دنیا کے مختلف مذاہب میں قربانی کاتصور مختلف انداز میں جلوہ گر ہے مگر اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ،معاشرتی سماجی اور اُخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔ عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اِسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجر ہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبہ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میںرکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مینارہ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے :
’’دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہوجانا بلکہ اپنے ربّ کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا، اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرلو گے۔ فانی دنیا کی فانی راحتوں پر آخرت کی ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں کو ترجیح دینا اس کے نتیجے میں اپنے احساسات اور جذبات کو ربّ کے حکم کے تابع کر دینا، اس کے نتیجے میں تمہیں فلاح و نجات کی ضمانت مل جائے گی ۔‘‘
یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورک شاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں۔ آدابِ فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی گردن کسی تردد کے بغیر اللہ تعالی کے حکم کی تنفیذ کے لیے پیش کر دی۔۔۔ ایک ماں نے برسوں کی دعاؤں، التجؤں اور مناجاتوں کے بعد حاصل ہونے والے اپنے نور ِ نظر کو بلند حوصلے کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کر دیا۔۔۔ ایک عظیم باپ نے کسی تردد کے بغیرپدری جذبات کو اللہ تعالی کے حکم پر قربان کرتے ہوئے تسلیم و رضا کی بلند ترین حدوں کو چھو لیا اور عملی طور پر اپنے ربّ کے حکم کی تعمیل کی کوشش فرمائی۔ اللہ تعالی نے اپنے خلیل کو اپنے خاص لطف وکرم سے نوازنے کے لئے جس امتحان میں ڈالا تھا اس میں حضرت خلیل علیہ السلام اور ان کا گھرانہ سرخرو ہو گیا۔
قربانی کا دائرہ کار
عید الاضحی فقط تین دن جانوروں کی قربانی تک محدود نہیں بلکہ اس کا ایک وسیع دائرہ کار ہے ۔ ہمارے جان ومال ،ہماری اولادیں، ہمارا وقت تو فقط ہمارے پاس امانت ہیں۔ ہر سال عید الاضحی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمیں اپنا وقت اللہ کی مخلوق میں خوشیوں اور محبتیں بانٹنے پر بھی صرف کرنا چاہیے۔ آج ہمارا بہت سا قیمتی وقت سوشل میڈیا کی نظر ہو جاتا ہے مگر ہم اپنے دائیں بائیں حسرت و یاس کی بکھری تصویروں کو دیکھنے اور انہیں ایک مسکراہٹ دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہیں ہم صرف سلام بھی کرلیں تو راحت وا طمینان کا احساس اُن کے انگ انگ میں سرایت کر جاتا ہے۔ سڑک کے کنارے کھڑے عمر رسیدہ خاتون یا کسی بزرگ کو سڑک عبور کرانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ مگر ہم وقت کا ایثار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ اَدْخَلَ عَلٰی اَهْلِ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ سُرُوْرًا لَمْ يَرْضَ اللّٰهُ لَهُ ثَوَابًا دُوْنَ الْجَنَّةِ.
(الطبرانی فی المعجم الاوسط، 7/289، الرقم7519)
’’جو شخص (رضائے الہٰی کے حصول کے لئے) کسی مسلمان گھرانے کو خوش کرتا ہے (یعنی ان کے حقوق کے لئے کوشش کرتا ہے، مصائب و آلام سے گزرتا ہے اور انتہائی جدوجہد کرتا رہتا ہے)، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت سے کم کوئی اجر پسند نہیں فرماتا‘‘۔
ستم کی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے دوستوں سے تو گھنٹوں خوش کلامی کرتے ہیں مگر اپنا کچھ وقت اپنے اُن ماں باپ کو پیش کرنے کا شعور نہیں رکھتے جنہوں نے اپنی راحتیں اور اپنا سب کچھ اولاد پر قربان کیا، اولادکو انگلی پکڑکر چلنا سکھایا اور اولاد کے ناز اُٹھائے ۔ انٹر نیٹ نے ایک طرف فاصلے تو سمیٹے ہیں جبکہ دوسری طرف زمین و آسمان کے فاصلے ڈال دیئے ہیں۔
کسی بھی نیکی کو حقیر مت سمجھیں!
لہذا اپنے وقت کا کچھ حصہ ایثار کیجئے بزرگوں کے لئے، افسردہ دلوں کے لئے ، ماں باپ کی شفقت اور سائے سے محروم بچوں کے لئے نیز معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کے لئے پھر دیکھنا آپ کے دل کے آنگن میں حقیقی خوشیوں کے کتنے گلاب کھلتے ہیں ۔ راحت و طمانیت کی کیسی مہک آپ کو اپنے حصار میں لیتی ہے۔ رحمت دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لا تحقرن من المعروف شيئا ولو ان تلق اخاک بوجه طلق.
