مُکْرَہ ایسے شخص کو کہتے ہیں جس سے زبردستی دھمکی کے ذریعہ سے کوئی ایسا کام کروایا جائے جسے وہ سخت ناپسند کرتا ہو اور وہ شخص اس کام کو کرنا بھی نہ چاہتا ہو لیکن دھمکی، خوف اور ڈر کے مارے اُسے وہ کام کرنا پڑے۔ جیسا کہ ابو منصور محمد بن احمدمُکْرَہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
وَأمْرةٌ کَرِیْهٌ: مَکْرُوْهٌ، وَامْرَأَةٌ مُسْتَکْرَهَةٌ إِذا غُصِبَتْ نَفْسُهَا، وَأَکْرَهْتُ فلَاناً: حَمَلْتُهُ عَلَی أَمْرٍ هُوَلَهُ کَارِهٌ، وَالْکَرِیْهَةُ الشِدَّةِ فِی الْحَرْبِ، وَکَذَلِکَ کَرَایِهُ الدَّهْرِ: نَوَازِلُ الدَّهْرِ.
مکروہ و ناپسندیدہ بات، عورت کو مکرہ کیا گیا، جب اس کے نفس کو غصب کیا جائے، میں نے فلاں کو مکرہ کیا، اسے اس کی ناپسندیدہ بات پر مجبور کیا۔ جنگ میں شدّت، یونہی زمانے کے مصائب وآلام۔
(الأزهري، تهذیب اللغة، 6: 11، بیروت: دار إحیاء التراث العربی)
صاحبِ العین خلیل بن احمد الفراھیدی اور ابن منظور الافریقی بیان کرتے ہیں:
وَأَکْرَهْتُهُ حَمَلْتُهُ عَلَی أَمْرٍ وَّهُوَ کَارِهٌ.
میں نے اسے ایسے کام پر مجبور کیا جس کو وہ ناپسند کرتا تھا۔
- فراهیدي، العین، 3: 376، دار ومکتبة الهلال
- ابن منظور، لسان العرب، 13: 535، بیروت: دار صادر
عبد العزیز بن احمد بن محمد، علاء الدین بخاری حنفی شرح اصول بزدوی کشف الاسرار میں اکراہ کی تعریف لکھتے ہیں:
حَمْلُ الْغَیْرِ عَلَی أَمْرٍ یَمْتَنِعُ عَنْهُ بِتَخْوِیفٍ یَقْدِرُ الْحَامِلُ عَلَی إیقَاعِهِ وَیَصِیرُ الْغَیْرُ خَائِفًا بِهِ.
آدمی جس کام سے باز رہنا چاہتا ہو، اس کو اس کے نہ کرنے پر ایسی دھمکی کے ذریعہ مجبور کرنا جس کے کر گزرنے پر آمادہ کرنے والا قادر ہو اور دوسرا شخص اس کی دھمکی سے خوف ذدہ ہو۔
(علاء الدین، کشف الأسرار، 3: 538، بیروت: دار الکتب العلمیة)
دین میں تنگی نہیں
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ بصورتِ جبرو اکراہ اور اضطرار، احکام شرع میں رعایت و سہولت ہوتی ہے۔ دین میں تنگی نہیں ہے۔ اس حوالے سے چند ارشاداتِ الہٰی درج ذیل ہیں:
مَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ.
(المائدة، 5: 6)
اﷲ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے۔
باری تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا:
وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ.
(الحج، 22: 78)
اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔
اور سورۃ الاحزاب میں فرمایا:
کَیْ لَا یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ.
(الأحزاب، 33: 37)
تاکہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے۔
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ.
