گزشتہ اقساط کا خلاصہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًاO
(بنی اسرائیل، 17 : 79)
’’اور رات کے کچھ حصہ میں (بھی) قرآن کے ساتھ (شب خیزی کرتے ہوئے) نمازِ تہجد پڑھا کریں یہ خاص آپ کے لئے زیادہ (کی گئی) ہے یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)o‘‘۔ ۔ ۔ ۔ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔ علماء نے مقام محمود کے مختلف مفاہیم بیان کئے ہیں، ان میں سے زیادہ وسعت و بلاغت والا مفہوم یہ ہے کہ مقامِ محمود سے مراد وہ خاص مقام، منصب، درجہ، مرتبہ اور منزلت ہے جس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روزِ قیامت فائز کیا جائے گا۔ مقامِ محمود کی تمام روایات اور احادیث جو مقامِ محمود کو بیان کرتی ہیں انہیں جمع کیا جائے تو یہی معنی ان کی مراد کو سموتا ہے۔ امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ مقامِ محمود کا معنی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : ’’اے محبوب! آپ یہ عمل (نماز تہجد) ادا کیجئے جس کا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے تاکہ روزِ قیامت آپ کو اس مقام پر فائز کیا جائے جس پر تمام مخلوقات اور خود خالقِ کائنات بھی آپ کی حمد و ثناء بیان فرمائے گا‘‘۔ ۔ ۔ ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعتِ کبریٰ فرمائیں گے، ہر شخص عام و خاص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو پکار رہا ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ محمود پر فائز ہو کر اوّلین و آخرین کو فیضیاب فرما رہے ہوں گے۔ ۔ ۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے مقام محمود بارے چار اقوال بیان کئے ہیں، ان میں سے پہلا قول یہ ہے کہ ’’مقام شفاعت ہی مقام محمود ہے‘‘۔ اس معنی کو بیان کرتے ہوئے امام قرطبی نے شفاعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں :
- شفاعت عامہ
- حساب کے بغیر جنت میں داخلے کا اذن
- عذاب کے مستحق امتیوں کا جنت میں داخل ہونا
- دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل فرمانا
- جنت میں درجات کی بلندی کے لئے شفاعت۔
دوسرا قول : روزِ قیامت لواء حمد کا عطا کیا جانا
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ مقامِ محمود کی تفسیر میں دوسرا قول یہ بیان کرتے ہیں کہ روزِ قیامت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لواء حمد کا عطا کیا جانا مقامِ محمود ہے۔ لیکن وہ اپنی رائے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں اور پہلے والے قول میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوائے حمد اٹھائے شفاعت فرمائیں گے۔ جیسا کہ اس حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذکر فرمایا :
أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِیٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي...
(ترمذي، السنن، کتاب تفسیر القرآن عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ومن سورۃ بني اسرائیل، 5 : 308، رقم : 3148)
’’روزِ قیامت میں بنی نوعِ آدم کا سردار ہوں گا اور یہ فخریہ نہیں کہتا، روزِ قیامت لواءِ حمد میرے ہاتھ میں ہو گا اور یہ فخریہ نہیں کہتا اور روزِ قیامت حضرت آدم علیہ السلام سمیت تمام انبیاء کرام میرے جھنڈے تلے ہوں گے۔ ۔ ۔ (اس کے بعد حدیثِ شفاعت کا ذکر ہے۔ )‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خاص مقام اور رفعت و عظمت کا عطا کیا جانا کہ تمام انبیاء کرام علیھم السلام اور رسلِ عظام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے تلے ہوں گے، یہ مقامِ محمود ہے۔
تیسرا قول : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھانا
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مقامِ محمود کے بارے میں تیسرا قول اﷲ تعالیٰ کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھانے کا ہے۔ اﷲ تعالیٰ جب اپنی شان کے لائق عرش پر اپنی کرسی پر شانِ نزول فرمائے گا تو اپنے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی شانِ مخلوقیت کے مطابق کرسی پر بٹھائے گا۔ اس قول کو امام طبری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر مفسرین نے مختلف راویوں سے بیان کیا ہے جن میں حضرت مجاہد تابعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں جو فرماتے ہیں :
المقام المحمود هو أن يجلس اﷲ تعالٰی محمدا صلی الله عليه وآله وسلم معه علی کرسيّه.
’’مقام محمود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ اُن کے لئے مخصوص کرسی پر بٹھائے گا۔‘‘
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : پھر امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد اقوال سے اس قول کو ثابت کیا ہے اور وہ بیان کرتے ہیں کہ نقاش نے امام ابو داود سجستانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب السنن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جو اِس حدیث یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے کا انکار کرے وہ ہمارے نزدیک ’’متّھم‘‘ ہے۔
امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو امام طبری رحمۃ اللہ علیہ اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’فتح الباری بشرح صحیح البخاری (11 : 480)‘‘ میں اور امام بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’عمدۃ القاری في شرح صحیح البخاری (23 : 123)‘‘ میں روایت کیا ہے۔ بلکہ یہ تمام روایات بیان کرنے کے بعد وہ حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
إنّ محمدا يوم القيامة علی کرسيّ الربّ بين يدي الرّبّ تبارک وتعالٰی.
