ایک فرد کی زندگی کے دو پہلو ہیں: ایک پہلو سے وہ اپنے خالق سے متعلق ہے اور دوسرے اعتبار سے وہ مخلوقِ خداوندی سے جڑا ہوا ہے۔ خالق کے حوالے سے وہ احساس، عجز و نیاز اور عبودیت کو اپناتا ہے جبکہ مخلوق کی نسبت سے خدمت، نفع بخشی اور فیض رسانی کو شعار بناتا ہے۔ ’’خلق‘‘ اللہ کا کنبہ ہے جس سے حسن سلوک دنیوی و اخروی فلاح کی ضمانت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدمتِ خلق کے حوالے سے ایسے مظاہر کا اظہار فرمایا کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ بعد از اعلانِ نبوت کی زندگی تو پوری ہی خدمت انسانی سے عبارت ہے، قبل از اعلانِ نبوت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ذمہ داری سے کماحقہ عہدہ برآ ہوتے رہے۔ معاشرے کے یتیموں، بے کسوں، بیوائوں، مجبور و مقہور افراد کی داد رسی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیوہ تھا بلکہ پیغمبرانہ طریق کا دوسرا بنیادی ہدف ہی خدمتِ خلق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی خدمت کو خالق کی خدمت قرار دیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا رہا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی۔ انسان کہے گا: تو سارے جہاں کا پروردگار ہے تو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن اس کے باوجود تو اس کی مزاج پرسی کے لیے نہیں گیا۔ اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا: اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا: اے دونوں جہاں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے کیسے پانی پلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کردیا تھا اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلة باب فضل عیادة المریض)
اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ مخلوق کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کی خدمت کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ جس طرح اللہ کی عبادت دین ہے اسی طرح بندوں کی خدمت بھی دین ہے۔ خدمتِ خلق کے ذریعے بندوں کے درمیان محبت و الفت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور باہمی قربت بڑھنے سے مسلمان ایک جسم کی مانند ہوجاتے ہیں۔ حاجت مندوں کی مدد کرنا اور مشکل حالات سے دو چار انسانوں کو سہارا دینا ایک مفید معاشرتی عمل ہے۔
خدمتِ خلق: احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدمتِ خلق کو روحانی و اخلاقی بنیاد فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
خَیْرُالنَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاس.
(کنزالعمال، کتاب المواعظ والرقائق، باب، خطب النبی ومواعظه، ج: 16، ص: 54)
’’لوگوں میں بہتر وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتا ہے‘‘۔
یہ نفع رسانی بغیر کسی ذاتی غرض و مصلحت کے ہے، رشتہ داروں، عام ضرورت مندوں، عام انسانوں، حتی کہ جانوروں سے حسنِ سلوک بھی پسندیدہ رویہ ہے جبکہ بدسلوکی اور ضرر رسانی ناپسندیدہ رویہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان شرالناس عندالله منزلته یوم القیامة من ترکه الناس اتقاء شره.
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب لم یکن النبی فاحشا)
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن رتبے کے لحاظ سے بدترین انسان وہ ہوگا جس کے شر کے ڈر سے لوگ اسے چھوڑیں‘‘۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
والذی نفسی بیده لا یومن عبد حتی یحب لاخیه مایحب لنفسه.
(سنن ترمذی، کتاب السیر، باب فی التحریق والتخریب)
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی بندہ اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ (بھلائی) نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الراحمون یرحمهم الرحمن ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء.
