سہ روزہ دورۂ علوم الحدیث(نشست: دوم، حصہ: 3)
خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
آج بعض لوگ اپنی کم علمی کے باعث یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ احادیثِ صحیحہ صرف صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہیں، لہذا اگر کسی معاملے پر کوئی حدیث صحیحین میں ہو تو وہ اس حدیث کو مانتے ہیں ورنہ نہیں مانتے۔ یہ ’’ورنہ‘‘ تیرہ سو سال میں کبھی وارد نہیں ہوا۔ یہ ’’ورنہ‘‘ کبھی اہلِ علم کے کانوں نے سنا اور نہ آنکھوں نے دیکھا۔ یہ ’’ورنہ‘‘ تھا ہی نہیں۔ یہ ’’ورنہ‘‘ علم کا مرنا بن گیا۔ یعنی احادیثِ نبویہ کے دروازے بند کر دیے اور احادیثِ نبوی کے فیض کے اتنے بڑے سمندر کو صرف ان دو کتابوں میں محصور کردیا۔ یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے۔ یہ دعویٰ امام بخاری اور امام مسلم نے خود بھی نہیں کیا۔ آج اگر وہ حیات ہوتے تو تعجب کا اظہار فرماتے کہ ہمارے تو گمان میں بھی یہ بات کبھی نہیں آئی تھی کہ کسی زمانے میں یہ کہہ دیا جائے گا کہ چونکہ فلاں حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نہیں، لہٰذا ہم نہیں مانتے۔
اس حوالے سے ذیل میں ائمہ کرام کے چند اقوال اور دیگر عقلی و نقلی دلائل بیان کیے جارہے ہیں جن سے معلوم ہوجائے گا کہ حدیث کی صحت کے لیے صرف صحیحین کو معیار و پیمانہ قرار دینا قطعاً درست نہیں:
1۔ امام نوویؒ کا قول
اس بحث کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلا حوالہ امام نووی کی کتاب التقریب سے دیتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
أوّل مصنف فی الصحیح المجرد صحیح البخاري ثم مسلم وھما أصح الکتب بعد القرآن.
سب سے پہلی کتاب جو مجرد صحیح میں اس اہتمام کے ساتھ لکھی گئی کہ ان شرائط پر صرف صحیح احادیث لیں اور غیر صحیح نہ لیں، وہ صحیح بخاری تھی اور پھر صحیح مسلم تھی اور یہ دونوں قرآن مجید کے بعد اصح ہیں۔
اس کے بعد امام نووی فرماتے ہیں:
ولم یستوعبا الصحیح ولا التزماہ.
(نووي، التقریب، ص: 3)
امام بخاری اور امام مسلم نے تمام صحیح احادیث کو ان دو کتابوں میں جمع کیا نہ ہی اس کا التزام فرمایا تھا۔
یعنی انہوں نے یہ ذمہ داری لی ہی نہیں کہ کل احادیث صحیحہ کو ہم اپنی کتاب میں جمع کر دیں گے اور جو احادیث اس سے باہر رہ جائیں، وہ صحیح نہیں ہوں گی۔
امام نووی مزید فرماتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ کثیر احادیث ایسی ہیں جو صحیح ہیں مگر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں درج نہیں۔ امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے تمام احادیثِ صحیحہ کو اپنی کتب میں طوالت کی وجہ سے درج نہیں کیا۔
امام نووی مزید فرماتے ہیں کہ بیشتر احادیث جو امام بخاری اور امام مسلم نے نہیں لیں اور وہ صحیح ہیں، وہ احادیث اصولِ خمسہ میں آگئیں۔ پھر فرمایا کہ اصول خمسہ میں کثیر احادیثِ صحیحہ آجانے کے باوجود بھی بے شمار صحیح احادیث بچ گئیں جو ان پانچ کتب (اصول خمسہ) میں بھی نہیں آ سکیں۔
یاد رہے کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو داؤد، جامع ترمذی اور سنن نسائی ان پانچ کتابوں کو الأصول الخمسۃ کہتے ہیں۔
2۔ حافظ ابن حجر عسقلانی کا قول
امام عسقلانی نے النکت میں فرمایا:
لم یلتزم البخاري أن یخرج کل ما صح من الحدیث وکما أنہ لم یخرج عن کل من صحح حدیثہ.
(عسقلانی، النکت، ص: 173)
امام بخاری نے ساری احادیث صحیحہ درج کرنے کا التزام نہیں فرمایا اور نہ کل رواۃ جو صحیح ہیں اُن سے تخریج کی۔
3۔ امام اسحاقؒ کا قول
امام زرکشی نے النکت میں بیان کیا کہ امام اسحاق فرماتے ہیں:
أحفظ سبعین ألفاً صحیحۃ.
