کا برتاؤ نہیں کرتے تھے، اکثر چھوٹے جرائم کو بردباری اور حلم سے ٹال دیا کرتے تھے۔ اس سے شریروں کے حوصلے بڑھ گئے۔
- ہر امام کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے کارکن اور عمال اس کے مطیع فرمانبردار ہوں، اسلام کی دوسری نسل جو، اب پہلی نسل کی جگہ لے رہی تھی، اس میں امام وقت کی اطاعت کا وہ مذہبی جذبہ نہ تھا جس طرح کا اول الذکر میں موجود تھا۔ ایسی حالت میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نظام خلافت کے قیام و استحکام کے لئے اپنے قبیلہ بنی امیہ میں سے زیادہ افراد لینے پر مجبور ہوئے۔
- مختلف محکوم قوموں کے شورش پسند اشخاص اس لئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے درپے تھے کہ شاید اس سے ان کی حالت میں کوئی فرق پیدا ہو۔
- غیر قوموں کے جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے یا مسلمانوں نے جن غیر قوموں کی عورتوں کو بیویاں یا باندیاں بنایا، ان کی اولادیں بھی فتنہ کا باعث بنیں۔
الغرض ہر جماعت اپنی غرض کے لئے کوشش میں مصروف تھی اس لئے خفیہ ریشہ دوانیاں شروع ہوگئیں۔ عمال کے خلاف سازشیں ہونے لگیں اور خود امیرالمومنین کو بدنام کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان فتنوں کو جاننا چاہا لیکن یہ آگ ایسی لگی تھی کہ جس کا بجھانا آسان نہ تھا۔ فتنہ پردازوں کا دائرہ عمل روز بروز وسیع ہوتا گیا یہاں تک کہ تمام ملک میں ایک خفیہ جماعت پیدا ہوگئی تھی جس کا مقصد فتنہ و فساد برپا کرنا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معلوم ہونے پر تقریباً دس آدمیوں کو جو اس جماعت کے سرکردہ تھے، شام کی طرف جلاوطن کردیا۔
(ابن اثير، 3: 113)
اسی طرح بصرہ میں بھی ایک فتنہ پرداز جماعت پیدا ہوگئی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں سے بھی کچھ آدمیوں کو ملک بدر کرادیا۔ لیکن فتنہ کی آگ اس حد تک بھڑک چکی تھی کہ یہ معمولی چھینٹے اس کو بجھا نہ سکے بلکہ یہ انتقال مکانی اور بھی، ان خیالات کے فروغ کا سبب بن گئی۔
مصر سازش کا سب سے بڑ امرکز تھا، مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودی تھے، ایک یہودی النسل نو مسلم عبداللہ بن سبا نے اپنی حیرت انگیز سازشانہ قوت سے مختلف الخیال مفسدوں کو ایک مرکز پر متحد کردیا۔
مفسدین کی جماعت تمام ملک میں پھیلی ہوئی تھی اور ان میں سے ہر ایک کا مطمع نظر مختلف تھا اور آئندہ خلیفہ کے انتخاب کے بارے میں بھی ہر ایک کی نظر الگ الگ شخصیتوں پر تھی۔ اہل مصر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقیدت مند تھے۔۔۔ اہل بصرہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرف دار تھے۔۔۔ اہل کوفہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پسند کرتے تھے۔۔۔ اہل عراق کی جماعت تمام قریش سے عداوت رکھتی تھی۔۔۔ اور ایک جماعت سرے سے عربوں ہی کے خلاف تھی لیکن امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معزولی اور بنو امیہ کی بیخ کنی پر سب باہم متفق تھے۔ عبداللہ بن سبا نے بڑی حکمت عملی سے ان اختلافات سے قطع نظر کرکے سب کو ایک مقصد یعنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مخالفت پر متحد کردیا اور تمام ملک میں اپنے داعی اور سفیر پھیلادیئے تاکہ ہر جگہ فتنہ کی آگ بھڑکا کر بدامنی پیدا کردی جائے اور اس مقصد کے حصول کے لئے داعیوں کو حسب ذیل طریقوں پر عمل کی ہدایت کی:
- بظاہر متقی و پرہیزگار بننا اور لوگوں کو وعظ و نصیحت سے اپنا معتقد بنانا۔
- عمال کو تنگ کرنا اور ہر ممکن طریقہ سے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا۔
- ہر جگہ امیرالمومنین کی کنبہ پروری اور ناانصافی کی داستانیں مشتہر کرنا۔
ان طریقوں پر نہایت مستعدی کے ساتھ عمل کیا گیا۔ ولید بن عقبہ والی کوفہ پر شراب نوشی کا الزام لگایا اور حد بھی جاری کی گئی جو درحقیقت ایک بڑی سازش کا نتیجہ تھا۔۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی بصرہ کی معزولی بھی ان ہی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھی۔
31ھ میں جب قیصر روم نے پانچ سو جنگی جہازوں کے بیڑے کے ساتھ اسلامی سواحل پر حملہ کیا اور مسلمان بڑے خوف وہراس میں مبتلا ہوگئے، اس وقت بھی یہ لوگ اپنی فتنہ انگیزی سے باز نہ آئے۔ حتی کہ محمد بن ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مفسدین کے دام تزویز میں پھنس چکے تھے۔ مدینہ منورہ بھی مفسدین سے خالی نہ تھا، کبار صحابہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اس لئے اعلانیہ اس جماعت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ البتہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخیر عہد یعنی 35ھ میں مفسدین مدینہ اس قدر بے باک ہوگئے کہ بیرونی مفسدوں کی مدد سے ان کو خود امیرالمومنین پر بھی دست ستم دراز کرنے کی جرات ہوگئی۔
(ابن اثير، 3: 127)
محاصرہ
مذکورہ بالا فتنہ انگیز لوگ اپنے ناجائز مطالبات منوانے کے لئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر دباؤ ڈالتے مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کمال جرات کا مظاہرہ فرماتے ہوئے ان کو تسلیم کرنے سے انکار فرمادیتے۔ مصر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی نظام مملکت میں بے جا دخل اندازی کی کوشش کی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انکار پر انہوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ ابتداء میں یہ محاصرہ نرم تھا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں آتے جاتے اور نماز کی امامت فرماتے اور یہ فتنہ پرور لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں نماز بھی ادا فرماتے۔ لیکن بعد ازاں انہوں نے اس محاصرہ کو مزید سخت کردیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر سے نکلنے پر بھی پابندی لگادی اور ان کا اپنا امیر غافقی امامت کرنے لگا۔
(تاريخ طبری، 3: 354)
ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکان کی چھت پر چڑھ کر باغیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو مسجد کی جگہ تنگ تھی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کون اس زمین کو خرید کر وقف کرے گا؟ تو میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی۔ اب تم مجھے اس مسجد میں نماز پڑھانے سے روکتے ہو۔۔۔؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مدینہ میں بئر رومہ کے سوا اور کوئی میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا اور یہ کنواں یہودی کی ملکیت تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کون اس کنویں کو خرید کر عام مسلمانوں کے لئے وقف کرے گا اور اس کو اس سے بہتر جنت میں صلہ ملے گا۔ تو میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی اور آج تم نے مجھے اسی کے پانی پینے سے محروم کردیا۔۔۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ تبوک کے لئے امداد کی اپیل کی تو میں نے سب سے زیادہ اس میں امداد کی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو جنت کی بشارت دی۔ باغیوں نے بیک زبان ہوکر کہا: آپ سچ فرمارہے ہیں۔۔۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ احد پر تشریف لے گئے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ابوبکر، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور میں تھا۔ کوہ احد لرزنے لگا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: احد ٹھہر جا! اس وقت تیری پشت پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔۔۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا تمہیں یاد ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ میں مجھے سفیر بناکر مکہ بھیجا تھا اور بیعت رضوان میں اپنے ایک ہاتھ کو میرا ہاتھ قرار دیا تھا اور میری طرف سے خود ہی بیعت کی تھی۔ سب نے کہا: آپ سچ فرمارہے ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد1، الرقم: 420)
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تقریر کا مقصد صرف باغیوں کے ضمیر کو جگانا تھا اور انہیں یہ سوچنے پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ کس کے ساتھ یہ معاملہ کررہے ہیں۔ لیکن ان کا ضمیر مردہ ہوچکا تھا۔ اس لئے وہ ہر سوال کا جواب اثبات میں دینے کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہے اور ان کا یہی مطالبہ تھا کہ امیرالمومنین حضرت عثمان غی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت سے دستبردار ہوجائیں۔ لیکن امیرالمومنین نے ان کا یہ مطالبہ سختی سے مسترد کردیا۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشورہ
محاصرہ کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ امیرالمومنین تین صورتیں ہیں، ان میں سے کسی ایک کو اختیار کیجئے:
- آپ کے پاس طاقت ہے، آگے بڑھیں اور ان باغیوں کا مقابلہ کیجئے۔
- یہاں سے نکل کر مکہ معظمہ چلے جایئے۔
- حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس شام چلے جایئے۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جواب دیا کہ میں آپ کی تینوں باتوں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں اس لئے کہ
- میں ان کا مقابلہ نہیں کروں گا کیونکہ میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ پہلا خلیفہ بننا گوارا نہیں کرسکتا جس کے ہاتھوں امت میں خونریزی کا آغاز ہوا ہو۔
- اگر میں مکہ معظمہ چلا جاؤں تو اس کی امید نہیں کہ یہ لوگ حرم الہٰی کی توہین نہیں کریں گے اور جنگ سے باز آجائیں گے، میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشنگوئی کے مطابق وہ شخص بننا نہیں چاہتا کہ جو مکہ جاکر اس کی بے حرمتی کا باعث ہو۔
- میں شام نہیں جاؤں گا، مجھے معلوم ہے کہ وہاں معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود ہیں اور وہاں کے لوگ بھی وفادار ہیں لیکن رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دار ہجرت سے جدائی اور دوری کس طرح منظور کرسکتا ہوں۔ (ایضاً)
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عام مسلمانوں کی خاصی جمعیت موجود تھی۔ انہوں نے آپ سے ان باغیوں سے لڑائی کی اجازت طلب کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر لڑائی مقصود ہے تو میں اس کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا، اس وقت میرا سب سے بڑا مددگار وہ ہے جو میری مدافعت میں تلوار نہ اٹھائے۔
(طبقات ابن سعد، 3: 48)
باغیوں کے محاصرہ کو چالیس دن گزر گئے تھے۔ آپ تک سامان خوردونوش پہنچانا مشکل تھا۔ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ کھانے پینے کی اشیاء لے کر آئیں مگر باغیوں نے انہیں بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی لے کر آئے تو باغیوں نے نیزوں سے پانی کی مشکیں پھاڑ ڈالیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت
پچاس دن تک حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی مکان میں قید رہے، اس عرصہ میں برابر روزہ رکھتے رہے۔ ایک رات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تشریف لائے اور فرمایا اے عثمان! کیا تمہیں بہت بھوک لگی ہے؟ تم نے چالیس دن تک روزہ رکھا، اے عثمان! کل روزہ تم ہمارے پاس آکر کھولو گے، ہم حوض کوثر سے تمہارا روزہ کھلوائیں گے، اے عثمان! کل تم شہید کئے جاؤ گے اور تمہارے خون کا پہلا قطرہ قرآن کی آیت: فسيکفيکهم الله وهو السميع العليم پر پڑے گا۔
مصنف ’’البدایہ‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازہ پر حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کئی دوسرے حضرات پہرہ دے رہے تھے۔ باغیوں نے حملہ کیا۔ ان لوگوں نے مدافعت کی لیکن یہ حضرات زخمی ہوئے اور باغیوں کے چار آدمی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوگئے۔ کنانہ بن بشر نے آگے بڑھ کر پیشانی مبارک پر لوہے کی لٹھ اس زور سے ماری کہ پیشانی سے خون نکل آیا اور آپ زمین پر گرپڑے اور زبان سے بے ساختہ نکلا ’’بسم اللہ توکلت علی اللہ‘‘ اور اس کے ساتھ ہی پیشانی سے خون داڑھی سے ٹپک کر قرآن مجید پر بہنے لگا۔ یہاں تک کہ آیت
’’فسيکفيکهم الله وهو السميع العليم‘‘
پس اب اللہ تعالیٰ آپ کو اُن کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہوگا اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ پر پہنچ کر رک گیا۔
اس کے بعد سودان بن احمر نے تلوار کا وار کیا اور عمرو بن الحمق نے سینہ پر بیٹھ کر نیزہ سے مسلسل کئی بار حملہ کیا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ نے تلوار کے وار کو روکنا چاہا تو ان کے ہاتھ کی تین انگلیاں کٹ گئیں۔ اسی حالت میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ عظیم حادثہ جمعہ کے دن عصرو مغرب کے درمیان 18 ذی الحجہ 35ھ کو پیش آیا۔