’’نیکی کے کسی کام کو معمولی نہ سمجھنا اگرچہ وہ کام یہ ہو کہ تم اپنے(دینی وحقیقی )بھائی سے مسکرا کرملو‘‘۔
اللہ کی رضا کے لئے کسی کو ایک مسکراہٹ دینے پر کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ مگر ظاہری طور پر معمولی نظر آنے والا یہ عمل اللہ تعالی کی بارگاہ میں مقبول اعمال میں سے ہے۔چھوٹے چھوٹے کاموں سے لوگوں کو پہنچایا جانے والا آرام رب کی بارگاہ میں کس قدر مقبول ہے؟ اس کا اندازہ ہمیں رحمت دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتا ہے:
اماطة الاذی عن الطريق صدقة.
’’راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی نیکی ہے‘‘۔
یعنی راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بظاہر معمولی کام ہے ۔اس پر تھوڑا سے وقت صرف ہوتا ہے مگر اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ عمل معمولی نہیں ہے۔
انسانی جذبات اور احساسات کی قربانی کے نتیجے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نہیں ان کا پورا گھرانا ہی اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو گیا۔ قیامت تک حج کی سعادت پانے والے دنیا بھر کے مسلمان منی میں قربانی پیش کرتے ہوئے اس قربانی کی یاد مناتے رہیں گے ۔ اہل اسلام قیامت تک ایک عظیم خانوادے کی عظیم قربانی کی یاد مناتے رہیںگے۔ اسی طرح دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کر کے اپنے ایمان کو جلا بخشتے رہیں گے۔
تجدیدِ عہد
قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندہ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے:
اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِیْ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِيْنَ.
’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔
(الانعام: 162)
عید الاضحی دلوں میں ایثار اور تسلیم ورضا کے چراغ جلاتی رہے گی۔ جس ربّ نے ہمیں قربانی کا حکم دیا ہے وہ جانوروں کی نسل کی بقاء کا علم بھی رکھتا ہے اور اپنے بندوں کی فلاح و بہبود کو بھی خوب جانتا ہے۔ کسی کلمہ گو کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قربانی کے حوالے سے اپنے محدود اور تاریک ذہن کے خیالات کو خدمت ِ خلق کے تناظر میں زیادہ نفع آفرین گمان کرے۔
ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم یاد تو اس عظیم قربانی کی منائیں مگر عملی طور ایثار کے راستے پر نہ چلیں۔ ہمارا یہ طرز عمل نہیں ہونا چاہئے کہ گوشت تقسیم کرتے وقت ایثار کے جذبے کو نہ صرف فراموش کر دیں بلکہ اس کی دھجیاں اُڑا دیں۔ آج بھی عید کے ایام میں کتنے ہی چولہوں پر چڑھنے والی ہنڈیا میں گوشت نہیں ہوتا۔۔۔ کتنے ہی ماں باپ اپنے بچوںکو عید کے ایام میں بھی گوشت نہ کھلا سکنے پراپنی آنکھوں سے چھلکنے والے آنسو کو روک نہیں پاتے ہیں۔۔۔ کتنے ہی بچے حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوتے ہیں۔۔۔کتنے ہی گھرانوں میں بھوک کے ڈیرے ہوتے ہیں جبکہ ہم عید مناتے ہوئے اپنے سفید پوش عزیزوں اور اپنے ارد گرد کے افلاس زدہ لوگوں کو فراموش کئے ہوتے ہیں۔ افسوس! ہم قربانی کے گوشت کو اللہ تعالی کی رضا کا ذریعہ بنانے کی بجائے سماجی رابطوں کا ذریعہ بنائے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کا یہ فرمان بھول جاتے ہیں:
لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.
