سوال:اگر والدین مقروض ہوں اور بیٹا صاحبِ استطاعت ہو تو بیٹے کے حج کا کیا حکم ہے؟
جواب:اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مال و دولت سے استطاعت رکھتا ہے تو اس پر حج فرض ہے اور فرض حج میں والدین کی اجازت ضروری نہیں، بلکہ والدین کو ممانعت کا اختیار نہیں۔ اس پر لازم ہے کہ حج کرے، اگرچہ والدین منع کریں اور والدین کا مقروض ہونا اس شخص پر فرضیت حج میں خلل انداز نہیں۔ ہاں اگر وہ شخص خود مقروض ہے تو مقروض ہونے کی صورت میں پہلے قرض ادا کرنا لازم ہے، اس کے بعد حج کیا جائے گا۔
سوال: گھریلو ضروریات اور حج میں سے کس کو ترجیح دی جائے؟
جواب:بندہ سب سے پہلے ضروریات زندگی کو پورا کرے۔ اپنے ذمہ عائد فرائض و ذمہ داریاں ادا کرے مثلاً اگر غیر شادی شدہ بہن بھائی/ اولاد ہے اور وہ شادی کے قابل ہیں پہلے تو ان کی شادی کی جائے تاکہ وہ گناہ کی طرف نہ چلے جائیں۔ رہائش کے لئے مکان نہیں ہے، اسے حاصل کرلیا جائے۔ المختصر اگر ضروریات زندگی کے علاوہ آپ کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ آپ حج کر سکتے ہیں تو کر لیں۔
سوال: دورانِ طواف وضو ٹوٹ جانے پر کیا حکم ہے؟
جواب:دوران طواف وضو ٹوٹ جانے یا نماز کا وقت ہو جانے کی صورت میں طواف وہیں چھوڑ کر وضو یا نماز پڑھنے چلے جائیں اور واپس آ کر اگر چار چکر یا اس سے زیادہ کئے تو اس صورت میں اسی طواف پر بنا کی جائے گی۔ یعنی جتنے چکر رہ گئے ہوں انہیں پورا کرلیں تو طواف پورا ہو جائے گا۔ پہلے چکر سے شروع کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر طواف چار چکر سے کم کیا تو اس صورت میں طواف شروع سے کرنا ہوگا۔
سوال: اگر کوئی طواف کے سات سے زائد چکر لگائے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:اگر کسی نے طواف کرتے وقت سات چکر لگانے کے بعد آٹھواں چکر جان بوجھ کر قصداً شروع کر دیا تو یہ ایک نیا طواف شروع ہو گیا۔ اسے اب سات چکر مکمل کر کے ختم کرے۔ لیکن اگر محض وہم کی بناء پر آٹھواں چکر شروع کیا کہ شاید ابھی چھ ہی ہوئے ہیں تو اسے سات چکر کر کے ختم کر دے۔ اگر بعد میں خیال آئے کہ سات ہو چکے ہیں تو اسی پر ختم کر دے۔ اگلے سات چکر یعنی نیا طواف کرنے کی ضرورت نہیں۔
سوال: کیا حالتِ احرام میں عقدِ نکاح جائز ہے؟
جواب:حالتِ احرام میں نکاح جائز ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اْم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالتِ احرام میں عقدِ نکاح کیا تھا درآنحالیکہ آپ محرم (احرام باندھے ہوئے) تھے۔
(ابو داؤد، السنن، کتاب المناسک، باب المحرم متزوّج، 3: 111، رقم : 1844)
سوال: حائضہ عورت دورانِ حج کون سے امور ادا کر سکتی ہے؟
جواب:حائضہ دوران حج منیٰ، عرفات، مزدلفہ میں قیام، ذکر، وقوف، رمی، جمار اور قربانی کر سکتی ہے۔ علاوہ ازیں مسجد کے بیرونی صحن میں بیٹھ کر ذکر اذکار اور دعائیں مانگی جا سکتی ہیں لیکن طواف نہیں کر سکتی۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حالتِ حیض و نفاس والی عورت کے بارے میں فرمایا کہ:
’’وہ طواف کے سوا (حج کے) تمام ارکان ادا کرے۔‘‘
(ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب الحائض تقضی المناسک الا لطواف، 3: 447-448، رقم :2963)
عورت حالتِ حیض و نفاس میں احرام بھی باندھ سکتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نفاس اور حیض والی عورتیں غسل کرکے احرام باندھیں اور تمام مناسک حج ادا کریں سوائے طوافِ کعبہ کے، جب تک کہ پاک نہ ہو جائیں۔
(ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء تقضی الحائض من المناسک، 3: 282، رقم: 946)
سوال: کیا جوتے اور لکڑی سے رَمی کرنا جائز ہے؟
جواب:لکڑی یا جوتے سے رمی کرنا جائز نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عقبہ کی صبح حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لاؤ، میں چھوٹی چھوٹی سات کنکریاں چن لایا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا : ہاں ایسی ہی کنکریاں مارو۔ پھر فرمایا: اے لوگو! تم دین میں زیادتی سے بچو کیونکہ تم سے پہلی اْمتیں دین میں زیادتی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔
(ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب قدر حصی الرمی، 3: 480، رقم: 3029)
اس لئے رمی کرنے والے کو چاہئے کہ وہ راهِ اعتدال اختیار کرتے ہوئے چھوٹی کنکریاں مارے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوبیا کے دانہ کے برابر چھوٹی کنکریاں ماریں اور لوگوں سے فرمایا کہ لوبیا کے دانہ کے برابر کنکریاں حاصل کرو تاکہ جمرہ کو رمی کی جا سکے۔ لہٰذا لکڑی، جوتے یا بڑے کنکر مارنے سے گریز کرے کیونکہ ایسا کرنے سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ لکڑی، جوتا یا بڑا کنکر کسی شخص کو بھی لگ سکتا ہے اور شدید نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا ہے۔
سوال: کنکریاں جمرات کو نہ لگنے کی صورت میں کیا حکم ہے؟
جواب: اصل جمرہ، ستون، دیوار اس کی جڑ والی زمین ہے۔ اس لئے اگر کوئی کنکری جمرہ کی جگہ بنی ہوئی دیوار یا ستون سے تو نہ ٹکرائے مگر اس کے گرد بنے ہوئے احاطہ میں گر جائے تو رمی درست ہے، لیکن اگر کنکری اس ستون یا دیوار سے ٹکرا کر اس احاطہ سے باہر گر جائے تو وہ کنکری ضائع چلی گئی۔ اس کی جگہ دوسری کنکری مارے۔
سوال: کیا کسی دوسرے کی طرف سے رمی کی جاسکتی ہے؟
جواب:منیٰ میں واقع تین جمرات (یعنی شیاطین) پر کنکریاں مارنے کو رَمِی کہتے ہیں۔ ان میں سے پہلے کا نام جمرۃ الاخریٰ یا جمرۃ العقبہ (بڑا شیطان) ہے۔ دوسرے کو جمرۃ الوسطیٰ (منجھلا شیطان) اور تیسرے کو جمرۃ الاولیٰ (چھوٹا شیطان) کہتے ہیں۔
ہر حاجی کے لئے اپنے ہاتھ سے رمی کرنا واجب ہے۔ البتہ ضعیف، کمزور یا بیمار یعنی ایسے لوگ جو کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکتے ہوں یا سواری میسر نہ ہو اور جمرات تک پیدل نہ جا سکتے ہوں یا جا تو سکتے ہوں مگر مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو ایسے معذور حجاج اپنی جگہ کسی کو نائب مقرر کر سکتے ہیں۔ نائب کو چاہئے کہ پہلے وہ اپنی طرف سے رمی کرے یعنی سات کنکریاں مارے پھر دوسرے معذور حاجی کی طرف سے سات کنکریاں مارے۔
سوال: قربانی کے وجوب کے لیے کتنا مال ہونا شرط ہے؟
جواب: قربانی اسلام کا عظیم شعار اور مالی عبادت ہے جو ہر اس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہے جو عید الضحیٰ کے ایام (10، 11، 12 ذوالحجہ) میں نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد اتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب کے برابر ہے۔ نصابِ شرعی سے مراد کسی شخص کا ساڑھے باون تولے (612.36گرام) چاندی یا ساڑھے سات تولے (87.48 گرام) سونے یا اس کی رائج الوقت بازاری قیمت کے برابر مال کا مالک ہونا ہے۔ قربانی کے وجوب کے لیے محض مالکِ نصاب ہونا کافی ہے، زکوٰۃ کی طرح نصاب پر پورا سال گزرنا شرط نہیں ہے۔
لہٰذا اگر قربانی کے ایام میں کسی کے پاس مطلوبہ رقم موجود ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مرد صاحب نصاب ہے تو زکوۃ، قربانی اور صدقہ فطر مرد پر واجب ہو گا اور عورت صاحب نصاب ہو گی تو وہ الگ زکوۃ، قربانی اور صدقہ فطر ادا کرے گی۔
سوال: کیا قربانی کا گوشت شادی کے موقع پر استعمال کرنا درست ہے؟
جواب: قربانی کے گوشت کے لیے جذبہ تو یہ ہونا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ غریبوں میں تقسیم کرے۔ لیکن اگر شادی بیاہ کے لیے ضرورت ہو تو سارے کا سارا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
سوال: کیا قربانی کا گوشت محرم الحرام سے پہلے ختم کرنا ضروری ہے؟
جواب: جب تک خراب نہ ہو آپ قربانی کا گوشت رکھ سکتے ہیں، شرعی طور پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ محرم الحرام سے پہلے ختم کیا جائے۔ ہاں ایثار کا یہ تقاضا ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ غریبوں تک پہنچایا جائے تاکہ جن کو سارا سال کچھ نہیں ملتا، ان تک بھی پہنچ جائے۔ لہذا شرعاً کوئی حکم نہیں ہے کہ محرم الحرام سے پہلے ختم کیا جائے۔
افضل عمل تو یہ ہے کہ قربانی کرنے والا گوشت کے تین حصے بنا کر ایک حصہ صدقہ کر دے یعنی غریبوں کو دے دے، ایک حصہ دوستوں، رشتہ داروں میں تقسیم کر دے اور ایک حصہ اپنے پاس رکھ لے۔ اگر خود زیادہ ضرورت ہو تو زیادہ بھی رکھ سکتا ہے اور ضرورت کم ہو تو زیادہ صدقہ بھی کر سکتا ہے۔ بلکہ ہونا بھی یہی چاہیے کہ جتنا ہو سکے غریب غرباء کو گوشت دیا جائے۔ چونکہ کہ امیر لوگ تو سارا سال بھی کھاتے رہتے ہیں، لیکن غریب غرباء جو سارا سال ترستے رہتے ہیں، وہ بھی عید کے ایام میں پیٹ بھر کر کھائیں گے تو اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل ہو گی۔
سوال: کیا حاملہ مادہ جانور کو ذبح کرنا جائز ہے؟
جواب: بہتر ہے کہ حاملہ یا دودھ دینے والی مادہ کو ذبح نہ کیا جائے کیونکہ دودھ دینے اور بچہ حاصل کرنے میں زیادہ فائدہ ہے۔ تاہم اگر کوئی ایسا جانور ذبح کیا جائے تو اس کا گوشت کھانے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ہے کہ:
سَاَلْتُ رَسُولَ اللّٰهِ عَنِ الْجَنِينِ فَقَالَ کُلُوهُ اِنْ شِئْتُمْ وَقَالَ مُسَدَّدٌ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ نَنْحَرُ النَّاقَةَ وَنَذْبَحُ الْبَقَرَةَ وَالشَّاةَ فَنَجِدُ فِی بَطْنِهَا الْجَنِينَ اَنُلْقِيهِ اَمْ نَاکُلُهُ قَالَ کُلُوهُ اِنْ شِئْتُمْ فَاِِنَّ ذَکَاتَهُ ذَکَاهُ اُمِّهِ.
’’میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنین (ذبیحہ کے پیٹ سے نکلنے والے بچے) کے متعلق دریافت کیا۔ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو اسے کھا لو۔ مسدد نے کہا: ہم عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ ہم اونٹنی کو نحر اور گائے، بکری کو ذبح کریں، پھر ہمیں اس کے پیٹ سے بچہ ملے تو کیا اسے پھینک دیں یا کھا لیں؟ فرمایا: اگر تم چاہو تو اسے کھا لو کیونکہ اس کی ماں کا ذبح ہونا ہی اس کا ذبح ہونا ہے۔‘‘
(ابی داؤد، السنن، 3: 103، رقم: 2827)