ننھی سی جان ماں کی گود میں بلک بلک کر خاموش ہوگئی۔ نہ چھاگل میں پانی کا گھونٹ تھا اور نہ چھاتی میں دودھ کا قطرہ۔ ماں بھی پیاس سے نڈھال تھی اور معصوم کو بھی دن بھر سے پانی کا قطرہ میسر نہ تھا۔ ماں نے بچے کو ہلایا مگر خشک حلق سے رونے کی آواز بھی نہ آرہی تھی۔ بچے کے چہرے پر موت کا رقص دیکھا تو ممتا کی روح کانپ گئی۔ ننھے شیر خوار کو سینے سے لگاکر پتھروں پر لٹا دیا اور چاروں طرف سیاہ بے جان پہاڑوں پر نگاہ دوڑائی، زندگی کی کہیں رمق دکھائی نہ دی تو پتھرائی ہوئی مایوس نگاہیں آسمان کی طرف کسی معجزے کی امید میں اٹھیں۔ بھیگی ہوئی پلکیں بند کرکے خود کو رب کے دربار میں حاضر کرتے ہوئے ممتا نے اپنے سارے وجود کو سوال بناکر کائنات کے خالق و مالک سے اپنے معصوم بچے کے لیے اس کی کل خدائی سے محض چند قطرے پانی کے مانگے۔ ممتا کو اندر سے آواز آرہی تھی اگر اس نے ہمیں یہاں بلایا ہے تو ضائع (ہلاک) نہیں کرے گا۔ اس امید پر کہ ایک تڑپتی ممتا کو دیکھ کر ابر کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑے گا اور آسمان چھم چھم برسے گا۔
اس امید پر کہ صحرائوں کی پیاس بجھانے والے چند قطرے میرے لعل کے لیے عطا کردے گا۔ اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں مگر خالی آسمان کو دیکھ کر آنکھیں پتھراگئیں۔ ایسے میں ساکت و جامد معصوم بیٹے پر نگاہ پڑی تو اس کا وجود لرزنے لگا۔ بچی کھچی ہمت جمع کی اور پانی کی تلاش میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی، جس پہاڑی ٹیلے پر کھڑی تھی اس سے تیزی سے اتری اور پہاڑی کے دامن میں ہر طرف دیکھا کچھ نظر نہ آیا تو دوڑ کر مخالف سمت میں پہاڑی پر چڑھی اور دور تک دیکھا کہ شاید کوئی بھولا بھٹکا قافلہ ادھر سے گزر رہا ہو تو اس سے پانی کے چند قطرے مانگ لیے جائیں۔ لیکن جوں جوں مخالف سمت پہاڑی پر قدم بڑھتے جارہے تھے توں توں جگر کے ٹکڑے کے دور ہونے کا احساس جمع کی ہوئی ہمت چرا رہا تھا۔ جب دور دور تک کوئی بشر اور پانی کا قطرہ نظر نہ آیا تو اسی قوت سے واپس بیٹے کی جانب دوڑی۔ چشم قدرت ماں کی ممتاز کی یہ بے بسی دیکھ رہی تھی۔ بیٹے کی سانسیں چلتی ہوئی محسوس ہوئیں تو پھر دوڑی ایک پہاڑی سے اتری اور دوسری پہاڑی پر چڑھی۔ الغرض بیٹے کی جان بچانے کی خاطر ما ںنے دو پہاڑوں کے درمیان سات چکر لگائے۔ بالآخر تھکاوٹ، بے بسی اور پیاس کی شدت سے چور ہوکر جب ممتا بیٹے کے قدموں کے پاس ڈھیر ہوگئی تو کُنْ کی ایک آواز آئی اور جس پانی کی تلاش میں وہ رب کی بارگاہ میں گڑ گڑائی اور میلوں کا سفر طے کیا، وہ پانی زمین کا سینہ چیر کر اسماعیل کی ایڑیوں کے نیچے سے ابل پڑتا ہے۔ ممتا کی جان میں جان آئی، تیزی سے اٹھی اور ہاتھوں سے چاروں طرف مٹی ڈال کر کہنے لگی: زم زم (ٹھہر جا، ٹھہر جا) میں اپنے اسماعیل کو تو پلالوں۔
معزز قارئین! کوئی بھی شخص بے بسی، رنج اور کرب کی کیفیت میں اس قدر جرأت اور ہمت و حوصلے سے آخری سانس تک حالات کا مقابلہ کرنے کے جذبات کا جملوں اور کلمات سے اندازہ نہیں لگاسکتا۔ شاید ایک ماہر اتھلیٹ آج سنگ مر مر کے فرش پر اے سی کے ماحول میں اس صفا مروہ پر مسلسل 7 چکر نہ لگا سکے جہاں تپتی دھوپ میں سنگلاخ پتھروں پر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ نے بھوک اور پیاس کی شدت میں چکر لگائے۔