(الأحزاب، 33: 38)
نبی پر کوئی حرج نہیں اس بات میں جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمائی۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حالتِ مجبوری اور اکراہ میں حرام کردہ چیزیں کھا کر جان بچانے کی رخصت رکھی ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَیْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ وَالنَّطِیحَةُ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِکُمْ فِسْقٌ الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ دِینِکُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِی مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌo
(المائدة، 5: 3)
تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لیے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہو گئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بے شک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
حافظ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
فَمَنِ احْتَاجَ إِلَی تَنَاوُلِ شَیْء ٍ مِنْ هَذِهِ الْمُحَرَّمَاتِ الَّتِی ذَکَرَهَا تَعَالَی لِضَرُورَةٍ أَلْجَأَتْهُ إِلَی ذَلِکَ، فَلَهُ تَنَاوُلُ ذَلِکَ، وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ لَهُ؛ لِأَنَّهُ تَعَالَی یَعْلَمُ حَاجَةَ عَبْدِهِ الْمُضْطَرِّ، وَافْتِقَارَهُ إِلَی ذَلِکَ، فَیَتَجَاوَزُ عَنْهُ وَیَغْفِرُ لَهُ. وَفِی الْمُسْنَدِ وَصَحِیحِ ابْنِ حبَّان، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَی رُخْصته کَمَا یَکْرَهُ أَنْ تُؤْتَی مَعْصِیته لَفْظُ ابْنِ حِبَّانَ: وَفِی لَفْظٍ لِأَحْمَدَ مَنْ لَمْ یَقْبَلْ رُخْصَه اللَّهِ کَانَ عَلَیْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلَ جِبَالِ عَرَفَةَ.وَلِهَذَا قَالَ الْفُقَهَائُ: قَدْ یَکُونُ تَنَاوَلُ الْمَیْتَةِ وَاجِبًا فِی بَعْضِ الْأَحْیَانِ، وَهُوَ مَا إِذَا خَافَ عَلَی مُهْجَتِهِ التَّلَفَ وَلَمْ یَجِدْ غَیْرَهَا، وَقَدْ یَکُونُ مَنْدُوبًا، وَ قَدْ یَکُونُ مُبَاحًا بِحَسْبِ الْأَحْوَالِ.
جیسے ان حرام چیزوں میں سے جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے کسی کے کھانے کی ضرورت پڑ جائے تو وہ مجبوراً انہیں کھا سکتا ہے، اور اسے اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس لئے کہ اللہ اپنے بے بس بندے کی مجبوری اور محتاجی کو خوب جانتا ہے۔ لہٰذا وہ بخشتا اور در گذرفرماتا ہے۔ مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی اپنی رخصت پر عمل کرنے کو ایسے ہی پسند فرماتا ہے جیسے اپنی نافرمانی کو ناپسند فرماتا ہے جیسے اپنی نا فرمانی پر ناراض ہوتا ہے ۔ اور امام احمد کے الفاظ ہیں کہ جو شخص اللہ کی رخصت و رعایت کو قبول نہ کرے اس پر میدان عرفات کے پہاڑوں جتنا گناہ ہے اسی لئے فقہاء نے کہاکبھی مردار کھانا واجب ہو جاتا ہے اور وہ اس حال میں کہ بھوک سے مرنے کا خوف ہو اور کچھ کھانے کو نہ ملے، کبھی مستحب اور کبھی مباح اس کا مدار حالات پر ہے۔
(ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2: 15، بیروت: دار الفکر)
امام قرطبی فرماتے ہیں:
یَعْنِی مَنْ دَعَتْهُ ضَرُورَةٌ إِلَی أَکْلِ الْمَیْتَةِ وَسَائِرِ الْمُحَرَّمَاتِ فِی هَذِهِ الْآیَةِ وَالْمَخْمَصَةُ الْجُوعُ وَخَلَاءُ الْبَطْنِ مِنَ الطَّعَامِ.
یعنی جس آدمی کو ضرورت پڑ جائے مردار اور باقی حرام کھانوں کی جو اس آیت میں مذکورہیں۔ اور مخمصۃ سے مراد بھوک اور پیٹ کا کھانے سے خالی ہونا ہے۔
(قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 6: 63، القاهرة: دار الشعب)
قاضی بیضاوی اور محمد بن محمد بن مصطفی العمادی فرماتے ہیں:
قَصَرَ حُرْمَتُهُ عَلَی حَالِ الْإخْتِیَارِ کَأَنَّهُ قِیْلَ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ هَذِهِ الْأَشْیَاء ِ مَالَمْ تَضْطَرُوْا إِلَیْهَا.
ان حرام چیزوں کو کھانا صرف حالت اختیار میں مخصوص ہے، گویا فرمایا گیا یہ تمام چیزیں تم پر حرام اس وقت ہیں جب تم ان کے کھانے کے لئے مجبور و بے بس نہ ہو، اگر مجبور و بے بس ہو تو ان حرام چیزوں کا کھانا تم پر حرام نہیں۔
-
بیضاوی، أنوار التنزیل وأسرار التأویل، 1: 350
-
العمادی، إرشاد العقل السلیم إلی مزایا القرآن الکریم، 1: 191
قاضی بیضاوی مزید فرماتے ہیں:
وَالْمَعْنَی فَمَنِ اضْطُرَّ إِلَی تَنَاوُلِ شَیْء ٍ مِنْ هَذِهِ الْمُحَرَّمَاتِ فِی مَخْمَصَةٍ (مَجَاعَةٍ) غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ غَیْرَ مَائِلٍ لَهُ وَمُنْحَرِّفٍ إِلَیْهِ بِأَنْ یَأْکُلَهَا تَلَذُّذًا أَوْ مَجَاوِزًا حَدَّ الرُّخْصَةِ کَقَوْلِهِ: غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ لَا یُؤَاخِذُهُ بِأَکْلِهِ.
