ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
دنیا میں انسان دنیاوی مال و متاع، منصب، عزت وقار الغرض ہر دنیاوی چیز جس کے لیے وہ مارا مارا پھرتا ہے، ان کو دینے میں اللہ تعالیٰ اپنی پسند یا ناپسند کے امر کو مانع نہیں بننے دیتا بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا اور پسند کرتا ہے، اگر اُسے دنیا دینے کا فیصلہ فرمائے تو اسے بھی دنیا کی نعمتیں عطا کرتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا، اُسے بھی دنیاوی مال و دولت عطا فرماتا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعور رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
إن اللہ قسم بینکم أخلاقکم کما قسم بینکم أرزاقکم.
(حاکم، المستدرک، 2/485، رقم: 3671)
اللہ رب العزت نے تمہارے درمیان اخلاق اُسی طرح تقسیم کیے ہیں جس طرح اس نے تمہارے درمیان تمہارے رزق تقسیم کیے ہیں۔
یعنی اچھے یا برے اخلاق، طبیعتیں اور مزاج جن کی وجہ سے ہم مختلف احوال پاتے ہیں اور مختلف طبقات و درجات میں شامل ہوتے ہیں، یہ اخلاق بندوں میں اِسی طرح تقسیم ہوتے ہیں جیسے رزق تقسیم ہوتا ہے۔ رزق سے مراد صرف کھانا پینا نہیں ہے بلکہ اِس میں شکل و صورت، جسامت، قوت، عزت دماغ، علم الغرض ہر وہ چیز جو اللہ دیتا ہے۔ جس طرح یہ چیزیں تقسیم ہوتی ہیں، اِسی طرح اخلاق، خلق اور دین داری یہ بھی تقسیم ہوتی ہے اور پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
وإن اللہ یعطی الدنیا من یحب ومن لا یحب.
اللہ رب العزت دنیا ہر شخص کو دیتا ہے خواہ اللہ اُسے پسند کرے یا نا پسند کرے۔
یعنی دنیا اللہ ہر ایک کو دیتا ہے، خواہ وہ اللہ کی بارگاہ میں محبوب ہے یا مبغوض ہے۔ اِس لیے وہ دنیا کافر کو بھی دیتا ہے، نافرمان کو بھی دیتا ہے، ظالم، فاسق، فرعون، نمرود، یزید، قاتل، جابر کو بھی دیتا ہے اور اگر دینے کا فیصلہ فرمائے تو صالح، دیندار، اپنے محبوب بندوں اور متقی کو بھی دیتا ہے۔ اس فرمان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت کی نظر میں دنیا کی حیثیت کو واضح فرمادیا اور پھر ارشاد فرمایا:
ولا یعطی الدین إلا من أحب.
مگر دین، روحانی مرتبہ، تقوی، پرہیز گاری آخرت سے محبت، اعمالِ صالحہ، تدینِ دین کا کردار، دین کا علم اور دین کی نعمت اللہ تعالیٰ صرف اُسے دیتا ہے جس سے اللہ محبت کرتا ہے۔
اور پھر فرمایا:
فمن أعطاہ الدین فقد أحبہ.
پس جسے وہ دین عطا کردے تو تحقیق وہ اس سے محبت کرتا ہے۔
اس فرمان نبوی میں دین کی دعوے داری کی بات نہیں ہو رہی، یعنی دکھاوے کے دین کی بات نہیں ہورہی بلکہ اس بات کو واضح کیا جارہا ہے کہ جس کی زندگی میں دین دیکھو، جس کے علم اور عمل میں دین دیکھو، جس کی طبیعت، مزاج، برتاؤ، اخلاق، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، لین دین، قول و کلام اور معاملات میں دین دیکھو تو سمجھ جاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دین کی نعمت عطا کی ہے اور اِس کی زندگی کا ظاہر و باطن دین کے نور سے منور کر دیا ہے۔ جس کی زندگی میں دین اس طرح کاملاً دیکھو تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ اِس سے محبت کرتاہے اس لیے کہ دین کا کردار و عمل اور فہم و سوچ اِتنی بڑی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ صرف اُسے دیتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ دنیا ہر ایک کو دے دیتا ہے، خواہ وہ اس سے محبت کرے یا نہ کرے۔
دین کیا ہے؟
دین کیا ہے؟ ہمیں کس طرح معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کو دین دیا ہے اور اللہ اس سے محبت کرتا ہے؟ دین کا کردار اور عمل کیا ہے؟ اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
والذی نفسی بیده لا یسلم عبد حتی یسلم قلبه ولسانه ولا یؤمن حتی یأمن جاره بوائقه.