(مسند احمد بن حنبل، 4: 307)
’’رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم کرتا ہے، زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا‘‘۔
خدمتِ خلق کے فوائد
خدمتِ خلق کا پہلو اپنے اندر متعدد حوالے سے کئی فوائد و ثمرات سمیٹے ہوئے ہے۔ ذیل میں ان میں سے چند فوائد درج کیے جارہے ہیں:
1۔ خدمتِ خلق فرد کی تربیت کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے باعث انسان رذائلِ اخلاق اور نفس کے فریب سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ دنیا میں فساد کا بڑا سبب فرد کی حد سے بڑھی ہوئی ہوس، اس کی طبیعت کا بخل اور اس کا جبرو تشدد ہے۔ یہ اس کی ہوس ہی تو ہے جس سے معاشرہ استحصال کا شکار ہوتا ہے۔ یہ اس کے نفس کا غرور ہی تو ہے جو جبرو تشدد اور ظلم و دہشت کو جنم دیتا ہے اور یہ اس کا بخل ہی تو ہے جو معاشی زندگی کی نشوونما روکنے کا باعث بنتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان اخلاقی بیماریوں کا علاج خدمتِ خلق کے ذریعے کیا ہے۔
2۔ خدمتِ خلق کے لیے محبت، شفقت اور ہمدردی و اخلاص کے علاوہ ایثار و قربانی کا جذبہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایثار کی ترغیب دلائی۔ قرآن پاک میں انصارکے ایثار کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا گیا:
وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
(الحشر، 59: 9)
’’جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیں‘‘۔
3۔ خدمتِ خلق کے ذریعے ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جس میں ہر فرد دوسرے کے لیے سوچتا اور عمل کرتا ہے۔ چونکہ خدمتِ خلق سے فرد کے ذاتی مفادات کی قربانی ہوتی ہے، اس لیے طبائعِ آسانی سے اس کی طرف مائل نہیں ہوتیں۔ انبیاء علیہم السلام نے انسان کو اس کام کے لیے آمادہ کرنے پر بڑی محنت کی ہے۔ اللہ کی توحید کا شعور اور خدمتِ خلق کے طریقے اختیار کیے ہیں، اسوۂ حسنہ کا مطالعہ کرنے سے وہ گوشے واضح ہوجاتے ہیں۔
4۔ خدمتِ خلق کا سب سے زیادہ فائدہ خدمت کرنے والے کو ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ غیب سے اس کی مدد فرماتا ہے۔ اس کے اپنے کام بھی ہوجاتے ہیں اور آخرت کا اجر اس کے علاوہ ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
واللہ فی عون العبد ماکان العبد فی عون اخیه.
(سنن ترمذی، کتاب البر، باب ماجآء فی الستره علی المسلم)
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد اس وقت تک کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘۔
دوسرے موقع پر اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
المسلم اخوالمسلم لا یظلمه ولا یسلمه ومن کان فی حاجة اخیه کان الله فی حاجته ومن فرج عن مسلم کربة فرج عنه کربة من کربات یوم القیامة.
(صحیح مسلم، کتاب البر، باب تحریم ظلم المسلم)
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس سے کنارا کرتا ہے۔ جو آدمی اپنے بھائی کا کوئی مسئلہ حل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی بھی حاجت پوری کرتا رہتا ہے اور جس نے اپنے بھائی کے دکھ میں حصہ لیا، اللہ قیامت کے دن اس کی مشکل میں سے ایک مشکل کو دور کردے گا اور جس نے دنیا میں اپنے بھائی کی پردہ پوشی کی، اللہ قیامت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا‘‘۔
صرف یہی نہیں بلکہ اسکے بدلہ میں بڑا اجر بھی ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من قضی لاخیه حاجة کان بمنزلة من خدم الله عمره.
(جامع الصغیر، جلال الدین سیوطی، 2: 79)
’’اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنا ایسا ہے جیسے ساری عمر اللہ کی خدمت کرنا‘‘۔
5۔ دنیوی فوائد کے ساتھ خدمتِ خلق کے اخروی فائدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من اغاث ملهوفا کتب الله له ثلاثا وسبعین مغفرة واحده منها صلاح امره کله وثنتان وسبعون له درجات یوم القیامة.