مطلب یہ ہے کہ جو شخص مجبور و بے بس ہو ان مذکورہ اشیاء کے بوقت بھوک کھانے میں گناہ کی طرف مائل نہ ہو کہ مزے اور چٹخارے کے لئے کھائے یا حد رخصت سے آگے بڑھ جائے، تو ان اشیاء کے کھانے پر اللہ مواخذہ نہیں فرماتا۔
(بیضاوی، أنوار التنزیل وأسرار التأویل، 2: 295)
اگر کوئی شخص اپنی جان، مال عزت بچانے کے لئے کلمہ کفر بول دے مگر اس کا دل ایمان اور اطمینان سے لبریز ہو تو ایسی حالت میں کلمہ کفر بولنے پر وہ کافر نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر کہنے کی رخصت عطا فرمائی ہے:
مَنْ کَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُکْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ وَلَکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌo
(النحل، 16: 106)
جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے، لیکن (ہاں) وہ شخص جس نے (دوبارہ) شرحِ صدر کے ساتھ کفر (اختیار) کیا سو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔
حافظ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
(إِلا مَنْ أُکْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإیمَانِ) فَهُوَ اسْتِثْنَاءٌ مِمَّنْ کَفَرَ بِلِسَانِهِ وَوَافَقَ الْمُشْرِکِینَ بِلَفْظِهِ مُکْرَہًا لِمَا نَالَهُ مِنْ ضَرْبٍ وَأَذًی، وَقَلْبُهُ یَأْبَی مَا یَقُولُ، وَهُوَ مُطَمْئِنٌ بِالْإِیمَانِ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ. وَقَدْ رَوَی العَوفِیّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ هَذِهِ الْآیَةَ نَزَلَتْ فِی عمَّار بْنِ یَاسِرٍ، حِینَ عَذَّبَهُ الْمُشْرِکُونَ حَتَّی یَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَوَافَقَهُمْ عَلَی ذَلِکَ مُکرَها وَجَاء َ مُعْتَذِرًا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآیَةَ... فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ؟ قَالَ: مُطَمْئِنًا بِالْإِیمَانِ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ عَادُوا فَعُدْ.
{سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے} یہ استثناء ہے اس شخص کا جس نے زبان سے کفر کیا اور حالت مجبوری میں مشرکوں سے موافقت کی، اس وجہ سے کہ اُسے مارپٹائی اور ایذاء دی گئی، اور اس کا دل اس کی بات سے انکاری تھا، وہ اللہ ورسول پر ایمان پر مطمئن تھا۔ العوفی نے ابن عباس سے روایت کی کہ یہ آیت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی، جب مشرکوں نے ان پر تشدد کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کرے تو انہوں نے مجبوراً ان سے موافقت کی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عذر پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔۔۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے دل کا حال بتاؤ کیسا تھا؟ عرض کی: ایمان سے مطمئن۔ حضور e نے فرمایا: اگر دوبارہ یہی کچھ یعنی دوبارہ تشدد کریں تو تم بھی دوبارہ یہی کچھ کرنا۔
(ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2: 588)
اسی طرح امام قرطبی بیان کرتے ہیں کہ قریش نے حضرت عمار اور ان کے ماں باپ یاسر اور سمیّہ کو مرتد ہونے پر مجبور کیا تو بی بی سمیّہ کو دو اونٹوں کے درمیان باندھ کر نیزہ اُن میں گارڈ دیا اور کہا کہ تو مردوں کی خاطر مسلمان ہوئی ہے۔ اس بی بی اور اس کے خاوند حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا، اسلام میں یہ دو پہلے شہید ہیں۔ رہ گئے عمار تو انھوں نے مجبور ہو کر جان بچانے کے لئے زبان سے ان کا مطالبہ پورا کر دیا۔ پھر خود سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور اس کی شکایت کر دی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: دل کا حال بتاؤ، کیا تھا؟ عرض کی حضور: دل ایمان پر مطمئن ہے ، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر دوبارہ ایسا کریں تو تم بھی ویسا ہی کرنا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
کُلُّنَا تَکَلَّمَ بِالَّذِی قَالُوا لَوْلَا أَنَّ اللَّهَ تَدَارَکَنَا غَیْرَ بِلَالٍ.