(زرکشی، النکت)
مجھے ستر ہزار احادیث صحیحہ یاد ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر بدونِ تکرار صحیح بخاری کی 28 سو احادیث کو ہی صحیح مانا جائے اور ان کے علاوہ کسی دوسری حدیث کو صحیح نہ مانا جائے تو امام اسحاقؒ کو یاد 70 ہزار حدیثِ صحیحہ میں سے 67 ہزار 200 احایث کہاں گئیں؟ لازمی بات ہے کہ وہ صحیحین کے علاوہ دیگر کتبِ حدیث میں موجود ہیں۔
4۔ امام احمد بن حنبلؒ کا قول
امام حاکم اپنی کتاب المدخل إلی کتاب الإکلیل فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے کہا:
صح من الحدیث سبع مائۃ ألف حدیث وکسر.
(حاکم، المدخل، 1: 35)
احادیث میں سے سات لا کھ حدیثیں صحیح طور پر ثابت ہیں۔
اسے خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے تھذیب التھذیب میں بھی بیان کیا ہے۔
حدیث کے حوالے سے امام احمد بن حنبل ایک اتھارٹی ہیں، آپ کے اس قول کے آ جانے کے بعد کہ سات لاکھ حدیثیں اپنی سند کے اعتبار سے صحیح ثابت ہو چکی ہیں، اب کسی کو یہ کہنے کا حق نہ رہا کہ جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نہیں، ہم اُس کو صحیح نہیں مانتے۔ اگر یہ بات کہیں تو یہ بات امام بخاری، امام مسلم اور امام احمد بن حنبل کا رد ہوگیا۔
امام احمد بن حنبل نے جب یہ کہا کہ سات لاکھ احادیث صحیح ہیں تو ان کے ساتھ امام ابو زُرعہ بیٹھے تھے، آپ نے امام ابو زرعہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اس جوان ابو زُرعہ کو دیکھو، اس نے اُن میں سے چھ لاکھ احادیث زبانی یاد کر رکھی ہیں۔
امام احمد بن حنبلؒ مزید فرماتے ہیں: ان سات لاکھ صحیح احادیث میں سے میں نے اپنی مسند تیار کی ہے۔ مسند میں احادیث کی تعداد تقریباً 30 ہزار ہے۔ جن کو امام احمد بن حنبل اور امام بخاری جیسی ہستیاں احادیثِ صحیحہ قرار دے چکی ہیں۔ اب صاف ظاہر ہے کہ ان 30 ہزار کے علاوہ 6 لاکھ 70 ہزار احادیث صحیحہ دیگر کتب حدیث میں ہی ہیں۔
5۔ امام بخاریؒ کا قول
1۔ امام زین الدین العراقی فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا:
میں نے جو احادیث صحیحہ اپنی صحیح بخاری میں داخل کیں اُن کا عدد کم ہے اور جو صحیح احادیث ترک کر دیں اور جنہیں میں اپنی جامع میں داخل نہیں کر سکا، ان کا عدد زیادہ ہے اور یہ اس لیے ترک کیں کہ کتاب بہت ضخیم نہ ہوجائے۔
(العراقی، التقیید والإیضاح، ص: 123)
2۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری کی پہلی جلد مقدمہ ھدی الساری میں بیان کیا کہ ابوعلی غسانی نے روایت کیا کہ امام بخاری نے فرمایا:
خرجتُ الصحیحۃ من ست مائۃ ألف حدیث. قال: ولم أخرج في ھٰذا الکتٰب إلا صحیحا وما ترکت من الصحیح اکثر.
(عسقلاني، هدي الساري، ص: 7)
میں نے چھ لاکھ احادیث میں سے اپنی کتاب صحیح بخاری کی تخریج کی۔ میں نے اپنی کتاب الجامع میں ہر حدیث جو درج کی ہے وہ صحیح ہے مگر جو احادیث چھوڑ دی ہیں، اُن کا عدد درج ہونے والی احادیث سے کہیں زیادہ ہے۔
3۔ امام اسماعیلی فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا:
لأنہ لو أخرج کل حدیث صحیح عندہ لجمع في الباب الواحد حدیث الجمعۃ من الصحابۃ ولذکر طریق کل واحد منھم اذا صحت فیسیر کتابا کبیرا جدا.
