شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا علمی و فکری خطاب
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.
(البقرة، 2: 257)
’’اﷲ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے‘‘۔
اہل لغت و اہل معرفت ’’ولی‘‘ کے کئی معانی کرتے ہیں، ان معانی میں سے ایک معنیٰ ’’قریب ہونا‘‘ ہے۔ اس معنی کی روسے اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا معنی یہ ہے کہ اللہ مومنوں کے قریب ہے۔ غور فکر کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم بھی اللہ کے قریب ہیں یا نہیں؟ افسوس کہ ہم ہر لمحہ اللہ سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں حالانکہ ہماری تخلیق کا مقصد ہی یہ امتحان لینا تھا کہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں یا اس سے دور ہوتے ہیں؟ انسان کے مقصدِ تخلیق کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.
(الذاریات، 51: 56)
’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے معنیٰ کے حوالے سے فرمایا:
لِیَعْبُدُوْنِ اَیْ لِیَعْرِفُوْن.
یعنی اللہ رب العزت نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ مجھے پہچانے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو اس امر کے لیے کیوں پیدا کیا کہ وہ اسے پہچانیں؟ اسے اپنی پہچان کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ وہ اس ضرورت سے پاک ہے۔ اگر ضرورت نہیں ہے تو پیدا کرکے اپنی معرفت کیوں دینا چاہتا ہے؟ اس لیے کہ وہ انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کا امتحان لینا چاہتا ہے کہ وہ میرے قریب ہوتا ہے یا مجھ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
انسان اللہ سے دور کیونکر ہوتا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ظاہر و باطن کے امتزاج کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس میں تاریکی کے پہلو بھی رکھے ہیں اور روشنی و نور بھی رکھا ہے۔۔۔ اس میں پستی کے رجحانات بھی رکھے ہیں اور اوپر جانے کے میلانات اور صلاحیتیں بھی رکھی ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗج وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ.
(ق، 50: 16)
’’اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اُن وسوسوں کو (بھی) جانتے ہیں جو اس کا نفس (اس کے دل و دماغ میں) ڈالتا ہے۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔
نفس انسان میں برے خیالات اور وساوس کو جنم دیتا ہے۔ نفس فسق و فجور، گناہ اور نافرمانی کے ذریعے انسان کا اللہ پر ایمان کمزور کرنے کے خیالات پیدا کرتا ہے۔ نفس کا شیطان اور دنیا کی شہوات کے ساتھ ایک Alliance اور کوآرڈینیشن ہے اس لیے شیطان نفس کے اندر الہام کرتا اور برے خیالات ڈالتا ہے اور نفس انہیں اپنے اندر جذب کرتا چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً نفس خود بھی شیطانی ہوجاتا ہے اور برے خیالات کو جنم دیتا ہے۔ پھر انسان کا نفس اس کے دل و دماغ میں وسوسے ڈال کر اس کو بہکاتا ہے اور شیطان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کے مشن کی تکمیل کے لیے بندے کو اللہ سے دور لے جانا چاہتا ہے، اللہ کا نافرمان بنانا چاہتا ہے اور بندے کا اللہ پر ایمان و یقین کمزور کرنا چاہتا ہے۔ نفس بندہ کے اندر توکل، یقین، اعتماد کو انتہائی کمزور کردیتا ہے اور پھر بندہ کبھی اپنے رزق کی کمی اور کبھی اپنے ساتھ ہونے والی بے انصافی و ظلم کے حوالے سے اللہ کے امر پر اپنا عقیدہ متزلزل کرتے ہوئے اللہ کے بارے میں شکوہ، شکایت اور ناشکری کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ جب توکل، اعتماد، یقین، شکر اور بھروسہ کمزور ہوتا ہے تو بندگی کمزور ہوتی ہے اور جب بندہ بندگی میں کمزور ہوتا ہے تو اللہ سے دوری پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔
گویا نفس کا بنیادی کام وسوسہ اندازی ہے۔ نفس بندے کے دل و دماغ میں اللہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آخرت، دین، ایمان اور نیکی کے بارے میں ایسے غلط اور برے خیالات و نظریات ڈالتا ہے جو بندہ کو اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین سے دور لے جانے کا سبب بنتے ہیں۔
اللہ اور بندے کا روحانی قرب
مذکورہ آیتِ کریمہ (ق: 16) میں جہاں اللہ تعالیٰ نے نفس کی وسوسہ اندازی کو بندے اور اللہ کے درمیان بُعد اور دوری کا سبب قرار دیا وہاں اس امر کو بھی واضح کردیا کہ ہم نے انسان کو نفس کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ دیا کہ نفس اس کو بہکاتا، پھسلاتا اور گمراہ کرتا پھرے اور بندہ گمراہی میں اپنے مولا سے دور ہوتا چلا جائے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ جہاں نفس رکھا ہے وہاں دوسرا عامل ایسا بھی رکھا ہے جو قربِ الہٰی کی نوید دیتا اور بندے کو اللہ کی قربت کے احساس سے مالا مال کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ.