میں نے عالم تخیل میں رب کی بارگاہ میں دستِ سوال دراز کیا کہ باری تعالیٰ! تو کتنا بے نیاز ہے، اگر یہی امرِ کن چند منٹ پہلے کردیتا تو تیری محبوب بندی اس کرب سے تو نہ گزرتی۔ غیب سے نداء آئی کہ میں پہلے اپنے بندے کا صبر آزماتا ہوں اور پھر اپنی مدد اتارتا ہوں۔
اے بندے کیا علم نہیں کہ میں نے اپنے بندے یوسف علیہ السلام کا صبر آزمایا، بھائیوں نے اسے زدو کوب کیا، قتل کرنے کا ارادہ کیا، رسیوں سے باندھا اور کنویں میں لٹکا دیا، میں رسی کے کٹنے تک یوسف علیہ السلام کا صبر آزماتا رہا اور جب دیکھا کہ وہ ثابت قدم ہے تو رسی کے کٹنے اور پانی میں گرنے کے باوجود بچالیا۔
اے بندے! تو نے نہیں دیکھا کہ جب عزیز مصر کی زوجہ نے 7 دروازے بند کرکے میرے یوسف کو برائی کی دعوت دی تو بند دروازوں میں بھی میرا یوسف میرا وفادار رہا تو میں نے اس کے لیے بند دروازے کھول دیئے۔
اے بندے! کیا تو نے نہیں پڑھا کہ جب مصر کے حکمرانوں نے میرے یوسف کو قید خانے میں بند کردیا، ناحق سخت سزائیں دیں اور سالوں قید رکھا۔ جب میں نے دیکھا کہ میرے یوسف نے خواب کی تعبیر کے بدلے میں بھی رہائی نہیں مانگی اور میری رضا پر راضی ہے تو کیا میں نے دشمنوں کے ہاتھوں اپنے یوسف کو تخت پر نہیں بٹھادیا۔ کیا کسی نے میرے بندے ایوب کا صبر نہیں دیکھا کہ جب میں نے اس سے مال، اولاد اور صحت کی نعمتیں واپس لے لیں اور اس کے جسم کو کیڑوں نے کھانا شروع کردیا مگر وہ شکر گزاری سے میرا ذکر کرتا رہا۔ جب وہ بے بسی تنہائی اور کرب کے اس عالم میں بھی مایوس نہیں ہوا اور میری رحمت کو آواز دینے لگا:
رَبَّهٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ.
(الانبیاء: 83)
’’جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف چھو رہی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر مہربان ہے‘‘۔
تو میں نے اسے صحت، مال، اولاد ساری نعمتیں دوگنی کرکے پلٹادیں۔ اے بندے! کون صبر و رضا کی اس کیفیت کو پہنچ سکتا ہے جب میرے ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق میں بٹھا کر اس بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا جارہا ہو جس کے شعلے آسمان کو چھورہے ہوں۔ عین اس لمحے موت کو سامنے دیکھ کر وہ جبرائیل کی مدد کو بھی ٹھکرا دے تو اے بندے منجنیق کی رسی کٹنے تک میں ابراہیم کا صبر آزماتا رہا اور پھر رسی کے کٹنے کے بعد اسی آگ کو اس کے لیے گلزار بنادیا۔ جب منجنیق کی رسی کٹنے تک آہ و زاری، فریاد، پکار اور بے قراری نہ دکھائی دے تو آگ گلزار بنتی ہے۔ رنج، الم، تکلیف اور کرب کو برداشت کرنا اوررضا پر راضی رہنا تو میرے مقرب بندوں کا شیوہ ہے۔
اے میرے بندو! تم تو عیدالاضحی پر خوشی خوشی جانوروں کو ذبح کرتے ہو، تم میرے ابراہیم سے پوچھو کہ جب میں نے محض خواب دکھایا اور وہ اپنے اسماعیل کو لے کر قربانی کے لیے چل پڑا۔ ماں باپ اور بیٹے کو شیطان نے روکا تو انہوں نے اسے پتھر مارے۔قربانی کا شوق اور صبر دیکھو کہ ایک منہ کے بل لیٹ رہا ہے تو دوسرا آنکھوں پر پٹی باندھ رہا ہے۔ میں چھری کے چلنے تک اپنے ابراہیم اور اسماعیل کا صبر آزماتا رہا اور چھری چل جانے کے بعد اسماعیل مسکراتا رہا اور دنبہ ذبح ہوتا رہا۔
بندگی کی معراج یہ نہیں ہے کہ بندہ کمزوری دکھائے، فرشتوں یا بندوں سے مدد مانگتا پھرے یا تقدیر ٹالتا رہے۔ بندگی کی معراج تو یہ ہے کہ وہ رسی کے کٹنے کے بعد بھی کنواں ہو یا نارِ نمرود چھلانگ لگادے۔ بندگی کی معراج یہ ہے کہ پانی کے قطرے کی بھی امید نہ ہونے کے باوجود جدوجہد جاری رکھے اور وہ قید خانوں کی سلاخوں کے پیچھے بھی اللہ ہی کی مدد کا آرزو مند رہے۔