اگر میں ساری احادیث صحیحہ (جو مجھے یاد ہیں) اس کتاب میں جمع کر دیتا تو صرف ایک ایک صحابی کا باب بن جاتا۔ اتنے ابواب بن جاتے کہ کتاب کئی جلدوں کی بن جاتی۔ جبکہ میں چاہتا تھا ایک جلد میں مختصر کتاب جمع کروں۔
4۔ ابراہیم بن معقل نسفی فرماتے ہیں کہ امام بخاری فرماتے ہیں:
ما أدخلتُ فی کتابي الجامع إلا ما صح وترکتُ من الصحاح محال الطول.
(عسقلانی، مقدمه فتح الباری)
میں نے صرف صحیح احادیث اس میں جمع کی ہیں مگر جو صحیح احادیث چھوڑ دی ہیں، اُن کا عدد بہت زیادہ ہے۔
5۔ امام سخاویؒ فرماتے ہیں:
وبالجملۃ به فکتاباهما أصح کتب الحدیث ولکنھما لم یعماه أي لم یستوعبا کل الصحیح فی کتابیهما.
بل لو قیل إنهما لم یستوعبا مشروطهما لکان موجها وقد صرح کل منهما بعدم الإستیعاب. فقال البخاري فیما رویناه من طریق إبراهیم بن معقل عنه ما أدخلت في کتابي الجامع إلا ما صح وترکت من الصحیح خشیه أن یطول الکتاب. وقال مسلم إنما أخرجت هذا الکتاب وقلت هو صالح ولم أقل أنه ما لم أخرجه من الحدیث فیه ضعیف.
(سخاوي، فتخ المغیث، 1: 30)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دونوں (یعنی شیخین) کی کتابیں کتبِ حدیث میں صحیح ترین کتابیں ہیں لیکن ان دونوں نے اپنی کتابوں میں تمام صحیح احادیث کا استیعاب نہیں کیا۔
بلکہ اگر کہا جائے کہ ان دونوں نے اپنی شرائط پر پورا اترنے والی احادیث کا بھی احاطہ نہیں کیا تو یہ بھی درست ہوگا۔ بے شک ان دونوں میں سے ہر ایک نے صراحت کی ہے کہ انہوں نے تمام احادیث کو احاطہ نہیں کیا۔ ہمیں ابراہیم بن معقل کے طریق سے روایت کیا گیا ہے کہ امام بخاری کہتے ہیں کہ میں نے اپنی جامع میں وہ احادیث جمع کی ہیں جو صحیح ہیں اور بہت سی صحیح احادیث کو کتاب کی طوالت کے خوف سے طرق کردیا۔ امام مسلم نے فرمایا: میں نے یہ کتاب تیار کی اور کہا کہ یہ بہترین ہے اور میں نے یہ نہیں کہا کہ جو احادیث میں نے بیان نہیں کیں ان میں ضعف ہے۔
یعنی دونوں ائمہ کرام اس بات کی تصریح فرمارہے ہیں کہ جو جو احادیث ہم نے اپنی الجامع الصحیح میں درج کی ہے، وہ تو صحیح ہیں مگر ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ جو احادیث ہم نے درج نہیں کیں، وہ صحیح نہیں یا وہ ضعیف ہیں۔ جو احادیث چھوڑ دی ہیں وہ بھی صحیح ہیں اور جو درج کیں وہ بھی صحیح ہیں۔ ان کتابوں کو مختصر رکھنے کے لیے کچھ لے لی ہیں، باقی احادیث صحیحہ دیگر کتب میں موجود ہیں۔
6۔ امام جلال الدین سیوطیؒ تدریب الراوی میں فرماتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے فرمایا:
ما أدخلتُ في کتاب الجامع إلاّ ما صحّ وترکتُ من الصحاح مخافة الطول. وقال البخاري في ما نقلہ الحازمي والإسماعیلي وما ترکت من الصحاح أکثر وقال مسلم: لیس کل شيء عندي صحیح وضعته ههنا إنما وضعت ما أجمعوا علیه.