(ق، 50: 16)
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔
یعنی ایک طرف نفس ہے جو انسان کو ہم سے دور لے جانا چاہتا ہے اور دوسری طرف ہم خود ہیں کہ اس کی شہ رگ کے بھی قریب ہیں۔ یہ قرب، قربِ روحی ہے، یعنی روح کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا روحانی قرب ہے۔ نفس کے اثرات جسمانی اور شیطانی ہیں جبکہ اللہ رب العزت کا قرب روحانی قرب ہے۔
گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر دونوں کیفیتیں اور حالتیں رکھ دی ہیں کہ بندہ اگر نفس کے سپرد ہوجائے تو اللہ سے دور ہوجائے گا اور اس کے برعکس بندہ اگر اللہ کی فرمانبرداری کی طرف آجائے تو اللہ کے قریب ہوجائے گا۔
قربِ الہٰی کا شعور ولایت ہے
نفس بندے کے شعور اور خیال میں اللہ کی قربت کے احساس کو بیدار نہیں ہونے دیتا ۔ اللہ انسان کے قریب ہے مگر نفس انسانی کو یہ پتہ نہیں چلنے دیتا کہ وہ قریب ہے اور شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اس کے قریب ہونے کے شعور میں نفس رکاوٹ بنتا ہے، وہ پردے ڈالتا ہے، اسی نے بہت ساری تہیں ڈالی ہوئی ہیں، جو بندے کو اللہ سے دور کرنے کا سبب بنتی ہیں اور اللہ کی قربت کے احساس، ادراک اور شعور سے بندے کو محروم کردیتی ہیں۔ اگر بندے کو اللہ کے قریب ہونے کا شعور ہوجائے تو اسے ولی اللہ کہتے ہیں۔
الله ولی الذین امنوا کے مطابق اللہ مومنوں کا ولی ہے اور ولی وہ ہوتا ہے جو قریب ہو اور وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے، اس لیے ہمارا ولی ہے۔ یہ یکطرفہ تعلق ہے، اس لیے کہ وہ تو ہمارے قریب ہے مگر ہم اس کے قریب نہیں ہیں۔ جو مومن ان پردو ںکو ہٹا کر، دوریوں کو ختم کرکے اللہ کے قریب ہوجائے تو اس کو ولی کہتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ اللہ ہر ایک کا ولی ہے مگر ہر کوئی اللہ کا ولی نہیں ہے۔
ہر کوئی اللہ کا ولی کیوں نہیں؟ اس لیے کہ ہمیں یہ ادراک اور شعور ہی نہیں ہے کہ اللہ میرے قریب ہے۔ جس وقت بندے کا یہ ادراک و شعور بیدار ہوجاتا ہے کہ اللہ میرا ولی ہے اور میری شہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے، جب یہ خیال بندے کے اندر جم جائے تو ایسے بندے کو ولی اللہ کہتے ہیں۔
قربت کے احساس کے اثرات
قربت کے اس احساس کے کیا اثرات ہوتے ہیں کہ بندہ اللہ کا ولی بن جاتا ہے؟ آیئے اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں: جب ایک بچے کو یہ پتہ ہو کہ میرے ماں باپ میرے قریب ہیں اور میرے اعمال کو دیکھ اور میری باتوں کو سن رہے ہیں تو بچہ شرارت اور شور شرابہ نہیں کرے گا، کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ میرے والدین دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح اگر طلبہ کو احساس ہو کہ ہمارے استاد ہمارے قریب ہیں اور ہمیں سن اور دیکھ بھی رہے ہیں تو دنگا و فساد اور تماشا کرنے والے طلبہ استاد کے قریب ہونے کی وجہ سے شرارت نہیں کریں گے۔ گویا قربت کا احساس ان کے اندر ایک خوف اور حیاء کو جنم دیتا ہے۔ جس بناء پر وہ بری حرکات و اعمال سے رک جاتے ہیں۔ بلاتشبیہ و بلا مثال اللہ رب العزت بھی ہمارے اس قدر قریب ہے کہ وہ ہمیں دیکھ بھی رہا ہے اور سن بھی رہا ہے۔ اس لیے بار بار فرماتا ہے:
اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ.