اگر اللہ نہ بچاتا تو بلال رضی اللہ عنہ کے سوا ہم سب، ان کفار کے جبر کے سامنے کلمہ کفر بول دیتے۔
(قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 10: 181)
یہ دلیل ہے کہ مجبور کرنے پر کلمہ کفر جائز ہے بشرطیکہ دل ایمان پر مطمئن ہو۔
- ابن العربی اور امام قرطبی اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
لَمَّا سَمَحَ اللَّهُ تَعَالَی فِی الْکُفْرِ بِهِ، وَهُوَ أَصْلُ الشَّرِیعَةِ، عِنْدَ الْإِکْرَاهِ، وَلَمْ یُؤَاخِذْ بِهِ، حَمَلَ الْعُلَمَاء ُ عَلَیْهِ فُرُوعَ الشَّرِیعَةِ، فَإِذَا وَقَعَ الْإِکْرَاهُ عَلَیْهَا لَمْ یُؤَاخَذْ بِهِ، وَلَا یَتَرَتَّبُ حُکْمٌ عَلَیْهِ، وَعَلَیْهِ جَاء َ الْأَثَرُ الْمَشْهُورُ عِنْدَ الْفُقَهَاءِ: رُفِعَ عَنْ أُمَّتِی الْخَطَأُ وَالنِّسْیَانُ وَمَا اُسْتُکْرِهُوا عَلَیْهِ.
جب اللہ نے حالت اکراہ میں کفر کی اجازت دے دی اور اس پر مواخذہ نہ کیا حالانکہ وہ شریعت کی اصل ہے تو علماء نے تمام فروعِ شرع کو، اسی پر قیاس کیا، سو جب ان امور پر کسی کو مجبور کیا جائے تو، اس مکرہ پر کوئی مواخذہ نہیں۔اور نہ اس پر کوئی حکم مرتب ہو گا۔ اور فقہاء کے ہاں حدیث مشہور بھی اسی کی تائید کرتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ: میری امت سے خطاء بھول اور جس کام پر اسے مجبور کیا جائے اور وہ جبر و اکراہ کے نتیجہ میں وہ کام کر بیٹھے اس پر گناہ کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔
- ابن العربی، أحکام القرآن، 3: 163، بیروت، لبنان: دار الفکر
- قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 10: 182
- امام قرطبی مزید فرماتے ہیں:
أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَی أَنَّ مَنْ أُکْرِهَ عَلَی الْکُفْرِ حَتَّی خَشِیَ عَلَی نَفْسِهِ الْقَتْلَ، أَنَّهُ لَا إِثْمَ عَلَیْهِ إِنْ کَفَرَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ، وَلَا تَبِینُ مِنْهُ زَوْجَتُهُ وَلَا یُحْکَمُ عَلَیْهِ بِحُکْمِ الْکُفْرِ، هَذَا قَوْلُ مَالِکٍ وَالْکُوفِیِّینَ وَالشَّافِعِیِّ.
علماء کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ جس شخص کو کفر پر مجبور کیا گیا، یہاں تک کہ اسے اپنے قتل کا خوف ہو گیا تو اس پر کفر کرنے پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو نہ اس کی بیوی اس پر حرام ہو گی اور نہ اس پر کافر ہونے کا کوئی حکم لگایا جائے گا۔ یہ قول امام مالک، امام شافعی اور اہلِ کوفہ کا ہے۔
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 10: 182
جب جبر واکراہ کی صورت میں کلمہ کفر بولنے سے بندہ کافر نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں بیوی کو طلاق کیسے ہو سکتی ہے۔ نص قطعی کے مقابلے میں قیاس و اجتہاد قطعًا مردود ہے۔ لہٰذا چھری، خنجر، لاٹھی یا گن کے زور پر کسی سے زبانی یا تحریری طلاق لینے سے طلاق ہرگز ہرگز نہ ہوگی، جیسے کلمہ کفر پر مجبور کیا گیا شخص کلمہ کفر بولنے سے کافر نہیں ہوتا ایسے ہی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کئے گئے شخص کی طلاق نہیں ہوتی۔ امام قرطبی نے ہی آگے چل کر بیان کیا ہے کہ مُکْرَہ کی طلاق اور عتاق کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے:
امام شافعی اور ا ن کے اصحاب مکرہ کی طلاق نافذ نہیں کرتے۔ ابن وہب نے ذکر کیا کہ حضرت عمر، حضرت علی اور ابن عباس کے نزدیک مُکْرَہ کی طلاق نہیں ہوتی۔ یہی قول عبداللہ بن زبیر، ابن عمر، ابن عباس، عطائ، طاؤس، حسن، شریح، القاسم، سالم، مالک، اوزاعی، امام احمد، اسحاق، ابو ثورl کا ہے۔ جبکہ الشعبی، النخعی، ابو قلابہ، الزھری، قتادہ اور اہلِ کوفہ، امام ابو حنیفہl کے نزدیک مُکْرَہ کی طلاق ہو جاتی ہے۔
(قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 10: 183)
- قَالَ الشَّافِعِیُ رَحِمَهُ اﷲ طَلَاق المُکْرَہ لَا یَقَعُ وَقَالَ أبُو حَنِیفَة رَحِمَهُ اﷲ یَقَعُ.
امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ نے کہا ہو جاتی ہے۔
1۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی دلیل اللہ تعالیٰ کا قول ہے:
لَا إِکْرَاهَ فِی الدِّینِ.
(البقرة، 2: 256)
’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔
2۔ دوسری دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وُضِعَ عَنْ أُمَّتِی الْخَطَأُ وَالنِّسْیَانُ، وَمَا اسْتُکْرِهُوا عَلَیْهِ.
(سنن ابن ماجه، 1: 659، رقم: 2035)
’’میری امت سے خطاء ، نسیان اور جبر و اکراہ اٹھا لئے گئے ہیں‘‘۔
3۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا طَلَاقَ، وَلَا عَتَاقَ فِی إِغْلَاقٍ.
(سنن ابن ماجه، 1: 660، رقم: 2036)
’’جبراً نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ ہی عتاق‘‘۔
(الرازی، التفسیر الکبیر، 20: 99، بیروت: دار الکتب العلمیة)
3۔ حضرت ثابت بن الاحنف کی روایت مکرہ کی زبانی طلاق واقع نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی سند بھی صحیح ہے۔ اور اس روایت کو امام مالک بن انس نے الموطأ میں نقل کیا ہے:
عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْأَحْنَفِ أَنَّهُ تَزَوَّجَ أُمَّ وَلَدٍ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ فَدَعَانِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ، فَدَخَلْتُ عَلَیْهِ، فَإِذَا سِیَاطٌ مَوْضُوعَةٌ، وَإِذَا قَیْدَانِ مِنْ حَدِیدٍ، وَعَبْدَانِ لَهُ قَدْ أَجْلَسَهُمَا، فَقَالَ: طَلِّقْهَا وَإِلَّا وَالَّذِی یُحْلَفُ بِهِ فَعَلْتُ بِکَ کَذَا وَکَذَا، قَالَ: فَقُلْتُ: هِیَ الطَّلَاقُ أَلْفًا، قَالَ: فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ، فَأَدْرَکْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بِطَرِیقِ مَکَّةَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِی کَانَ مِنْ شَأْنِی، فَتَغَیَّظَ عَبْدُ اللَّهِ وَقَالَ: لَیْسَ ذَلِکَ بِطَلَاقٍ وَإِنَّهَا لَمْ تَحْرُمْ عَلَیْکَ، فَارْجِعْ إِلَی أَهْلِکَ، قَالَ: فَلَمْ تُقْرِرْنِی نَفْسِی حَتَّی أَتَیْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَیْرِ، وَهُوَ یَوْمَئِذٍ بِمَکَّةَ أَمِیرٌ عَلَیْهَا، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِی کَانَ مِنْ شَأْنِی، وَبِالَّذِی قَالَ لِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: فَقَالَ لِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَیْرِ: لَمْ تَحْرُمْ عَلَیْکَ فَارْجِعْ إِلَی أَهْلِکَ۔
حضرت ثابت بن الاحنف سے روایت ہے کہ میں نے عبد الرحمٰن بن زید بن الخطاب کی ام ولد لونڈی سے نکاح کیا۔ میں اس کے پاس آیا اور اس پر داخل ہوا تو کوڑے لٹکے ہوئے تھے۔ لوہے کی دو بیڑیاں تھیں اور دوغلام بٹھائے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے کہا: اپنی بیوی کو طلاق دے دو ورنہ اللہ کی قسم تجھے ایسا ایسا کر دوں گا۔ میں نے کہا: اسے ایک ہزار طلاق۔ میں اس کے پاس سے نکلا تو مکہ کے راستے میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کو اپنا سارا واقعہ سنایا تو وہ غصے ہوگئے اور فرمایا: یہ کوئی طلاق نہیں۔ وہ عورت تجھ پر حرام نہیں ہوئی، تُو اپنی بیوی کی طرف لوٹ جا۔ مجھے اطمینان نہ ہوا یہاں تک کہ میں سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس آ گیا اور ان سے اپنا واقعہ اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بات کا ذکر کیا۔ انہوں نے بھی کہا کہ تیری بیوی تجھ پر حرام نہیں ہوئی، تُو اپنی بیوی کی طرف لوٹ جا۔