(سیوطی، تدریب الراوی، 1: 98)
میں نے اپنی کتاب میں صحیح احادیث ہی جمع کیں اور بہت ساری صحاح طوالت کے خوف سے ترک کردیں۔ امام حازمی اور امام اسماعیلی نے نقل کیا کہ امام بخاری نے فرمایا: جو صحیح احادیث میں نے ترک کیں، وہ زیادہ ہیں۔ امام مسلم نے کہا: میں نے ہر صحیح حدیث کو یہاں ذکر نہیں کیا بلکہ میں نے مجمع علیہ احادیث جمع کیں۔
یعنی امام مسلم نے ان احادیث کو جمع کیا جن کی صحت پر ان کے اساتذہ میں سے چند اساتذہ متفق ہوئے۔
میں نے ان ائمہ کے اقوال کے چند نمونے اس لیے بیان کیے ہیں تا کہ یہ بات واضح ہو جائے اور ثابت ہو جائے کہ جو بحث میں کر رہا ہوں یہ چار، پانچ ائمہ کی رائے نہیں ہے بلکہ بارہ تیرہ سو سال کی اصول الحدیث اور تاریخ الحدیث میں تمام ائمہ اور تمام علمائے اعلام اس پر متفق ہیں، ان کا اجماع ہے اور ایک عالم کا بھی اس پر اختلاف نہیں کہ یہ قول امام بخاری و امام مسلم کا نہیں ہے۔
6۔ صحیح بخاری کے نام میں مذکور ’’المختصر‘‘ کی وجہ تسمیہ
امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کے نام میں ’’المختصر‘‘ کا لفظ بھی شامل فرمایا ہے۔ اس لفظ کا استعمال بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ امام بخاریؒ کا مقصود تمام صحیح احادیث کواکٹھا کرنا نہ تھا۔ سیر اعلام النبلاء میں علامہ ذہبی نے امام بخاری کے ترجمے کے تحت ابراہیم بن معقل کی روایت سے لیا ہے کہ امام بخاری اور اُن کے ہم جماعت ساتھیوں سے اِن کے استاد اسحاق بن راہویہ نے کہا کہ اگر تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنن پر کوئی مختصر کتاب جمع کرو تو یہ کتنی اچھی بات ہے کہ لوگوں کو احادیث نبویہ صحیحہ ایک جلد میں مختصر مجموعے میں مل جائیں۔
امام بخاری کہتے ہیں:
فوقع ذلک في قلبي فأخذتُ في جمع ھٰذا الکتاب.
(ذہبي، سیر أعلام النبلاء، 12: 401)
یعنی اپنے شیخ سے سن کر کہ احادیث نبویہ کی ایسی ایک کتاب جمع کرو جو مسند بھی ہو، مرفوع بھی ہو، مختصر بھی ہو اور صحیح بھی ہو اور ایک جلد میں ہو تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ مختصر کتاب میں جمع کروں گا۔
پھر میں نے چھ لاکھ یاد احادیث میں سے یہ مختصر کتاب ترتیب دی۔ اگر میں ساری احادیث صحیحہ جو مجھے یاد ہیں، اس کتاب میں درج کرنے لگ جاتا تو کتاب مختصر نہ رہتی بلکہ بہت بڑی ہو جاتی۔ اس لیے میں نے اکثر صحیح احادیث ترک کر دیں اور ضرورت کی تھوڑی سی احادیث جس سے مقصد پورا ہو جائے، اس کے اندر درج کر دیں۔
7۔ امام مسلمؒ کا قول
امام مسلم نے بھی یہی بات صحیح مسلم میں بیان فرمائی:
لیس کل شيء عندي صحیح وضعته هاهنا (یعني في کتاب الصحیح)، وإنما وضعت هاهنا ما أجمعوا علیه.
(مسلم، الصحیح، 1: 304، رقم: 404)
وہ تمام احادیث جو میرے نزدیک صحیح ہیں، میں نے وہ سب صحیح احادیث اپنی کتاب صحیح مسلم میں درج نہیں کیں اور بے شک میں نے یہاں وہی احادیث درج کی ہیں جس پر (میرے اساتذہ) متفق ہوئے۔
گویا امام مسلم نے ایک پیمانہ بنایا تھا کہ جس حدیث پر انہوں نے اپنے چند اساتذہ کو متفق پایا صرف انہیں لے لیا اور بے شمار احادیث صحیحہ باقی ہیں جنہیں انہوں نے صحیح مسلم میں درج نہیں کیا۔ اس عبارت کے ذریعے گویا انہوں نے اپنے شاگردوں کو سمجھا دیا کہ اس مغالطے میں نہ رہنا کہ جو حدیث صحیح مسلم میں نہیں وہ صحیح نہیں ہے بلکہ ہزار ہا صحیح احادیث ہیں جنہیں میں نے درج نہیں کیا۔
امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ امام مسلم کے ایک شاگرد نے آپ کے سامنے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی درج ذیل حدیث بیان کی کہ
’’فاذا قرأ فانصتوا‘‘
(جب امام قرات کرے تو تم چپ ہو جایا کرو اور خاموشی سے سنو۔)
(مسلم، الصحیح، کتاب الصلاۃ، 1: 304، رقم: 404)
حدیث کو بیان کرنے کے بعد آپ کے شاگرد نے آپ سے پوچھا کہ ہل ہو صحیح؟ کیا یہ صحیح ہے؟
امام مسلم نے جواب دیا:
هو عندي صحیح.