کبھی فرماتا ہے:
وَکَانَ اﷲُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا
کبھی وہ کہتا ہے کہ میں تمہارا ولی ہوں۔۔۔ کبھی کہتا ہے کہ میں تمہارا مددگار ہوں۔۔۔ یہ سارے الگ الگ جملے ہیں لیکن دراصل ان کی روح ایک ہے۔ مددگار وہی ہوتا ہے جو قریب ہو۔ جو دور بیٹھا ہے وہ کیا مدد کرے گا۔ قرب قربِ حسی بھی ہوسکتا ہے اور معنوی بھی۔ قرب وجودی و جسمانی بھی ہوسکتا ہے اور روحانی بھی۔ ہماری آپس کی قربتیں اور بُعد روحانی بھی ہوتی ہیں اور جسمانی بھی۔ اگر قرب معنوی و روحانی ہو تو بندہ جسمانی طور پر دور ہوکر بھی قریب رہتا ہے۔ لہٰذا اس شعور کے بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔
جب ہر کسی کی قربت ہمیں یہ فائدہ دیتی ہے تو ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اس بندے کا حال کیا ہوگا جس بندے کا احساس بچے کی طرح بیدار ہوجائے کہ میرا مولا میرے قریب ہے، وہ مجھے دیکھ رہا ہے، وہ میری ہر بات کو سن رہا ہے یہاں تک کہ جو خیالات و خواہشات میرے دل و دماغ میں جنم لیتے ہیں، ان کو بھی دیکھ رہا ہے، جو شرارت باہر ہوتی ہے صرف اس کو نہیں دیکھتا بلکہ جو شرارت من کے اندر، نفس کے اندر چلتی ہے اس کو بھی دیکھ رہا ہے، تو اندازہ کریں کہ جس بندے میں یہ احساس بیدار ہوجائے اس کا کیا حال ہوگا۔ پس جب یہ احساس قوی ہوتا ہے تو پھر انسان کوئی برا کام نہیں کرتا۔ اس قربت کے احساس سے جو خوف و رجاء کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اُسے تقویٰ کہتے ہیں۔
یاد رکھیں! اس قربت کے احساس کے اثرات میں صرف خوف نہیں ہوتا بلکہ اس میں محبت بھی ہوتی ہے۔ جس طرح بچے کو جب اپنے والدین یا اپنے کسی بڑے کے قریب ہونے کا احساس ہوتا ہے تو اس کے اندر یہ تصور بھی جنم لے لیتا ہے کہ اگر کسی نے مجھے تکلیف پہنچائی تو میری ماں، میرا باپ، میرا استاد میرے پاس ہے، وہ مجھے بچالے گا۔ قریب ہونے کے احساس میں جہاں بندہ اپنے آپ کو برائی سے بچاتا ہے وہاں بندے کو ایک احساسِ تحفظ اور حوصلہ بھی ہوتا ہے کہ مجھے ان کی موجودگی میں کوئی اور نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ پس خوف و رجا کی یہ کیفیت اس قربت کے احساس سے پیدا ہوجاتی ہے۔ گویا قربت کے احساس میں جہاں خوف ہوتا ہے وہاں امید بھی ہوتی ہے۔
خوف و رجا کی یہ کیفیت اگر مل جائے تو اس احساس کو ایمان کہتے ہیں جو اسی احساسِ قربت سے جنم لیتا ہے۔ گویا خوف و رجا بھی قربت سے جنم لے رہی ہے اور شفقت و محبت کا یقین بھی احساسِ قربت سے جنم لے رہا ہے۔ قربت کا احساس بندے کو برائی اور نقصان سے بچا بھی رہا ہے اور حوصلہ و امید بھی دے رہا ہے۔ یہ امید محبت کی وجہ سے ہے جس کے نتیجے میں اور زیادہ قربت ہوتی ہے۔
جس طرح چھوٹا سا بچہ بھوک، تکلیف، خوشی، غمی الغرض ہر حال میں ماں کو پکارتا ہے، اس لیے کہ اس کو پتہ ہے کہ ماں سے بڑھ کر میرے قریب کوئی نہیں، سو وہ سب سے زیادہ ماں کے قریب ہوتا ہے اور ماں کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ اسی طرح ایک بچے کے حال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ کر اس بندے کی طرف آجائیں جو اللہ کے ساتھ اس احساسِ قربت کے ذریعے جڑ جاتا ہے۔ وہی بندہ ولی بنتا ہے جو اللہ سے اس طرح کا تعلق رکھے جس طرح کا تعلق چھوٹا بچہ اپنی ماں سے رکھتا ہے۔ چھوٹا معصوم بچہ جو ماں پر بھروسہ کرتا ہے، ماں اگر ڈانٹ بھی دے تو ماں کی ڈانٹ کو برا نہیں منائے گا جبکہ وہی بچہ باپ کی ڈانٹ سے سہم جاتا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ یہاں احساسات، جذبات، تصورات، تخیلات اور دل و روح کی قربت کا فقدان ہے۔ بچے کے دل و دماغ میں ماں کی مدد و نصرت، اس کے پیار اور اس کی حفاظت کی قربت کا احساس پختہ ہوچکا ہے۔ اس کو پتہ ہے کہ ساری رات اگر مجھے تکلیف ہو تو ماں جاگتی ہے، ماں میرے آرام پر اپنا آرام قربان کرتی ہے، مجھے کھلانے کے لیے اپنا کھانا قربان کرتی ہے، میرے پیشاب پر اپنے کپڑے قربان کرتی ہے، میری تکلیف پر اپنی جان قربان کرتی ہے۔ ماں اولاد کے لیے ساری زندگی جو قربانی دیتی ہے، یہ قربانی قربت کی شکل میں بچے کے دل و دماغ میں راسخ ہوجاتی ہے۔ وہ اس قربانی کے آئینے میں ماں کو قریب دیکھتا ہے اور اس پر بھروسہ کرتاہے۔
اب اسی بچے کے حال کو منتقل کردیں اس بندے کے حال میں جو اپنے مولا کے حضور دودھ پیتے بچے کی طرح ہوجائے کہ اگر اسے تکلیف ہو تب بھی اللہ کو پکارے اور راحت ہو تب بھی اللہ کو پکارے۔۔۔ تکلیف ہو تو صبر کی بولی اس کی زبان بن جائے۔۔۔ اگر راحت ہو تو شکر کی آواز میں پکارے۔۔۔ کوئی حاجت و تمنا ہو، تنہا ہو یا جلوت میں تب بھی اللہ کو پکارے۔۔۔ جب بندے کے اندر یہ شعور بیدار ہوجائے کہ مولا میرے قریب ہے اور جب اسے نحن اقرب الیہ کی آواز سنائی دینے لگ جائے تو تب وہ اسے ہمیشہ اپنے ساتھ محسوس کرے گا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا اور اسی طرح اس کی قربت کے خوف سے گناہ نہیں کرے گا۔
جب اللہ تعالیٰ کی قربت کا احساس حقیقی معنوں میں کسی بندے میں جنم لیتا ہے تو ساتھ ہی اس کی ذات سے توکل، یقین اور شکر کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ وہی رزق دے گا، وہی کرم کرے گا، وہی شفا دے گا، وہی خیر کرے گا اور وہی سنبھال لے گا۔ پس شکر بھی اسی کے ساتھ جڑتا ہے اور اگر کبھی تکلیف آجائے تو شکوہ بھی نہیں کرتا۔ تکلیف ڈانٹ کو کہتے ہیں۔ یہ جو تکلیفیں آتی ہیں یہ ماں کی ڈانٹ کی مانند ہیں جیسے ماں کی ڈانٹ بچے کو تکلیف لگتی ہے، وہ ایک لمحے کے لیے روتا ہے مگر ماں سے بدظن نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس کی ڈانٹ بھی پیار کے خمیر سے نکلی ہے۔ جو بندہ اللہ کے ساتھ بچے کی طرح اس طرح کا تعلق قائم کرلے پھر اللہ کی طرف سے اگر ڈانٹ ڈپٹ بھی آئے، تکلیفیں اور مصائب و آلام بھی آئیں تو بندہ شکوہ نہیں کرتا۔ وہ سوچتا ہے کہ اس کی طرف سے آئی ہیں، مجھے درست کرنے اور میری خیر کے لیے ہی آئی ہوں گی۔ لہٰذا جب بندہ ہر اعتبار سے اللہ کے قریب ہوجائے تو بندہ ولی اللہ ہوجاتا ہے۔
رب تعالیٰ کی آواز آرہی ہے کہ انی قریب میں بہت ہی قریب ہوں مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے کانوں کو سنائی نہیں دے رہی۔ چونکہ سنائی نہیں دے رہی اس لیے سمجھ نہیں آرہا کہ کون ہمارے اتنا قریب ہے۔ افسوس کہ ہمیں اس کے قریب ہونے کا شعور نہیں ہورہا، جب یہ شعور اور احساسِ قربت بیدار ہوجائے اور آوازِ قربت سنائی دینے لگے تو بندہ بچے اور ماں کے تعلق سے کئی گنا بڑھ کر اپنے مولیٰ کی قربت کے احساس میں کھو جاتا ہے۔
روحانی لذات و کیفیات کا احساس
جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو اس کی ایک لذت اور ذائقہ محسوس ہوتا ہے، جب ہم کسی باغ میں جاتے ہیں اور خوبصورت پھل، پھول اور منظر دیکھتے ہیں، آبشاروں اور بہتے ہوئے دریائوں کو دیکھتے ہیں، زمینی خوبصورتی کو دیکھتے ہیں تو اس منظر کا ایک احساس جنم لیتا ہے جس سے دل و دماغ میں تازگی محسوس کرتے ہیں۔ جس طرح یہ مادی محسوسات ہیں، اسی طرح غیر مادی احساسات یعنی تصورات کی بھی ایک لذت ہوتی ہے۔ کبھی ہم کسی پرانے گزرے ہوئے پیارے لمحے کو یاد کرکے بھی ایک لذت لیتے ہیں۔۔۔ کبھی اللہ کا ذکر یا کوئی خوبصورت نعت سنتے ہیں تو اس آواز سے لذت لیتے ہیں۔۔۔ اسی طرح جب بندہ قلب و روح کے ساتھ یہ محسوس کرنے لگے کہ مولا میرے قریب ہے اور وہ مجھے بچانے والا ہے۔۔۔ میری حفاظت کرنے والا ہے۔۔۔ میری حاجت روائی کرنے والا ہے۔۔۔ مجھے تاریکی سے نکالنے والا ہے۔۔۔ مجھے نور کی طرف لے جانے والا ہے۔۔۔ وہ مجھے بلند و برتر کرنے والا ہے۔۔۔ وہ ہر حال میں مجھے سنبھالنے والا ہے۔۔۔ وہ میرے ساتھ کرم و فضل کرنے والا ہے۔۔۔ ان ہی تصورات و خیالات اور اس کی عنایات و عطایا کو سوچتے سوچتے بندہ یہاں تک جا پہنچے کہ ایک دن وہ آئے گا کہ پردہ اٹھاکر وہ مجھے اپنا حسن دکھانے والا ہے۔ تو جب بندہ اس کو قریب جان کر ان تصورات میں گم ہوتا ہے تو وہ بندہ اپنے مولا کے ساتھ ایک وارفتگی کی کیفیت میں ڈوب جاتا ہے۔
قربتِ الہٰی ایک عظیم خزانہ ہے
افسوس کہ ہم اللہ کی قربت کے احساس سے محروم ہیں۔ ہم اللہ کے قریب ہورہے ہیں اور نہ اس کی دوستی اور ولایت سے بہرہ یاب ہورہے ہیں جبکہ اس کی طرف سے دوستی، ولایت اور قربت قائم ہے۔ ہم اس سے دور کیوں ہیں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ نفس نے ہمارے اندر اللہ سے دوری کے مختلف اسباب پیدا کررکھے ہیں، نفس نے ایسی تہیں (Layers) ہمارے اندر پیدا کردی ہیں جو ہمارے اندر سے اللہ رب العزت کی قربت کے شعور کو دبادیتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ اللہ کی قربت ایک نعمت اور ایک عظیم روحانی خزانہ ہے اور خزانہ کبھی زمین پر ہر ایک کے سامنے نمایاں کرکے کوئی نہیں رکھتا بلکہ خزانہ زمین کی دبیز تہوں کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ ہم روزمرہ معمول میں دیکھتے ہیں کہ مختلف ملکوں میں تیل برآمد ہوتے ہیں سمندروں میں ہوں یاصحرائوں یا پہاڑوں میں ہوں تو کئی کئی ہزار میٹر نیچے کھدائی کرتے ہیں، یہ الگ بات کہ کسی کو ملتا ہے اور کسی کو نہیں ملتا، مگر جس کو بھی ملتا ہے وہ کھدائی سے ملتا ہے۔ اسی طرح سونا چاندی، ہیرے، موتی اور قیمتی دھاتیں الغرض جملہ خزانے ہر کوئی چھپا کر رکھتا ہے۔ اللہ کی قربت اور ولایت بھی بڑا خزانہ ہے اور اسے بھی اس نے ہر ایک کے لیے نہیں رکھا۔ اس نے ہماری زندگی میں اپنی ولایت اور قربت کا خزانہ بھی دبیز تہوں کے نیچے چھپا کر رکھا ہے۔ بغیر کھدائی کے تو کوئلہ، نمک، پانی اور تیل نہیں ملتا تو اللہ کی قربت معرفت اور ولایت کا خزانہ بغیر محنت کے کیسے ملے گا۔
غفلت کے پردے اور تہیں کیا ہیں؟
اللہ رب العزت کی قربت کے خزانے تک رسائی کے لیے جو کھدائی کرنی پڑتی ہے، اس کھدائی کو مجاہدہ اور ریاضت کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کھدائی کس چیز کی کرنی ہے؟ دراصل غفلت کی ان تہوں کو کھودنا اور دور ہٹانا مقصود ہے جو اللہ سے دور کرنے اور اللہ کی قربت کے شعور کو دبا دینے والی ہیں، ان تہوں کو ریاضت اور مجاہدے کے ذریعے ختم کرنا ہے۔ ان تہوں کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کیا ہے جن کے نیچے اللہ کی قربت، ولایت اور معرفت کا خزانہ پڑا ہے جس کا ہمیں شعور نہیں۔ وہ تہیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا:
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاج وَاﷲُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ.