(جامع الصغیر، سیوطی، 2: 65)
’’جس نے مشکلات میں گھرے کسی شخص کی مدد کی تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں مغفرت کے ساتھ تہتر (73) نیکیاں لکھے گا۔ ان میں سے ایک بدلہ یہ ہے کہ اس کے تمام کام ہوجائیں گے اور بہتر (72) درجات قیامت کے دن ملیں گے‘‘۔
خدمتِ خلق: شرائط، ذمہ داریاں اور تقاضے
خدمتِ خلق کرنے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اس احسن عمل سے رضاء الہٰی کے طالب ہوں اور خدمت میں ثابت قدم رہیں چاہے تھوڑی خدمت کریں لیکن اس پر قائم رہیں۔ اس میں اخلاصِ نیت کو ملحوظ رکھیں، نام و نمود اور دکھلاوا نیکیوں کو ضائع کردیتا ہے۔
2۔ تمام نیکیوں کی بنیاد رضائے الہٰی کا حصول ہے۔ تمام عبادتیں اس کے بغیر بے کار ہوجاتی ہیں۔ ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول اللہ! کوئی شخص اس لیے لڑتا ہے کہ مال غنیمت ہاتھ آئے، کوئی اس لیے کہ وہ بہادر کہلوائے اور کوئی اس لیے کہ اس کو شہرت حاصل ہو تو ان میں سے کون ہے جس کا عمل جہاد فی سبیل اللہ متصور ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من قاتل لتکون کلمة الله هی العلیا فهو فی سبیل الله.
(صحیح بخاری، کتاب الجهاد، باب من قاتل لتکون کلمة الله هی العلیا)
’’جو اس لیے لڑتا ہو کہ اللہ کی بات بلند ہو، وہی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے‘‘۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’گھوڑا باندھنا کسی کے لیے اجر کا باعث ہے، کسی کے لیے پردہ پوشی ہے اور کسی کے لیے گناہ ہے۔ اجر کا باعث اس کے لیے جو اللہ کی راہ میں اسے باندھتا ہے تو اس کے چرنے اور پانی پینے کا بھی اس کو ثواب ملتا ہے۔ پردہ پوشی اس کے لیے ہے جو ضرورتاً اس لیے باندھتا ہے کہ خدا نے اس کو دولت دی ہے تو اس کو اپنی ضرورت کی چیز دوسروں سے مانگنی نہ پڑے تو وہ رحم و شفقت کے ساتھ اس سے کام لیتا ہے اور اس کا حق ادا کرتا ہے۔ گناہ اس کے لیے جو فخر اور نمائش کے لیے باندھتا ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الجهاد، باب الخیل الثلاثه)
معلوم ہوا کہ اگر خدمتِ خلق میں یا کسی بھی امر میں رضائے الہٰی مقصود نہ ہو تو اس عمل کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔ رضائے الہٰی کے حصول کی نیت ہی اخلاق اور خدمت کے رویوں کو درست سمت عطا کرتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے نیت کو بہت اہمیت دی ہے۔ نیت دراصل غرض و غایت متعین کرتی ہے۔ اگر نیت رضائے الہٰی کا حصول ہے تو تمام اعمال نتیجہ خیز ہیں اور اگر نیت کسی اور مقصد کے لیے ہے تو اس سے اخروی نتائج ضائع ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَاج وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهٖ مِنْهَا.
(آل عمران، 3: 145)
’’اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں‘‘۔
خدمتِ خلق اور حکمرانوں کا کردار
اسلام خدمتِ خلق سے وابستہ تمام طبقوں، حکمرانوں اور ان سے وابستہ افراد سے خلق خدا کے لیے محبت و شفقت چاہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان الله یحب الرفق فی الامر کله.
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الرفق فی الامر کله)
’’اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے‘‘۔
نفع بخشی و فیض رسانی اولین خدمت ہے جس کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توجہ دلائی۔ باہمی رحمت و شفقت کی اس پالیسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہایت خوبصورت انداز میں مسلمانوں کی جماعت کے حوالے سے بیان فرمایا: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تری المومنین فی تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم کمثل الجسد اذا اشتکی عضو تداعی له سائر جسده بالسهر والحمی.
