21 ستمبر کو ہرسال عالمی یومِ امن منایا جاتا ہے، دنیا بھر کی حکومتیں، غیر سرکاری ادارے، مذہبی، سماجی جماعتیں اور تنظیمیں اس روز امن کی اہمیت پر سیمینارز اور پروگرامز منعقد کرتی ہیں اورامن کی اہمیت اجاگرکرتی ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی سربراہانِ مملکت و دیگر ذمہ داران امن کی اہمیت اور افادیت پر بیانات جاری کرتے ہیں مگر دوسری طرف امنِ عالم پر سرسری سی نگاہ دوڑائی جائے تو ہر طرف بدامنی، انتہا پسندی، عدم برداشت، تنگ نظری، تنگ فکری اوردہشتگردی نظر آتی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تمام جنگیں امن،انسانیت کے تحفظ اور بقاء کے نام پر لڑی گئیں مگر یہ ایک تلخ اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ امن کے نام پر جتنی بدامنی پیدا کی گئی اور انسانیت کے تحفظ کے نام پر جتنا انسانیت کا خون بہایا گیا اس کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔
دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو بلاجواز انسانیت کا خون بہانے کی اجازت دیتا ہو لیکن اس باب میں اسلام کی تعلیمات سب سے آگے ہیں۔ دین اسلام غیر مسلم کے جان مال کو مسلمان کے جان مال کی طرح محترم و مقدس قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے سورۃ المائدہ میں فرمایا: ’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)‘‘ یہاں کسی مسلمان کی جان کی بات نہیں ہورہی بلکہ بلا رنگ و نسل اور مذہب پوری انسانیت کی بات ہورہی ہے۔ اسلام کے اس آفاقی امن کی فلاسفی اتنی فصاحت کے ساتھ دنیا کے کسی اور الہامی یا غیر الہامی مذہب میں بیان ہوتی نظر نہیں آتی جو قرآن نے بیان کی ہے۔ قرآن مجید کا یہی مضمون احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی شرح و بسط کے ساتھ نظر آتا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی عام حالات تو کیا حالتِ جنگ میں بھی بلا ضرورت قتال سے منع فرمایا ہے۔ اس کی بڑی مثال فتح مکہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بزرگوں، عورتوں، بچوں اور مسلم سپاہ کے مقابل نہ نکلنے والوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، حرمت اور تحفظِ انسانیت کے ضمن میں اسلام کی تعلیمات کو اگر مختصر انداز میں بیان کیا جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ اسلام قتلِ ناحق اور فساد فی الارض کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کے جان مال کے تحفظ کے احکامات صادر فرمائے ہیں اور قتلِ ناحق سے ہر ممکن بچنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: ’’(اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘
آج ہم جس عہد میں زندہ ہیں اس میں غیر مسلم اور مسلم ممالک سیاسی تنازعات میں الجھ کر اپنی توانائیاں جنگ و جدل میں صرف کررہے ہیں اور اس عمل میں بڑی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں جو قرآن و حدیث کی نصوص اور احترامِ آدمیت کے خلاف ہے۔ دنیا میں بدامنی کی بڑی وجوہات میں ناانصافی اور دوسروں کے اقتدارِ اعلیٰ اور مقدس مذہبی ہستیوں کے بارے میں اختیار کیا گیا غیر محتاط رویہ ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق ہرایک کے مذہبی بنیادی حقوق، مذہبی شخصیات اور عبادت گاہوں کا احترام ضروری ہے مگر ہر سوسائٹی، مذہب اور معاشرے میں کچھ انتشار پسند اور انتہا پسندی عناصر موجود ہوتے ہیں، جو اپنی بیمارذہنیت کے زیر اثر رہتے ہوئے دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے رہتے ہیں اور اجتماعی امن کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایسے عناصر کی منفی اور مذموم حرکتوں اور سرگرمیوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس احترام اور رواداری پر مبنی رویے سے بین الاقوامی سطح پر باہمی احترام اور پرجوش سفارتی تعلقات کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احترام اور اعتماد پر مبنی بین الاقوامی تعلقات، بین المذاہب رواداری کی تاریخِ عالم کی شاندار مثال ریاستِ مدینہ کی تشکیل اور دستورِ مدینہ کو مرتب کرتے وقت دی۔ ریاستِ مدینہ میں تمام مذاہب کے احترام کو قانونی شکل دی گئی، ہر ایک کے جان و مال کو تحفظ دیا گیا۔ دستورِ مدینہ میں دیگر اقوام کو اپنے رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کے قانونی حق کو تسلیم کیا گیا۔ آج بھی پائیدار امنِ عالم کے قیام کے لئے دستورِ مدینہ رہنما اصول مہیا کرتا ہے، دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے اس وقت اقوام متحدہ ایک ذمہ دار ادارہ ہے، اقوام متحدہ نے اپنے چارٹرز میں افراد کے انسانی، سیاسی، جغرافیائی، معاشی، سماجی، بنیادی اور مذہبی حقوق کو تحفظ دیا ہے۔ آج بھی اگر ان حقوق کے احترام کو یقینی بنا دیا جائے تو دنیا کو ناانصافی، جنگ و جدل اور متشدد رویوں سے پاک کیا جا سکتا ہے۔
جب امن کی بات ہوتی ہے تو منہاج القرآن کی اس تناظر میں انجام دی جانے والی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ رواں صدی میں اسلام کی امن فلاسفی کو جس موثر انداز میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہ لائقِ ستائش اور قابلِ تقلید ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشتگردی اور انتہا پسندی کو اسلام سے جوڑے جانے کی منفی کوششوں کا قرآن و سنت کے دلائل سے رد کیا ہے اور اپنے بیانیہ سے یہ باور کروایا ہے کہ اسلام دینِ امن و سلامتی اور امنِ اجتماعی کا پیامبر ہے۔ شیخ الاسلام نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پیدا ہونے والے دہشت گردی کے فتنہ سے نوجوانوں کو بچانے اور خبردار کرنے کے حوالے سے جو کردار ادا کیا ہے ا س کے ثمرات دنیا کی ہر سوسائٹی تک پہنچے اور نئی نسل کو گمراہ کرنے والے عناصر کا متشدد چہرہ بے نقاب کیا۔ اسی طرح شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان میں بھی پائیدار امن کے قیام کے لئے قابلِ قدر کوششیں کیں اور دہشت گردوں کے خارجیت پر مبنی کفریہ بیانیہ کو جڑ سے کاٹا۔ ان کی یہ کوششیں تقریری سطح پر بھی تھیں اور تحریری سطح پر بھی، انہوں نے دہشت گردی کے فتنہ کے خاتمے اور قیامِ امن کے لئے امن نصاب مرتب کیا۔ یہ امن نصاب سوسائٹی کے ہر طبقہ اور ذہنی سطح کے افراد کے لئے ہے۔ انہوں نے فورسز کے جوانوں، وکلاء، اساتذہ، طلباء و طالبات، علمائے کرام اور ائمہ مساجد کے لئے بھی امن نصاب مرتب کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اسی امن فلاسفی کے تحت منہاج یونیورسٹی لاہور نے سکول آف پیس قائم کیا جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات فکری کشادگی کے ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ منہاج یونیورسٹی ادیان کے تقابلی جائزے کا سب سے بڑے تعلیمی اور تحقیقی مرکز کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور یہاں زیر تعلیم طلبہ و طالبات بین المذاہب رواداری کی عمدہ مثال ہیں۔ جہاں امن ہو گا وہاں انصاف اور خوشحالی ہو گی، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اجتماعی قیامِ امن پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