(احمد بن حنبل، المسند، 1/ 387، رقم: 3672)
اُس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اُس وقت تک کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا دین دار بندہ نہیں بنا، جب تک اُس کے دل اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ نہ ہوں اور جب تک اس کے پڑوسی (تعلق دار)اُس کے شر سے محفوظ نہ ہوں۔
شر کیا ہے؟ یاد رکھیں! شر صرف گولی چلانا نہیں ہے بلکہ کسی کو گالی دینا، غیبت کرنا، چغلی کرنا، حق تلفی، مال کو نقصان پہنچانا، عزت و شہرت کو نقصان پہنچانا، الغرض ہر عمل جو اللہ تعالیٰ کی معصیت ہے اور اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کی حق تلفی ہے، یہ تمام شر ہی ہے اور جو ان امور کا مرتکب ہوگا تو اِس کا مطلب ہے کہ اِس بندے کے پاس دین نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب صحابہ نے پوچھا:
وما بوائقہ یا نبی الله.
یارسول اللہ! اُس بندے کے شر کیا ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قال غشمہ وظلمه.
بندے کا کسی کی حق تلفی کرنا اور کسی کے ساتھ ظلم و ناانصافی سے پیش آنا، شر ہے۔
یاد رکھیں! اگر ہم دل میں بھی کسی کو بُرا جانتے ہیں اور وہ حقیقت میں اُس بُرائی کا حق دار نہ تھا تو ایسا کرنے والا غشم اور ظلم کا مرتکب ہوگا۔ یعنی اگر زبان سے کسی کو برا کہا تو بندے سے ظلم ظاہر ہوا اور جب دل میں کسی کی بُرائی و تذلیل کا خیال آگیا، کسی کو حقیر اور برا سمجھ لیا تو یہ قلب کا ظلم ہے۔
شر کی وضاحت کے بعد آقا علیہ السلام نے فرمایا: کوئی شخص حرام، ناجائز، خیانت کے ذریعے مال کماتا ہے اور غریبوں، مسکینوں، بیواؤں، یتیموں، مسجد، دین کے کام اور نیکی پر خرچ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ:
فیبارک له فیه. فیقبل منه.
اُس کے لیے برکت ہو گی اور قبول کیا جائے گا۔
فرمایا: نہیں۔ اس کے یہ بظاہر نیک اعمال بھی اس کے کچھ کام نہ آئیں گے اور وہ دوزخ کا حقدار قرار پائے گا۔ اس لیے کہ حرام کمائی نیکی پر لگا کر حرام کے مال کو حلال نہیں کر سکتے، صدقہ و خیرات اُس حرام عمل کا کفارہ نہیں ہوسکتے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا :
إن اللہ عز وجل لا یمحو السیء بالسیء ولکن یمحو السیء بالحسن إن الخبیث لا یمحو الخبیث.
(احمد بن حنبل، المسند، 1/ 387، رقم: 3672)
بُرائی کو بُرائی اور گناہ کو گناہ سے نہیں مٹایا جا سکتا۔ بُرائی کو صرف اچھائی، نیکی، اطاعت تقوی اور پرہیز گاری مٹا سکتی ہے۔خبیث سے خبیث کو نہیں مٹا سکتے، خبیث پلید، گناہ اور معصیت اپنی اصل صورت میں برقرار رہیں گی تاوقتیکہ ان امورکو ترک کرکے نیکی کی جانب متوجہ ہوا جائے۔
سب سے کامل ایمان کس کا ہے؟
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مسجد نبوی میں آقا علیہ السلام تنہا تشریف فرما تھے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور عرض کیا:
فأی المؤمنین أکمل إیمانا؟
یا رسول اللہ! سب سے کامل ایمان رکھنے والا مومن کون ہے؟ فرمایا:
أحسنهم خلقا.
جس کے اخلاق سب سے عمدہ اور اعلیٰ ہوں۔
میں نے پوچھا: یا رسول اللہ!
فأی المؤمنین أسلم؟
اسلام میں سب سے زیادہ اعلیٰ کون ہے؟ فرمایا:
من سلم الناس من لسانه ویده.