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب رحمة الناس)
’’تو مومنوں کو باہمی رحم دلی، دوستی اور باہمی مہربانی میں ایک جسم کی مانند پائے گا جب کسی عضو کو دکھ پہنچتا ہے تو سارا جسم بے خوابی اور تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔
ملک کے حکمران بھی ’’امیرالقوم خادمہم‘‘ کے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مصداق قوم کے خادم ہوتے ہیں۔ اس لیے ائمہ کرام نے حکمرانوں کو بھی اس حوالے سے متعدد نصیحتیں کی ہیں۔ امام غزالی حکمرانوں، ان کے کارندوں اور خدمت گاروں کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حکمران کو محض اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے کہ و ہ بذاتِ خود ظلم اور بے انصافی نہیں کرتا بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اپنے نوکروں، گماشتوں اور نائبوں کو بھی راہِ راست پر چلائے اور ان کے مظالم پر چشم پوشی نہ کرے۔ روزِ قیامت محض اس کے اپنے ہی اعمال کی پرسش نہیں ہوگی بلکہ اس کے ملازموں کی غلط کاروائیوں کی بھی پرسش ہوگی اور ایسا کرنا اس وقت تک مشکل ہے کہ جب تک حکمران اپنے اندر انصاف پیدا نہیں کرلیتا۔ انصاف پسندی کے لیے یہ ضروری ہے کہ استبداد پسندی، شہوت اور غصے کو عقل پر قابو نہ پانے دیا جائے ورنہ عقل اور دین ان کے اسیر بن جائیں گے۔ عام طور پر انسان عقل کونیام میں بند کردیتے ہیں اور غصے اور شہوت کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ دین اور عقل فرشتوں کا جوہر اور اللہ تعالیٰ کی فوج ہیں۔ جبکہ شہوت اور غصہ ابلیس کی فوج ہیں۔ کیسے وہ آدمی دوسروں کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے جو دین اور عقل کو شیطان کی فوج کا قیدی بنادے۔ انصاف کا سورج پہلے حکمران کی روح میں طلوع ہوتا ہے پھر اس کی شعاعیں پہلے خانہ خواص، پھر اہلکاروں اور پھر رعیت پر پڑتی ہیں۔ جو بھی سورج کے بغیر روشنی کی شعاعیں چاہتا ہے وہ ناممکن کی توقع کرتا ہے‘‘۔
سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خالق کائنات نے جو مرتبہ عطا فرمایا تھا وہ بنی نوع انسان میں کسی کو نہیں ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا:
انا سید ولد آدم ولا فخر.