(2۔ عسقلاني، فتح الباري، 11 : 480)
’’بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزِ قیامت اﷲ رب العزت کے بالکل سامنے، باری تعالیٰ کی رکھوائی گئی کرسی پر تشریف فرما ہوں گے۔‘‘
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت حضرت عبد اﷲ بن سلام کے علاوہ حضرت عبد اﷲ بن عباس اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنھم سے بھی بیان کی ہے۔
پھر امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : اہلِ علم آج تک اس کو روایت کرتے آ رہے ہیں۔ جس نے اس کا تاویل کی بناء پر انکار کیا تو ان کے بارے میں حضرت ابو عمرو اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر کوئی امام قرآن مجید کی آیات کی تاویل کرے تو اہلِ علم کے ہاں اس کے دو متروک قول ہیں : ایک تو اس آیت مقام محمود کے بارے میں دوسرا اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌO إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌO وہ کہتے ہیں کہ لوگ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب کا انتظار کریں گے نہ کہ اس کی نظر کا۔
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ تمام تاویلات ابن شہاب سے حدیثِ تنزیل کی بحث میں ذکر کی گئی ہیں اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے اس آیت کے تحت یہ قول بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ یہ تاویل ناممکن نہیں ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ عرش اور دیگر تمام اشیاء کی تخلیق سے بھی پہلے بذاتِ خود قائم تھا۔ پھر اُس نے تمام اشیاء کو پیدا کیا لیکن اس میں اس کی ذاتی کوئی حاجت شامل نہ تھی بلکہ یہ اپنی قدرت و حکمت کے اظہار کے لئے کیا تاکہ اس کے وجود، توحید اور کمالِ قدرت کو پہچانا جا سکے اور اس کے تمام پُر حکمت افعال کو جانا جا سکے۔ پھر اپنے لئے اُس نے عرش تخلیق کیا اور اُس پر وہ متمکن ہوا جیسا کہ اس نے چاہا لیکن اس مقصد کے بغیر وہ اُس کے ساتھ ہی خاص ہو جائے یا عرش اُس کی جائے قرار بن جائے۔ کہا گیا کہ وہ آج بھی اپنی انہیں صفات کے ساتھ قائم ہے جن کے ساتھ وہ مکان و زمان کی تخلیق سے پہلے تھا۔ پس اس بناء پر یہ بات برابر ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش پر تشریف فرما ہوں یا کہ فرش پر، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا عرش پر استواء فرمانا عرش پر قیام و قعود، اس پر آنے جانے اور اُس سے نیچے اُترنے اور وہ تمام معاملات جو عرش کو مشغول رکھیں ان سے عبارت نہیں ہے، بلکہ اﷲ رب العزت تو عرش پر حالتِ استواء میں ہے جیسا کہ اُس نے اپنے بارے میں خبر دی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے صفتِ ربوبیت ثابت کرنے کے لئے نہیں ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صفتِ عبدیت سے نکالنے کے لئے ہے بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و تکریم کو دیگر مخلوق سے بلند تر کرنے کے لئے ہے۔ رہا حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا "معه" فرمانا کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ بٹھائے گا تو وہ اﷲ تعالیٰ کے ان فرامین کے بمعنی ہے : إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ (الاعراف، 7 : 206)، (بیشک جو (ملائکہ مقربین) تمہارے رب کے حضور میں ہیں) رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (التحریم، 66 : 11)، (اے میرے رب! تو میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنادے۔ ) وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ. (العنکبوت، 29 : 69)، (اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے) اسی طرح کی دیگر تمام آیات، رتبہ، قدر و منزلت کی بلندی اور اعلیٰ درجات کی طرف اشارہ کرتی ہیں نہ کہ کسی مخصوص مقام کی طرف۔
چوتھا قول : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمتیوں کو دوزخ سے نکالنا
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مقامِ محمود کے بارے میں چوتھا قول یہ ہے : ’’اس سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی شفاعت کے ذریعے دوزخ سے اپنی اُمت کے گناہگاروں کو نکالنا ہے۔ اس بارے میں حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس کا ذکر امام مسلم نے اپنی صحیح میں بھی کیا ہے‘‘۔
(قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 5 : 309۔ 312)
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ (471۔ 544ھ)
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ چھٹی صدی ہجری کے عظیم محقق اور محدث تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 669۔ 677‘‘ میں مقامِ محمود کے دس معانی و اطلاقات بیان کیے ہیں۔ جو خلاصۃً ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں۔
مقامِ محمود، مقامِ شفاعت کبریٰ ہے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور مفسرین کرام کی تصریحات اس حقیقت پر شاہد عادل ہیں۔
1. عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اﷲُ عَنْهُمَا يَقُولُ : إِنَّ النَّاسَ يَصِيرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا کُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَهَا يَقُولُونَ : يَا فُلَانُ اشْفَعْ يَا فُلَانُ اشْفَعْ حَتَّی تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَذَلِکَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اﷲُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ.