جس کی زبان اور ہاتھوں سے ہر مسلمان محفوظ و ممنون رہے۔
میں نے پوچھا: یارسول اللہ!
فأی الهجرۃ أفضل؟
کون سی ہجرت سب سے اعلیٰ ہے ؟ فرمایا:
من هجر السیئات.
جس نے اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے ہجرت کر لی، اُس کی ہجرت سب سے اعلیٰ ہے۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی نصیحت فرما دیں۔
فرمایا: تقوی سے بہتر کوئی شے نہیں ہے۔
میں نے عرض کیا: یارسول اللہ نصیحت میں اور اضافہ فرمائیں۔ فرمایا:
زیادہ ہنسا نہ کرو، قہقہے نہ لگایا کرو، اِس سے دل مردہ ہوتا ہے اور نور زائل ہو جاتا ہے۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ اور نصیحت فرمائیں۔ فرمایا:
خاموشی کو اختیار کرو، فضول باتوں سے بچو۔ اِس سے شیطان مردود ہو جاتا ہے اور اللہ کے دین کے امر میں تمہیں طاقت ملتی ہے، خاموشی دین میں مضبوطی کا باعث بنتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان سے ہونے والی بے کار گفتگو دین کو کمزور کرتی ہے اور جب بندہ بے کار گفتگو سے بچ گیا تو اُس سے اس کا دین مضبوط ہوا۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! نصیحت میں اور اضافہ فرمائیں۔ فرمایا :
أحب المساکین وجالسهم.
غریبوں، مسکینوں، کمزوووں سے محبت کیا کرو اور اُن کے ساتھ بیٹھا کرو۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مزید نصیحت فرمائیں۔ فرمایا :
انظر إلی من تحتک ولا تنظر إلی من فوقک.
جو تم سے نیچے ہے اُس کو دیکھا کرو اور جو تم سے اُوپر ہو اُسے نہ دیکھا کرو۔
یعنی اپنے سے نیچے مقام والے کو دیکھنے سے انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر بڑھتی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر پیدا ہوتا ہے اور جب بندہ اپنے سے بڑے کو دیکھتا ہے اللہ کی نعمتوں کے باوجود شکوہ آتا ہے اور دین کمزور ہوتا ہے۔
پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا: کہ اے ابو ذر! بندے کے عیب دار ہونے اورگناہ گارہو جانے کے لیے اِتنا ہی کافی ہے کہ جو گناہ اور نقص خود اس کے اپنے اندر ہوں اور جب وہی نقص و عیب وہ دوسرے میں دیکھے تو اُس کو اچھالے، اُس سے پردہ اٹھائے، اُس پر تہمت لگائے اور اُس کو دنیا میں ننگا کرے۔
حضرت ابو ذرؓ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سینہ پر دست مبارک پھیرا اور فرمایا: جو عیب تجھے اپنے اندر نظر نہیں آتا اور دوسرے میں نظر آئے، سمجھ لے کہ وہ عیب اُس کا نہیں بلکہ تیرا ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کوئی کام کر و تو تحمل اور سوچ کے کر، اِس میں دین کی حفاظت ہے۔ یعنی بولنے اور عمل کرنے سے پہلے غورو فکر کر کہ کیا یہ بات یا عمل حلال ہے یا حرام؟ اِس طرزِ عمل اور ورع میں دین کی حفاظت ہے۔
اسی طرح جب کسی سے برتاؤ کر تو حُسنِ خلق رکھ، حُسن خلق سے بہتر دین داری کوئی نہیں ہے۔ یعنی لوگوں کے ساتھ حُسنِ خلق، اچھے ادب اور اچھے برتاؤ سے بہتر دین کسی کا نہیں ہے اور دین میں سب سے اعلیٰ شکل یہ ہے۔
(ابن حبان، الصحیح، 2/76، رقم: 361)
گویا اللہ کی اطاعت کی بجا آوری اور نافرمانی سے بچتے رہنا، اِس سے توبہ اور ہدایت کا آغاز ہوتا ہے اور پھر یہ توبہ و ہدایت صرف نیک صحبت سے محفوظ رہتی ہے۔
بری صحبت سے اجتناب