(آل عمران، 3: 14)
’’لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے‘‘۔
وہ شہوتیں کیا ہیں؟ الذہب والفضہ (سونے اور چاندی) سے مال و دولت کی طرف اشارہ ہے۔ والخیل المسومۃ (نشان زدہ گھوڑے) سے طاقت، حکومت، عہدہ، منصب اور سلطنت کی طرف اشارہ ہے۔ والانعام والحرث سے معیشت اور ذرائع و وسائل کی طرف اشارہ ہے۔ الغرض یہ ساری چیزیں انسانی زندگی میں چھوٹے درجے کی بھی ہیں اور بڑے لیول کی بھی ہیں۔ ہر کسی کی اپنی حیثیت کے مطابق خواہشات ہیں۔ اللہ رب العزت نے دنیوی زندگی کے ساز و سامان کی ساری خواہشات کو شہوات کا نام دیا ہے۔
شہوت کیا ہے اور کہاں سے جنم لیتی ہے؟
اس آیتِ مبارکہ میں تین الفاظ استعمال کیے گئے:
- زین
- حب
- شہوات
شہوات سے پہلے حُب کا لفظ استعمال کیا جس کا معنی خواہش ہے اور شہوت کا معنی بھی خواہش ہے مگر ’’حب الشہوات‘‘ سے مراد ایسی خواہش ہے جو دل سے چمٹ جائے، جو دل کو اپنے گھیرے میں لے لے، دل میں رغبت اور طلب پیدا کرے۔ لہٰذا ایسی خواہش جو اس درجے پہ ہو کہ زندگی کی طلب (Demand) اور مضبوط خواہش بن جائے، جو دل کو قابو کرلے تو ایسی خواہش کو شہوت کہتے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ شہوت عام خواہش سے جنم لیتی ہے۔ مثلاً: کسی بڑے گھر کو دیکھا، کوئی کوٹھی دیکھی، کوئی کار دیکھی، کسی پاور فل شخص کو دیکھا، کسی کا عہدہ، منصب دیکھا، کسی کی پُر سکون زندگی دیکھی، عیاشی دیکھی، طاقت دیکھی، الغرض جو کچھ دنیا میں زندگی کا ماحول اور منظر دیکھا تو ان کے بارے میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے، اگر یہ خواہش محض خیال (Thought) ایک Idea اور Desire تک رہے تو اس کو عربی میں ’’الھویٰ‘‘ کہتے ہیں جس کا معنی میل النفس الی الشہوۃ ہے یعنی ھویٰ اس خواہش کو کہتے ہیں جو بندے کے اندر شہوت کا میلان پیدا کرے، جو دل پر غلبہ و قابو پالینے کا Potential (صلاحیت) رکھتی ہو، دل پر چھا جانے اور دل کو اپنے کنٹرول میں لے لینے کی طاقت رکھتی ہو۔ گویا ’’ھویٰ‘‘ شہوت کا مصدر ہے اور شہوت ’’ھویٰ‘‘سے جنم لیتی ہے۔
کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں جو خواہش سے پاک ہو، لہذا محض اچھی خواہش رکھنے یا خواہش کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ اس لیے خواہش کو اللہ تعالیٰ نے برا نہیں کہا لیکن جب وہ خواہش دل پر چھا جاتی ہے تو وہاں سے برائی شروع ہوتی ہے اور بندہ پھسلنے اور ڈگمگانے لگتا ہے۔ جب تک خواہش تھی، اس وقت تک بندہ اس کو اپنا بھی سکتا تھا اور اس کو چھوڑ بھی سکتا تھا، اس کو بڑھا بھی سکتا تھا اور پھینک بھی سکتا تھا۔ اس لیے کہ خواہش (ھویٰ) ایک ایسی آرزو اور خیال ہے کہ جس پر بندے کا قابو اور کنٹرول ہے۔ یعنی اگر بندہ اسے چھوڑنا چاہے تو وہ آسانی سے چھوٹ بھی جائے۔ دوسرے الفاظ میں خواہش بندے پر غالب نہ ہو تو پھر ’’ھویٰ‘‘ ہے اور اگر خواہش (ھویٰ) بندے پر غالب ہوجائے تو وہ ’’شہوت‘‘ ہے۔ بندہ طاقتور رہے تو وہ خواہش ’’ھویٰ‘‘ ہے اور اگر بندہ خواہش کے مقابلے میں کمزور ہوجائے تو سمجھیں خواہش بڑھ کر شہوت بن گئی ہے اور اب اس کے دل میں اس کی رغبت آگئی ہے، دل اس میں Involve ہوگیا ہے، اب ہمہ وقت دل اسے سوچنے لگا ہے، اس کی چاہت کی طرف چلا گیا ہے اور دل اب اس کو حاصل کرکے ہی آرام پائے گا اور اگر وہ چیز نہیں ملی تو دل بے آرام ہوگا۔ اگر خواہش اس درجے تک چلی جائے کہ دل کو بے چین کردے، دل کے سکون کے ساتھ جڑ جائے، دل پہ قابو پالے تو اب اس ’’ھویٰ‘‘ کو شہوت کا نام دیا جائے گا۔