’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
(الحج: 37)
آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ قربانی کرتے ہوئے اپنی امت کے غرباء اور مساکین کو نظر انداز نہ فرماتے بلکہ اپنی قربانی میں ان کو بھی شریک کرتے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم قربانی کے وقت اس دعا کے ذریعے غربائے امت کو بھی یاد رکھتے ہوئے ارشاد فرماتے:
اَللّٰهُمَّ هٰذَا عَنِّیْ وَعَمَّنْ لَّمْ يُضَحِّ مِنْ اُمَّتِیْ
’’الہٰی یہ میری طرف سے اور میرے ان امتیوں کی طرف سے قبول فرما جو قربانی نہیں کرسکے‘‘۔
(مشکوة، ص128)
ہم رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے کیوں نظریں چرا لیتے ہیں ؟ایک مرتبہ رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاشانہ مبارکہ میں گوشت کا ہدیہ پیش کیا گیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو گوشت تقسیم کرنے کا حکم فرمایا۔ آپ واپس تشریف لائے تو آپ نے (ہم جیسے لوگوں کی تربیت کے لئے) ام المؤمنین سے استفسار فرمایا:
’’کیا گوشت تمام تقسیم کردیا؟‘‘ ام امؤمنین نے بتایا کہ باقی سب تقسیم کر دیا آپ کے لئے دستی کا کچھ گوشت بچایا ہے۔ تب کریم آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جو بانٹ دیا ہے در حقیقت وہی بچا یاہے ۔‘‘
قربانی کیا تقاضا کرتی ہے؟
فقط جانور ذبح کرنے کے بجائے قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالی کی رضا حاصل کر سکیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعلی منصب عطا فرمایا ہے تو وہ اپنا منصب اقرباء پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق راحت کوپہچاننے میں صرف کریں۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔ اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع دے سکتے ہیں تو اس ضرورت مند کی حسرتوں کاخون نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں۔
کسی کو اللہ تعالی نے مال و دلت سے نوازا ہے تو اللہ تعالی کے دیئے ہوئے مال میں سے کچھ اللہ کی مخلوق کو دے کر اپنے مال اور گھرانے میں برکتیں اور اللہ تعالی کی رضا حاصل کریں۔ اگر کوئی اپنے سفید پوش رشتہ دار کی مدد کرے گا تو وہ اللہ کے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق دو گنا اجر پائے گا ، ایک اجر صلہ رحمی کا اور دوسرا اجر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا۔
عید الاضحٰی میں ہمیں صلہ رحمی کا پہلو مد نظر رکھنا چاہئے۔ دیگر ایام میں بھی صدقہ اور صلہ رحمی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے مواقع پر وضاحت سے فرمایا :
’’ صدقہ کرنے سے کبھی بھی مال میں کمی نہ ہو گی ۔‘‘
یعنی اجر بھی ملے گا اور مال میں بھی برکت ہو گی۔ اگر اللہ تعالی نے کسی کو علم کی نعمت سے نواز ا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ ان کے متلاشیوں میں علم کا یہ نور بانٹ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے۔۔۔ طالب علم حضرات اپنے دوستوں کے ساتھ علم کے معاملے میں اس خوف سے بخل نہ کریں کہ ان میںسے کوئی آگے بڑھ جائے گا۔۔۔ اساتذہ اکرام اپنا علم بلا امتیاز طلبہ کے قلوب و اذہان میں منتقل کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں۔۔۔ زیادہ سے زیادہ علم کے چراغ روشن کر کے اللہ تعالی کا شکر بھی ادا کریں اور اللہ کریم کے مزید انعامات بھی اپنے دامن میں سمیٹیں۔
حضرت (عبداللہ) بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللّٰهِ بَعْدَ الْفَرَائِضِ اِدخَالُ السُّرُوْرِ عَلَی الْمُسْلِمِ.
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرائض کے بعد سب سے افضل کام (اس کی رضا کے لئے) کسی مسلمان کو خوش کرنا ہے (یعنی اس کی مصیبتیں دور کرنا اور اسے آرام و سکون پہنچانا)‘‘۔
(الطبرانی فی المعجم الاوسط، 8/45، الرقم: 7911)
عید الاضحٰی اور انسانی خواہشات کی قربانی کے حوالے سے ذہن میں رکھنے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنابھی گوارا نہیں کرتے۔ عید الاضحی آکر چلی جاتی ہے مگر ہمارے قلوب واذہان قربانی کے جذبوں سے خالی کے خالی ہوتے ہیں۔ ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو فرط خوشی میں یا توغیر شعوری طور پریا تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یاان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کے لئے نہ کوئی سستا سا جانور خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی صاحب ثروت انسان انہیں قربانی کے گوشت میں سے کوئی اچھا حصہ دیتا ہے۔
آئیے عہد کریں کہ اس عید الاضحی کے بعد ہم اگلی عید کے آنے تک عید الاضحی کا درس یاد رکھیں گے اور ہم سے جس حد تک ممکن ہو گا ہم اپنے آرام، اپنے مال، اپنے وقت اور اپنے منصب کو اللہ کی مخلوق کے لئے قربان کریں گے۔ ایثار کے راستے پر چلنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ یاد رکھیں جو چیز ہم اللہ تعالی کی راہ میں بطور ایثار قربان کر دیں گے وہ دنیا اور آخرت میں ہمارے لیے راحت کا سامان ہوگی۔