ایک قوم کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی سمت کے تعین میں تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم صرف افراد کی اخلاقیات کو بہتر بنانے، ان کی شخصیات کو نکھارنے اور ان کے سماجی اور نفسیاتی رویے میں تبدیلی لانے تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ معلومات اور مواصلات کی مہارتوں تک بڑے پیمانے پر رسائی، اقتصادی، سیاسی اور عالمی سطح پر قابو پانے اور تہذیبوں اور ثقافتوں کی بڑھتی ہوئی باہمی وابستگی کے حوالے سے علم کی ایک ایسے عامل کے طور پر شناخت کی گئی ہے جو عالمی سطح پر قوم کو ایک معیار دینے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک باضابطہ اور جمہوری معاشرے کی شاندار عمارت کی بنیاد تعلیم پر ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں تعلیمی نظام منظم اور یکساں ہو تو لوگوں کو آگے بڑھنے اور ترقی کے مساوی مواقع میسر آتے ہیں۔ تعلیم معاشرتی اور معاشی مساوات کے طور پر کام کرتی ہے جو لوگوں کو اقتصادی قوت کے ساتھ مضبوط کرتی ہے اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے کے قابل بناتی ہے۔
پاکستان میں تعلیم کے کردار کو بطور سماجی مساوات اور سیاسی و اقتصادی مواقع فراہم کرنے کے سلسلے میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کا نظامِ تعلیم تین دھاروں کی نشان دہی کرتا ہے:
- عوامی تعلیمی ادارے (public sector educational institutions)
- انگلش میڈیم ادارے (elite and private-run English medium institutions)
- دینی مدارس (religious seminaries)
اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ دو پاکستان رہے ہیں:
ایک پاکستان انگلش بولنے والے اشرافیہ کے لیے مختص ہے، جنہوں نے مہنگے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں سے تعلیم حاصل کی اور ملک کی بھاگ ڈور سبنھالتے اور اس کے اداروں کو چلاتے ہیں۔ دوسرا پاکستان میلے کچیلے اور ناخواندہ عوام کی آبادی پر مشتمل ہے، جو اِن اشرافیہ کے لیے صبح سے شام تک مزدوروں کی طرح سخت محنت کرتے ہیں۔ یہ تعلیمی نسلی عصبیت کا نظام ہماری قومیت کے خدوخال کو مسلسل کھوکھلا کر رہا ہے۔
Sethi, Najam, (1993). Educational apartheid must end, The Friday Times.
قیامِ پاکستان سے ہی وطنِ عزیز بد قسمتی سے ایسی طبقاتی تقسیم کا شکار ہے جسے تاحال ختم نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تقسیم مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے نمایاں اثرات پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام پر بھی مرتب ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں طبقاتی تقسیم کو مزید فروغ مل رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے مروجہ نظامِ تعلیم کے تحت اردو میڈیم اسکولوں میں طلباء عموماً متوسط اور کم ذرائع آمدن والے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان اسکولوں میں اساتذہ بھی اس طبقے سے اور اسی ذرائع آمدن کے گروہ سے منسلک ہوتے ہیں۔ وہ تعلیم کو اپنی مرضی کے مطابق بطور ایک مشن کے منتخب کرتے ہیں نہ تدریس سے انہیں کوئی محبت ہوتی ہے بلکہ جب وہ کہیں کسی بہتر اور اچھی جگہ پر adjust نہیں ہو پاتے تو تھک ہار کر اس کو اختیار کرنے میں مجبور ہوتے ہیں۔ وہ ایک پست ہمت افراد کا گروہ ہوتا ہے جو اپنے طلباء کو علم کی طرف راغب کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔ علاوہ ازیں ان اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی بھی کمی ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر ایسا مایوس کن اور سست ماحول ہوتا ہے جو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے قطعاً موزوں نہیں ہوتا۔
ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان دورانِ تعلیم حاصل ہونے والی قابلیت کے بل بوتے پر ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ انہیں مطلوبہ مہارت اور اہلیت نہیں سکھائی جاتی اور نہ ہی وہ سہولیات دی جاتی ہیں جن کی بنیاد پر وہ جدید حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ یوں میڈیکل یا انجینئرنگ کالجز میں یا سول سروسز میں منتخب ہونے والے کامیاب امیدواروں میں انگلش میڈیم اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے مقابلے میں اردو میڈیم اسکولوں کا مجموعی داخلہ کم ہوتا ہے۔
Nasir, J., (2013). Haves and have-nots of education, The News.