(إمام مالک، الموطأ، کتاب الطلاق، باب جامع الطلاق، 2: 587، رقم: 1220، مصر: دار إحیاء التراث العربی)
لہٰذا میرے نزدیک مُکْرَہ کی زبانی طلاق قرآن و سنت اور مذکورہ بالا اکابرین کے اقوال کے مطابق واقع نہیں ہوتی کیونکہ اجتہادی اقوال کو قرآن وسنت کی تصریحات پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔
جن فقہاء احناف نے مکرہ کی زبانی طلاق کو جائز قرار دیا ہے، انہوں نے درج ذیل دو روایات کی بنیاد پر طلاق واقع ہونے کا استدلال کیا ہے:
1. عَنْ صَفْوَانَ بْنِ غَزْوَانِ الطَّائِیِّ، أَنَّ رَجُلًا کَانَ نَائِمًا مَعَ امْرَأَتِهِ فَقَامَتْ فَأَخَذَتْ سِکِّینًا فَجَلَسَتْ عَلَی صَدْرِهِ وَوَضَعَتِ السِّکِّینَ عَلَی حَلْقِهِ وَقَالَتْ لَهُ: طَلِّقْنِی وَإِلَّا ذَبَحْتُکَ، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا فَذُکِرَتْ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَا قَیْلُولَةَ فِی الطَّلَاقِ.
صفوان بن غزوان سے حدیث مروی ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ سویا ہوا تھا وہ اٹھی اور چھری لے کر خاوند کے سینہ پر بیٹھ گئی پھر خاوند کے حلق پر چھری رکھ کر بولی: مجھے طلاق دے دے ورنہ تجھے ذبح کر دوں گی۔ خاوند نے اسے اللہ کا واسطہ دیا، مگر وہ نہ مانی، خاوند نے تین طلاق دے دیں، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور ذکر کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: طلاق میں قیلولہ (بات کو منسوخ کرنا) نہیں ہے۔
(عسقلانی، الإصابة فی تمییز الصحابة، 3: 337، رقم: 3087، بیروت: دار الجیل)
اس روایت پر ائمہ کا تبصرہ
اَئمہ فنِ حدیث اور محدثین نے اس روایت پر تبصرہ کیا ہے:
1۔ امام بخاری کہتے ہیں اس روایت کے ایک راوی الغار بن جبلہ کی روایت منکر ہے۔
(عسقلانی، الإصابة فی تمییز الصحابة، 3: 337، رقم: 3087)
2۔ صفوان بن رستم نے روح بن القاسم سے روایت کی جو مجہول ہے۔ الازدی نے کہا وہ منکر الحدیث ہے۔
3۔ صفوان بن عاصم الاصم بعض صحابہ سے طلاق مکرہ کے بارے میں روایت کرتا ہے۔ ابن ابی حاتم نے کہا قوی نہیں۔ بخاری نے کہا اس کی روایت منکر ہے۔ اس کی متابعت میں کوئی روایت نہیں (جو اس کی کمزوری کی تلافی کرے)۔۔۔ عن رجل من الصحابہ معلوم نہیں وہ رجل کون ہے؟ یہی صفوان بن عاصم الاصم حدثنا رجل یہاں بھی وہ جہالت ہے۔
3۔ صفوان بن قبیصہ عن طارق بن شہاب اور اس سے أبوا لصیر فی یہ آخری دونوں راوی مجہول ہیں۔ ابن حبان نے الثقات میں کہا صفوان بن قبیصہ، طارق بن شہاب سے روایت لے لیتا ہے اگر خود اس سے سنے۔
5۔ ابن ابی حاتم نے امام ابو زرعہ رازی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں نہیں جانتا وہ کون ہے؟ میں نے کہا شاید صفوان بن ھبیرہ ہو، جس نے یہ روایت نقل کی ہے۔
(عسقلانی، لسان المیزان، 3: 191، رقم: 763)
6۔ امام بخاری نے کہا صفوان الاصم کی صحابہ کرام سے روایت درست نہیں، اس کی موئید کوئی روایت نہیں ہے۔
(عبدالرحمن بن علی الجوزی، العلل المتناهیة، 2: 638، رقم: 1073، بیروت: دارالکتب العلمیة)
7۔ عبد الرحمٰن بن ابی حاتم، الغار بن جبلہ کو منکر الحدیث کہتے ہیں۔
(ابن أبی حاتم، الجرح والتعدیل، 7: 58، رقم: 337، بیروت: دار إحیاء التراث العربی)
8۔ حدیث منکر ہے کوئی صحیح روایت اس کی تائید میں نہیں ہے۔
- شمس الدین، تنقیح تحقیق أحادیث التعلیق، 3: 216، رقم: 1879
- العقیلی، الضعفاء الکبیر، 2: 211، رقم: 735
- ابن القطان، بیان الوہم والإیهام فی کتاب الأحکام، 2: 55
9۔ اما ابو زرعہ رازی نے کہا: هَذَا حَدِیْثٌ وَاہٍ جِدًّا یہ بہت کمزور روایت ہے۔
(عبدالرحمن بن محمد، علل الحدیث، 1: 336، رقم: 1312)
10۔ ابو محمد ابن حزم نے کہا: هَذَا خَبَرٌ فِی غَایَةِ السُّقُوطِ یہ حدیث حد درجہ ضعیف ہے۔