قرآنی آیات کی شکل میں الوہی ترانہ میرے کانوں میں غیب کی ندا بن کر گونجتا رہا اور میں لذت و سرور کی عجب کیفیت میں گم رہا۔ آواز آرہی تھی کہ بندے تو نے سوال کیا کہ چند لمحے پہلے اسماعیل کی ایڑیوں کے نیچے سے پانی نکل آتا تو میری بندی ہاجرہ اس کرب سے بچ جاتی، تو اس کے بجائے اُسے صبر کے بعد ملنے والی جزا کی طرف کیوں نہیں دیکھتا۔ اسماعیل کے تڑپنے نے قیامت تک انسایت کو زم زم دے دیا۔ ہاجرہ علیہا السلام کے قدموں نے انسانیت کو کرب کی انتہا میں جینا سکھادیا اور قدموں کے وہی نشان شعائر اللہ بن گئے۔ زکریا کے صبر پر ہم نے انہیں یحییٰ علیہ السلام کی نعمت بھی تو عطا کی، یوسف کو قید خانے سے نکال کر تخت مصری بھی تو عطا کیا۔ چھری کے چلنے کے بعد انی جاعلک للناس اماما کے مصداق ابراہیم علیہ السلام کو انسانیت کا امام بھی تو بنادیا۔
میں نے رب کی بارگاہ میں عجز و نیاز سے عرض کی: مولیٰ! اگر کوئی اس لمحے بے صبری کردے، اذیت و کرب کے اس عالم میں آہ و فغان کردے یا تیری طرف دیکھنے کی بجائے تیرے بندوں سے مدد کا آرزو مند ہوجائے تو؟ غیب سے ندا آئی کہ جب میرا بندہ جلدی نتیجہ چاہے یا میرے غیر کی طرف متوجہ ہوجائے تو پھر کسی کو اپنے یوسف کے دیدار کے لیے سالوں تڑپاتا ہوں، کوئی بادشاہ کو رہائی کا پیغام بھیجے تو میں قید خانے میں اس کا قیام بڑھا دیتا ہوں۔ (فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ) کوئی میرے امرِ کُنْ سے پہلے بستی چھوڑ دے تو میں مچھلی کے پیٹ میں ٹھہرا دیتا ہوں، کوئی میری قربتوں میں مستقل اور دائمی رہنے کی آرزو میں گندم کھالے تو میں زمین پر اتار دیتا ہوں۔
معزز قارئین! قصص الانبیاء میں پنہاں اس پیغام کو سمجھا تو سارے پردے اٹھ گئے اور واضح ہوگیا کہ 17 جون کو جب باطل اس عظیم مشن اور تحریک کا وجود مٹانے کی خطرناک سازش کے ساتھ حملہ آور ہوا تو اللہ رب العزت برستی گولیوں میں اپنے بندوں کا صبر آزماتا رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کے بندوں اور بندیوں نے نعرے لگاتے ہوئے موت کو سینے سے لگالیا تو خالق نے دشمنوں کو اپنے عزائم میں ناکام و نامراد واپس پلٹادیا۔
قصص الانبیاء نے واضح کردیا کہ امرِ کُنْ رب کے ہاتھ میں ہے، اس نے کب مدد اتارنی ہے وہ بہتر جانتا ہے۔ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعٰی۔ وہ انسان پر اتنا بوجھ ڈالتا ہے جتنا بندہ اٹھا سکتا ہے اور جب بوجھ استطاعت سے بڑھتا ہے تو وہ اپنی مدد اتار دیتا ہے۔
معزز کارکنان! جدوجہد کے کتنے مرحلے ہیں، تختِ مصری تک پہنچتے ہوئے کتنے کنوئوں، محلوں اور قید خانوں سے گزرنا ہے، انسانیت کی امامت کا تاج پہننے کے لیے، خاندان، اپنی جان، وطن، بیوی بچے اور بیٹے کی جان کس کس شے کی کتنی کتنی بار قربانی دینی ہے۔۔۔ کنوئیں، قید خانے اور مچھلی کے پیٹ میں کتنے دن مہینے اور سال گزارنے ہیں۔۔۔ ان امور کا فیصلہ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاِولُہَا بَیْنَ النَّاس کی طاقتوں والا رب ہی کرتا ہے۔
بندے کا کام یہ ہے کہ آگ کے گلزار ہونے تک عاجزی و انکساری کا پیکر بنے صبر و رضا کے ساتھ انتظار کرے اور ہاجرہ علیہا السلام کی طرح پوری ہمت، قوت اور طاقت کے ساتھ جدوجہد جاری رکھے۔