اگر ان اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء میں سے کوئی اعلیٰ سطح پر پہنچنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو اپنے تعلیمی پسِ منظر کی وجہ سے وہ احساس کمتری کا ہی شکار رہتا ہے۔ جب کہ elite اسکولوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کے لیے دنیا بڑی روشن ہوتی ہے اور انہیں روزگار کے بہترین مواقع میسر ہوتے ہیں۔
طبقاتی تقسیم پر مشتمل پاکستان کا مروجہ نظامِ تعلیم ملک کو متحدہ قوت بنانے میں ناکام رہا ہے، کیوں کہ یہ نظامِ تعلیم گروہی، لسانی، نسلی اور صوبائی امتیازات کا شکار ہے۔ مزید برآں اس نے امیر اور غریب کے درمیان ایک خلیج پیدا کر دی ہوئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایسے افراد جن کے پاس معیاری تعلیم حاصل کرنے کے بہترین وسائل اور ذرائع ہیں وہ پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکولوں کا انتخاب کرتے ہیں جب کہ معاشرتی ناانصافی کی وجہ سے پاکستان کی اکثریت غریب عوام کی ہے جن کا تعلق کم متوسط اور محروم طبقات سے ہے۔ وہ سرکاری اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا ایک کثیر حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو عام اسکولوں کی فیس ادا کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ان کے پاس انتہائی مجبوری کی حالت میں مذہبی مدارس کا انتخاب کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔
Aziz-Tahir, and A,C.RS.L.r., (1999). Restructuring the Education System in Pakistan. Pakistan: National Reconstruction Bureaue
پاکستان کا نظامِ تعلیم - چند تلخ حقائق
جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اُس وقت شرح خواندگی 11 فیصد تھی اور آج 70 سال بعد شرح خواندگی 58 فیصد ہے۔ اگر تمام حکومتیں اس پر محنت کرتیں، ہر سال ایک فیصد بھی شرح خواندگی بڑھاتے چلے جاتے تو آج اس کو 81 فی صد ہونا چاہیے تھا۔ حالیہ بجٹ میں چاروں صوبوں کے لیے رکھی گئی رقوم 720 ارب روپے ہے۔ اگر ان 720 ارب کو صوبوں پر تقسیم کیا جائے تو پنجاب میں 345 ارب، سندھ میں 202 ارب، بلوچستان میں 50 ارب اور KPK میں 138 ارب رکھے گئے ہیں۔ یہ بجٹ جی ڈی پی کا صرف اڑھائی فیصد بنتا ہے۔
پورے ملک میں 2 لاکھ 60 ہزار 9 سو 3 اسکول ہیں۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء کی تعداد 4 کروڑ 10 لاکھ 18 ہزار 384 ہے۔ اگر اس حساب سے 720 ارب روپے کو ان بچوں پر تقسیم کر دیا جائے تو ایک بچے کے اوپر سالِ رواں میں حکومت فقط 175روپے خرچ کر رہی ہے۔ اس سے تعلیم کے حوالے سے حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ساڑھے تین کروڑ بچے ہمارے ہاں ایسے بھی ہیںجو اسکول نہیں جاتے، وہ چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔
دوسری طرف ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں شرح خواندگی 60 فیصد اور سری لنکا میں 98 فیصد ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں پچھلے 4 سال سے شرح خواندگی 58 فیصد پر ٹھہری ہوئی ہے۔ آج مختلف تجزیات اور رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 58 فیصد اسکول ایسے ہیں جہاں پر بنیادی ضروریات مثلاً عمارت، ٹوائلٹس اور فرنیچر تک میسر نہیں۔ کچھ تجزیات کے مطابق 18 فیصد اساتذہ ایسے ہیںجو سکول نہیں جاتے، ایسے اساتذہ کی تقرریاں محض مفاد پرستانہ سفارشات اور سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہوتی ہیں۔
مختلف اوقات میں متعدد قومی تعلیمی کمیشنز تشکیل دیئے گئے مگر ان پر بھی عمل نہ کیا گیا۔ان پالیسیوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی بناء پر آج حالت یہ ہے کہ ساڑھے 3کروڑبچے اسکولوں سے باہر ہیں اور جو 4کروڑ 10لاکھ بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں وہ پست تعلیمی معیار کا شکار ہیں۔