مطلقاً شہوت کو بھی اللہ تعالیٰ نے برا نہیں کہا کیونکہ یہاں تک بندے کے اختیار میں ہے کہ ریاضت کے ذریعے اسے کمزور کردے، اس پر کنٹرول پالے۔ یہ بندے پر Depend کرتا ہے کہ اس کا شعور بیدار ہو اور اسے یہ خیال آئے کہ میں مغلوب اور کمزور ہوتا جارہا ہوں، میں اپنی خواہشات کا غلام ہوتا جارہا ہوں، میری خواہش میرے اوپر سوار ہوتی جارہی ہے۔ بس یہ وہ لیول ہے جہاں بندے نے حد قائم کرنی ہے کہ بندہ خواہش پر سوار ہے یا خواہش بندے پر سوار ہے؟ اگر خواہش بندے پر سوار ہوجائے تو یہ ’’شہوت‘‘ ہے اور اگر بندہ خواہش پر سوار ہے تو یہ ’’ھویٰ‘‘ ہے۔
شہوت؟ محبت میں کب بدلتی ہے؟
اگر شہوت میں دوام آجائے اور وہ ہر وقت بندے کے دل کو پکڑے رکھے، دل کے ساتھ چمٹ جائے، اس کے اندر جم جائے اور چھوڑنے کا نام نہ لے تو وہ محبت ہے۔ جب بندہ غالب تھا، تو وہ خواہش تھی، اب خواہش بندے کے اوپر سوار ہوگئی تو شہوت ہوگئی اور اگر وہ شہوت جم گئی اور دل سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتی اور بندے کے بس میں بھی نہیں رہا کہ وہ اس سے ہٹ سکے بلکہ رات دن، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، خلوت و جلوت میں وہی دھیان رہے تو سمجھیں اب اس نے بندے کو قابو کرلیا ہے، اب یہ محبت ہے۔ اب شہوت پر محبت کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ پس خواہش سے شہوت بنی اور شہوت سے محبت بنی۔
جب شہوتوں کے ساتھ محبت ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب ہے بندہ شہوت میں اس طرح گھِر جاتا ہے کہ اب وہ رات دن زندگی کے کسی لمحے بھی ان سے جان ہی نہیں چھڑا سکتا، وہ اس کے دل و دماغ پر مسلط ہوجاتی ہے۔ اس کو خیال ہی یہی رہتا ہے کہ ’’اب میں نے یہ حاصل کرکے چھوڑنا ہے۔۔۔ وہ نہ ملا تو میں برباد ہوگیا۔۔۔ میرا سکون ختم ہوگیا۔۔۔ میرا کچھ بھی نہ بچا۔۔۔ میں ختم ہوگیا‘‘۔۔۔ اس طرح کے خیالات اُسے گھیرے رکھتے ہیں۔
خطرات کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟
شہوت Itself نہ اچھائی ہے نہ برائی اور نہ نیکی ہے نہ بدی۔ یہ نفس کی ایک کیفیت ہے۔ Depend کرتا ہے کہ اس کا ٹارگٹ کیا ہے؟ اس کی منزل اچھائی کی طرف ہے تو اچھائی کی طرف لے جائے گی، برائی کی طرف ہے تو برائی ہلاکت میں ڈال دے گی۔ جب شہوت کے ساتھ محبت جمع ہوجائے تو یہاں سے خطرات شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں محبت بندے کو فتنہ اور آزمائش میں ڈال دیتی ہے اور بندہ اپنا توازن کھو دیتا ہے۔ اب قرآن مجید نے ’’حب الشہوات‘‘ کے اوپر ایک تیسرے لفظ ’’زُیّن‘‘ کا اضافہ کیا، فرمایا:
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہْوَات یعنی اگر شہوتوں کو محبت گھیر لے اور پھر شہوتوں کی محبت آراستہ و مزیّن ہوجائے، اس کو زینت مل جائے، وہ Attractive بن جائے، بڑی خوبصورت لگے تو گویا پہلے شہوت تھی اب شہوت پر محبت چڑھ گئی، محبت پر زینت و آراستگی چڑھ گئی، اس کی ڈیکوریشن ہوگئی تو جب یہ تین چیزیں جمع ہوجائیں تو یہ تہیں بن جاتی ہیں۔ جس سے اللہ کی قربت کا حُسن نظر آنا ختم ہوجاتا ہے، اللہ کی قربت کا احساس ختم ہوجاتا ہے اور اللہ کی قربت کا خزانہ بہت نیچے دب جاتا ہے۔
انسان کی زندگی میں شہوتیں تہہ در تہہ موجود ہیں۔ عورتوں، اولاد، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں، خونی رشتوں، سونے چاندی، مال و دولت، امیری، سلطنت، منصب، طاقت، حکومت، زراعت، آسائش الغرض یہ ساری شہوتیں پردے بن جاتی ہیں اور یہ پردے تہہ در تہہ اللہ کی قربت کے احساس اور شعور کو دباتے چلے جاتے ہیں۔ بندہ چونکہ انہیں روکتا نہیں، اس لیے ان کی خوبی یہ ہے کہ اگر ان کو روکا نہ جائے تو بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ درخت یا کسی بیل کی مثال لے لیں کہ ان کی کانٹ چھانٹ نہ کی جائے تو وہ پھیلتی چلی جاتی ہے۔ درخت کی کانٹ چھانٹ نہ کریں تو اس کی شاخیں نکلتی چلی جاتی ہیں۔ اسی طرح شہوت کا درخت بڑھتا چلا جاتا ہے پھر اس سے سو شاخیں نکلیں گی، ان پر پھل لگیں گے، یہ بڑھتا چلا جائے گا اور تناور درخت ہوجائے گا کیونکہ اس کو محبت کا پانی ملتا ہے اور محبت کے پانی سے شہوتوں کا درخت تناور ہوتا ہے۔