(بخاري، الصحیح، کتاب التفسیر، باب سورہ بنی اسرائیل، 4 : 1748، رقم : 4441)
حافظ المنذری رحمۃ اللہ علیہ (656ھ) نے ’’الترغیب والترھیب (4 : 435)‘‘ میں اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ (310ھ) نے ’’جامع البیان في تفسیر القرآن (15 : 97)‘‘ میں اس حدیث کو حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
’’آدم بن علی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز لوگ گروہ در گروہ اپنے اپنے نبی کے پیچھے پیچھے چلیں گے اور عرض کریں گے کہ اے نبی! ہماری شفاعت فرمائیے۔ اے نبی! ہماری شفاعت فرمائیے۔ حتی کہ طلب شفاعت کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آکر ختم ہو جائے گا اور یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘
2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي قَوْلِهِ (عَسَی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا) سُئِلَ عَنْهَا قَالَ : هِيَ الشَّفَاعَةُ.
(ترمذي، السنن، کتاب تفسیر القرآن عن رسول اﷲ، باب ومن سورۃ بني اسرائیل، 5 : 303، رقم : 3137)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اﷲ رب العزت کے اس فرمان : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سے مراد شفاعت ہے۔‘‘
3۔ ایک حدیث میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ روایت کیے ہیں :
هو المقام الّذي أشفع لأمّتي فيه.
(احمد بن حنبل، المسند، 2 : 441، رقم : 10851)
’’یہ وہ مقام ہو گا جس پر میں اپنی اُمت کی شفاعت کروں گا۔‘‘
4۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنھما نے حدیثِ شفاعت کو روایت کرتے ہوئے یہ الفاظ بیان فرمائے :
ثم محمد صلی الله عليه وآله وسلم فيشفع فيقضی بين الخلق فيمشي حتّی يأخذ بحلقة الجنّة فيومئذ يبعثه اﷲ مقاما محمودا يحمده أهل الجمع کلّهم.
(طبراني، المعجم الاوسط، 8 : 311، رقم : 8725)
’’پھر لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعت فرمائیں گے۔ پس لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلیں گے اور بڑھ کر جنت کے دروازے کو پکڑ لیں گے۔ اس روز اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔ اس روز تمام اہلِ محشر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف بیان کریں گے۔‘‘
5. عن أبي هريرة أنّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : المقام المحمود الشفاعة.
(احمد بن حنبل، المسند، 2 : 444، 478)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مقام محمود‘‘ مقامِ شفاعت ہے۔‘‘
6۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إذا کان يوم القيامة مد اﷲ الأرض مد الأديم حتّی لا يکون لبشر من النّاس إلّا موضع قدميه فأکون أوّل من يدعی وجبريل عن يمين الرحمٰن تبارک وتعالی واﷲ ما رآه قبلها فأقول : أي رب! إن هذا أخبرني أنّک أرسلته إلي فيقول اﷲ ل : صدق ثم اشفع فأقول : يا رب! عبادک عبدوک في أطراف الأرض وهو المقام المحمود.
(ھندي، کنز العمال، 14 : 407، رقم : 39094)
’’جب قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سطح زمین کو اتنا کم کر دے گا کہ آدمی کے لئے فقط اپنے پاؤں رکھنے کے لئے جگہ باقی رہے گی۔ سو میں پہلا آدمی ہونگا جس کو بلایا جائے گا اور جبرئیل امین اللہ کے دائیں طرف ہونگے۔ اللہ کی قسم میں نے جبریل کو ایسی حالت میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ پس میں کہوں گا اے میرے رب! یہ ہے وہ جس نے مجھے خبر دی کہ تو نے اس کو میری طرف بھیجا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اس نے سچ کہا۔ پھر میں شفاعت کروں گا عرض کروں گا : اے میرے رب! تیرے بندے زمین کی ہر جگہ تیری عبادت کرتے تھے اور وہ مقام (جہاں کھڑا ہوکر میں شفاعت کرونگا) مقام محمود ہو گا۔‘‘
7۔ حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضي اﷲ عنہما فرماتے ہیں :
أن يقيمک ربّک مقاما محمودا مقام الشفاعة محمودا يحمدک الأولون والآخرون.
(ابن عباس، تنویر المقباس من تفسیر بن عباس : 240)
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب کا آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرنا مقام شفاعت ہے جس جگہ اولین و آخرین آپ کے لئے محوِ ثناء ہوں گے۔‘‘
8۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (م 911ھ) فرماتے ہیں :
يحمدک فيه الأولون والآخرون وهو مقام الشفاعة. (سيوطی، جلالين : 290)
’’مقام محمود وہ مقام ہے جس جگہ اولین و آخرین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد کریں گے اور وہ مقام شفاعت ہو گا۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شفاعت سے پہلے سبز پوشاک کا پہنایا جانا
شفاعت سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سبز پوشاک کا پہنایا جانا مقامِ محمود ہو گا۔
1. عن أبي هريرة، قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : أنا أوّل من تنشق عنه الأرض فأکسی الحلّة من حلل الجنّة، ثم أقوم عن يمين العرش ليس أحد من الخلائق، يقوم ذلک المقام غيري.