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا دین بچ جائے۔۔۔ ہم معصیت کاروں میں نہ ہوں بلکہ اطاعت گزاروں میں ہوں۔۔۔ اللہ کے قریب ہوجائیں۔۔۔ گناہوں سے بچیں۔۔۔ زندگی اطاعت اور تقوی کے نور سے مزین و منور ہو۔۔۔ اُن طبقات میں نہ جائیں جہاں نیکی اور بدی کا خلط ملط ہو گیا ہے بلکہ اُن طبقات میں جائیں جنہیں بغیر حساب و کتاب کے بخشا جائے گا اور جو اللہ کے ہاں دُہرا اجر پائیں گے۔۔۔ ہماری توبہ اور رجوع إلی اللہ بچ جائے۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہماری زندگی میں دین کو مضبوط و مستحکم کرے۔۔۔ تو ذہن میں رکھ لیں کہ دین کو بچانے کی شکل یہ ہے کہ پھرصحبت سنگت، دوستی اچھی اختیار کریں۔
یاد رکھیں! بُری سنگت اور صحبت دین کو کاٹتی ہے جبکہ اچھی صحبت، اچھی رفاقت اور اچھی سنگت دین کو مضبوط و مستحکم کرتی ہے۔ اِسی لیے اولیاء، عارفین اور اللہ والوں نے ہمیشہ یہ تعلیم دی کہ جوطُلابِ دنیا ہیں اور گناہوں کی زندگی میں لت پت ہیں، اُن کے ساتھ صحبت، سنگت اور رفاقت سے اجتنا ب کرو وگرنہ وہ تمہارے دین کو بھی لے ڈوبیں گے۔ دنیا اور گناہوں میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ تمہاری نیکی کو کمزور کر دیں گے۔۔۔ تمہاری زندگی میں گناہ کے رجحان کو کو مضبوط کر دیںگے۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کا حیاء تمہارے اندر کم کر دیں گے۔ اس کے بجائے اُن لوگوں کی صحبت، دوستی، اُٹھنا بیٹھنا اور مجالست اختیار کرو جن کی صحبت سے زندگی میں دین مضبو ط ہو۔۔۔ آخرت کی رغبت بڑھ جائے۔۔۔ جو لوگ اللہ کی یاد دلائیں۔۔۔ اللہ کے اوامر و نواہی کی عزت اور احترام ہماری زندگی میں بڑھائیں۔ ان لوگوں کی صحبت اختیار نہ کرو جو گناہ کے لیے ہماری جرأت بڑھائیں۔۔۔ ہمیں گناہوں سے بے فکر کردیں یعنی نگاہوں میں گناہوں کو بے ضرر کردیں۔
پس اگر اہلِ دنیا، دنیا پرست اور گناہ میں لت پت لوگ یا گناہ کو چاہنے والے، گناہ کو بے ضرر سمجھنے والے اور گناہ کو بے دھڑک کرنے والے لوگوں کی صحبت میں رہو گے تو یہ سنگت اللہ تعالیٰ کی نجات سے تمہیں دور کر دے گی اور یہ صحبت دین کی جڑ کو کاٹ دے گی، لہذا اہلِ خیر کی صحبت میں بیٹھو تاکہ تمہیں آخرت کی طرف لے جائیں اور تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کی طلب بڑھائیں۔
- حضرت یوسف بن حسینؒ فرماتے ہیں کہ میں نے کچھ عرصہ حضرت ذوالنون مصریؒ کی صحبت اختیار کی اور جب جدا ہونے لگا تو عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمادیں۔ آپ نے فرمایا:
وصیت اور نصیحت فقط یہ ہے کہ نیک اور صالح صحبت پر ہمیشہ قائم رہ، وہ تمہارے اندر خیر اور صالحیت کو پیدا کرے گی۔ اُس صحبت سے تمہیں اللہ یاد آئے گا اور تمہارے باطن اور ظاہر میں اللہ کا دین مضبوط اور مستحکم ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے سورہ فاتحہ میں صراط مستقیم کی وضاحت صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ کے الفاظ سے فرمائی کہ صراط مستقیم اُن لوگوں کا راستہ ہے جن پر اس کا انعام ہے۔ اللہ رب العزت نے اُن صلحاء کی صحبت، سنگت، رفاقت اختیار کرنے کی تعلیم ایک بار کی جبکہ بُری صحبت سے بچنے کے لیے اسی سورت میں دہرے کلمات استعمال کیے۔ ارشاد فرمایا:
غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّالِّینَ
جن پر اللہ کا عذاب ہوا اُن کی صحبت سے بچ اور پھر وَلَا الضَّالِّینَ جو گمراہ ہو گئے، بہک گئے، ان کی صحبت سے بچ۔ انعام یافتہ بندوں کا ذکر ایک بار فرمایا جبکہ غیر انعام یافتہ بندوں کا ذکر دو طرح کیا۔ گویا ایک تہائی (one third) خیر نیک صحبت سے ملتی ہے جبکہ بُری صحبت کے نتیجے سے دو تہائی شر ملتا ہے۔ اگر ہدایت چاہیے تو ایک تہائی حصۂ ہدایت خیر کی صحبت سے ملے گا اور دو تہائی حصۂ ہدایت بُری صحبت سے بچنے سے ملے گا۔
ہم نیکی بھی کرتے ہیں، نیک صحبت میں بھی بیٹھتے ہیں مگر بُری سنگت بھی ساتھ ساتھ چلاتے ہیں۔گویا اُدھر سے جو نیکی کماتے ہیں، ادھر لُٹا دیتے ہیں۔ ایک طرف سے جیب میں نیکی ڈالتے ہیں اور دوسری طرف سے جیب کٹاتے ہیں اور وہ نیکی اِدھر سے گرتی چلی جاتی ہے اور ہم ہر روز اپنے اس طرزِ عمل سے نیکیاں ضائع کر دیتے ہیں۔
پس نیک صحبت کا اختیار کرنا اور بری صحبت سے بچنا بھلائی، نیکی اور دین کو مستحکم کرنے کے آداب میں سے ہے۔
جن سے حیاء آئے اُن کی صحبت اختیار کرو
امام سلمی سے پوچھا گیا: کن لوگوں کی سنگت اور صحبت اختیار کی جائے؟ فرمایا:
من یستحیا منہ.
(غزالی، احیا العلوم الدین، 2/173)
اُن لوگوں کی صحبت میں بیٹھو جن سے آپ کو حیا آتی ہے۔
یعنی جن کا ادب، جھجک، تعظیم و احترام ہمارے دل میں ہے اور جن کے سامنے بُرائی کرنے سے ہم جھجکتے ہیں، وہی لوگ اِس قابل ہیں کہ اُن کی صحبت میں رہا جائے۔ اس لیے کہ جو حیاء اُن شخصیتوں کی نیکی، تقوی، طہارت، اطاعت اور بزرگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں ڈالی ہے، وہی حیاء ہمیں گناہ سے بچاتی ہے۔ اُن کی مجالست سے ہمیں نیکیوں اور اطاعتوں کے کرنے کی بھی محبت نصیب ہوگی۔
- حضرت عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ اپنے والد امام احمد بن حنبلؒ سے روایت کرتے ہیں کہ
ما أوقعنی فی بلیۃ إلا صحبۃ من لا أحتشمہ.
(غزالی، احیا العلوم الدین، 2/173)
میں جب بھی کسی بلا، مصیبت، فتنے، آزمائش اور مشکل میں پڑا تو اِس کی وجہ کسی ایسے کی صحبت تھی جس کا حیاء میرے دل میں نہ تھا۔
یعنی اس بندے سے میرا تعلق دنیاوی غرض پر مبنی تھا یا اس کا کوئی خوف تھا یا اس کی کوئی ضرورت تھی مگر وہ بندہ اچھا نہ تھا۔ اچھا اس لیے نہ تھا کہ اُس کا حیاء نہ تھاکیونکہ بُرے آدمی کا حیاء کوئی نہیں کرتا، اُس کا خوف ہوتا ہے جبکہ نیک، صالح، متقی شخص کا اُس کے تقویٰ کے باعث حیاء ہوتا ہے۔ ہم جب ایسے شخص کی صحبت، مجلس اور دوستی میں رہتے ہیں، جن کا حیاء نہیں ہوتا تو بے حیاء کی صحبت ہمارے اندر بے حیائی کی رغبت پیدا کر دیتی ہے۔
بے حیاء کی صحبت کے اثرات
سوال یہ ہے کہ بے حیاء کی صحبت سے بندے میں کس چیز کا حیاء نہیں رہتا؟ اللہ کی حرمتوں، اوامر و احکام اور دین کی اقدار اور حدوں کا حیاء زندگی سے ختم ہوجاتا ہے۔یعنی جس شخص کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کا حیاء نہیں ہے تو اُس کی صحبت میں بیٹھنے والے اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں بے حیا ہوجاتے ہیں۔۔۔ ان میں گناہوں کے حوالے سے جرأت آجاتی ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑنے پر انہیں خوف نہیں رہتا۔۔۔ گناہ اور نافرمانی کے کام پرجھجھک نہیں رہتی۔۔۔ ان میں جسارتِ گناہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور اطاعت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
حضرت عبدالرحمن سلمی نے اسماعیل بن جنید سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا:
عاشر من تحتشمہ ولا تعاشر من لا تحتشمہ.