(سنن ابن ماجه، کتاب الزهد، باب الشفاعة)
’’میں بنی آدم کا سردار ہوں اور اس پر اظہار فخر نہیں کرتا‘‘۔
اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔ دنیوی لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاشرے کے معزز فرد تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان عالی نسب اور نسب صاحب فضیلت تھا۔ منصب نبوت کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک اشارے پر بڑے سے بڑا کام کر گزرنے سے دریغ نہ کرتے۔ بایں ہمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ذرہ بھر غرور نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے تواضع کے ایسے مظاہر منقول ہیں کہ انسان محوِ حیرت رہ جاتا ہے۔ غریب سے غریب شخص بیمار ہوتا تو عیادت کو تشریف لے جاتے۔ مفلسوں اور فقیروں کے ساتھ بیٹھتے تو اس طرح بیٹھتے کہ امتیازی حیثیت کے باوجود کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان نہ سکتا۔ کسی مجمع میں جاتے تو جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے۔ ایک دفعہ ایک شخص ملنے آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کا رعب اس قدر طاری ہوا کہ کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: گھبرائو نہیں، میں بادشاہ نہیں بلکہ ایک قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت پکاکر کھایا کرتی تھی۔
(مستدرک للحاکم، باب فتح مکه، 3: 48)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کا کام کاج کرنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرتے۔ کپڑوں میں پیوند لگاتے، دودھ دوھ لیتے، بازار سے سودا لاتے، غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھتے اور ا ن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں کبھی کوفت محسوس نہ کرتے۔ جب دنیا کی سب سے عظیم شخصیت کا کردار یہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوائوں میں سے ہر ایک کو اس کردار سے روشنی کشید کرتے ہوئے اپنے ظاہرو باطن کو منور کرنا چاہئے۔
خدمتِ خلق کس طرح کریں؟
خدمتِ خلق کے کئی انداز ہیں:
- خدمت کا ایک انداز یہ ہے کہ انسان اپنا مال ضرورت مندوں کے لیے وقف کردے۔
- دوسرا انداز یہ ہے کہ مال تو نہیں ہے لیکن اپنا وقت اور زندگی وقف کردے۔
- تیسری صورت یہ ہے کہ نہ مال دے سکتا ہے نہ وقت لیکن اپنے تعلقات اثر و رسوخ کے ذریعہ لوگوں کے کام کرادے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
من مشی مع اخیه فی حاجته فنا صحه فیها جعل الله بینه وبین النار یوم القیامة سبع خنادق بین الخندق کما بین السماء والارض.
(جمع الجوامع، سیوطی، 1: 837)
’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس کے ساتھ گیا، پھر اس کا وہ کام کیا تو اللہ تعالیٰ اس وقت کے صرف کرنے کے بدلے قیامت کے روز اس کے اور جہنم کے درمیان سات خندقوں کے برابر فاصلہ کردیں گے اور ان خندقوں کا حال یہ ہے کہ ان میں سے ایک خندق اتنی بڑی ہوگی جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے‘‘۔
مال کے ذریعہ خدمت کی دو صورتیں ہیں:
- زکوٰۃ، فدیہ، فطرانہ کی صورت میں۔
- واجبات کے علاوہ بھی ضرورت مندوں کی حاجت کے لیے خرچ کرنا۔
ارشاد فرمایا:
وَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ.
’’اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا‘‘
(الذاریات، 51: 19)
قرآن و سنت کی رو سے اخلاق کا تعلق ایمان باللہ سے ہے، اس لیے اخلاق کی غرض و غایت رضائے الہٰی کا حصول ہے۔ کسی رویئے کا حسنِ خلق ہونا دراصل اسی پر منحصر ہے اور اس کی حقیقی قدرو قیمت کا تعین بھی اسی سے ہوگا۔ انسان کی بڑی سے بڑی قربانی بھی اس کے بغیر اپنی تاثیر کھودیتی ہے۔ قرآن مجید نے جان ومال کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اﷲِط وَاﷲُ رَئُوْفٌم بِالْعِبَادِ.
(البقره، 2: 207)
’’اور (اس کے برعکس) لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے، اور اﷲ بندوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے‘‘۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اﷲِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا.
(النساء، 4:114)
’’اور جو کوئی یہ کام اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرے تو ہم اس کو عنقریب عظیم اجر عطا کریں گے‘‘۔
کسی شخص کی مالی اعانت خدمتِ خلق کا بہت عمدہ نمونہ ہے۔ بالخصوص جب اس میں کوئی ذاتی غرض وابستہ نہ ہو۔ اس کو قرآن نے مومن کی خصوصیات میں شمار کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَکّٰی. وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰٓی. اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰی.
(الیل، 92: 18 تا 20)
’’جو اپنا مال (اﷲ کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے۔ اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو۔ مگر (وہ) صرف اپنے ربِ عظیم کی رضا جوئی کے لیے (مال خرچ کر رہا ہے)‘‘۔