اسی طرح تعلیمی اداروں پر سرکاری اخراجات کو 2010ء کی GDPکا 2.7فیصد اور 2015ء تک 7 فیصد خرچ کیا جانا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا اور آج 2017ء میں تعلیم پر خرچ کی جانے والی رقم اڑھائی فیصد سے نہ بڑھ سکی۔ جنوبی پنجاب میں پچھلے تقریباً 40سال میں کوئی ایک نئی یونی ورسٹی وجود میں نہیں آسکی۔ یہ پاکستان کا نظامِ تعلیم اور اس کی تعلیمی صورتحال ہے۔ پاکستان کی شناخت اور پہچان زراعت ہے مگر زرعی یونی ورسٹی فیصل آباد کے علاوہ کوئی بڑی زرعی یونی ورسٹی وجود میں نہیں آسکی۔ یہ وہ چند ہوشربا اور تکلیف دِہ گوشے ہیں جو ہمیں پاکستان کے نظامِ تعلیم اور اس کے اوپر خرچ ہونے والے اخراجات سے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔
آج پورے ملک میں 5 کروڑ 5 لاکھ شہری ایسے ہیں جو تعلیم یافتہ ہی نہیں ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20کروڑ 77 لاکھ ، 74 ہزار 520 ہے۔ یقینا ناخواندہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہوگا۔ اس وقت پنجاب میں 38 فیصد، KPK میں 46 فیصد، سندھ میں 48 فیصد، بلوچستان میں 55 فیصد ناخواندہ افراد ہیں۔ اسی طرح خواتین کے متعلق ناخواندگی کی شرح کو دیکھا جائے توپنجاب میں 46 فیصد، KPK میں 53 فیصد، سندھ میں 65 فیصد، بلوچستان میں 77 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں۔ تمام سیاسی حکمران ایک دوسرے کو اور ایک دوسروں کے ادوار کو الزام تو دیتے ہیں مگر جب خود اقتدار و اختیار کے مالک ہوتے ہیں تو اس سمت کوئی توجہ نہیں دیتے۔ پورے ملک میں الزام کی سیاست کو بند کر کے نظامِ تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جس کے پاس جو صوبہ ہے اگر وہ اپنے صوبے کی ہی شرح خواندگی کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرتا تو آج پاکستان میں تعلیم کے حالات مختلف ہوتے۔ مگر بدقسمتی سے سیاست دانوں کے حالات، مقاصد، ضرورتیں کچھ اور ہیں جب کہ پاکستان کے عوام کی ضروریات اور ترجیحات مختلف ہیں۔ 2009ء کی تعلیمی پالیسی کے مطابق 2015ء تک شرح خواندگی کو 81 فیصد تک پہنچ جانا چاہیے تھا مگر پچھلے ساڑھے چار سال کے اندر شرح خواندگی 58 فیصد پر ہی رکی ہوئی ہے۔
اسی طرح پاکستان میں رجسٹرڈ دینی مدارس کی تعداد 12,153 ہے جس کے اندر کم و بیش 15 لاکھ اور 49 ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں۔ مگر کوئی پالیسی اور کوئی ادارہ نہیں ہے جو اس چیز کا جائزہ لے سکے کہ ان مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے اور ان مدارس سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ طلبہ اپنی خدمات کہاں سرانجام دیتے ہیں۔
2013ء میں45 ہزار گریجوایٹس پاکستان کی مختلف یونی ورسٹیوں سے نکلے، جن میں سے 16 ہزار آج تک بے روزگار ہیں۔ پورے ملک کے 48 فیصد تعلیمی ادارے ضروری سہولتوں سے آج بھی محروم ہیں۔ سوات میں زلزلے کے باعث 40ہزار لڑکیاں اسکولوں کی تعلیم سے محروم ہوئیں مگر ان کی تعلیمی بحالی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ 170 اسکولوں کو بم بلاسٹ سے اڑا دیا گیا ، لیکن کوئی اُن سے نہیں پوچھتا کہ اُن 170 اسکولوں میں سے دوبارہ کتنے اسکولوں تعمیرکروائے۔ بلوچستان میں 12ہزار سکولز ایسے ہیں کہ جس میں صرف ایک لیول کے لیے فقط ایک استاد میسر ہے تو سوچیں وہ اسکول کیسے چلتا ہوگا! پنجاب کے 25 فیصد اسکول جزوی یا کلی بنیادوں پر سہولتوں سے محروم ہیں۔ دوسری طرف حکومتیں پوش علاقوں کے بھاری فیسوں والے اسکولوں کو گرانٹ کے نام پر بھاری بجٹ دیتی ہیں۔یہ پیسہ غریب کے بچوں کا ہے جو امیر کے بچوں کی سہولتوں پر خرچ ہو رہا ہے۔
پاکستان کا غیر مساوی نظامِ تعلیم