یہ شہوت ہر شخص کی زندگی میں ہے۔ ابتدا میں وہ خواہش تھی جب تک بیلنس رہے تو جائز ہوتی ہے اور جب وہ توازن کھو دے تو وہی جائز خواہش ناجائز ہوجاتی ہے۔ روزگار کی خواہش جائز ہے لیکن جب روزگار کو اپنے اوپر اتنا سوار کرلیں کہ مال و دولت کی وجہ سے حلال و حرام کا فرق مٹادیں تو وہ ناجائز ہوگیا۔ عزت کی خواہش جائز ہے مگر اپنی عزت دوسرے کی بے عزتی، خود پسندی یا خود پرستی کا باعث بننے لگے اور اپنی عزت کے سوا کچھ دکھائی و سجھائی نہ دے تو یہ شہوت بن گئی اور گناہ ہوگیا۔ اسی طرح راحت کی خواہش بری چیز نہیں ہے، مگر بندہ راحت کا غلام بن جائے کہ راحت کے بغیر رہ ہی نہ سکے اور اگر راحت نہ ملے تو شکایت جنم لے تو وہ راحت کے حصول کی یہ خواہش ناجائز کے دائرے میں چلی گئی۔
ہر خواہش اگر بری چیز کی نہیں ہے تو اصلاً جائز ہوتی ہے، مگر جب وہ حد کراس کرتی ہے اور شہوت کے دائرے میں داخل ہوتی ہے تو برائی کی رینج میں آجاتی ہے۔ پھر جب اس خواہش پر محبت کا غلبہ ہوجاتا ہے تو بڑی آزمائش بن جاتی ہے اور پھر اگر آراستہ ہوجائے تو آنکھوں پر پردے چڑھ جاتے ہیں، بندہ اندھا ہوجاتا ہے اور اس کو شعور ہی نہیں رہتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قربت سے کس قدر محروم ہوگیا۔ پھر بندے کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ میں اللہ کے حکم سے کتنا دور چلا گیا۔ اسے نافرمانیوں کی تاریکیاں نظر نہیں آتیں اور اپنی نافرمانی، ظلم اور گناہ کا احساس نہیں ہوتا۔ گناہ کرکے بھی اُس کے گناہ ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ ساری چیزیں اس لیے ہوتی ہیں کہ تین قسموں کی تہیں چڑھ جاتی ہیں:
پہلے شہوت کی تہیں تھیں پھر اوپر محبت کی تہیں چڑھیں اور پھر زینت کی تہیں چڑھیں۔ یہ ساری تہیں جب ملتی ہیں تو اللہ کی قربت، اس کی بندگی اور اس کے کے ساتھ تعلق و ولایت کا احساس ختم ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں بندہ اللہ سے دور چلا جاتا ہے۔
خلاصہ کلام
ہدایت کی ابتداء یہ ہے کہ جب بندے کا شعور بیدار ہوجائے کہ اللہ میرے قریب تھا، اللہ میرے قریب ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی اور میرے قریب نہیں ہوسکتا لیکن افسوس کہ میں اللہ سے دور ہوگیا ہوں۔ جب یہ شعور آجائے کہ اللہ سے مجھے کس کس شے نے دور کررکھا ہے۔۔۔؟ مجھے اللہ کی قربت کے احساس سے محروم کرنے کے کیا کیا اسباب ہیں۔۔۔؟ اللہ سے دور ہونے کا احساس جب اس طرح بیدار ہوجائے اور بندہ سوچے کہ اب دوری کیسے ختم ہوگی تو سمجھیں اس کی زندگی میں ہدایت کی ابتداء ہوگئی۔ یہ احساس پیدا ہوجانا کہ اللہ کی دوری کیسے ختم ہو اور اللہ کی قربت مجھے کیسے نصیب ہو؟ اس احساس کی بیداری کو ’’بدایۃ الہدایۃ‘‘ کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس شعور کی بیداری نصیب فرمائے۔ منہاج القرآن کی تمام سرگرمیاں دراصل اسی شعور کو بیدار کرنے کی کاوشیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قربت کا وہ شعور جس پر ہماری غفلت، شہوت، دنیوی محبت اور دنیوی آرائش و زینت کی وجہ سے تہیں چڑھ گئی ہیں اور جن کی وجہ سے ہمارے اندر احساسِ قربت ختم ہوگیا ہے، اس احساس کو بیدار کرنے اور اللہ کی قربت کے خزانے تک پہنچنے کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو صدقِ دل اور خلوص سے عمل پیرا ہونا ہوگا۔