(ترمذي، السنن، کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب في فضل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 5 : 585، رقم : 3611)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس پر سب سے پہلے زمین شق ہو گی بس مجھے جنت کے لباس میں سے ایک حلہ پہنایا جائے گا۔ اس کے بعد میں عرش کے دائیں جانب اعلیٰ مقام پر کھڑا ہوں گا جہاں میرے سوا مخلوق میں سے کوئی دوسرا کھڑا نہیں ہو گا۔‘‘
2. عن کعب بن مالک أنّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : يبعث النّاس يوم القيامة فأکون أنا وأمّتي علی تلّ فيکسوني ربّي حلّة خضراء فأقول ماشاء اﷲ أن أقول فذلک المقام المحمود.
(ابن حبان، الصحیح، 14 : 399، رقم : 6479)
’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اور میرے اُمتی روزِ قیامت ایک ٹیلے پر جمع ہوں گے پس میرا پروردگار مجھے سبز رنگ کا لباسِ فاخرہ پہنائے گا اس مقام پر میں اللہ رب العزت کی منشاء کے مطابق حمد و ثناء کروں گا اور یہی مقام محمود ہے۔‘‘
عرش کے دائیں طرف قیام
روزِ محشر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش کے دائیں جانب قیام فرما ہوں گے یہ مقام صرف آپ کو عطا کیا جائے گا اسی مقام کا نام مقامِ محمود ہو گا۔
عن ابن مسعود : أنّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : ’’وأنّي لأقوم المقام المحمود يوم القيامة‘‘ فقال رجل من الأنصار : يا رسول اﷲ! وما ذاک المقام المحمود؟ قال : ذاک إذا جئی بکم عراة، حفاة، غرلا، فيکون أوّل من يکسی إبراهيم عليه السلام، يقول اﷲ سبحانه : البسوا خليلی، فيؤتی بريطتين بيضاوين فيلبسهما ثم يقعد فيستقبل العرش، ثم أوتی بکسوتی، فالبسهما، فأقوم عن يمينه مقاما لا يقومه أحد غيری، يغبطنی به الأولون والآخرون.
( احمد بن حنبل، المسند، 1 : 398، رقم : 3787 )
’’حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں روزِ قیامت مقامِ محمود پر کھڑا ہوں گا۔ پس انصار میں سے ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مقامِ محمود سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس دن تمہیں ننگے اور غیر مختون اکٹھا کیا جائے گا پس اس دن سب سے پہلے جس کو لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرمائے گا : میرے خلیل کو لباس پہناؤ۔ پس دو سفید ملائم کپڑوں کو لایا جائے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں پہنیں گے۔ پھر آپ عرش کی جانب رخ کرکے تشریف فرما ہوں گے۔ ان کے بعد مجھے لباسِ فاخرہ دیا جائے گا میں اسے پہنوں گا۔ میں عرش کے دائیں جانب ایسے مقامِ رفیع پر کھڑا ہوں گا جہاں میرے سوا کوئی اور نہیں ہو گا، مجھ پر اولین و آخرین رشک کریں گے۔‘‘
اﷲ رب العزت کا اپنی کرسی پر نزول اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خصوصی قیام
روزِ قیامت اﷲ رب العزت اپنی شان کے لائق اپنی کرسی پر نزول فرمائے گا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا :
عن ابن مسعود قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إنّي لقائم يومئذ المقام المحمود قال : فقال المنافق للشاب الأنصاري : سله وما المقام المحمود؟ قال : يا رسول اﷲ! ما المقام المحمود؟ قال : يومٌ ينَزِلُ اﷲُ تبارک وتعالی فيه علی کُرْسيّه. . .
(حاکم، المستدرک، 2 : 396، رقم : 3385)
’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : روزِ قیامت میں مقام محمود پر کھڑا ہوں گا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک منافق نے ایک جوان انصاری صحابی سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھے : مقام محمود کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! مقام محمود کیا ہے؟ فرمایا : اس دن اﷲ تعالیٰ اپنی کرسی پر (اپنی شان کے مطابق) نزول فرمائے گا۔ ۔ ۔‘‘
نداء خصوصی اور کلماتِ حمد کا عطا کیا جانا
روزِ قیامت اﷲ تعالیٰ سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آواز دے گا۔ یوں قیامت کے دن کی کارروائی کا آغاز ندائے ’’یا محمد‘‘ سے ہو گا۔ جس طرح ہم جلسہ کی کارروائی کا آغاز تلاوت سے کرتے ہیں۔ قیامت کی کارروائی کا آغاز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم پاک سے ہو گا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خصوصی کلماتِ حمد عطا فرمائے گا جو اس سے قبل کسی اور نبی کو عطا نہیں کیے گئے ہوں گے۔ روزِ قیامت جس مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر یہ کلمات ادا فرمائیں گے اُس کو مقامِ محمود کہا جائے گا :
وقال حذيفة : يجمع اﷲ النّاس في صعيد واحد حيث يسمعهم الداعي، وينفذهم البصر، حفاة کما خلقوا، سکوتا لا تکلم نفس إلّا بإذنه، فينادي محمد فيقول : لبيک وسعديک، والخير في يديک، ولک وإليک، لا ملجأ ولا منجی منک إلّا إليک، تبارکت وتعاليت، سبحان رب البيت، قال : فذلک المقام المحمود الّذي ذکر اﷲ.
( حاکم، المستدرک، 2 : 395، رقم : 3384)
’’حضرت حدیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ روزِ آخرت لوگوں کو ایک ہموار میدان میں اکٹھا فرمائے گا۔ جہاں پکارنے والے کی آواز کو سب سن سکیں گے اور سب نظر آتے ہوں گے۔ لوگ اسی طرح ننگے ہوں گے جس طرح پیدا ہوئے تھے اور سب خاموش ہوں گے اذنِ الٰہی کے بغیر کسی کو بولنے کی جرات نہیں ہوگی۔ (اللہ رب العزت) آواز دے گا : محمد! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرض کریں گے : اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔ ساری بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے، بھلائی تیرے لئے اور تیری طرف ہے۔ تیرا بندہ تیری بارگاہ میں حاضر ہے۔ میں تیرے ہی لئے ہوں اور میری دوڑ تیری ہی جانب ہے۔ تیری بارگاہ کے سوا کوئی پناہ گا ہ اور جائے نجات نہیں۔ تیری ذات بابرکات، بلند اور پاک ہے۔ اے بیت اللہ کے رب! حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (جس جگہ کھڑے ہو کر آپ یہ حمد بیان کریں گے) وہی مقام محمود ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے۔‘‘
دوزخ سے اہلِ ایمان کے آخری گروہ کو نکالنا
حضور شافعِ محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزِ قیامت اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دوزخ سے اہلِ ایمان کے آخری گروہ کو بھی نہ نکال لیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس منصبِ شفاعت کو مقامِ محمود قرار دیا گیا ہے۔
’’یزید فقیر کہتے ہیں : مجھے خوارج کی رائے نے گھیر لیا تھا (کہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہمیشہ جہنم میں رہیں گے)۔ پس ہم لوگوں کی ایک کثیر جماعت کے ساتھ حج کرنے کے لئے نکلیں (اور سوچا کہ بعد میں) ہم لوگوں کے پاس (اپنے اس عقیدہ کوبیان کرنے کے لئے) جائیں گے۔ فرماتے ہیں : ہمارا گزر مدینہ منورہ سے ہوا تو دیکھا کہ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما ایک ستون کے پاس بیٹھے لوگوں کو احادیث بیان فرما رہے ہیں۔ فرماتے ہیں : اچانک انہوں نے جہنمیوں کا ذکر فرمایا تو میں نے ان سے عرض کیا : اے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ یہ کیا بیان کرتے ہیں؟ اﷲ تعالیٰ تو (جہنمیوں کے بارے) فرماتا ہے : (بے شک تو جسے دوزخ میں ڈال دے تو تُو نے اسے واقعۃً رسوا کردیا) [آل عمران، 3 : 192] اور ایک مقام پر ہے (جب بھی اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں دھکیل دیئے جائیں گے) [السجدۃ، 32 : 20] آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا : تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا : ہاں! فرمایا : کیا تم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ مقام پڑھا ہے جس پر اﷲ تعالیٰ انہیں فائز فرمائے گا؟ میں نے کہا : ہاں! فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام ایسا مقام محمود ہے جس پر فائز ہونے کے سبب اﷲ تعالیٰ جس کو چاہے گا جہنم سے نکالے گا۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے دوزخ سے نکالے جانے والے آخری گروہ کے بارے میں حدیثِ شفاعت کا ذکر کیا۔
(مسلم، الصحیح، کتاب الایمان، باب ادنی اھل الجنۃ منزلۃ فیھا، 1 : 179، رقم : 191)
ایک اور روایت میں ہے :
عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما : إذا دخل أهل النّار النّار وأهل الجنّة الجنّة، فتبقی آخر زمرة من الجنّة وآخر زمرة من النّار، فتقول زمرة النّار لزمرة الجنّة : ما نفعکم إيمانکم، فيدعون ربّهم ويضجّون فيسمعهم أهل الجنّة، فيسألون آدم وغيره بعده في الشّفاعة لهم، فکلّ يعتذر حتّی يأتوا محمدا صلی الله عليه وآله وسلم، فيشفع لهم، فذلک المقام المحمود.