میرے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔
شاگرد نے پوچھا: اگر یہ حدیث آپ کے نزدیک صحیح ہے تو آپ نے اسے صحیح مسلم میں روایت کیوں نہیں کیا؟ اُس پر امام مسلم نے فرمایا:
لیس کل شيء عندي صحیح وضعته هاهنا، وإنما وضعت هاهنا ما أجمعوا علیه.
(نووی، شرح صحیح مسلم، 4: 123)
یعنی میں نے تمہیں کب کہا ہے کہ وہ ساری احادیث جو میرے نزدیک صحیح ہیں، میں نے ساری کی ساری اپنی کتاب الصحیح میں جمع کر دی ہیں۔ میں نے تو ایک پیمانہ بنا کر احادیث جمع کی ہیں، اُس کے علاوہ ہزاروں صحیح احادیث اور بھی ہیں۔
امام مسلم خود کہیں کہ ساری احادیث صحیحہ میں نے اپنی کتاب میں جمع نہیں کیں لہٰذا جو میری کتاب میں نہ ہو اُس کا معنیٰ یہ ہرگز نہ لینا کہ وہ صحیح نہیں جبکہ ہم کہیں کہ جو صحیح مسلم میں نہیں، وہ نہیں مانتے، یہ بات جہالت اور لاعلمی کے سواء کچھ نہیں۔
8۔ صحاح ستہ میں درج کل احادیث کی تعداد اور امام بخاریؒ کے قول کا موازنہ
ایک بات اور ذہن میں رکھ لیں کہ پوری صحاح ستہ میں جو احادیث آئی ہیں، اگر ان کے تکرار (repetition) کو حذف کر دیا جائے اور ایک حدیث جو اگرچہ چھ کی چھ کتب صحاح میں بھی آئی ہے، ایک بار شمار کریں تو اس تجرید الاحادیث کے بعد صحاح ستہ کی کل احادیث کا عدد 12 ہزار سے کم بنتا ہے۔ دوسری طرف امام بخاریؒ خود فرماتے ہیں کہ مجھے ایک لاکھ احادیث صحیحہ یاد تھیں، اُن میں سے صحیح بخاری کے لیے چند ہزار احادیث کا انتخاب کیا۔ صحیح بخاری کے اندر بھی احادیث کا تکرار ہے، تمام تکرار حذف کر دیے جائیں تو صحیح بخاری کی کل احادیث کی تعداد 2,800 ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بقیہ 97,200 صحیح احادیث جو امام بخاری کو یاد تھیں، وہ کہاں گئیں؟ لازمی بات ہے کہ وہ دوسری کتب حدیث میں موجود ہیں۔ (امام بخاری کے اس قول پر علماء نے گفتگو کی ہے کہ ایک لاکھ احادیث کے بیان کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ نے اس سے مراد اسانید اور طرق کو لیا ہے۔ بعضوں نے دیگر معانی بیان کیے ہیں، یہ بحث الگ ہے، اس موقع پر ہم اس بحث میں نہیں جاتے۔
اگر کہا جائے کہ بقیہ احادیث صحیحہ، صحاح ستہ میں آگئی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحاح ستہ میں احادیث کی تعداد بدونِ تکرار 12 ہزار ہے پھر بھی 88 ہزار صحیح احادیث بچ جاتی ہیں۔ وہ کہاں گئیں؟ 88 ہزار میں بھی اگر 50 ہزار اسانید اور طرق کا تکرار لے لیں، پھر بھی بقیہ 38 ہزار احادیث صحیح ہیں، وہ کہاں ہیں؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ احادیث دیگر کتب حدیث میں ہیں۔ پس امام بخاری کے قول اور مذکورہ موازنہ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحیحین کے علاوہ بھی احادیث صحیحہ کا کثیر ذخیرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔
9۔ ’’التاریخ الکبیر‘‘ اور ’’الضعفاء‘‘ میں مذکور راویوں کی تعداد سے استدلال
اس حوالے سے ایک اور دلیل یہ ہے کہ امام بخاری نے اسماء الرجال کے حوالے سے ’’التاریخ الکبیر‘‘ تحریر فرمائی۔ اُس میں آپ نے تقریباً 30 سے 40 ہزار رواۃ کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح امام بخاری نے ضعیف رواۃ پر بھی الضعفاء کے نام سے کتاب لکھی جس میں تقریباً 700 راویوں کے احوال لکھے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا 700 راویوں کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں ضعیف لکھا، اگر ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں مذکور راویوں کی تعداد 30 ہزار ہے تو اس میں سے آپ نے صرف سات سو یا ایک ہزار رواۃ ضعیف قرار دیئے، گویا 29 ہزار راوی صحیح ہیں۔ جو راوی صحیح ہیں، لازمی ہے کہ اُن کی مرویات بھی صحیح ہوں گی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام بخاری کے ہاں صحیح احادیث کا عدد کیا بنتا ہے۔
10۔ صحیحین میں انتخابِ حدیث کا ایک معیار ائمہ کا فقہی مذہب بھی ہے
سوال یہ ہے کہ ہزارہا احادیث جو امام مسلم اور امام بخاری کی نظر میں صحیح ہیں تو پھر انہوں نے ان احادیث کو اپنی کتب میں درج کیوں نہیں کیا؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ان ائمہ نے طوالت کے پیش نظر ایسا نہیں کیا اور دوسرا جواب یہ ہے کہ ہر امام کے پیش نظر ان کا اپنا فقہی مذہب بھی تھا۔ امام مسلم شافعی المذہب تھے۔ اُن پر پابندی تو نہیں ہے کہ ہر حدیث صحیح کو درج کر لیں۔ جن ہزارہا احادیث کو ترک کیا، انہیں باقی ائمہ کے لیے چھوڑا اور اُن ائمہ نے اپنی کتابوں میں درج کر دیا۔
اسی طرح امام بخاری کا رجحان بھی الی الشافعیہ ہے۔ آپ خود مجتہد بھی ہیں۔ لہذا انہوں نے احادیث صحیحہ کے انتخاب میں فقہ شافعی اور اپنے اجتہاد کو پیشِ نظر رکھا۔ اس بات کو صحیح بخاری سے ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں:
امام بخاریؓ آمین بالجہر کا مذہب رکھتے ہیں۔ یعنی جب امام غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ کہے تو پھر باآواز بلند آمین کہا جائے۔ صحیح بخاری میں اُنہوں نے باب جہر الامام بالتأمین قائم کیا ہے۔ محدث اور امام جب باب قائم کرتا ہے یا ترجمۃ الباب لاتا ہے تو اس باب کے الفاظ اُس امام کے مذہب کی عکاسی کرتے ہیں۔ صحیح بخاری کے ابواب (تراجم الابواب) احادیث نہیں ہیں بلکہ امام بخاری کا مذہب ہیں۔
عام علماء امام بخاری کے قائم کردہ ابواب کے عنوان سے مغالطہ کھاتے ہیں اور اسے بھی حدیث سمجھتے ہیں۔ یاد رکھ لیں ترجمۃ الباب حدیث نبوی نہیں ہوتا بلکہ ترجمۃ الباب عند الامام فقہ الحدیث ہوتا ہے۔ یہ اُس امام کا فقہی مذہب ہوتا ہے اور وہ اپنے مذہب، فقہ اور فہم کے مطابق باب کا عنوان قائم کرتا ہے جبکہ حدیثِ نبوی وہ متن ہوتا ہے جو ترجمۃ الباب کے نیچے بطورِ حدیث الباب سند کے ساتھ درج کیا جائے۔ سند لانے سے پہلے عنوان کے طور پر بیان کیے گئے ترجمۃ الباب سے استدلال نہیں کر سکتے، اُس سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن حدیث سے اختلاف نہیں کر سکتے۔
صحیح بخاری میں بآواز بلند آمین کہنے پر امام بخاری نے درج ذیل ابواب قائم کیے ہیں:
- باب جھر الامام بالتأمین (آمین کو امام بآوازِ بلند کہے)
- باب فضل التأمین (آمین کہنے کی فضیلت)
- باب جھر المأموم بالتامین (مقتدی بآوازِ بلند آمین کہے)
آمین سے متعلقہ مذکورہ تین ابواب سے ثابت ہوگیا کہ آمین کو بآوازِ بلند کہنا امام بخاری کا مذہب ہے۔ امام بخاری کا یہ مذہب اُن کے ترجمۃ الباب سے ثابت ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ ان ابواب کے ذیل میں آمین کو بآوازِ بلند کہنے پر امام بخاری ایک بھی حدیث نہیں لا سکے۔
میں آمین بآوازِ بلند کہنے کے طریق پر طعن و تنقید نہیں کر رہا بلکہ کسی حدیث کی کتاب میں مذکورہ ترجمۃ الباب اور حدیث الباب کا فرق سمجھا رہا ہوں کہ کہاں حدیثِ نبوی ہے اور کہاں امام کا اجتہاد ہے؟ کہاں نفس الحدیث ہے اور کہاں فقہ الحدیث ہے؟ امام بخاری نے الجہر بالتامین کا باب قائم کرکے اپنا مذہب بیان کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آمین بالجھر فرمایا کرتے تھے لیکن اپنے مذہب کے مطابق عنوان قائم کر کے بآوازِ بلند آمین کہنے پر امام بخاری ایک حدیث بھی نہیں لا سکے۔ ان ابواب کے تحت وہ کیا احادیث لائے ہیں؟ آیئے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
1۔ امام بخاری باب جہر الامام بالتأمین (امام بآوازِ بلند آمین کہے) کے تحت حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی یہ حدیث لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إذا أمّن الإمام فأمنوا فإنه من وافق تأمینه تأمین الملائکۃ غُفر له ما تقدم من ذنبه.
(بخاری، الصحیح، 1: 270، رقم: 747)
جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہا کرو، جس شخص کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے ساتھ مل گیا، اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
اس حدیث میں نہ بلند آواز سے کہنے کا ذکر ہے اور نہ آہستہ آواز سے کہنے کا ذکر ہے۔ حدیث نبوی کے متن میں الجھر بالتأمین یا السرُّ بالتأمین لفظ ہی نہیں ہے۔ کہ اُونچی آواز سے کہا کرو یا آہستہ کہا کرو۔ گویا الجھر بالتأمین کا باب قائم کیا ہے مگر حدیث میں الجھر بالتأمین کا لفظ نہیں آیا۔
2۔ امام بخاری باب جھر المأموم بالتأمین (مقتدی بھی بآوازِ بلند آمین کہے) کے تحت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی درج ذیل حدیث لائے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إذا قال الإمام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ} فقولوا آمین، فإنه من وافق قوله قول الملائکۃ غُفر له ما تقدم من ذنبه.
جب امام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ} پڑھے تو تم آمین کہا کرو، جس کی آمین ملائکہ سے مل گئی تو اُس کے سارے گناہ بخشے جائیں گے۔
(بخاری، الصحیح، 1: 271، رقم: 749)
الفاظ کے فرق کے ساتھ حدیث پہلے والی ہی ہے۔ اس موضوع پر امام بخاری کے پاس مختلف سند کے ساتھ ایک ہی حدیث ہے۔ پہلی سند ابن شہاب عن سعید بن مسیب عن أبی سلمہ بن عبد الرحمٰن عن أبی ہریرۃ سے اور دوسری سند عبد اللہ بن مسلمہ عن مالک عن ابی صالح السمان عن أبي ہریرۃ سے ہے۔ سندیں مختلف ہیں مگر حدیث کا مضمون ایک ہے۔ اس مضمون میں بھی اونچی آواز یا پست آواز کے لفظ نہیں ہے۔
3۔ امام بخاری باب فضل التأمین (آمین کہنے کی فضیلت) کے تحت بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور سند سے حدیث لائے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إذا قال أحدکم آمین وقالت الملائکۃ في السماء آمین فوافقت إحداھما الأخریٰ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ.
