ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین۔ معاون: محمد شعیب بزمی
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا.
’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے‘‘۔
(الاحزاب: 33)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا پر مادیت کا غلبہ ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں صرف لوگوں کی عملی اور اخلاقی زندگیاں ہی متاثر نہیں ہورہیں بلکہ لوگوں کے عقائد اور افکار و نظریات تک بھی متاثر ہورہے ہیں۔ جب انسان کے فکر، عقیدہ اور نظریہ میں مادیت کا غلبہ بڑھتا ہے تو اس عقیدے سے ہر وہ پہلو جس کا تعلق روحانیت اور روحانی اقدار و روایات کے ساتھ ہوتا ہے، وہ پہلو کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ شخص جدیدیت کی سوچ Modernistic Approach کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ جدیدیت بھی تجدد پسندی کی شکل میں ہوتی ہے جس میں مادیت (Materialism)، جدیدیت (Modernism) اور لامذہبیت (Secularism) تینوں اکٹھی ہوتی ہیں۔ ان تینوں کا اختلاط ہماری ایمانی زندگی کو متاثر کررہا ہے اور یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔
جدیدیت (Modrenism) اور ماڈرن ہونے کے تقاضوں Modernistic Approach کو پورا کرنے میں اصلاً خرابی نہیں ہے۔ لیکن جب جدیدیت (Modernism) نظریہ اور عقیدہ بن جاتی ہے تو پھر اس سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
اسی طرح زندگی کی Secular ضروریات بھی ہیں، جن کا پورا کرنا بھی اشد ضروری ہے، اس لئے کہ دین Secular ضروریات کو نظر انداز نہیں کرتا۔ دین صرف مذہبی پہلو (Religious Aspects) کی تکمیل نہیں کرتا بلکہ دنیاوی پہلو Secular Aspects سے بھی مخاطب ہوتا ہے۔ مگر جب Secularism اپنی انتہاء پر چلی جائے تو وہ لامذہبیت میں بدل جاتی ہے، جس سے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے۔
اسی طرح مادیت (Materialism) ہے۔ ہمارا جسم مادہ ہے اور روح کے اوپر ایک غلاف کی مانند ہے۔ روح اور مادہ دونوں کے امتزاج سے انسان بنتا ہے۔ روح سے روحانیت جنم لیتی ہے جبکہ مادہ سے مادیت جنم لیتی ہے۔ اصلاً مادیت بھی بری چیز نہیں مگر مادیت جب فکر، فلسفہ، نظریہ اور عقیدہ بنتی ہے یعنی ہمارے افکار اور عقیدے پر اثر انداز ہوتی ہے تو پھر یہ بھی فتنہ بن جاتی ہے۔
جس سوچ، عقیدے اور نظریہ میں جس بھی دور میں یہ تینوں چیزیں ’’جدیدیت، لامذہبیت اور مادیت‘‘ اکٹھی ہوجاتی ہیں تو وہاں اعتقادی، اخلاقی اور ایمانی اعتبار سے بہت بڑا فتنہ وجود میں آتا ہے۔ آج مسلمانوں کی اعتقادی، روحانی، ایمانی، اخلاقی، عملی زندگی اس فتنے سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ مادی ضرورتوں، جدید دور کے جملہ تقاضوں اور غیر مذہبی گوشہ ہائے حیات کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہماری مرکزیت ایمان، روحانیت، قرآن و سنت اور روحانی اقدار پر قائم رہنی چاہئے، اس سے اعتدال قائم ہوتا ہے۔
جس طرح روح اور جسم کے مرکب کو انسان کہتے ہیں، خالی جسم کو بھی انسان نہیں کہتے، فقط روح ہو جسم نہ ہو، تب بھی انسان نہیں کہتے۔ اسی طرح روحانی اور مادی (دنیوی) دونوں تقاضے بتمام وکمال اکٹھے ہوں تو دین اور مذہب کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور انسان صحیح ڈگر پر رہتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک تقاضا بھی چھوٹ جائے یا کمزور پڑجائے تو انسان اپنا توازن کھودیتا ہے اور سوچ، فکر، عقیدہ اور عمل میں غیر متوازن ہوجاتا ہے۔
اسی لئے اللہ رب العزت نے امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا:
اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ.
’’ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو ‘‘۔
(البقرة، 2: 143)
اگر امت مسلمہ انسانیت کی قیادت کرنا چاہتی ہے تو اسے امت وسط ہونا چاہئے۔ اعتدال پر قائم رہنے والی ایسی امت بننا ہوگا جو اپنا توازن نہ کھوئے۔
مادیت، لامذہبیت اور جدیدیت کے اثرات
مادیت (Materialism) لامذہبیت (Secularism) اور جدیدیت (Modernism) اصلاً ان تینوں چیزوں کو میں برا نہیں سمجھتا مگر جب ان تینوں چیزوں کا امتزاج برے طریق سے ہوتا ہے تو اس کے نتیجہ میں عقائد میں تغیر آتا ہے اور ایسا ہوتا ہوا ہم گذشتہ کئی دھائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس موقع پر آپ کو ایک نصیحت کرنا چاہوں گا اور یہ الفاظ میرے والد گرامی حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ مجھے بطور نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ ’’بیٹے! گھر، لباس، گاڑی، گھڑی اور ضروریات زندگی کی مختلف اشیاء جو جو چیز بھی مارکیٹ میں نئی آئے، استفادہ و استعمال کے لئے لے لیں، کسی شے کے نئے ماڈل لینے میں گناہ اور حرج نہیں مگر صرف عقیدہ نیا نہ لینا، عقیدہ وہی رکھنا جو پرانے لوگوں کا تھا‘‘۔
ہر نئی شے لینے سے آپ ترقی یافتہ ہوتے چلے جائیں گے، دنیا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے جائیں گے جبکہ عقیدہ پرانا رکھنے سے آپ ایمان پر قائم رہیں گے۔ عقیدہ و ایمان کے حوالے سے جتنی نئی باتیں آپ سنتے ہیں، وہ سب نئے فتنے ہیں۔ روایات میں جو طور طریقے ہماری پچھلی نسلوں میں ائمہ، محدثین اور صلحاء کے تھے، ان کو ترک نہ کریں کیونکہ انہوں نے ان عقائد کو اپنی پہلی نسلوں سے لیا تھا۔ ہر پچھلا دور ہماری نسبت آقا علیہ السلام کے دور کے قریب تھا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
خَيْرُالْقُرُوْنِ قَرْنِيْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ وَهُمَا.