(ابن حزم، المحلی، 10: 203، بیروت: دار الأفاق الجدیدة)
11۔ عبد الرحمٰن بن علی بن الجوزی کہتے ہیں: هَذَا حَدِیثٌ لَا یَصِحُّ یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔
(ابن الجوزی، العلل المتناهیة، 2: 638)
خلاصہ کلام
یہ ایک ایسی روایت ہے جس کی کوئی سند متصل نہیں، مجہول اور ساقط الاعتبار لوگوں کے بیانات ہیں، ایسی کمزور باتوں کی حکم شرعی کے ثبوت میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دوسری طرف جبر واکراہ کی صورت میں کفریات کا اعتبار نہیں یعنی کوئی کسی مسلمان سے گن پوائنٹ پر کلمات کفر یا شرک کہلوائے، مسلمان مجبور ہے جان یا عزت، قتل یا عضو کٹنے کی دھمکی ہے۔ اس حالت میں اپنی جان وعزت بچانے کی خاطر کلمہ کفر کہنے کی اجازت ہے بشرطیکہ دل و دماغ ایمان پر مضبوطی سے قائم و مطمئن ہے تو کلمہ کفر بولنے کی مسلمان کو اجازت ہے اور وہ کلمہ کفر بولنے سے ہرگز ہرگز کافر و مرتد نہ ہوگا ، نہ اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکلے گی تو جب کفرو ارتداد جیسا بڑا گناہ جان بچانے کے لئے مذکورہ صورت میں گناہ نہیں رہتا اور کلمہ کفر بحالت جبرواکراہ جائز ہو جاتا ہے تو طلاق تو اس کے مقابلہ میں جرم و گناہ ہے ہی نہیں، اس میں یہ رعایت کیوں نہیں دی جا سکتی جبکہ یہ ہمارا اجتہاد نہیں، قرآن کریم کی نص قطعی ہے۔
نوٹ: بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ اس حدیث سے استدلال کرنا درست ہے تو پھر بھی اس روایت سے یہ مسئلہ اخذ ہوتا ہے کہ جب بیوی شوہر کے ساتھ رہنا پسند ہی نہ کرے تو اُسے طلاق دے دینا بہتر ہے اور اس کی جبراً لی ہوئی طلاق بھی جائز ہو گی کیونکہ جب ثابت بن قیس کی بیوی نے اُن کے ساتھ نہ رہنا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق مہر واپس کروا کر طلاق دینے کا حکم فرمایا اور اسی طرح خنساء بنت خِذام انصاریہ کو شوہر پسند نہیں تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کا نکاح منسوخ فرمادیا لیکن جب میاں بیوی اپنا گھر بسانا چاہتے ہوں مگر دوسرے لوگ زبردستی ڈرا دھمکا کر طلاق کے الفاظ کہلوا دیں تو مذکورہ روایت کا اطلاق کرنا مناسب نہ ہوگا۔
- دوسری روایت جس کی بنیاد پر مکرہ کی زبانی طلاق جائز قرار دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ثَلاَثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّکَاحُ وَالطَّلاَقُ وَالرَّجْعَةُ.
تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کے ساتھ کی جائیں یا مذاق میں کی جائیں (دونوں صورتوں میں) صحیح مراد ہیں: نکاح، طلاق اور رجوع۔
- أبو داود، السنن، کتاب الطلاق تفریع أبواب الطلاق، باب فی الطلاق علی الهزل، 2: 259، رقم: 2193
- ترمذی، السنن، کتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء فی الجد والهزل فی الطلاق، 3: 390، رقم: 1183
مُکْرَہ کی طلاق کو اس روایت کے ساتھ جوڑنا بعید از حقیقت ہے کیونکہ ایک شخص پر ظلم، زیادتی، مار پیٹ، زبردستی، خوف وہراس اور دھمکیوں کے ساتھ طلاق مسلط کی جائے اور دوسری طرف کوئی شخص بلاوجہ بغیر کسی خوف اور ڈر کے طلاق دیدے تو برابر نہیں ہے۔ لہٰذا مکرہ کی زبانی طلاق کو مذاق میں دی ہوئی طلاق پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ یہی امام قرطبی فرماتے ہیں:
وَهَذَا قِیَاسٌ بَاطِلٌ، فَإِنَّ الْهَازِلَ قَاصِدٌ إِلَی إِیقَاعِ الطَّلَاقِ رَاضٍ بِهِ، وَالْمُکْرَهُ غَیْرُ رَاضٍ وَلَا نِیَّةَ لَهُ فِی الطَّلَاقِ، وَقَدْ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ:"إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ".