(بخاری، الصحیح، 1: 271، رقم: 748)
اگر تم آمین کہو تو آسمان پر فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی، اُس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
اب تینوں ابواب میں ایک ہی حدیث مختلف اسناد اور اختلاف الفاظ کے ساتھ بیان ہوئی ہیں، مضمون بنیادی طور پر تمام کا ایک ہے مگر کسی ایک حدیث میں بھی اونچی آواز میں آمین کہنے کاذکر نہیں ہے۔
میں نے حدیث پر اپنی کتاب المنہاج السوی میں فصل فی عدم الجھر بالتأمین (آمین کو بلند آواز سے نہ کہنا) کا باب قائم کیا ہے۔ یہ بھی ترجمۃ الباب ہے چونکہ میرا مذہب یہ ہے تو میں نے اپنے مذہب کے مطابق ترجمۃ الباب قائم کیا ہے اور اس پر احادیث بیان کی ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اصل میں صحیح بخاری کی یہ ساری احادیث آمین کہنے کی فضیلت میں تھیں، ان تینوں احادیث میں آمین کو جھراً کہنے کا بیان ہے اور نہ آمین کو سِرّاً (آہستہ) کہنے کا بیان ہے۔ امام بخاری کے پاس اپنی کتاب الجامع الصحیح کے لیے مقرر کردہ شرائط کے مطابق اگر ایک حدیث بھی ہوتی تو وہ اسے ان ابواب میں لے آتے مگر وہ ایک روایت بھی نہیں لا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری فرما رہے ہیں کہ میرے پاس صحیح بخاری کے لیے قائم کردہ شرائط صحت کے مطابق کوئی حدیث اس موضوع پر نہیں ہے۔ اس لیے وہ جتنی احادیث لائے ہیں، آمین کی فضیلت پر لائے ہیں۔
11۔ فقہی مذہب کے قیام کیلئے درکار احادیث کا معیار
اب سوال یہ ہے کہ جب ان کے پاس اس موضوع پر حدیث نہ تھی تو اس عنوان سے باب کیوں بنایا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چونکہ ان کا مذہب ہے لہذا وہ اپنے مذہب کو ثابت فرمانا چاہتے ہیں۔
پھر سوال پید اہوتا ہے کہ جب اس موضوع پر ان کے پاس حدیث نہ تھی تو پھر اسے اپنا مذہب کیسے بنایا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اُن کے پاس ایسی احادیث ہوں گی اور ہیں جو بخاری کی شرائطِ صحت پر پوری تو نہیں اُترتیں، غیر صحیح ہیں لیکن مذہب قائم کرنے کے لیے وہ احادیث کافی تھیں۔ بیشک وہ صحیح بخاری کی شرائط صحت پر پورا نہیں اُترتیں، دیگر شرائط پر پورا ہوں گی، لہذا اس پر انہوں نے اپنا مذہب قائم کر لیا۔
علمائے کرام، اساتذہ، معلمات اور طلباء و طالبات! اس موقع پر میں ایک تعلیق اور شرح کر رہا ہوں وہ سمجھ لیں کہ اگر امام بخاری اُن احادیث کی بنا پر جو اُن کے نزدیک صحیح بخاری کی شرائط پر پوری نہیں اُترتیں، اس پر اپنا مذہب قائم کر سکتے ہیں تو احناف اپنا مذہب دیگر احادیثِ صحیحہ کی بنیاد پر قائم کیوں نہیں کر سکتے۔ یعنی اگر ہم اپنے فقہی مذہب کے لیے کسی حدیث کا حوالہ دیں اور وہ حدیث صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نہ ہو تو کوئی اعتراض کرے کہ یہ صحیح بخاری میں نہیں ہے یا حدیث صحیح بخاری میں اس مؤقف کے برعکس ہے تو آپ اسے اپنا فقہی مذہب کیسے بنا سکتے ہیں؟ ہم کہیں گے کہ ہم نے یہ مذہب امام بخاری کے دادا شیخ امام ابو حنیفہؒ کی روایت سے لیا ہے۔ یہ اگرچہ مذہب بخاری کے معیار پر روایت نہیں، مگر اُسی طرح قائم ہے جیسے خود امام بخاری کے پاس بلند آواز سے آمین کہنے کی کوئی حدیث نہیں جسے وہ صحیح بخاری میں درج کر سکیں مگر پھر بھی مذہب قائم کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے مذہب قائم کرنے کے لیے یہ شرط نہیں کہ شروطِ صحت بخاری کی ہوں۔ یاد رکھیں کہ اس ضمن میں حدیث کی شروطِ صحت پوری ہونی چاہئیں خواہ صحیح بخاری کی ہوں یا غیر صحیح بخاری کی۔
- یاد رکھیں! معاشرے میں رائج سینہ گزٹ عام علم جو بغیر سند، بغیر تحقیق اور بغیر تنقیح کے ہوتا ہے، اُس کی وجہ سے لوگوں کے خیالات خراب ہوتے ہیں، تصورات بگڑتے ہیں، عقائد متاثر ہوتے ہیں، ناجائز جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔ ایسے علم کی حوصلہ شکنی اور سند و تحقیق کے ساتھ پختہ علم کا فروغ ناگزیر ہے۔ مذکورہ بحث اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ حدیثِ صحیح اور حدیث کی شروطِ صحت سے متعلق بہت سے موضوعات اور ابحاث جن سے حدیث کا صحیح ہونا ثابت ہوتا ہے، ان میں سے چند ایک نکات، مسائل اور مباحث جن کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور جن پر علماء کو اشکال رہتا ہے میں نے ایسی چند مباحث کو مکمل کیا ہے کیونکہ اس موضوع سے متعلق تمام ابحاث کا احاطہ ان مختصر نشستوں میں نہیں کیا جاسکتا۔
(جاری ہے)