’’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر اُن کا جو ان سے ملے ہوئے ہیں اور پھر اُن کا جو اِن سے ملے ہوئے ہیں‘‘۔
(شرح فتح القدير، ج7، ص378)
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام اور اہل بیت کا زمانہ سب سے بہتر ہے۔ پھر وہ زمانہ بہتر جنہوں نے ان (صحابہ و اہل بیت) کو پایا۔ یعنی تابعین، پھر ان لوگوں کا دور جنہوں نے تابعین کو پایا اور وہ تبع تابعین کا دور تھا۔
حدیث کی ظاہری نص کا اطلاق تو صاف ظاہر ہے قرن ثلاثہ (تین زمانوں) عہد صحابہ، عہد تابعین اور عہد تبع تابعین پر ہوتا ہے۔ مگر اس سے ایک اصول نکلتا ہے کہ ان تین زمانوں کو یا آخری تیسرے زمانے کو فضیلت ملنے کی وجہ یہ ہے کہ جس زمانے کو جتنا قرب زمانہ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زمانہ نبوت سے تھا وہ زمانہ اتنا افضل ہوگیا۔ اس اصول کا اطلاق جب ہم صدیوں پر کریں گے تو جو صدی آقا علیہ السلام کی صدی سے جتنی قریب تھی وہ پچھلی صدیوں سے اتنی بہتر ہو گی۔
افسوس! آج یہ تصور دیا جاتا ہے کہ ’’پہلے لوگ جاہل تھے، قرآن و سنت کا علم ہمارے پاس ہے۔ لہذا اسلاف کی روش پر نہ چلو‘‘۔ یاد رکھیں! یہی طور طریقے ہمیشہ حق کو رد کرنے والوں کے رہے ہیں۔ دین اور ایمان کے معاملے میں پہلے لوگوں کے پاس وراثت Legacy تھی اور وہ وراثت آقا علیہ السلام کی امت میں تسلسل سے چلی آرہی تھی، نتیجتاً امت خیر پر رہی۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَنْ يَحْمَعَ اللّٰهُ اُمَّتِيْ عَلَی الضَّلاَلَةِ اَبَدًا.
’’اللہ تعالیٰ میری امت کو من حیث المجموع کبھی گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا‘‘۔
(المستدرک علی الصحيحين، ج1، حديث نمبر394)
یعنی تسلسل کے ساتھ زمانوں میں میری امت خیر پر برقرار رہے گی گویا خیر کی Legacy اور ایک تسلسل ہے جو صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ لہذا عقیدہ وہی اچھا ہے جو پہلے لوگوں کا تھا۔ جو نئی چیز عقیدے میں داخل کرے اور کہے کہ پچھلے لوگ جاہل تھے، مشرک، بدعتی اور ناواقف تھے، قرآن و سنت کا مکمل علم ان کے پاس نہ تھے، اب ہم محقق ہوگئے ہیں، علم تک ہماری رسائی زیادہ ہے، ہماری بات مانو تو اس موقع پر میں کہوں گا کہ دنیا کے ہر معاملے میں ان کی بات بھلے مانتے پھرو مگر دین اور عقیدے میں ان کی بات نہ مانو۔ دین اور عقیدے میں وہی اچھا ہے جو پرانا تھا۔ دنیا میں وہی اچھا ہے جو نیا ہے جبکہ عقیدہ اور دین میں وہی اچھا جو پرانا تھا۔ سائنس ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، میڈیکل الغرض ہر چیز میں بہتری آگے جانے کی طرف ہے جبکہ دین میں آگے جانا گمراہی، فتنوں اور کفر کی طرف جانے کے مترادف ہے۔ دین کی اصل اور بنیاد کے لئے جتنا پیچھے کی طرف جائیں گے، منبع ہدایت حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ، اولیاء اور صالحین کی صدیوں کی طرف بڑھتے جائیں گے۔
یہ تمام بات تمہید یہ سمجھانے کے لئے کی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عقائد میں تغیرات آرہے ہیں۔ مثلاً لوگ آج حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے، اسے Celebrate کرنے پر اعتراض کرتے ہیں اور اسے غیر متعلقہ Irrelevant سمجھتے ہیں۔ حالانکہ میلاد صدیوں سے پوری امت مسلمہ Celebrate کرتی آرہی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں نے اس کو تخلیق نہیں کیا بلکہ مکہ و مدینہ اور عرب و عجم کے لوگ ہمیشہ سے اس کا انعقاد و اہتمام کرتے آرہے ہیں اور یہ اسلام کی وراثت (Legacy) ہے۔ اسی طرح یہی معاملہ ذکرِ امام حسین علیہ السلام کا ہے۔ اگر 50/40 سال پیچھے چلے جائیں تو ہمارے ذہن میں زمانہ ماضی کی یہ چیزیں ابھی تک ثبت ہوں گی کہ کوئی علاقہ، گوشہ، خطہ ایسا نہ تھا کہ جب محرم کے ایام آتے یا شب عاشور آتی تو ہر مسجد، ہر گلی و کوچہ، ہر جگہ ذکرِ امام حسین علیہ السلام کی محافل نہ ہوتی ہوں۔ شہادت امام حسین کے جلسے ہوتے، اہلسنت اپنے عقیدہ و مسلک اور اپنے طور طریقے کے مطابق اور اہل تشیع اپنے عقیدہ و مسلک اور روایت و طریقے کے مطابق ان ایام کو مناتے۔
حُب اہلِ بیت، فتوؤں کی زد میں
اہل تشیع تو بدستور آج بھی اپنی روایت اور اپنے طریقے کے مطابق ان ایام کو مناتے چلے آرہے ہیں۔ مگر بدنصیبی کہ خارجیت، مادیت اور لامذہبیت نے اہلسنت کے عقائد پر گرد ڈال دی۔ جس ذوق و شوق اور رغبت و محبت سے اہل سنت والجماعت کے ہاں کثرت سے ذکر حسین علیہ السلام کا اہتمام ہوتا تھا، اجتماع ہوتے تھے اب وہ جوش و خروش، تسلسل اور کثرت نہیں رہی۔ بدقسمتی سے پچھلے 20, 30 سال کے اندر اس چیز کو فروغ دیا گیا کہ جو ماہ محرم میں یا شب عاشور کو شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کا جلسہ، مجلس، اجتماع یا ذکر کرے تو گویا وہ شیعہ ہے یا اس کے اندر تشیع ہے۔ سن لیں! یہ کہنے والے فتنہ پرور لوگ ہیں۔ اس سوچ کو فروغ دینے والے ہر گز اہلسنت والجماعت نہیں، وہ خارجی المذہب ہیں اور خوارج ہیں۔ انہوں نے اہلسنت کے عقائد کو پراگندہ کرنے اور اِن کے دلوں سے حُب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حُب اہل بیت علیہ السلام نکالنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ذکر حسین علیہ السلام کو صرف اہل تشیع کے کھاتے میں ڈال رکھا ہے کہ یہ ان کا کام ہے اور اگر اہل سنت ذکر حسین علیہ السلام کریں گے تو گویا وہ شیعہ ہیں۔