آج تک جو کچھ پاکستان میں نظام تعلیم کے حوالے سے ہوتا رہا ہے اُس کو ڈنگ ٹپائو پالیسی کا نام دیا جاسکتاہے، اس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی نئی نسل کے اندر انتہا پسندی، دہشت گردی اور جہالت کے جراثیم پیدا ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ہم کیسے ان ہونہاراور نوجوان طلبہ و طالبات سے ملک و قوم کے روشن مستقبل کے لیے کچھ کرنے کی امید رکھ سکتے ہیں؟ موجودہ فرسودہ نظام تعلیم ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے قابل ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس نظام تعلیم سے بہترین سائنس دان، استاد، ڈاکٹر، انجینئر پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔
بشمول دیگر عوامل کے پاکستان میں رائج نظامِ تعلیم میں انتہا پسندی اور تشدد پر مبنی نظریہ کے پھیلاؤ کی ایک بنیادی وجہ عدم مساوات کو تصور کیا جاتا ہے۔ عدمِ مساوات کے باعث متذکرہ بالا تعلیمی نظام نصاب تعلیم، طریقہ تدریس اور تعلیم کی نوعیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان اداروں میں طلباء بھی مختلف سماجی اور اقتصادی پس منظر سے آتے ہیں جن میں عام طور پر کچھ بھی یکساں نہیں ہوتا۔ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو حصول علم کے لئے کم فیس بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، ان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ مدارس کو اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے منتخب کریں کیونکہ دینی مدارس ان بچوں کو مفت رہائش، خوراک اور مذہبی تعلیم فراہم کرتے ہیں یہاں تک کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلباء کے پاس زندگی میں بہت محدود ملازمت کے مواقع ہوتے ہیں۔ اِس احساسِ محرومی کے باعث وہ انتہا پسندی اور ذہن سازی (brain washing) کا جلد شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ایسے افراد جب ایک ہی معاشرے میں رہنے والے افراد میں طبقاتی تضاد دیکھتے ہیں اور اپنی ہی عمر کے اُن نوجوانوں کو دیکھتے ہیں جو انگلش میڈیم اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد زندگی کی تمام سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اُن کے مقابلے میں اِن کے پاس بنیادی ضروریات پوری کرنا بھی دشوار ہے۔لامحالہ ایسے نوجوانوں میں احساس کم تری، غصہ، حسد اور بدلہ لینے کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ جو بآسانی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ مذہبی مدارس اسکولوں کی دوسری category ہے جو غریب بچوں کی ضروریات زندگی کو پورا کرتے ہیں۔ ریاست کی سماجی اور معاشی ناانصافیوں کو نظر انداز کرنے کے باعث معاشرے میں جو خلا پیدا ہوا ہے، مذہبی مدارس نے اس خلا کو پر کیا ہے۔ یہ مدارس اپنے طلباء کو نہ صرف مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں بلکہ انہیں مفت رہائش ، خوراک اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی مہیا کرتے ہیں۔ نیز تعلیم کے اختتام پر مساجد میں ایک قسم کی ملازمت بھی دیتے ہیں۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ یہ مدارس اگرچہ پاکستان کے مرکزی تعلیمی دھارے سے جدا نہیں ہیں لیکن ایک مکتبہ فکر کے مدرسہ کے طلباء کو دیئے جانے والے افکار و نظریات اور عالمی نقطہ نظر، دوسرے مکتبہ فکر سے ملنے والے افکار و نظریات اور عالمی نقطہ نظر سے مکمل متضاد ہوتے ہیں۔ مزید براں ان کا طریقہ تدریس اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ ایک مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے کے نزدیک دوسرے مسلک کی (علمی) تعبیر و تشریح (بھی) قابل قبول اور متفقہ نہیں ہوتی۔ اس طرز عمل نے معاشرے میں فرقہ واریت کی جڑیں مزید گہری کر دی ہیں اور معاشرے کی ترقی اور اصلاح کے پہلو نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔
ایسے حالات میں اسلامی تعلیمات سے والہانہ وابستگی رکھنے والا نوجوان مسلمان جب اپنے گرد و پیش فرقہ پرستی کی دیواریں کھڑی دیکھتا ہے تو وہ اسلام سے ہی بیزار ہونے لگتا ہے اور بالآخر ان نام نہاد مصلحین کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، جو ہر مسلک اور مکتب فکر کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور فرقہ پرستی یا منافرت کی تردید کے نام پر اسے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہی بے گانہ بنا ڈالتے ہیں۔ وہ اپنے زعم میں اسلام کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں اور انتہا پسندی کے جوش میں اپنے سوا ہر ایک کو اسلام دشمن، کافر، ملحد، لا دین اور مشرک قرار دیتے ہیں، لیکن خود عملاً فتنہ انگیزی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ نوجوان نسل کے کچے ذہنوں میں انتشار کا بیج بو کر گمراہی کا پرچار کرتے ہیں۔ یہ عقلیت پرست زعماء کالجوں، یونی ورسٹیوں، دفتروں اور جدید تعلیمی اداروں کی آغوش میں پلنے والے نوجوانوں کو بالخصوص اپنا شکار بنا لیتے ہیں۔ اسلام کی بنیادی اَقدار سے نا آشنا مسلمان نوجوان ان کے تزویراتی حربوں کے سامنے بڑی آسانی سے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔
فروغِ علم و شعور کے لیے ہنگامی اِقدامات
علم و شعور ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو قوموں کو زوال کی پستیوں سے نکال کر اوجِ ثریا کی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔ اس امر کے حصول کے لیے قوموں کو بالعموم اور حکومتوں کو بالخصوص فروغِ علم کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اگر ہم متعدد ماہرینِ تعلیم کے ماڈلز کو سامنے رکھیں یا ترقی یافتہ قوموں کو سامنے رکھیں تو ان میں ہمیں چند پہلو قدرِ مشترک کے طور پرنظر آئیں گے۔ مسلم دنیا اِس وقت اس مسئلے کی نوعیت کے اعتبار سے مؤثر نظام العمل کی متلاشی ہے اور اس کی نشاندہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے اور علم کے بل بوتے پر ترقی کی منازل طے کرنے والی قوموں کے ماڈلز کو سامنے رکھتے ہوئے چند گزارشات پیشِ نظر ہیں:
اصلاحات پر مبنی بہترین اور مؤثر نظامِ تعلیم اور اعلیٰ معیار کا جدید نصابِ تعلیم ہر سطح پر پوسٹ گریجویٹ تعلیم تک وسیع پیمانے پر ہونے والی ترقیاتی منصوبہ جات کو باہم مربوط کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس امر کے حصول کے لیے اس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر جدید طرزِ تعلیم کو ترجیح دی جائے اور علمی حلقات کے مابین تعلیمی تعامل کو فروغ دیا جائے اور رکن ریاستوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ علمی حلقات میں تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں کو نہ صرف اجاگر کریں بلکہ وسیع پیمانے پر انہیں فروغ بھی دیں۔ مسلم دنیا کے اندر اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ و محققین اور اسکالرز کو معاصر علمی حلقات سے ہم آہنگ کیا جائے اور ان کے تشخص کو نمایاں کیا جائے اور ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹھوس بنیادوں پر ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے مسلم دنیا میں ہونے والے اِنخلائِ ذہانت کے عمل کی کلیتاً روک تھام کی جا سکے۔
علم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جسے ترقی اور خوشحالی کا بنیادی زینہ گردانا جاتا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے عالمی برادری اس وقت بڑی تیزی سے علمی حلقات (knowledge cities) کے قیام کے عمل میں سرگرم ہے۔ عصرِ حاضر میں عالمی تناظر میں ہونے والی علمی ترقی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسلم دنیا پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنے ممالک میں علمی و فکری حلقات کے فروغ پر توجہ مرکوز کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہیں اپنی ملکی سالانہ آمدنی (GDP) سے ایک معقول رقم فروغِ علم کے لیے مختص کرنا ہو گی تاکہ وہ خود کو جدید دور کے تقاضوں سے ہمکنار کرکے ترقی کے مطلوبہ اہداف حاصل کرسکیں۔