(سلمی، اداب الصحبۃ، 1/55)
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حیاء میں زندگی گزارتے ہیں، ان کی صحبت میں بیٹھ اور جو حیاء والے نہیں، ان کی سنگت مت اختیار کر۔
یعنی جنہیں اللہ کے امر، جلالت، عظمت، ربوبیت، کرم، عنائیت اور لطف و احسان کا حیاء ہے، وہ حیا والے لوگ اِس قابل ہیں کہ اُن کی صحبت میں بیٹھو۔ اُن کی صحبت میں بیٹھو گے تو تمہیں بھی اللہ کا حیائ، تعظیم، احترام، توقیر، عظمت اور اُس کے احکام کی جلالت نصیب ہوگی لیکن اگر ایسے لوگوں کے پاس بیٹھے جن کے دل میں اللہ کا حیاء نہیں ہے اور اسی وجہ سے تیرے دل میں ان کا حیاء بھی نہیں ہے اور تم اُن کے ساتھ frank ہو، بے باک ہو تو ان کی مجلس مت اختیار کرو، وگرنہ تمہارے اندر بھی دین کا حیا کم ہو جائے گا۔
- حضرت امام شافعیؒ سے پوچھا گیا کہ کن کی صحبت میں بیٹھیں ؟ فرمایا:
صحبۃ من لا یخاف العار عار.
(شافعی، تاریخ مدینۃ دمشق، 32/ 226)
اس شخص کی صحبت اختیار نہ کر جسے اللہ کے ساتھ بے حیائی کرنے، اللہ کی حکم عدولی کرنے، اللہ کی نافرمانی کرنے، اللہ کے دین کی قدروں کو پامال کرنے میں عار محسوس نہیں ہوتا۔ وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑنے میں عار نہیں، وہ شخص قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے احکام توڑنے کی وجہ سے باعثِ عار اور باعثِ ننگ ہو گا، لوگ اُسے عبرت کا نشانہ سمجھیں گے۔ لہٰذا اُن لوگوں کی صحبت، سنگت اورتعلق کو اختیار کرو جن کے اندر دین دیکھو، اس لیے کہ خیر اور شر دونوں صحبت سے منتقل ہوتے ہیں۔
- یہی وجہ ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا :دوست اور صحبت چننے سے پہلے دیکھا کرو کہ کس کا انتخاب کررہے ہو کیونکہ بندہ دوست کے دین پر عمل کرتا ہے۔۔۔ دوست کی طبیعت بندے کی طبیعت پر اثر انداز ہوتی ہے۔۔۔ مزاج، مزاج کو منتقل ہوتا ہے۔۔۔ ذوق، ذوق میں منتقل ہوتا ہے۔۔۔ حالات، حالات میں منتقل ہوتے ہیں۔
٭ اِسی لیے امام شافعی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا :
عاشر کرام الناس تعش کریما ولا تعاشر اللئام فتنسب الی اللؤم.