افسوس! لوگوں کے اندر اتنی اخلاقی کمزوری آچکی ہے کہ وہ اس تہمت کے ڈر کی وجہ سے ذکر حسین علیہ السلام کی مجالس کا جرات کے ساتھ اہتمام نہیں کرتے حالانکہ تہمتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔ پس لوگوں کی تہمت کے ڈر سے ہم میں سے کئی ذکر امام حسین علیہ السلام کی محافل منعقد نہیں کرتے اور نہ ان میں شریک ہوتے ہیں کہ لوگ شیعہ سمجھیں گے، فلاں مولوی یہ کہہ دے گا، شور مچ جائے گا، فلاں جماعت یہ کہہ دے گی، فلاں تحریک اور فلاں تنظیم یہ کہہ دے گی۔ یاد رکھیں! فتنہ بپا کرنے والے، جھوٹے فتوے لگانے والے، شرانگیزی کرنے والے، لوگوں کے عقائد کو طرح طرح کے حملے سے منتشر کرنے والے اور راہ حق سے ہٹانے والے لوگ ہمیشہ دنیا میں رہے ہیں۔ خارجی فکر تو تسلسل سے ہر صدی میں موجود رہی ہے۔ آج جن لوگوں نے مسلمانوں اور امت مسلمہ کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، وہ یہی خارجی ہیں جنہوں نے امن کی راہ چھوڑ دی ہے۔ یہ حُب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حُب اہلبیت کے خلاف ایک محاذ ہے۔ اہلسنت والجماعت کو فقط حُب صحابہ تک محصور کردیا ہے جبکہ اہل سنت والجماعت کا تشخص یہ تھا کہ حُب اہل بیت اور حُب صحابہ دونوں کو جمع کرنا اہل سنت کے ہاں ایمان تھا۔ دونوں کو جمع رکھنا یہ اہلسنت کا امتیاز اور تشخص تھا۔ آج اہل بیت کی محبت اور مؤدت کے ذکر کو بتدریج مختلف حیلوں بہانوں سے دلوں سے نکالا جارہا ہے۔
شب عاشور ذکر اہل بیت کیلئے خاص مگر افسوس۔۔۔
میں خود گواہ ہوں کہ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے خارجی فکر کو قبول کرلیا تھا، ذکر اہلبیت کو بہت عرصہ پہلے سے رد کرچکے تھے، جن کے ہاں خارجی فکر کا تسلسل چلا آرہا تھا، وہ بھی 8، 9 اور 10محرم کو اجتماع کرتے۔ اپنے علمائ، واعظین، خطباء اور مناظر کو بلاتے مگر شب عاشور میں ان کے خطبات کے موضوعات شہادتِ امام حسین علیہ السلام، اہل بیت کے فضائل، شہداء کربلا کی صبرو استقامت نہ ہوتا تھا بلکہ وہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب پر خطابات کرتے تھے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہوا ہے۔ موقع شہادت امام حسین علیہ السلام، شہدائے کربلائے معلی اور ذکر و مؤدت اہلبیت کا ہے، حُب اہلبیت کے پیغام کو لوگوں کے دلوں میں اجاگر کرنے کا موقع ہے مگر یہ ساری رات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں تقاریر کرتے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کرتے۔ اِن اصحابِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرنا منع نہیں، اُن کے مناقب کا اظہار مسلّمہ ہے مگر جو طریقہ و موقع ہے اس کے مطابق بات کرنا چاہئے۔
مراد یہ ہے کہ جس کی شہادت کا وقت ہے، جن کی وفات کا ذکر ہے، اس تاریخ کی مناسبت سے ان کا ذکر کیا جائے۔ جس طرح ہم اہل سنت ربیع الاول میں میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔ ربیع الثانی میں حضور سیدنا غوث الاعظم کے فضائل۔۔۔ رجب میں معراج النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔ محرم میں شہادت امام حسین علیہ السلام۔۔۔ 21 جمادی الثانی کو یوم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔ یکم محرم کو یوم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔ 18 ذوی الحجہ کو یوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔ 21 رمضان المبارک کو یوم سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔ 3 رمضان کو یوم سیدہ کائنات علیہا السلام کا اہتمام کرتے ہیں۔ یعنی جب جس شخصیت و ہستی کا موقع آئے، اس موقع پر بالخصوص ان کی یاد میں محافل کا اہتمام کیا جائے۔ یہ کیا طرزِ فکر و عمل ہے کہ موقع شہادت امام حسین علیہ السلام کا ہے، ذکر علی اکبر علیہ السلام اور ذکر علی اصغر علیہ السلام کا ہے، موقع ذکر امام زین العابدین اور ذکر سیدہ زینب علیہم السلام کا ہے، موقع ذکر اہل بیت کا ہے اور تم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کررہے ہو اور پھر بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ ان کے ساتھ بدبخت اور لعین یزید کا ذکر بھی کرتے ہیں۔
اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ خود کو اہل سنت والجماعت اور فخر سے بریلوی کہلوانے والے علماء بھی شب عاشور مناقبِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ میں نے خود کچھ عرصہ قبل اس طرح کے ایک نامور مناظر عالم دین کا شب عاشور کے موقع پر اس موضوع پر خطاب انٹرنیٹ پر دیکھا اور سنا۔ ایسے لوگوں کے عقیدے اور ایمان کی موت واقع ہوگئی ہے۔ ایسے موقع پر اس ذکر کرنے کا سبب بغضِ اہل بیت کے سواء کچھ نہیں ہے۔ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعظیم و تکریم اور احترام کرتا ہوں۔ ہر بار ان کے اسم گرامی کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہتا ہوں۔ ہم ان پر سب و شتم اور لعن طعن کو حرام جانتے ہیں۔ صحابی رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی وجہ سے سکوت اور خاموشی کو واجب جانتے ہیں۔ مگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر حضرت امیر معاویہ علیہ السلام کے مناقب کے بیان کا باہمی کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ ایسے موقع پر اگر ان کے مناقب بیان کئے جارہے ہوں تو تھوڑی سی عقل سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی جان جاتا ہے کہ اس کا سبب فقط بغضِ اہل بیت ہے۔ دلوں سے حُب اہل بیت نکالی جارہی ہے اور بغضِ اہل بیت داخل کیا جارہا ہے۔
ذکرِ حسین علیہ السلام، عمومِ سنتِ الہٰیہ میں شامل ہے
نہ جانے کتنے لوگ اس فتنے، شر اور خارجیت کی اس گرد سے متاثر ہوچکے ہوں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ذکر امام حسین علیہ السلام کیوں ضروری ہے؟ اگر ذکر امام حسین علیہ السلام ضروری نہیں اور شہادت امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ اور ذکر اہل بیت ضروری نہیں تو پھر آقا علیہ السلام کی امت میں کسی کا ذکر بھی ضروری نہیں ہے کیونکہ ذکر حسین علیہ السلام حقیقت میں خود ذکر مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ شہادت امام حسین علیہ السلام حقیقت میں سیرت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب ہے۔ یہ واحد ایک ایسی شہادت ہے جس کا تفصیلی ذکر خود آقا علیہ السلام نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے فرمایا۔
اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور صلحاء بندوں کا ذکر کرنا سنت الہٰیہ ہے۔ ذکر حسین علیہ السلام کرکے درحقیقت ہم سنت الہٰیہ پر عمل پیرا ہیں۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جابجا اپنے نیک و صلحاء بندوں کے ذکر کرنے کا حکم دیا۔ کبھی فرمایا:
وَاذْکُرْ عِبٰـدَنَآ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ اُولِی الْيْدِيْ وَالْاَبْصَارِ...
کبھی فرمایا:
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ اِنَّـهُ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا...
کبھی فرمایا:
وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِيْسَ...
گویا اللہ پاک نے اپنے محبوب بندوں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاقٰ علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام کے ذکر کا حکم دیا۔ قرآن مجید میں صرف ان بندوں کے ذکر کا حکم ہی نہیں دیا گیا بلکہ کثرت کے ساتھ ان کے اذکار بھی آئے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جابجا کثرت کے ساتھ قرآن مجید میں اپنی ان نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو ان بندوں پر فرمائیں۔ یعنی ان کا ذکر بھی کیا اور ان پر جو نعمتیں کیں ان کا ذکر بھی کیا، تاکہ ان کی شانیں اجاگر ہوں۔ حتی کہ ان کے ساتھ جنہوں نے دشمنی کی، ان کے مظالم کا ذکر بھی کیا۔ یہ مظالم کرنے والے اپنے اپنے دور کے یزید ہی تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کا یزید، نمرود تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کا یزید فرعون تھا۔
درحقیقت ہم ذکر حسین علیہ السلام سے اللہ رب العزت کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ ہم اللہ کے محبوب بندے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شان و عظمت کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ آپ علیہ السلام کی صبرو استقامت کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ آپ علیہ السلام پر اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ آپ علیہ السلام کے دشمن یزید کے ظلم اور جبر کا ذکر کرتے ہیں، یعنی عین وہ عمل جو قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اپنے محبوبوں کے ساتھ کیا ہے ہم بھی اسی سنت الہٰیہ پر عمل کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں فرعون کے مظالم کا ذکر یوں بیان ہوا۔ ارشاد فرمایا:
وَاِذْ نَجَّيْنٰـکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَ کُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَآءَکُمْ.
’’اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قومِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے‘‘۔
(البقرة: 49)
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو نعمتیں کیں، اُن کو بیان فرمایا:
وَظَلَّلْنَا عَلَيْکُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی.
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے تم پر (وادی تِیہ میں) بادل کا سایہ کیے رکھا اور ہم نے تم پر مَنّ و سلوٰی اتارا‘‘۔
(البقرة: 57)
ان تمام تذکروں کو علوم القرآن میں علم التذکیر بالآ للہ کہتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کے علوم اور مضامین میں سے ہے۔ اسی طرح علم التذکیر بایام اللہ ہے۔ خاص خاص ایام کا ذکر کرنا، خاص خاص واقعات کا ذکر کرنا، خاص خاص ہستیوں کا ذکر کرنا، ان کے ساتھ بیتے ہوئے واقعات کا ذکر کرنا یہ سب قرآن مجید کے مضامین کا حصہ ہیں۔ واقعہ کربلا چونکہ نزول وحی قرآن کے ختم ہوجانے کے بعد ہوا لہذا یہ عموم سنت الہٰیہ کے تحت آئے گا۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور دیگر تفصیلات بیان کیں۔۔۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اللہ کی راہ میں ذبحِ ہونے کو بیان فرمایا اور اُسے ذبح عظیم قرار دیا۔ وہ نبوتِ ابراہیمی علیہ السلام کی ذبح عظیم ہے اور شہادت حسین علیہ السلام نبوتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، رسالت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذبحِ عظیم ہے۔ ذبحِ اسماعیل کے سلسلہ میں خواب سنانا۔۔۔ بیٹے کی طرف سے خواب پر عملدرآمد کا کہنا۔۔۔ منیٰ کے میدان میں شیطان کا آنا۔۔۔ آپ علیہ السلام کا شیطان کو کنکریاں مارنا۔۔۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زمین پر لٹانا اور چھری چلانا۔۔۔ باپ اور بیٹے کا آپس میں کلام کرنا۔۔۔ یہ تمام جزئیات تک قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔۔۔؟ کیا قرآن مجید کوئی ناول ہے معاذ اللہ؟ کیا قرآن مجید کوئی تاریخ کی کتاب ہے؟ کیا قرآن مجید کچھ لوگوں کی Biography ہے؟ ان چھوٹے چھوٹے واقعات کو بیان کرنے کا آخر مقصد کیا ہے؟ ایک آیت میں مختصر بات بھی تو ہوسکتی تھی۔
امام حسین علیہ السلام، مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوسف ہیں!
اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور پھر سب سے بڑھ کر حضرت یوسف علیہ السلام کا تفصیلی ذکر بھی اسی انداز میں ملتا ہے کہ جزئیات تک کو بیان کیا گیا۔ سورۃ یوسف قرآن مجید کی سورہِ محبت ہے، جو آدابِ محبت اور طہارت محبت سکھاتی ہے۔ سورہ یوسف کی روشنی میں تذکرہ کربلا اور ذکر حسین علیہ السلام کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ وہ یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب کے یوسف ہیں، جبکہ حسین علیہ السلام، مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوسف ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت یعقوب کے یوسف علیہ السلام کا ذکر اتنا زیادہ کرے جبکہ امت مسلمہ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوسف کا ذکر کرنے سے کترائے اور گھبرائے تو ایسے تعلقِ غلامی کے دعویٰ پر لعنت ہے۔ اگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوسف کے ذکر سے کوئی گھبرائے اور کترائے تو کیسی غلامی اور کیسی نسبت؟ یاد رکھیں کہ امام حسین علیہ السلام کا جتنی بار ذکر ہوگا، خدا کی قسم! اتنی بار حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل خوش ہوگا۔۔۔ آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں نصیب ہوں گی۔۔۔ ان کے چہرہ اقدس پر فرحت و مسرتیں کھل جائیں گی کہ میرے حسین کا ذکر ہورہا ہے۔ جس کو میں کندھے پر بٹھاتا تھا۔۔۔ جس کو سینے پر لٹاتا تھا۔۔۔ جس کے منہ میں زبان ڈال کر چساتا تھا۔۔۔ جس کو اپنا سوار بناتا تھا، میری امت میرے اس حسین علیہ السلام کا ذکر کررہی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے ذکر کو کس طرح بیان فرمایا۔ آیئے اس کی ایک جھلک دیکھتے ہیں: قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی خواب کا ذکر۔۔۔ بھائیوں کے ناروا سلوک کا ذکر۔۔۔ بھائیوں کے شکار کرنے کا ذکر۔۔۔ باپ سے جو گفتگو ہوتی ہے، ان کلمات کا ذکر۔۔۔ باپ کے ڈر اور خدشہ کا ذکر کہ بھیڑیا کھا جائے گا۔۔۔ جنگل میں بے آباد کنویں میں گرانے کا ذکر۔۔۔ جھوٹا خون لگانے کا ذکر۔۔۔ قافلے کے آنے کا ذکر۔۔۔ کنویں سے نکالے جانے کا ذکر۔۔۔ مصر میں بیچ دینے کا ذکر۔۔۔ آپ کے جوان ہونے تک کا ذکر۔۔۔ عزیز مصر کی بیوی کے آپ پر فریفۃ ہونے کا ذکر۔۔۔ اس کے مطالبہ پر آپ کے بچ کر چلے جانے کا ذکر۔۔۔ قید کا ذکر۔۔۔ خواب کی تعبیر بتانے کا ذکر۔۔۔ قید سے باہر نکلنے کا ذکر۔۔۔ مصر کی عورتوں کو بلوا کر ان کو پھل تھمائے جانے اور چھریاں دیئے جانے کا ذکر۔۔۔ حتی کہ زنانِ مصر کی انگلیاں کٹ جانے تک کا ذکر موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام تفصیلات سے احکام شریعت اور حلال و حرام کے کون سے احکام اخذ ہوتے ہیں۔۔۔؟ کیا ان سے نماز، روزہ، حج زکوٰۃ کی تعلیمات میسر آتی ہیں۔۔۔؟ کیا توحید، رسالت، ایمان باللہ، ایمان بالآخرت، ایمان بالملائکۃ، ایمان بالوحی اور ایمان بعث بعد الموت کے عقائد معلوم ہوتے ہیں۔۔۔؟ اگر بے شمار چیزیں جو بنیادی اور اساسی نوعیت کی ہیں اگر وہ براہ راست ان واقعات سے متعلق نہیں ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو کیوں بیان فرمایا ہے؟ پوری سورت کا ایک زیادہ حصہ ان واقعات پر مشتمل ہے، کیوں؟ انگلیاں کٹنے کے واقعے سے شریعت کے کتنے حلال و حرام، فرائض واجبات اور سنتیں معلوم ہوتی ہیں؟
دراصل ان آیات میں مذکور جزئیات سے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر، طہارت، استقامت، عظمت، شان اور مضبوطی کردار کا پتہ چلتا ہے۔ ان تمام تفصیلات سے یہ سنت بنائی جارہی ہے کہ میرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی ایک یوسف ہوگا۔ بنی اسرائیل کے زمانے کے یعقوب علیہ السلام کے یوسف کا ذکر جس طرح میں نے قرآن مجید میں کیا، اس طرح جب میرے محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوسف آئے اور وہ مدینے سے چل کر کربلا پہنچے تو اس کا سفر بھی غیر آباد کنویں سے نکل کر مصر میں بکنے تک کے سفرِ یوسف سے کم نہ ہوگا۔ وہ مصر میں بکا ہے اور اس حسین، یوسف محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر نیزے پر چڑھا ہے۔۔۔ اس نے بھی کربلا سے کوفے اور دمشق تک کا سفر کیا ہے اور لٹا قافلہ لے کر یہاں بھی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کوفہ اور دمشق سے واپس مدینہ پہنچی ہیں۔
اللہ نے سب کچھ اس لئے بیان کیا کہ میری سنت کو دیکھ لینا اور میرے طریقے کا حیاء کرنا۔ اگر میں یوسفِ یعقوب علیہ السلام کا ذکر یوں کررہا ہوں تو تم بھی عمر بھر یوسفِ محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اس طرح کرنا۔ حضرت یوسف علیہ السلام خدا کے محبوب بندے ہیں، مشکلات سے گزرے ہیں لہذا رب نے ان کی ساری مشکلات کو قرآن کا مضمون بنادیا ہے۔ ذرا سوچیے! حسین علیہ السلام سے زیادہ محبوب اس امت میں مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور کون ہوگا؟ کربلا امام حسین علیہ السلام پر آنے والی مشکلات و مصائب کی ایک داستان ہے۔ اس کے ذکر کرنے سے خدا اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنے خوش ہوں گے اس کا اندازہ لگانا ہی ناممکن ہے۔
ذکر حسین علیہ السلام ایمان میں استحکام کی علامت
چونکہ شہادت امام حسین کا ذکر آقا علیہ السلام نے کئی مرتبہ خود کیا اور احادیث نبوی میں مذکور ہے تو گویا ذکر شہادتِ حسین حدیث و سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے۔ یعنی عمومِ سنت کے معنی میں یہ سنت الہٰیہ میں سے ہے جیسے سورۃ یوسف کے اطلاق کے ذریعہ بیان کیا اور واضح طور پر یہ سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
یاد رکھ لیں کہ ان ہستیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا، ان کی شان، عظمت، عزم و استقامت، صبرو استقلال، تعلیمات اور ان کے اس پورے اقدام کی غرض و غایت کو یاد رکھنا، یہ ایمان میں استحکام کا باعث ہے۔۔۔ اس سے محبت میں مضبوطی نصیب ہوتی ہے۔۔۔ محبت کو جلا ملتی ہے۔۔۔ ایمان کو زندگی اور تازگی نصیب ہوتی ہے۔ لہذا طبیعتوں میں یہ رحجان پیدا کریں کہ جب ان کا ذکر سنیں، ان سے محبت کریں، ان کا پیغام سنیں تو جتنا ہوسکے ان کے پیغام کو زندگی میں نافذ اور جاری و ساری کریں۔ اس طرح محبت سے شروع ہونے والا سفر اتباع پر ختم ہوتا ہے۔ یعنی محبت حسین علیہ السلام اور اتباع حسین علیہ السلام دونوں یکجا ہوں تو اس ذکر کا مقصود پورا ہوتا ہے۔
محبتِ اہل بیت علیہ السلام احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف عملاً اہل بیت سے محبت و شفقت کا والہانہ اظہار فرماتے بلکہ اپنے فرامین میں صحابہ کرام علیہ السلام کے ذریعے امت مسلمہ کو بھی محبت اہل بیت کے احکامات صادر فرمائے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَنْشُدُکُمُ اللّٰه فِيْ اَهْلِ بَيْتِيْ قال مرتين.
لوگو! میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میری اہل بیت کی محبت، مودت اور ان کے ساتھ معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ سے ڈرنا اور اس کو یاد رکھنا۔ اس کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو بار دہرایا۔
(کنزالعمال، ج13، ص276، حديث نمبر3762)
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
اُذَکِّرُکُمُ اللّٰه فِيْ اَهْلِ بَيْتِيْ قال ثلاث.
میں تمہیں اپنی اہل بیت کے معاملے میں حکم دیتا ہوں کہ اللہ کو یاد رکھنا یعنی جب میری اہل بیت کا ذکر آئے تو خدا خوفی کرنا۔ یہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار کہا۔
(صحيح مسلم، ج4، حديث نمبر2408)
اس حدیث کے حوالے سے دو باتیں نہایت اہم ہیں: اول یہ کہ کسی مکتب فکر کا کوئی بھی شخص جو اہل سنت والجماعت ہونے یا سلفی ہونے یا اہل حدیث ہونے کا دعویدار ہے، وہ اس حدیث کی صحت سے انکار نہیں کرسکتا۔ یہ کسی نچلے درجے کی حدیث کی کتاب سے نہیں بلکہ صحیح مسلم کی حدیث صحیح ہے۔
دوم یہ کہ یہ جاننا ہوگا کہ یہ فرماتے ہوئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منشاء کیا تھا؟ آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو اقرباء پروری نہیں کہیں گے، اس لئے کہ اگر کوئی ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ خیال ذہن میں لائے تو وہ کافر ہوگیا اس لئے کہ یہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی ہے کہ کوئی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی حکم اور عمل کو اقرباء پروری سے معاذ اللہ منسوب کرے۔ آقا علیہ السلام کی زبان پاک سے نکلا ہوا ہر لفظ اور ہر حکم ایمان ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔
اس فرمان کے ذریعے درحقیقت آقا علیہ السلام اپنی اہل بیت کے ساتھ محبت اور مؤدت کی نہ صرف تاکید کررہے ہیں بلکہ اسے امت مسلمہ پر لازم ٹھہرا رہے ہیں۔ اب جو کوئی آقا علیہ السلام کانام لیوا ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکے اس فرمان پر عمل پیرا ہو۔ اگر کسی کے دل میں بغضِ اہل بیت ہے، ذکر حسین علیہ السلام سے انکاری ہے تو وہ آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکے اس فرمان کی روشنی میں اپنے دل سے اس کدورت کو نکال دے اور ذکر حسین علیہ السلام و مؤدت اہل بیت کے ذریعے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکے لئے فرحت و شادمانی کا باعث بنے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا:
اِنِّيْ تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقْلَيْن اِنْ اَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوْا کِتَابَ اللّٰه وَعِتْرَتِيْ اَهْلَ بَيْتِيْ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِيْ فِيْهِمَا.
’’لوگو میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، اگر تم نے اِن دونوں کو تھامے رکھا تو گمراہ نہ ہوگے: کتاب اللہ اور میری اہل بیت۔ دیکھنا! میرے بعد تم اِن دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو‘‘۔
(جامع ترمذی، ج5، ص662، حديث نمبر 3786/3788)
یعنی ان چیزوں میں بڑا عظیم وزن ہے، ان کو ہلکا نہ جاننا۔ ثقلین فرماکر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذکر، محبت اور مؤدتِ اہلِ بیت کی اہمیت کو اجاگر فرمایا کہ ان کو ہلکا نہ جاننا، اسے نظر انداز نہ کردینا، یہ نہ سمجھنا کہ یہ ضروری نہیں۔
یاد رکھیں! دین ہم نے نہیں بنایا بلکہ اللہ نے بھیجا اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں پہنچایا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محبتِ اہلِ بیت اور محبتِ حسین علیہ السلام پر رویہ، رجحان اور تعلیمات اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موضوع کو حد درجہ اہمیت دی تب ہی متعدد مواقع پر اس کی تاکید فرمارہے ہیں۔
آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث صحیح اور حکم صحیح کی روشنی میں یہ بات طے ہوئی کہ جس طرح قرآن مجید کو نظر انداز کردینا جرم ہے، اسی طرح محبت و مؤدت اہلِ بیت کو نظر انداز کردینا جرم ہے۔
قرآن مجید کو نظر انداز کرنا یہ ہے کہ کوئی قرآن کی تلاوت نہ کرے، اس سے محبت نہ کرے، اس کی تعلیم نہ لے، قرآن کو اپنی زندگی میں جاری نہ کرے، قرآن سے تعلق توڑ لے، قرآن کی طرف رجوع نہ رکھے۔ ایسا کرنے والا گمراہ ہوگیا۔ اہل بیت نبوت کو نظر انداز کرنا یہ ہے کہ ان کی محبت اور مؤدت اس کے دل میں موجود نہ ہو۔۔۔ ان کی تعظیم و تکریم نہ کرے۔۔۔ ان کے ذکر سے الفت نہ رہے۔۔۔ ان کا احترام و اکرام نہ رہے۔۔۔ انکی عظمت اور شان دل میں نہ رہے۔ ایسا کرنا بھی سراسر گمراہی ہے۔ جس طرح قرآن مجید کی تلاوت سے لذت و حلاوت ایمان نصیب ہوتی ہے اس طرح ذکر اہل بیت سے بھی دلوں میں لذت اور حلاوت آنی چاہئے۔ جس شخص کو اہل بیت کے ذکر سے حلاوت، لذت اور کیفیت محسوس نہ ہو، وہ حلاوت ایمانی سے محروم ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی لئے قرآن مجید اور اہل بیت کو اکٹھا بیان کیا کہ دیکھنا! میرے بعد ان دونوںکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو۔۔۔؟ میرا کتنا حیاء کرتے ہو۔۔۔؟
محبتِ اہل بیت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طرزِ عمل
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اہل بیت کے ساتھ کس نوعیت کا محبت و مؤدت کا رشتہ تھا۔۔۔؟ آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس سے یہ تعین ہوجائے گا کہ اس کو محض اہل تشیع کا شعار قرار دیں یا عقیدہ اہل سنت کی اساس و بنیاد مانیں۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا محبت و مودت اہل بیت کا رویہ نہایت اعلیٰ و ارفع تھا:
- حضرت عقبیٰ بن حارث روایت کرتے ہیں کہ
رايت ابي بکر رضی الله تعالیٰ عنه وحمل الحسن وهو يقول بابي شبيه بالنبي ليس شبيه بعلی وعلی يضحک
’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گلی میں جارہے ہیں اور سیدنا امام حسن علیہ السلام کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور کہہ رہے کہ مجھے اپنے باپ کی قسم! حسن، مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ ہے، علی تمہاری شبیہ نہیں ہے۔ حضرت علی یہ سن کر ہنس دیئے‘‘۔
(صحیح بخاری، ج3، ص1370، الرقم:3540/3349)
سوال یہ ہے کہ کندھوں پر اٹھا کر کیوں چل رہے ہیں؟ ان کے اپنے بیٹے بھی تھے۔ میں نے زندگی میں کسی کتاب میں نہیں پڑھا کہ وہ اپنے بیٹوں کو کندھے پر اٹھا کر گلیوں میں چل رہے ہوں۔ نواسہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا کر چل رہے ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تھا کہ وہ حسن و حسین کو کندھوں پر بٹھا کر گلی میں چلتے ہیں۔ گویا وہ سمجھتے تھے کہ حُب رسول کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت کی اس سے ہم بھی محبت کریں۔ جس کو مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کندھے پر بٹھایا اسے ہم بھی کندھے پر بٹھائیں۔
- دوسری روایت میں ہے کہ ایک کندھے پر امام حسن علیہ السلام کو اور ایک پر امام حسین علیہ السلام کو بٹھا کر گلی میں چل رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ خدا کی قسم حسن اور حسین علی کی نہیں بلکہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ ہیں۔
- ایک روایت میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرابت مجھے اپنی قرابت سے زیادہ پیاری ہے۔
- صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
اُرْقُبُوْا محمدًا فِيْ هِل بَيْتِهِ فَمَعْنَاهُ ايْ اُنْظُرُوْاهُ وَاحْسِنُوْاهُ فی اهْلِ بَيْتِی.
(صحيح بخاری ، ص1370، حديث نمبر3541)
یعنی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت میں مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنا۔۔۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نظارہ کرنا۔۔۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت کے تعلق میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حیاء کرنا۔۔۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلبیت کی محبت، مودت، عزت و احترام کے ذریعے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش کرنا۔ یعنی اہل بیت کے آئینے میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنا۔ جب بھی اہل بیت کے کسی شہزادے سے تعلق کا وقت آئے، علی شیر خدا ہوں یا سیدہ فاطمۃ الزہراء علیہا السلام ہوں۔۔۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ہوں یا امام حسین علیہ السلام ہوں۔۔۔ زین العابدین علیہ السلام ہوں یا امام محمد باقر علیہ السلام ہوں۔۔۔ جعفر الصادق علیہ السلام ہوں یا موسیٰ کاظم علیہ السلام ہوں۔۔۔ جب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پاک اور اہل بیت اطہار کو دیکھو تو ایمان یہ ہے کہ ان کے آئینے میں تمہیں مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ نظر آئے۔ پس جب ان کا حیاء کرو تو تمہیں پتا ہو کہ ان کا نہیں بلکہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حیاء ہورہا ہے۔۔۔ ان سے مؤدت نہیں بلکہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مؤدت ہورہی ہے۔۔۔ ان سے محبت نہیں بلکہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہورہی ہے۔۔۔ ان کی تعظیم نہیں بلکہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم ہورہی ہے۔۔۔ گویا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اصول وضع کردیا کہ اگر تم صاحب ایمان ہو تو اہل بیت کے اندر تمہیں ذات مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دکھائی دینی چاہئے۔ اہل بیت ایک آئینہ ہے، اس آئینے میں چہرہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دکھائی دے۔ اس لئے کہ ان سے محبت حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے۔ یہ عقیدہ اہل سنت ہے۔ اگر ’ارقبوا محمدا فی اہل بیتہ‘ کی روش نہیں تو آپ کا تعلق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی نہیں اور جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نہیں وہ کہاں کا اہلسنت ہے؟ وہ خارجی ہے، بے ایمان ہے۔ جسے حکم رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حیاء نہیں، اس کا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں۔
یہی عمل جمیع صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا۔ یہ ایک الگ مضمون ہے میرے اس موضوع پر بہت سے خطاب ہیں۔ جن سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے عقیدت
قاضی عیاض نے الشفاء میں، امام سخاوی نے الاستجلاب میں اور دیگر بہت سی کتبِ سیرت اور اسماء رجال کی تمام کتب میں ہے کہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے پوتے امام عبداللہ بن حسن المثنیٰ بن الامام حسن المجتبیٰ خود روایت کرتے ہیں کہ میں کسی کام کے سلسلہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جن کو خلیفہ راشد خامس بھی کہتے ہیں) کے پاس گیا۔ میں اُن سے چھوٹا تھا مگر وہ مجھے دیکھ کر فوری کھڑے ہوگئے، میری حاجت پوری کی اور پھر مجھ سے دست بستہ عرض کرنے لگے:
اِذَا کَانَ لَکَ حَاجَةٌ فَاَرْسِلْ الَيَ اَوِاکْتُب
آئندہ خدا کے لئے میرے پاس نہ آنا، کوئی کام ہو تو بس ایک چٹ لکھ کر بھیج دیا کریں یا کسی بندے کو بھیج دیں، آپ کے حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔
فَاِنِّيْ اَسْتَحْیِ مِنَ اللّٰهِ اَنْ يَرَاکَ عَلٰی بَابِيْ
آپ کو اپنے دروازے پر دیکھ کرمجھے حیاء آتا ہے۔ قیامت کے دن خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔
- امام سخاوی نے الاستجلاب (2/ 574) میں بیان کیا ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ بنت علی ابن ابی طالب روایت کرتی ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر تھے۔ کسی ضرورت سے میں ان کے پاس گئی۔ ان کو میر ی آمد کی اطلاع ملی اور آپ فوری دوڑ کر دربار سے باہر نکل آئے اور کہنے لگے:
يَا ابْنَتَ عَلِی وَاللّٰه مَاعَلٰی ظَهْرِ الْاَرْضِ اَهْلُ بَيْتٍ اَحَبُّ اِلَيَ مِنْکُمْ وَ لَا اَنْتِ اَحَبُّ اِلَيَ مِنْ اَهْلِ بَيْتِيْ.
’’اے علی المرتضیٰ کی شہزادی! خدا کی قسم روئے زمین پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکی اہل بیت ہیں آپ سے بڑھ کر کائنات کا کوئی گھرانہ میرے نزدیک محبوب نہیں ہے حتی کہ میرے اپنا گھرانہ میری اولاد بھی آپ پر قربان۔ ان سے بھی زیادہ آپ اعزو احب و اکرم ہیں۔
حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک کام اُن سے کہا، وہ کام کردیا۔ اس کے بعد یہ کہا جو آپ ہمیشہ اہل بیت کے ہر شہزادے/ شہزادی سے عرض کرتے تھے:
وَکَانَ يَطْلُبُ مِنْهُمْ اَنْ يَشْفَعُ لَهُ فِيْ سَاعَةِ الْقِيَامَة.
آپ اہل بیت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میری ایک درخواست ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت کردینا۔ مجھے بھول نہ جانا، وہاں بتانا کہ ہماری نوکری کرتا تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز سے پوچھا گیا کہ یہ بنوہاشم ہیں، اہل بیت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، کیا ان کی آنے والی نسلیں بھی شفاعت کریں گی؟ انہوں نے کہا:
مَامِنْ عَهَدٍ مِنْ بَنِيْ هَاشِمٍ اِلَّا وَلَهُ شَفَاعَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَة.
خدا کی قسم حضور کے خانوادہ پاک بنو ہاشم کے چھوٹے سے چھوٹے بچے کو بھی قیامت کے دن حق شفاعت ہوگا۔ قیامت والے دن جس کی وہ شفاعت کرے گا بخشا جائے گا۔ (اس کو امام اصفہانی نے الاغانی میں بیان کیا ہے۔ امام دنیوری نے المجالسہ میں بیان کیا ہے اور دیگر بہت سے ائمہ و علماء نے اس کو بیان کیا ہے۔)
- اہل بیت اطہار کا کوئی بھی شہزادہ ہوتا، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی تعظیم و تکریم میں اس روش کا اظہار کرتے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ساتھ کوئی نسبت، کسی کی رشتہ داری ہو تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ بھی محبتوں بھرا سلوک کرتے۔
امام شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوا۔ جنازے سے فارغ ہونے کے بعد اُن کی ضعیفی اور کمزوری کی وجہ سے ان کے لئے سواری (اونٹ) قریب کی گئی تاکہ انہیں بٹھایا جائے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ادب و احترام کی بناء پر ان کے پاؤں کو رکاب میں رکھوانے کے لئے رکاب تھام لی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلیل القدر اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے تھے اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کی اہلبیت میں سے بھی تھے مگر صغار صحابہ کرام میں سے تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے ہٹ گئے اور فرمانے لگے کہ
اے ابن عباس ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا:
هٰکَذَا نَفْعَلُ بِعُلْمَآئِنَا.
’’ ہم علماء کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں‘‘۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیزی سے جھکے اور
فَقَبَّلَ زَيْدَا يده
حضرت عبداللہ ابن عباس کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا۔ انہوں نے پوچھا: آپ نے یہ کیا کیا؟ فرمایا:
هٰکَذَا اُمِرْنَا اَنْ نَفْعَلَ بِاَهْلِبَيْتِ نَبِيِنا.
’’ہمیں یہ حکم ہے کہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلبیت کے ساتھ ہم ایسا کیا کریں‘‘۔
(اس واقعہ کو طبرانی نے مسند الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں روایت کیا اور فرمایا کہ رجالہ رجال الصحیح۔ امام حاکم نے مستدرک میں روایت کرکے اس کو حدیث صحیح کہا۔ علامہ ذہبی نے اس کی تائید کی کہ صحیح ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں بیان کیا۔ اسی طرح امام بیہقی نے بھی بیان کیا۔)
یہ اور اس طرح کے تمام واقعات اس امر کو واضح کرتے ہیں کہ صحابہ کرام، تابعین اور اکابرین کس طرح اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت کا اظہار کرتے۔
(ائمہ اربعہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ اہل بیت اطہار سے کس درجہ محبت کرتے اور اس محبت کے اظہار میں اُن کی وارفتگی اور عقیدت کا کیا عالم ہوتا؟ یہ تمام بیان ان شاء اللہ اگلے شمارہ میں شائع کیا جائے گا۔)
(جاری ہے)