(قاضي عیاض، الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی : 272)
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضي اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ جب اہلِ دوزخ اور اہلِ جنت دوزخ اور جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے تو دوزخ میں صرف دو گروہ رہ جائیں گے۔ ایک گروہ وہ ہو گا جس کو بعد ازاں جنت میں داخل کیا جائے اور دوسرا گروہ اُن دوزخیوں کا ہو گا جو دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ پس دوزخیوں کا گروہ جنتیوں سے کہے گا : تمہارے ایمان نے تمہیں کیا فائدہ دیا؟ یہ سن کر مسلمانوں کا گروہ اپنے رب کو پکارے گا اور فریاد کرے گا جس کو اہلِ جنت سنیں گے اور وہ حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام سے اُن کی شفاعت کی سفارش کریں گے لیکن تمام انبیاء کرام اس سے معذوری کا اظہار کریں گے یہاں تک کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں گے۔ یہی مقامِ محمود ہو گا۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی شفاعت سے دوزخ سے ان لوگوں کو بھی نکال لیں گے جنہوں نے صرف ایک بار صدقِ دل کے ساتھ زندگی میں کلمہ پڑھا ہو گا۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں پل صراط پر اپنی اُمت کا پل عبور کرتے ہوئے انتظار کروں گا کہ اس اثناء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ اے محمد! یہ انبیاء آپ کے پاس التجا لے کر آئے ہیں یا تیرے پاس اکھٹے ہیں (راوی کو الفاظ میں شک ہے)، اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ تمام گروہوں کو وہ اپنی منشاء کے مطابق الگ کر دے تاکہ انہیں پریشانی سے نجات مل جائے۔ اس دن لوگ اپنے پسینوں میں ڈوبے ہوں گے مومن پر اس کا اثر ایسے ہو گا جیسے زکام میں (ہلکا پُھلکا پسینہ) اور جو کافر ہو گا اسے موت نے آ لیا ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پس میں کہوں گا : اے عیسیٰ! ذرا ٹھہرئیے جب تک کہ میں تیرے پاس لوٹوں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جائیں گے یہاں تک کہ عرش کے نیچے کھڑے ہوں گے۔ پس آپ کو وہ شرفِ باریابی حاصل ہو گا جو کسی برگزیدہ نبی کو حاصل ہوا نہ کسی نبی مرسل کو۔ پھر اللہ تعالیٰ حضرت جبریل علیہ السلام کو وحی فرمائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر کہو سرِ انور اٹھائیے۔ مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس میں اپنی اُمت کی شفاعت کروں گا۔ ہر ننانوے لوگوں میں سے ایک کو نکالتا جاؤں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں بار بار اپنے رب کے حضور جاؤں گا اور جب بھی اس کے حضور کھڑا ہونگا، شفاعت کروں گا۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ مجھے شفاعت کا مکمل اختیار عطا فرمائے گا اور فرمائے گا : اے محمد! اللہ کی مخلوق، اپنی اُمت میں سے ہر اس شخص کو جنت میں داخل کر دے جس نے ایک دن بھی اخلاص کے ساتھ یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور اسی پر اس کی موت آئی ہو۔‘‘
(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 178، رقم : 12847)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمیع اُمم کے لئے شفاعتِ عظمیٰ کا اختیار
روزِ قیامت تمام انبیاء کرام علیھم السلام اپنی اُمتوں سمیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : آپ اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کریں کہ حساب جلد شروع کیا جائے تاکہ حشر کی سختیوں سے نجات مل سکے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہو کر حساب جلد شروع کرنے کی درخواست کریں گے جس کو اﷲ تعالیٰ شرفِ قبولیت بخشے گا اور حساب و کتاب کا مرحلہ شروع ہو گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اختیارِ شفاعت، مقامِ محمود ہو گا۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن ایمان والوں کو روک لیا جائے گا تو وہ اس سے غمگین ہو کر آپس میں کہیں گے : ہمیں اپنے پرورد گار کے ہاں کوئی سفارشی چاہئے جو ہمیں اس سے راحت فراہم کرے۔ پس وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے : آپ ہمارے باپ ہیں، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ قدرت سے تخلیق فرمایا اور آپ کے لئے ملائکہ کو سجدہ کرایا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھلا دیئے تو آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں۔ وہ فرمائیں گے : میں اس منصب پر فائز نہیں اور اپنے درخت سے کھانے کا ذکر فرمائیں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا، لیکن تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ پہلے نبی ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے اہلِ زمین کی طرف مبعوث فرمایا۔ پس وہ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس منصب پر فائز نہیں اور بغیر علم کے اﷲ تعالیٰ سے طلب کرنے کی خطا کا ذکر کریں گے، بلکہ تم اللہ رحمان کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پس وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس منصب پر فائز نہیں اور اپنے (بظاہر نظر آنے والے) تین جھوٹوں کی خطا کا ذکر کریں گے۔ ان کا یہ کہنا (بے شک میں بیمار ہونے والا ہوںO) [القرآن، الصافات، 37 : 89] اور ان کا قول (بلکہ یہ (کام) ان کے اس بڑے (بت) نے کیا ہوگا) [القرآن، ا لانبیاء، 21 : 63] اور جب وہ بمع اہلیہ ظالم صاحبِ ثروت (حکمران) کے پاس آئے تو اہلیہ سے فرمایا : تم اسے کہنا کہ بے شک میں تمہارا بھائی ہوں اور میں اسے بتاؤں گا کہ تو میری بہن ہے۔ (اس سبب کی وجہ سے وہ لوگوں سے فرمائیں گے) لیکن تم اس کے بندہ موسی علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اﷲ تعالیٰ نے کلام کیا ہے اور ان کو تورات عطا کی ہے۔ پس وہ حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس پر فائز نہیں اور شخص کے قتل کرنے کی اپنی خطا کا ذکر کریں گے، لیکن تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اﷲ تعالیٰ کے بندہ، اس کے رسول، اﷲ کے کلمہ اور اس کی روح ہے۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے تو وہ فرمائیں گے : میں اس منصب پر نہیں، لیکن تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ جو اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جن کو پہلے اور بعد کے (ظاہری) ذنب کی مغفرت سنا دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ میرے پاس آئیں گے تو میں اپنے رب کی بارگاہ سے اجازت چاہوں گا تو مجھے اذن دیا جائے گا۔ پس اس کو دیکھتے ہی میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اﷲ تعالیٰ جب تک چاہے مجھے اسی حالت پر رکھے گا پھر فرمائے گا : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنا سر اٹھائیے، کہیے آپ کو سنا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا۔ فرماتے ہیں : میں اپنا سر اٹھا کر اﷲ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے کلمات سے حمد و ثنا کروں گا۔ پھر میں سفارش کروں گا تو وہ میرے لئے حد مقرر فرمائے گا لہٰذا میں انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ میں اسے کہتے ہوئے سن کر انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ پھر دوسری بار میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اذن دیا جائے گا۔ پس اس کو دیکھتے ہی میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اﷲ تعالیٰ جب تک چاہے مجھے اس حال پر رکھے گا پھر فرمائے گا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنا سر اٹھائیے ! کہیے آپ کو سنا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا۔ فرماتے ہیں : میں اپنا سر اٹھا کر اپنے رب کی ان کلمات سے حمد وثنا کروں گا جو وہ مجھے سکھلائے گا۔ پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے حد مقرر فرمائے گا پس میں انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ ھمام کہتے ہیں : میں نے اسے فرماتے ہوئے سن کر انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ پھر تیسری بار میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا۔ پس اس کو دیکھتے ہی میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اﷲ تعالیٰ جب تک چاہے مجھے اس حال پر رکھے گا پھر فرمائے گا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر اٹھائیے ! کہیے آپ کو سنا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا۔ فرماتے ہیں : میں اپنا سر اٹھا کر اپنے رب کی ان کلمات سے حمد وثنا کروں گا جو وہ مجھے سکھلائے گا۔ پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے حد مقرر فرمائے گا پس میں انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ ھمام کہتے ہیں : میں نے ان (یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ) کو کہتے ہوئے سنا (کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) : میں انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا، جہنم میں صرف وہ رہ جائے گا جسے قرآن نے روکا ہے یعنی جس نے ہمیشہ رہنا ہے۔ پھر حضرت قتادہ نے آیت مبارکہ تلاوت کی : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاO) [بنی اسرائیل، 17 : 79] فرمایا : یہی وہ مقامِ محمود ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ کیا ہے۔‘‘
(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 244، رقم : 13562)
اﷲ تعالیٰ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار بھرا سوال
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
للانبياء منابر من ذهب فيجلسون عليها ويبقی منبری لا أجلس عليه أو لا أقعد عليه قائما بين يدی ربي مخافة أن يبعث بی إلی الجنّة ويبقی أمّتی من بعدی، فأقول : يا ربّ أمّتي أمّتي فيقول اﷲ عزوجل : يا محمد، ما تريد أن أصنع بأمّتک؟ فأقول : يا رب عجّل حسابهم، فيدعی بهم فيحاسبون، فمنهم من يدخل الجنّة برحمة اﷲ، ومنهم من يدخل الجنّة بشفاعتی، فما أزال اشفع حتّی اُعطي صکاکاً برجال قد بعث بهم إلی النّار، وأتي ملکا خازن النّار فيقول : يا محمد ما ترکت للنّار لغضب ربّک في أمّتک من بقية.
(حاکم، المستدرک، 1 : 135، رقم : 220)
(طبرانی، المعجم الاوسط، : 2083، رقم : 2937)
’’(محشر کے دن) تمام انبیاء کے لئے سونے کے منبر (لگے ) ہوں گے، وہ ان پر جلوہ افروز ہوں گے جبکہ میرا منبر (خالی ) رہے گا، میں اس پر نہیں بیٹھوں گا بلکہ اپنے پروردگار کی بارگاہِ اقدس میں کھڑا رہوں گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے جنت میں بھیج دیا جائے اور میرے بعد میری اُمت (بے یار و مددگار) رہ جائے۔ چنانچہ میں بارگاہِ خداوندی میں عرض پرداز ہوں گا : میری اُمت! میری اُمت! اللہ گ دریافت فرمائے گا : اے (پیارے ) محمد! آپ کی مرضی کیا ہے؟ آپ کی اُمت کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟ میں عرض کروں گا : اے میرے پروردگار! ان (میری اُمت) کا حساب جلد فرما دے۔ پس انہیں بلایا جائے گا، ان کا حساب ہو گا ان میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے اور کچھ میری شفاعت سے، یہاں تک کہ میں (اپنی امت کے) ان افراد (کی رہائی) کا پروانہ بھی حاصل کر لوں گا جنہیں دوزخ میں بھیجا جا چکا ہو گا۔ اور جہنم کا داروغہ عرض کرے گا : یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم)! آپ نے اپنی اُمت میں سے کوئی بھی جہنم میں باقی نہیں رہنے دیا کہ جس پر آپ کا رب ناراض ہو۔‘‘
اﷲتعالیٰ کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال
روزِ قیامت جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعت کے لئے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لئے چلیں گے تو باری تعالیٰ خود بڑھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال فرمائے گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس شان سے نوازا جانا مقامِ محمود ہو گا :
عن أنس بن مالک قال : سمعت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقول : إنّي لأوّل النّاس تنشق الأرض عن جمجمتي يوم القيامة ولا فخر وأعطی لواء الحمد ولا فخر وأنا سيّد النّاس يوم القيامة ولا فخر وأنا أوّل من يدخل الجنّة يوم القيامة ولا فخر وأتی باب الجنّة فآخذ بحلقتها فيقولون : من هذا؟ فأقول أنا محمد فيفتحون لي فأدخل فأجد الجبّار مستقبلي فأسجد له فيقول : أرفع رأسک يا محمد وتکلّم يسمع منک وقل يقبل منک واشفع تشفع...