(النووی، تهذیب الاسما، 1/77)
اے طالب! بزرگ، نیک اور صالح بندوں کی صحبت میں بیٹھا کر، تو بھی صالح ہو جائے گا، کریموں کی صحبت میں بیٹھ تو بھی کریم ہو جائے گا اور جو گھٹیا و کمینی عادات اور مزاجوں و طبیعتوں والا شخص ہے، اُن کے ساتھ نہ بیٹھ۔ یہ نہ ہو کہ تیری نسبت بھی گھٹیا پن کی طرف ہوجائے اور تو بھی گھٹیا پن کی طرف منسوب ہونے لگے۔
یاد رکھیں! جب کسی کے ساتھ نسبت ہو جاتی ہے تو رفتہ رفتہ وہی نسبت حقیقت بن جاتی ہے اوراپنا اثرپیدا کر دیتی ہے۔
صحبتِ صالحہ کی تلاش
صحبت کے ان ہی اثرات کی وجہ سے اولیاء کرام اور اکابر ائمہ ہمیشہ نہ صرف خود صحبتِ صالحہ تلاش کرتے ہیں بلکہ صحبتِ صالحہ کی تلاش کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ صحابہ کرام، تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کرتے تھے۔ جب زمانہ گزر گیا تو لوگ صحبتِ صالحہ کی تلاش میں طویل طویل سفر کرتے تھے، کوئی امام مالک کی صحبت تلاش کرتا۔۔۔ امام مالک اپنے لیے محمد بن منکدر کی صحبت تلاش کرتے۔۔۔ امام شافعی، امام مالک کی صحبت بھی اختیار کرتے اور ابو حمزہ بغدادی کی صحبت میں بھی جا کر بیٹھتے ہیں۔۔۔ حضرت بشر حافی کی صحبت میں امام احمد بن حنبل بیٹھتے۔۔۔ امام اعظم، حضرت بہلول مجنوں کی صحبت میں جا کر بیٹھتے۔
ہر کوئی ایک ایسی صحبت تلاش کرتا تھا جس سے اُن کا دین، روحانیت، تعلق با للہ، اقدار اور عبادت کا ذوق مضبوط ہو الغرض جیسے جیسے جس کا مرتبہ ہوتا، وہ مرتبے کے مطابق بڑی صحبت کو تلاش کرتا۔
اس صحبت کو تلاش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دوسروں کے اخلاق، مزاج، طبیعت اور ذوق کا رنگ انسان پر چڑھتا ہے۔ ایک آدمی جو ایک خاص ذوق رکھتا ہے، اگر اُس کی مجلس میں مسلسل بیٹھتے رہیں تو وہ بیٹھنے والے پر بھی اس کے ذوق کا رنگ آنکھ اور کان کے ذریعے چڑھ جاتا ہے اور پھر اسی کے مطابق بندے کا دین مضبوط ہوتا ہے یا کمزور ہو جاتا ہے۔
بُری صحبتیں چھوڑ دیں!
لہٰذا اپنے دین کی حفاظت کے لیے اپنی اپنی سنگت و صحبت کو دوبارہ reconsider کریں۔۔۔ اپنی سنگتوں پر غورو خوض کریں۔۔۔ اپنی دوستیوں کو revisit کریں کہ کن کی مجلسوں میں زیادہ وقت گزارتے اور اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ اس امر کے لیے کسی سے جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بُرا بھلا کہنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف یہ کرنا ہے کہ جہاں بدی، برائی اور گناہ کے رجحانات بڑھنے کے امکانات ہیں، اُس کو ترک کر دیں۔ ایسے لوگوں سے ملیں تو سلام کر دیا، مسکرادیا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ’’چونکہ آپ کی صحبت بری ہے اور اس سے میرا دین اور ذوق خراب ہوتا ہے، اِس لیے میں آپ کو چھوڑ گیا ہوں‘‘۔ ایسا کرنا کبر اور عجب ہے۔ ایسا نہیں کرنا۔ کوئی بھی اپنی مجبوری بتا دیں مگر دل سے ارادہ کر لیں کہ جس صحبت میں بیٹھنے سے دین کمزور ہوتا ہے اور کمزور ہونے کے رجحانات اور امکانات پیدا ہوتے ہیں، وہ صحبت اور دوستی ترک کریں گے۔
اُن صحبتوں میں اپنا وقت گزاریں، جہاں سے دین اور آخرت ملتی ہے۔۔۔ جہاں سے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملتے ہیں، جہاں سے ولایتِ الہیہ اور تقوی نصیب ہوتا ہے۔۔۔ جہاں سے دل توبہ کی طرف راغب ہوتا ہے۔۔۔ اور اخلاقِ حسنہ و احوالِ طیبہ ملتے ہیں۔
اللہ رب العزت ہمارے حال پر کرم کرے، ہمارے عزم اور نیتوں کو پختہ کرے اور نیک صحبتوں، سنگتوں اور رفاقتوں کے ساتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں، برکتوں، رحمتوں سے ہمیں مالا مال کرے، ہر قسم کے شر سے ہمیں محفوظ فرمائے اور ظاہر و باطن ہر طرح کا خیر اللہ تعالیٰ ہم سب کا مقدر کر دے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم