ایک زمانہ میں مسلم تہذیب عروج پر تھی، اُس کا نام ایک اعلیٰ مقام کا حامل مانا جاتا اور اُس کے تذکرے کیے جاتے تھے۔ مغرب سے بھی لوگ آکر مسلم تہذیب اور مسلمانوں کی اُس وقت رواج پذیر زبان عربی، اُن کی سائنسز، ٹیکنالوجیز، علوم اور دیگر فنون سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ بعد ازاں بدقسمتی سے مسلمانوں کو وہ عروج حاصل نہ رہا۔ اس تہذیب کو حاصل عروج کے اسباب میں اہم ترین سبب وہاں ایسے تعلیمی اداروں (Institutions) کی موجودگی تھی جن میں درج ذیل تین امور پائے جاتے تھے:
- علوم دنیوی، ماڈرن سائنسز، ٹیکنالوجی کی تعلیم
- ماڈرن سائنسز کے ساتھ ساتھ علوم اسلامیہ میں مہارت
- کردار کی پاکیزگی و پختگی
اِن تین چیزوں کو جمع کرکے مسلمانوں نے وہ عظیم سائنسدان، سکالرز، فلاسفرز، اساتذہ اور شخصیات پیدا کیں جن کی مثالیں آج ہم اپنی کتب میں تو پڑھتے ہیں مگر جیتی جاگتی دنیا میں اُن جیسا کوئی نظر نہیں آتا۔ ایسے تعلیمی اداروں کے قیام کی جب روایت متروک ہو گئی تو اس تہذہب سے نہ صرف وہ تمام glory (عظمت) اور عروج بھی جاتا رہا بلکہ Western Civilizatoin (مغربی تہذیب) اس عظمت اور عروج کی دعویدار بن کر سامنے آگئی۔ مغربی ممالک نے اُن چیزوں کو تھام لیا، اُنہوں نے اِس کی بنیاد پر اپنی تہذیب کو نہ صرف متعارف کروایا بلکہ اس کا نام بھی منوایا۔ دوسری طرف اسلامی تہذیب اور علوم و فنون کے وارثان مسلمان تاریکی کے اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے۔
کیا اسلامی تہذیب کی کوئی بنیاد نہیں ہے؟
جب ہم muslim civilization (اسلامی تہذیب) اور اس کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو اسلامی تہذیب کے صرف پہلے 36 سالوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں کوئی مسئلہ یا پریشانی نہیں ہوتی لیکن اس زمانہ کے بعد ہمیں وہ چیز نظر نہیں آتی کہ جس کا حوالہ دیا جا سکے۔ یا جس کو مغربی تہذیبwesterm civiliazation اور ان کی ترقی کے سامنے لا کر کھڑا کیا جا سکے۔جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اسلامی تہذیب کا دور عروج و کمال صرف ابتدائی 36 سالوں تک محدود نہیں بلکہ ایک ہزار سال پر محیط ہے۔ کس طرح؟ آیئے اس کا جائزہ لیتے ہیں نیز اس امر کا بھی مطالعہ کرتے ہیں کہ ہماری تہذیب کا یہ کمال و عروج ہم ہی سے اوجھل کیوں ہے؟
کم و بیش دو سو سال پہلے مغرب (West) نے اپنی تہذیب (Civilization) کا لوہا منوایا۔ وہ اپنی ٹیکنالوجیز، سائنسز، اپنی developments لوگوں کے سامنے لائے۔ مسلمانوں بالخصوص نئی نسلNew Generation نے اپنی تاریخ، پس منظر اور اپنی اصل سے ناواقفیت کی وجہ سے سوچا کہ شاید مسلمانوں کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ یا یہ کہ جسے مسلم تہذیب کہا جاتا ہے وہ بے بنیاد ہے۔ لہذا اُنہوں نے مغربی تہذیب کی تقلید کرنا شروع کردی، اُن کی سائنسز کے مداح ہو گئے، اُن کو پڑھنا شروع کردیا اور اُن کے انداز اور طریقہ کار (methodology) کی پیروی کرنا شروع کر دی۔
یہ سوچ کہ ’’اسلامی تہذیب کی کوئی بنیاد نہیں‘‘ اور مغربی تہذیب کی پے در پے کامیابیوں کی وجہ سے ہم نے اپنا رابطہ اپنی اصل اور حقیقت (origin) سے ختم کر لیا۔ آج اگر کوئی مسلمان طالب علم یونیورسٹی میں تاریخ پڑھتا ہے تو اُس کو اپنی چودہ سو سال پہلے کی تاریخ کی خبر ہی نہیں ہے۔ اُس کو اگر پوچھا جائے گا کہ مغرب کی تخلیقات، ترقی، ایجادات، دریافت innovations، developments، advancements کیا ہیں؟ تو وہ اس بارے خوب بات کرتا ہے لیکن اگر اُس سے پوچھیں کہ بو علی سینا نے کیا دیا۔۔۔؟ ابن خلدون کون تھا۔۔۔؟ دیگر مسلم فلاسفرز کی کیا خدمات تھیں۔۔۔؟ فارابی نے کیا بات کی۔۔۔؟ وہ یہ تو ضرور کہہ دے گا کہ وہ ایک عظیم انسان تھے، مسلمانوں کی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت تھے، مگر اسلامی تہذیب اور علوم و فنون کے ارتقاء میں انہوں نے کیا کردار ادا کیا؟ مغرب نے muslim civilization کے اُن عظیم لوگوں سے کیا کیا حاصل کر کے ترقی کے میدان میں دنیا میں اپنا نام منوایا؟ اس کے بارے میں کسی کو خبر نہیں۔
ہم اپنی تاریخ سے بے خبر ہیں!
اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ ہم یہ پڑھتے پڑھاتے ہیں اور نہ اُس کے بارے میں کچھ خبر ہے۔ ہم نے اپنا تعلق علوم و فنون سے تو کاٹا ہی تھا مگر اپنی تاریخ سے بھی ختم کر لیا ہے۔ اِس لیے ہم کئی بار شرمندہ ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس علم کی کمی ہے، اس لیے ہم ابتدائی 36 سال سے آگے چلنے سے ڈرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ muslim civilization جس نے کم و بیش ایک ہزار سال پوری دنیا پر حکومت کی وہ نہ صرف خلافت راشدہ کا دور حکمرانی تھا بلکہ اس کے بعد بھی بہت کچھ ہوا۔ ان مسلمانوں نے جو کچھ اکنامکس، ریاض، فلکیات الغرض سائنس کے ہر میدان میں جو کچھ کیا آج کی ماڈرن سائنسز اُنہی بنیادوں کے اوپر کھڑی ہے۔ مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ نے آج مغرب کو وہ بنیادیں فراہم کی ہیں جس پر آج مغرب فخر کرتا ہے۔
مگر ہماری کمزوری یہ رہی ہے کہ ہم نے اپنی origin سے ناطہ توڑ لیا ہے۔ اُس سے اپنی وابستگی کو استوار نہیں رکھا اور آج ہم شرماتے، منہ چھپاتے اور مغربی (Western) خیالات و تفکرات کے اندر اپنی اصل (origin) ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اگر آج پھر سے ہم طریقے کار، ٹیکنالوجی، سائنسز، تحقیق کا رخ اپنی origin کی طرف موڑ لیں، اپنے انداز کے ساتھ اُن کو چلائیں، اپنے انداز کے ساتھ چلیں تو اس میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ مسلمان پھر ایک بار وہی عروج، عظمت حاصل نہ کر سکیں جو ان کا حق ہے۔
آج ہم اکنامکس کی بات کریں تو معیشت دان (economists) برملا یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کل دو نظام (models) ہیں:
- سرمایہ دارانہ نظام capitalism
- سوشلزم socialism
یہی دو معاشی نظام کچھ ممالک کے اندر نافذ رہے ہیں۔ وہ اسلامی معیشت کو نظام ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم اُس نظام کے اتنے کمزور ایڈوکیٹ ہیں کہ اُس کو آج تک ماڈل منوا ہی نہیں سکے حالانکہ اسلامی معاشی نظام میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ماہرین معیشت جب کہتے ہیں کہ یہ دو ماڈل قابل عمل ہیں تو ہماری زبان وہاں چُپ ہو جاتی ہے اور ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جس سے ہم اسلامی معاشی نظام کے قابلِ عمل ہونے کو ثابت کرسکیں۔ سوال یہ ہے کہ بقول ماہرین معیشت اگر سرمایہ دارانہ نظام یا سوشل ازم یہی دو قابل عمل ماڈلز ہیں تو یہ دونوں نظام تو اڑھائی، تین سو سال پہلے وجود میں آئے، اس سے پہلے تو ان کی بنیاد نہیں ملتی جبکہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال پوری دنیا پر حکومت کی ہے۔ وہ معیشت اور ٹیکنالوجی میں عروج پر تھے، پوری دنیا کا معاشی نظام چلا رہے تھے، اس وقت وہاں کون سا معاشی ماڈل تھا؟ سن لیں! ایک ہزار سال تک وہاں اسلامی معاشی نظام نافذ تھا۔
افسوس آج اس نظام کے اثبات پر دلائل دینے کے لیے ہماری زبانیں گُنگ ہو جاتی ہیں۔ ہماری زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں، ہم سے بات نہیں ہوتی، کوئی western، فلاسفر، کوئی سکالر ہمارے سامنے آ کر بیٹھ جائے تو ہم گھبرا جاتے ہیں، ہمارے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں اور ہمیں کوئی جواب نہیں سوجھتا۔ ہمیں اپنی تہذیب پر فخر ہونا چاہیے۔ مگر افسوس کہ ہم تاریخی حقائق کا مطالعہ نہ ہونے کے باعث آج کے دور میں اسلامی معاشی نظام کے قابل عمل ہونے کا ہی انکار کردیتے ہیں۔
ہم مسلمان ملک کے طور پر سعودی عرب کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں پر تو اسلامک ماڈل سسٹم نافذ نہیں ہے۔ یا ہم کہتے ہیں کہ آج ہمیں کوئی ایسا ملک نظر نہیں آتا جہاں یہ سسٹم نافذ ہو۔ حقیقت یہ ہے west نے جتنے معاشی نظام دئیے ہیں، خواہ وہ capitalism ہو یا socialism ہو اُن کی تاریخ دو، تین سو سال سے زیادہ نہیں ہے جبکہ اسلامی نظام معیشت نے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔
تہذیب کی کامیابی کا پیمانہ
آج اسلامی تہذیب کو کمزور مانا جاتا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس تہذیب کے اندر دَم خَم نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ کسی بھی تہذیب کی کامیابی کو جانچنے کیلئے اس کی عمر اور اُس کا دوام دیکھا جاتا ہے کہ کتنا عرصہ وہ بغیر کسی کمزوری کے عروج اور عظمت کے ساتھ کسی جگہ پر نافذ العمل رہی ہے۔
western civilization، مغربی تفکرات، مغربی خیالات، مغربی فکر کو متعارف ہوئے مشکل سے دو، تین سو سال ہوئے ہیں اور اب اُس civilization سے بُو آنے لگ گئی ہے۔ آج خود مغرب پریشان ہے اور اپنے تفکرات، اپنی فکر، اپنے افکار، اپنی فلاسفی کو بدلنے کے درپے ہے۔ 2004ء میں اُن کے پاپ جان پال سیکنڈ نے امریکہ (نیویارک) میں ایک تقریر کی جس میں وہ برملا یہ کہتے رہے کہ ’’ہمیں شرم آتی ہے کہ ہم کس ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ ہر برائی آج ہماری civilization میں ہے۔ روحانیت کا سفر چھوڑ کر مادیت کی طرف آ گئے ہیں۔ کوئی اخلاقی اقدار باقی نہیں رہ گئے۔ طلاق کی شرح دیکھی جائے تو دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی جتنی مغربی ممالک کے اندر پائی جاتی ہے۔ بچوں کے استحصال کا معاملہ دیکھا جائے تو west میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ civilization کے اندر جو خرابی کی علامات ہیں مغرب سے زیادہ کہیں اور نہیں پائی جاتیں۔ یہ ہم کس ڈگر پہ چل پڑے ہیں‘‘۔
یہ مغرب کی وہ تہذیب ہے جس پر وہ تو آج شاید فخر نہ کرتے ہوں مگر ہم مسلمان ان پر بہت فخر کرتے ہیں اور اُس کو اپنانے کے لئے اپنے آباؤ اجداد، اپنا راستہ، اپنا کلچر، اپنا دین سب کچھ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ حالانکہ West آج خود اُس تہذیب سے پریشان ہے۔
ان کی یہ civilization مشکل سے دنیا میں دو، تین سو سال چلی سکی ہے اور آج اُس سے بُو آنے لگی ہے۔ دوسری طرف آج چاہے مسلمان کمزور ہوں، ڈرتے پھرتے ہوں مگر muslim civilization نے کم و بیش بارہ سو سال پوری دنیا میں عزت سے حکومت کی ہے اور کسی civilization کو جاننے اور اس کی کامیابی کا یہی پیمانہ ہوا کرتا ہے کہ وہ کتنے سال کامیابی سے قائم رہی۔
افسوس! اپنی عظیم تہذیب کی وکالت کرتے ہوئے آج ہماری زبانیں بند ہیں۔ ہم شرماتے ہیں، منہ چھپاتے پھرتے ہیں یا اپنے طلبہ کو بتاتے ہوئے شرماتے ہیں کہ شاید ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ اصل میں تہذیب میں کمی نہیں ہے، ہماری علمی تاریخ میں کمی نہیں ہے بلکہ اپنی عظیم تاریخ سے وابستگی میں کمی ہے، ہم نے اپنی تاریخ، اپنے دین، اپنی روایات کے ساتھ تعلق کو ترک کردیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی تہذیب کے عظیم ترجمان بنیں، اپنی تاریخ اور ماضی کے ساتھ ایک تعلق قائم کریں اور علوم و فنون کے حصول میں محنت و جدوجہد کو اپنا شعار بنائیں۔ اس ضمن میں حصولِ علم کے تمام دستیاب ذرائع کو استعمال میں لانا ہوگا نیز علم کو علمِ نافع بنانے کے لئے اسلامی تعلیمات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
حصولِ علم کے ذرائع اور طبقاتِ اہل علم
علم سے وابستہ تین قسم کے لوگ ہیں:
- صوفیائے کرام/ صوفی شعراء
- عام دنیوی سکالرز/ عام دینی علماء
- دینی، دنیاوی اور روحانی علوم کی حامل شخصیات
مذکورہ تینوں طبقات کا حصول علم کے لئے طریقہ کارmethodology, ، research اور طریق علم کے اندر گہرائی میں جانا، اُس کے بارے میں پڑھنا، سوچنا، سمجھنا مختلف طریقوں سے ہے۔
- ایک طبقہ علم کو اپنی intuition (الہام/ وجدان/ عرفان) کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ اور یہ بہت بڑا درجہ ہے۔ وجدان/ الہام/ عرفان کے ذریعے through intuition جو کچھ ملتا ہے، وہ اکثر Concluding remarks ہوا کرتے ہیں، وہ conclusion یعنی نتیجہ / اختتامیہ ہوا کرتا ہے۔
- ایک طبقہ علم کو روایتی دستیاب ذرائع سے حاصل کرتا ہے۔
- ایک طبقہ علم کو دینی، دنیاوی اور روحانی تمام ذرائع سے حاصل کرتا ہے۔
- صوفیاء کاطریقِ حصولِ علم
صوفیائے کرام جب بات کرتے ہیں تو ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دلائل میں نہیں پڑتے بلکہ وہ نتیجہ concluding remarks دیتے ہیں۔ اُن کی مجلس میں بیٹھنے والے لوگ اس بات کا اکثر مشاہدہ کرتے ہیں اور اسے سمجھتے ہیں۔ وہ references (حوالہ جات) نہیں دیتے بلکہ وہ concluding بات کر دیتے ہیں کہ یہ ایسا ہے۔ ان کی بات مضبوط ہوتی ہے، اُن کے پاس اُس پر دلائل شاید موجود ہوں گے لیکن وہ جو Concluding remarks اور حتمی بیان Statement ارشاد فرماتے ہیں۔ وہ Through intuition ہوتا ہے، وہ بذریعہ الہام و وجدان ہوتا ہے۔ اسی طرح صوفی شعرائے کرام اپنے کلام میں concluding بات، یعنی final statement دے دیتے ہیں، دلائل میں نہیں پڑتے۔
ان کی یہ باتیں درست ہوتی ہیں، جو شخص اپنی اصلاح کرنا چاہے اُن کے لیے فائدہ مند اور سودمند ہے مگر یہ باتیں تعلیم کے مروجہ مراحل سے نہ گزرنے کے باعثacademic statements کی حیثیت حاصل نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ academic حیثیت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی کتاب، کسی بھی statement کو ایک خاص مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ اُس میں reasoning، logic،references ہیں، دلائل، منطق، وجوہات کے ساتھ بات کرنی ہوتی ہے۔ بات کو علمی سطح پر قابل قبول بنانے کے لئے ثابت کرنا ہوتا ہے۔ لہذا ان کے اسلوب میں اس ایک چیز کی کمی رہ جاتی ہے کہ حوالہ جات اور ظاہری دلائل نہ ہونے کے باعث علمی لحاظ سے مضبوط (academically sound) نہیں ہوتیں لیکن وہ باتیں بذاتِ خود حقیقت میں درست ہوتی ہیں۔ اُن سے فیض لیا جا سکتا ہے، انہیں سمجھ کر اپنی زندگیاں بدلی جاسکتی ہیں۔ لیکن ان باتوں کو کسی کو پڑھا کر سمجھانا چاہیں تو وہ ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ اُس process (مراحل) سے نہیں گزرا۔
صوفیاء و اولیاء کو یہ چیزیں اللہ کی ایک خاص عطا سے حاصل ہوتی ہیں کہ اُن کی Intution کی حس، الہام و عرفان کا دروازہ کُھل جاتا ہے۔ اُن کے حواس جاگ جاتے ہیں اور وہ اپنے پیغامات براہ راست اوپر سے وصول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لیے ایک شخص دلائل کے سفر سے گزر کر منزل تک پہنچ کر اختتام پر جو اصل بات حاصل کرتا ہے، یہ لوگ آغاز ہی پر وہ نتیجہ اور ماحصل (conclusion) بیان کر دیتے ہیں۔
علماء کا طریقِ حصولِ علم
دوسرے لوگ جنہیں ہم علمائے کرام، سکالرز کہتے ہیں، یہ علم کے مروجہ روایتی مراحل، ذرائع اور طریق سے آتے ہیں۔ ان لوگوں کی زندگیاں کتابوں میں گزرتی ہیں، اُن کی intuition (عرفان/ وجدان/ الہام) کے دروازے کھلے نہیں ہوتے۔ وہ پانچ سو کتابیں، ہزار کتابیں پڑھ پڑھ کر ایک بات کے اوپر پانچ سو لوگوں کی فلاسفیز جان کر اُس میں سے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُنہی چیزوں کے اندر ان کی عمریں گزر جاتی ہیں۔ کوئی بھی شخص اگر کسی معاملہ پر متعدد سکالرز کو پڑھتا ہے اور ہر سکالر اپنی ایک نئی رائے کے ساتھ ہے۔ پھر ان درجنوں آراء کو پڑھنے کے بعد اگر وہ اپنی رائے بنانا چاہے گا تو وہ نہیں بنا سکے گا۔دوسروں کی آراء کے ساتھ ذہن اس قدر بھر جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ بس وہ ملتے جلتے ریمارکس پر پہنچ جاتا ہے یا کسی کی تائید کر دیتا ہے کہ ’’میں ان اضافہ جات کے ساتھ فلاں شخص کی تائید کرتا ہوں‘‘۔ بس یہ تعلق رہ جاتا ہے کیونکہ وہ دلائل، علم اور کتاب کے راستے پر ہوتا ہے۔ اب اُن کے ریمارکس کو academic علمی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن ان کے اس طریق اور محنت میں کمی صرف intuition کی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے creativity تخلیق، نئی چیز منظر عام پر نہیں آتی۔
ہمہ جہتی شخصیات کا طریقِ حصولِ علم
تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو دینی، دنیاوی، روحانی علوم کے جامع ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں Creativity اور تخلیق کا عمل ہر آن جاری رہتا ہے۔ اس لئے کہ creativity کا کسی بھی چیز کے اندر آنا عرفان/ وجدان (through intuition) کے ذریعے سے ہے۔ یعنی کوئی ایسی حقیقی چیز آپ کے ذہن میں آ جاتی ہے جس پر علماء کے طریق پر سالوں کے سفر کے بعد بھی پہنچنا یقینی نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اللہ کا ولی ہے، نیک و صالح آدمی ہو تو دین و شریعت کے بارے میں اُس کے ذہن و دل میں اللہ رب العزت کچھ القاء فرما دیتے ہیں، اُس کے ذہن میں کوئی نئی بات آ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علمی میادین میں لاکھوں لوگ کام کرتے ہیں لیکن اُن میں بڑا نام ایک دو ہی کماتے ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ اُن میں creativity کا مادہ پایا جاتا ہے۔ اُن کے intuition کے دروازے کھلے ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ الہام، وجدان اور عرفان تک محدود نہیں رہتے بلکہ علمی طریق پر بھی عرفان کے ماحصل کو ثابت کرتے ہیں۔
جو کتابوں کی دنیا میں گُم رہ کر وہاں سے concluding remarks نکالتے ہیں اُن کو academic مانتے ہیں۔ لیکن وہ چیزیں امر نہیں ہوتیں، وہ ہمیشگی اور دوام نہیں پا سکتیں، کیونکہ کتابوں میں سے ہی چیز نکالی ہے۔ کتابیں کیا ہیں؟ کتابیں بھی دنیا کی تخلیق کردہ چیز ہے۔ دنیا میں آ کر اُن چیزوں نے تخلیق پائی ہے، تو دنیا کی چیزوں میں سے جتنی بھی ورق گردانی کر لیںآپ انہی جیسی چیزوں کے اندر سے ہی اپنے concluding remarks نکالیں گے، کسی نتیجے تک پہنچیں گے لیکن کسی ایسی عرفانی چیز پر نہیں پہنچ سکتے یا کوئی نئی چیز اُس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک کوئی creativity کا مادہ نہ ملے۔ یا کوئی ایسا دروازہ نہ کھلا ہو کہ اللہ کی بارگاہ سے آپ کے دل میں یا ذہن میں کوئی شے القاء کر دی جائے۔
ان لوگوں کے intuition الہام/ وجدان/ عرفان کے دروازے بھی کھلے ہوتے ہیں اور وہ academicly sound بھی ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال میں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت کے طور پر دی ہے۔ یعنی پہلی دونوں چیزیں ایک شخصیت میں جمع ہوتی ہیں۔ اب ایسی شخصیات چاہے مغرب میں کوئی سائنسدان ہو، چاہے غیر مسلم ہو یا چاہے مسلمان ہو، کوئی بڑا لکھاری ہو، فلاسفر ہو ایسی وہ تمام شخصیات جن کے نام دنیا میں باقی رہ جاتے ہیں، اُن میں یہ دونوں چیزیں جمع ہوتی ہیں۔ تب ہی وہ لوگ دنیا میں اپنا نام کما سکتے ہیں۔ ان میں intuition کا دروازہ کھل جاتا ہے اور کسی بھی کام کے بارے میں وہ اس کام کو کرنے سے پہلے نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں۔ through intution، عرفان کے راستے سے اُن تک نتیجہ پہنچ جاتا ہے کہ اُنہوں نے پہنچنا کہاں تک ہے؟ اُنہوں نے سمجھنا کیا ہے اور بات کی حقیقت کیا ہے؟ یعنی وہ حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ academiclly sound بھی ہوتے ہیں، اس لیے اُس حقیقت کو دنیا کو سمجھانے کے لیے دلائل اور references بھی سامنے لے آتے ہیں۔
گویا یہ وہ لوگ ہیں جہاں پر intuition (عرفان/ وجدان) اور references (حوالہ جات) مل جاتے ہیں یعنی اس کو اگر scientific سائنسی انداز میں کہنا چاہیں توhypothesis (مفروضہ) اور proof (ثبوت) کا ملاپ ہو جاتا ہے۔ کچھ فلاسفرز hypothesis تک رہتے ہیں جنہیں ہم اپنی زبان میں صوفی کہہ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ empirical studies (مشاہداتی، تجزیاتی مطالعہ) کے اندر ساری زندگی گم رہتے ہیں، hypothesis اور intution اُن کے ذہن کے قریب سے بھی نہیں گزرتا، وہ اُسی میں گُم رہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ بڑے ہو جاتے ہیں، اپنا نام بنا جاتے ہیں جو intuition/ hypothesis and proof کو ملا کر دنیا کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ عرفان کے عطا ہونے سے اللہ رب العزت نے اُن کے دل میں وہ نتیجہ القاء کر دیا تھا، جسے وہ academically دنیا کی زبان میں proove کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بے شمار علماء کرام ہیں جو اجتہاد کی بات کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اجتہاد کتابوں سے پڑھ کر نہیں کیا جا سکتا، اجتہاد کے لیے intuition یعنی عرفان وجدان، الہام کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اجتہاد کے لیے دل کا دروازہ کھلا ہونا ضروری ہے کہ اللہ رب العزت سے ایک خاص بات، ایک خاص conclusion اُس کے ذہن میں آ جائے پھر وہ دنیا سے حاصل کردہ علم کے ذریعے اُس کی تطبیق کر کے دنیا کے سامنے اس مسئلہ کا حل رکھ دے۔
اجتہاد کے لیے ’’عرفان‘‘ ضروری ہے۔ ہر شخص محض دنیا کی کتب پڑھ پڑھ کر اجتہاد نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ انہی چند لوگوں پر کھولا جاتا ہے جن کے لئے الہام و عرفان کے دروازے کھل چکے ہوتے ہیں۔
حقیقی نتیجہ کے حصول کے ذرائع
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُوَادَ کُلُّ اُولٰئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًاo
’’اور (اے انسان!) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں، بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی‘‘۔
(بنی اسرائيل: 17:36)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کا ذکر فرمایا:
- کان
- آنکھ
- دل
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت یہ بھی فرما سکتے تھے کان اور آنکھ کے ذریعے جو توُ نے علم سیکھا، جو بات جانی، سمجھی اُس پر اکتفاء کر کے نتیجے تک پہنچ گیا مگر یہاں یہ نہیں فرمایا بلکہ اللہ رب العزت نے یہاں پر ایک حد limitation بیان کی کہ کوئی آدمی صرف آنکھ اور کان سے حاصل کردہ علم سے نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔ حقیقی نتیجہ conclusion وہ ہے کہ جہاں پر آنکھ اور کان کے ساتھ دل بھی جمع ہوگا۔ آنکھ اور کان کے راستے آنے والا دنیوی علم اور دل کا معاملہ یعنی وہ القاء مل کر conclusion ہوتا ہے، اور یہ بذریعہ الہام و عرفان through intuition ہی ممکن ہے۔
یہ وہ راستہ ہے جو اسلام نے اپنے محققین researchers کو دکھایا ہے۔ اس راستے پر چلنے والے لوگ عظیم محققین ہو جاتے ہیں۔ مغربی انداز فکرwestern approach کی تقلید کرنے والے لوگ یا کتابوں میں گُم رہنے والے یا صرف تجزیاتی و مشاہداتی مطالعہ empirical studies کو فوقیت دینے والے یا صرف مادی علوم materialistic knowledge کے اوپر بات کرنے والے اور عرفان، intuition کو نہ ماننے والے لوگ حقیقی conclusion تک نہیں پہنچ سکتے۔
الہام کیسے وارد ہوتا ہے؟
صوفیاء اور اولیاء میں عرفان، الہام، وجدان کیسے آتا ہے؟ اُس کا process کیسے شروع ہوتا ہے؟ وہ intuition یا وہ پیغام یا hypothesis ان کے دل میں کیسے تشکیل (build-up) پاتا ہے؟ اور اُس کے بعد وہ کس طرح علمی مباحث اور علمی طریقے کار کے ذریعے اپنے دلائل کو پختہ کرتے چلے جاتے ہیں؟ اس کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔
telescope سے ہم سورج، چاند اور ستاروں کو دیکھتے ہیں، اُس کی بناوٹ (make up) ایسی ہوتی ہے کہ یہ نہیں ہوتا کہ آگے کے lens سے سورج چاند اور ستاروں کو دیکھ لیں۔ اس پر آنکھ سے دیکھنے کے لیے الگ lens اوپر کی طرف لگا ہوتا ہے اور اُس کے بالکل نیچےextreme bottom پر ایک صاف mirror بطور Reflector(منعکس کرنے والا) لگا ہوتا ہے۔سامنے lens لگا ہوتا ہے کہ جس میں ہم سورج، چاند یا ستاروں کو دیکھتے ہیں۔ اب جب بھی کوئی آنکھ سورج، چاند اورستاروں کو دیکھنا چاہتی ہے تو اُس telescope کا رخ آسمان کی طرف سیدھا کر دیا جاتا ہے۔ lens کے ذریعے جو image آتا ہے، وہ reflectorمیں جاتا ہے، براہ راست آنکھ اسے نہیں دیکھتی۔ وہ reflector سے منعکس ہو کر اُس lens میں جاتا ہے جس کے اوپر آنکھ رکھی ہوتی ہے۔ اسی طرح اُس image کو دیکھتے ہیں۔ یں۔
اس مثال سے ’’عرفان، وجدان، الہام‘‘ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ انسانی کے اندر دماغ، دل اور روح ہے۔ روح وہ شے ہے جو انسانی جسم کا ناطہ عالم بالا سے جوڑے رکھتی ہے۔ یعنی عالم بالا یا عالم انوار کے ساتھ دنیا میں رہنے والے شخص کا ناطہ صرف روح ہے۔ کیونکہ روح وہاں کی رہنے والی ہے لیکن رہتی یہاں ہے۔ لہٰذا وہ گھر کی باتیں جان لیتی ہے۔ اب وہ روح عالم بالا کی باتیں سن کر دل کے کان میں کہہ دیتی ہے۔ دل وہ پیغام دماغ تک پہنچا دیتا ہے۔
انسانی جسم کے اندر روح Telescope کا وہ lens ہے جو اُن سیاروں، ستاروں، سورج اور چاند کو دیکھتا ہے۔ اُس کی bottom پر لگا ہوا reflectorدل ہے کہ وہ روح پیغام لا کر اُس reflector (دل) کو دیتی ہے۔ telescope کے اوپر جو انسانی آنکھ ہے، وہ دماغ ہے۔ دل اس پیغام کو دماغ کی طرف reflect کرتا ہے۔
اعلیٰ و اچھا telescope وہ ہوتا ہے جس کا reflector جتنا صاف ستھرا ہو۔ اگر کسی کا reflector دھندلا ہو تو روح نے تو اپنا کامل پیغام لا کر اُس دل reflector کو دے دینا ہے۔ اگر دل کا حال دھندلا ہے تو وہ اس پیغام کو نہیں سمجھ سکتا، نتیجتاً دماغ تک اصل حقیقت نہیں پہنچتی۔صفائے قلب و باطن
اب کسی نے اس دل کی صفائی کی ہو، اس reflector کو خوب صاف کیا ہو تو روح جتنا پیغام لائے گی وہ کامل شکل میں اس شخص کے دماغ تک وہ دل reflect کردے گا۔ اس طرح وہ intuition انسانی دماغ تک پہنچتی ہے۔ دل کی صورت میں موجود وہ reflector جتنا صاف و شفاف ہوگا، اسی قدر اصل حالت میں پیغام دماغ تک پہنچے گا۔ پھر دماغ دنیا سے حاصل کردہ علوم کو استعمال کرتے ہوئے اس نتیجے کو ثبوت اور testing کے مراحل سے گزارتا ہوا دنیا کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ تب چیز اعلیٰ بنتی ہے اور اس کو بنانے والا تخلیق کرنے والا خاص بن جاتا ہے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے دل کے reflector اتنے شفاف نہیں ہیں ۔ روح تو عالم بالا سے پیغام لاتی رہتی ہے مگر ہمار ا دل اس پیغام کو صحیح اور حقیقی شکل میں ہمارے دماغ تک reflect نہیں کرتاجس سے ہم حقیقت تک نہیں پہنچتے۔ اس صورت حال میں دنیا میں ہم جتنی محنت کرتے رہیں، جتنی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہیں، ورق گردانی کرتے رہیں، کچھ حاصل نہیں ہوتا اور اسی میں ہم زندگی گزار دیتے ہیں۔ ہم صرف انہی چیزوں کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں جو ہم نے دنیا میں کتابوں کے ذریعے حاصل کیا ہوتا ہے۔ اس سے کچھ نیا پیدا نہیں ہو سکتا۔ تا۔
اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل یہ ہے کہ ایک مرض کے اندر ہم لوگ مبتلا ہوچکے ہیں۔ وہ مرض یہ ہے کہ جب علم زیادہ آ جاتا ہے تو ہماری نظر اپنے باطن سے ہٹ جاتی ہے۔یہ ایک اہم پہلو ہے جس مقصد کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے منہاج یونیورسٹی کی بنیاد 1980ء میں ایک فکر کے نتیجے میں رکھی۔ آج الحمد للہ منہاج یونیورسٹی ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ اس یونیورسٹی کے قیام کو عمل میں لانا انسٹی ٹیوشنز کی فہرست میں ایک اضافہ کرنا نہ تھا بلکہ ہمارے اسلاف کی یہ روش جو اس زمانے کے اندر متروک ہو چکی ہے، اُس کو پھر سے بحال کرنا اور رواج میں لانا ہے کہ یہاں پر علم کے ساتھ تصوف کی بھی تعلیم دی جائے۔۔۔ علم کے ساتھ کردار بھی دیا جائے۔۔۔ علم کے ساتھ اخلاق بھی دیا جائے۔
دل کے reflector کو اگر صاف و شفاف رکھنا ہے تو دنیوی علوم جتنے مرضی پڑھیں مگر نظر اپنے باطنی احوال، اخلاق اور کردار پر رکھیں کہ کہیں علم کے زیادہ آ جانے سے ہمارے اندر تکبر و غرور تو نہیں آگیا؟ ہمارے اندر دنیوی برائیاں تو نہیں آ گئیں؟ کیا ابھی بھی ہم اتنے ہی منکسر و متواضع ہیں جتنے کہ علم کی اعلیٰ ڈگریوں کے حصول سے پہلے تھے؟علمِ نافع کی شان
اس لئے کہ علمِ نافع کی شان یہ ہے کہ جیسے جیسے آتا ہے انسان مزید عاجزی اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ علم کے آنے سے اگر انسان میں اکٹر آتی جائے تو سمجھ جائیں، اس کا علم علمِ نافع نہیں ہے۔ اگر کوئی دنیوی علم میں جتنا آگے چلا جائے، چاہے قرآن، حدیث، شریعت کا علم ہی کیوں نہیں اگر وہ اپنے دل کا reflector صاف نہیں کر سکتا تو وہ حقیقی نتائج تک کبھی بھی نہیں پہنچ سکے گا۔ دنیا کے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، سکالرز، اساتذہ، فلاسفرز کی لسٹ میں ایک اضافہ تو ہوجائے گا مگر اس صاحبِ علم کا علم، علمِ نافع نہ کہلائے گا۔ وہ اپنی پہچان نہیں بنا سکتا۔ اسی لیے ہزاروں لاکھوں پڑھے لکھے لوگ دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ تاریخ میں اپنا نام کیوں نہیں بنا سکے؟ اتنا ذہن رکھتے ہیں‘ اتنا علم رکھتے ہیں‘ پڑھاتے بھی ہیں‘ refrecnces کے انبار لگا دیتے ہیں، پڑھاتے ہیں تو علوم اور کتابوں کے حوالے دیتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں مگر ان کی زبان میں تاثیر نہیں ہے، فائنل نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دلوں کے ان reflectors کو شفاف نہیں رکھا ہوتا۔ لہذا اپنی روح کے لائے ہوئے پیغام کو بہتر انداز میں reflect کرنے کے لیے دل کو جتنا شفاف کر سکیں، وہ کریں۔یں۔
علم و عرفان کی اس تمام دولت کا حصول کردار اور معاملات کی بہتری کے ساتھ ممکن ہوگا۔ ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ، اخلاق تربیت، بھلائی کے ساتھ کریں۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ تصوف کی طرف آنے سے انسان علم سے دور نہیں چلا جاتا۔ علم ہم سے تب دور چلا جاتا ہے کہ اگر ہم ایک ستون کو چھوڑ دیں۔ اگر تصوف اور دین دونوں کو یکجا رکھیں تو علم دور نہیں جاتا بلکہ انسان حقیقت تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر چاہے ماڈرن سائنسز ہوں یا علوم اسلامیہ ہوں، چاہے ماڈرن ٹیکنالوجی میں کچھ produce کرنا چاہتے ہیں، چاہے آپ علو م دینیہ کے اندر کوئی نئی بحث چھیڑنا چاہتے ہیں، کوئی اجتہاد کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے دل کے reflector کا شفاف ہونا ضروری ہے۔پیغام یہ ہے کہ ہم جہاں علم پر اتنی محنت کرتے ہیں وہاں اس بات کا بھی التزام کریں کہ علم کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنی نظریں اپنے باطن سے مت ہٹائیں۔ ہر میدان میں ہم محنت کریں اور آگے جائیں اور ساتھ اپنے باطن کو بھی نظر میں رکھیں۔