یہ قیاس باطل ہے، کیونکہ مذاق کرنے والا طلاق واقع کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر راضی ہوتا ہے، جبکہ مجبور شخص راضی نہیں ہوتا، نہ ہی اس کی طلاق کے بارے میں کوئی نیت ہوتی ہے۔ فرمانِ نبی علیہ السلام ہے: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
(قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 10: 183)
ابن قیم الجوزیہ مکرہ کی طلاق کو مذاق پر قیاس کرنے کے حوالے سے لکھتے ہیں:
وَهَذَا قِیَاسٌ فَاسِدٌ فَإِنَّ الْمُکْرَهَ غَیْرُ قَاصِدٍ لِلْقَوْلِ، وَلَا لِمُوْجِبِهِ، وَإِنَّمَا حُمِلَ عَلَیْهِ وَأُکْرِهَ عَلَی التَّکَلُّمِ بِهِ، وَلَمْ یُکْرَهْ عَلَی الْقَصْدِ وَأَمَّا الْهَازِلُ فَإِنَّهُ تَکَلَّمَ بِاللَّفْظِ اخْتِیَارًا وَقَصَدَ بِهِ غَیْرَ مُوجِبہ، وَهَذَا لَیْسَ إِلَیْهِ، بَلْ إِلَی الشَّارِع، فَهُوَ أَرَادَ اللَّفْظَ الَّذِی إِلَیْهِ، وَأَرَادَ أَنْ لَا یَکُوْنَ مُوجِبَهُ، وَلَیْسَ إِلَیْهِ، فَإِنَّ مَنْ بَاشَرَ سَبَب الْحُکْم بِاخْتِیَارِهِ لَزِمَهُ مُسَبَّبه وَمُقْتَضَاهُ، وَإِنْ لَمْ یُرِدْهُ وَأَمَّا الْمُکْرَہ فَإِنَّهُ لَمْ یُرِدْ لَا هَذَا وَلَا هَذَا، فَقِیَاسُهُ عَلَی الْهَازِلِ غَیْرُ صَحِیحٍ.
یہ قیاس فاسد ہے کیونکہ مجبور آدمی کی نیت نہ (طلاق) کہنے کی ہوتی ہے اور نہ اس کے نتیجے کی۔ لہٰذا اس کو محمول کیا جائے گا کہ اسے طلاق کہنے پر مجبور کیاگیا ہے نہ کہ نیت پرمجبور کیا گیا ہے۔جبکہ مذاق کرنے والا لفظ کا تکلم اپنے اختیار سے کرتا ہے لیکن اس کا نتیجہ کچھ اور مراد لیتا ہے۔ حالانکہ یہ کام (طلاق کا وقوع) اس کے اختیار میں نہیں، بلکہ شارع کے اختیار میں ہے۔ اس نے ارادہ اس لفظ کو بولنے کا کیا ہے، اور اس کا ارادہ یہ تھا کہ اس کا حکم ثابت نہ ہو۔ جو شخص طلاق کے سبب کو اختیار کرے گا، اس کا نتیجہ اس کو لازم ہو جائے گا، اگرچہ وہ اس کی نیت نہ بھی کرے۔ رہا مجبور کا تو اس نے کسی بھی چیز کا قصد نہیں کیا ہوتا، لہٰذا اس کو مذاق کرنے والے پر قیاس کرناصحیح نہیں ہے۔
(ابن قیم الجوزیة، تهذیب السنن، کتاب الطلاق، باب فی الطلاق علی الهزل، 2: 912، الریاض: مکتبة المعارف)
مذکورہ بالا تصریحات سے ثابت ہوا کہ جب میاں بیوی باہمی رضامندی سے بطورِ زن وشوہر رہنا چاہتے ہوں تو کسی دوسرے کوجبرواکراہ کے ذریعہ سے اُن کے درمیان علیحدگی کروانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں مکرہ کی تحریری یا زبانی طلاق واقع نہ ہو گی۔