(دارمي، السنن، المقدمۃ، باب ما اعطي النبي من الفضل، 1 : 41، رقم : 52)
(احمد بن حنبل، المسند، : 1443، رقم : 12491)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس کے سر کے اُوپر سے روزِ قیامت زمین کو ہٹایا جائے گا اور میں یہ بطورِ فخر نہیں کہہ رہا، روزِ قیامت میں لواءِ حمد کا اٹھانے والا ہوں اور یہ فخریہ نہیں کہتا اور میں روزِ قیامت تمام لوگوں کا سردار ہوں گا اور یہ فخریہ نہیں کہتا اور روزِ قیامت میں ہی جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گا اور یہ فخریہ نہیں کہتا، میں جنت کے دروازے پر آؤں گا تو مجھ سے پوچھا جائے گا : کون؟ میں جواب دوں گا : میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہوں۔ پس میرے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ میں جنت میں داخل ہوں گا تو اپنے جبار رب کو اپنے استقبال کے لئے موجود پاؤں گا۔ میں اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ اﷲ رب العزت فرمائے گا : اے محمد! اپنا سرِ انور اٹھائیے اور کلام کیجئے آپ کی بات سنی جائے گی، کہیے آپ کا کہا قبول کیا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ ۔ ۔‘‘
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ (م 544ھ) نے اپنی کتاب ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی : 277‘‘میں اس حدیث کو ان الفاظ سے روایت کیا ہے اور یہی الفاظ امام مروزی رحمۃ اللہ علیہ (م 294ھ) نے اپنی کتاب ’’تعظیم قدر الصلاۃ : 278‘‘ میں روایت کیے ہیں :
أنا أوّل من تنفلق الأرض عن جمجمته ولا فخر، وأنا سيّد النّاس يوم القيامة ولا فخر، ومعي لواء الحمد يوم القيامة، وأنا أوّل من تفتح له الجنّة ولا فخر، فآتي فآخذ بحلقة الجنّة، فيقال : من هذا؟ فأقول : محمد، فيفتح لي، فيستقبلني الجبّار تعالیٰ، فأخرّ له ساجداً...
(مروزي، تعظیم قدر الصلاۃ : 278)
(قاضي عیاض، الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی : 277)
’’میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس کے سر کے اُوپر سے زمین کو ہٹایا جائے گا اور میں یہ بطورِ فخر نہیں کہہ رہا، میں روزِ قیامت تمام لوگوں کا سردار ہوں گا اور یہ فخریہ نہیں کہتا، روزِ قیامت لواءِ حمد میرے ہاتھ میں ہو گا، میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جس کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا اور یہ فخریہ نہیں کہتا، میں جنت کے دروازے پر آؤں گا اور اسے پکڑ لوں گا۔ مجھ سے پوچھا جائے گا : کون؟ میں جواب دوں گا : میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہوں۔ میرے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ پس اﷲ تعالیٰ الجبار میرا استقبال فرمائے گا۔ میں اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ ۔ ۔‘‘
امام ابو یعلی نے اس روایت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
عن أنس قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : أقرع باب الجنّة فيفتح باب من ذهب وحلقة من فضة فيستقبلني النّور الأکبر فأخرّ ساجدا فألقي من الثناء علی اﷲ ما لم يلق أحد قبلي فيقال لي : ارفع رأسک سل تعطه وقل يسمع واشفع تشفع...
(ابو یعلی، المسند، 7 : 158، رقم : 4130)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جنت کے دروازہ پر دستک دوں گا۔ جنت کا دروازہ کھولا جائے گا جو کہ سونے کا ہو گا اور اس کی زنجیر چاندی کی ہو گی۔ پس نورِ اکبر (اﷲ رب العزت) بڑھ کر میرا استقبال فرمائے گا، میں فوراً سجدہ ریز ہو جاوں گا۔ پس میں اﷲتعالیٰ کی حمد و ثناء کے وہ کلمات ادا کروں گا جو اس سے پہلے کسی نے ادا نہیں کیے ہوں گے۔ مجھ سے کہا جائے گا : اے حبیب! اپنا سرِ انور اٹھائیے، مانگیے عطا کیا جائے گا، کہیے سنا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ ۔ ۔‘‘(جاری ہے)