اسلام کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کرنے، اس کی عالمی خدمات کو جھٹلانے اور اس کے کردار کو دھندلا کرنے کے لئے ہر زمانے میں اس کے اوپر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ کبھی دہشت گردی کا تانا بانا اس کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی اور کبھی اسے جدت کا مخالف ظاہر کیا گیا حالانکہ صورت حال اس کے برعکس ہے۔ آج کل اسلام کو گلوبلائزیشن (Globalization) کا مخالف، محدود اور قدیم خیالات کا مظہر اور دیگر اقوام سے کٹا ہوا مذہب ثابت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ زیرِ نظر مضمون (Islam and Globalization) ترکی سے شائع ہونے والے میگزین (The Fountain) میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں اسلام اور گلوبلائزیشن کے حوالے سے اٹھنے والے اعتراضات اور گلوبلائزیشن اور ویسٹرنائزیشن کے مفہوم کو واضح کیا گیا ہے۔
یہ تحریر نئے عالمی تناظر میں حالات کا ایک تجزیہ ہے۔ اس تجزیے سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے صفحات ایسے حضرات کی سنجیدہ تحریروں کیلئے حاضر ہیں جو ملکی اور بین الاقوامی حالات کا حقیقت پسندانہ اور موثر جائزہ لینے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اس مضمون کی تلخیص موجودہ حالات کے تناظر میں نذرِ قارئین ہے۔
آج کل اسلام اور گلوبلائزیشن کے عنوان سے تلخی سے بھرپور بحث عالمی دلچسپی کا موضوع ہے۔ اس بحث کا سبب یہ تصور ہے کہ اسلام، گلوبلائزیشن کے عمل کا مخالف ہے۔ اس مضمون میں دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام، گلوبلائزیشن کے عمل کے قطعاً خلاف نہیں، حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام اور مغرب کے مابین موجود یہ تناؤ ویسٹرنائزیشن کے عمل کی پیداوار ہے۔
اس بحث کے تناظر میں سب سے پہلے گلوبلائزیشن اور ویسٹرنائزیشن کی اصطلاحات سے متعلق آگاہی از حد ضروری ہے۔
گلوبلائزیشن افراد، سازوسامان اور نظریات کے دنیا بھر میں پھیلاؤ اور تبادلے کا نام ہے۔ یہ براہ راست تبدیلی، جدت اور دنیا بھر کے مختلف علاقوں کے مابین بڑھتے ہوئے باہمی تعلقات پر مشتمل ہے۔
گلوبلائزیشن انسانی زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسان کی فطرت کی طرح اس کے اندر داخل ہے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تاکہ وہ زندگی کے بہترین مواقع حاصل کرے اور اسے محسوس کرنے کے لئے اپنے اردگرد موجود افراد کے ساتھ وسائل اور تجربات کا تبادلہ کرتے ہوئے زندگی بسر کرسکے۔
اسلام اور گلوبلائزیشن کے حوالے سے جاری اس نام نہاد بحث کو صحیح طور پر سمجھنے، اس کے حقیقی مفہوم تک رسائی حاصل کرنے اور آج کے دور میں اس سے ملتے جلتے ہر عمل کے درمیان فرق کرنا انتہائی ضروری ہے۔
اسلام اور گلوبلائزیشن کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اکثر احباب گلوبلائزیشن سے ملتے جلتے تصور ویسٹرنائزیشن کو گلوبلائزیشن کے لبادے میں پیش کرتے ہیں حالانکہ ویسٹرنائزیشن بنیادی طور پر گلوبلائزیشن سے بالکل مختلف ہے۔
گلوبلائزیشن اور ویسٹرنائزیشن کے مابین فرق
گلوبلائزیشن کا مقصد اس فاصلے کو ختم کرنا ہے جس نے مختلف گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کر رکھا ہے۔ مختلف گروہوں اور طبقات کے درمیان یہ دوری معاشی، معاشرتی، سائنسی اور سیاسی انتظام و انصرام کے حوالے سے فوائد اور معلومات کے تبادلے سے ہی ختم کی جاسکتی ہے۔ اس کی عملی صورت یہ ہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام طبقات اور مختلف گروہ معلومات کا تبادلہ کریں، ایک دوسرے کے اخلاقی اصول واقدار کو سمجھیں اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی بنیاد رکھیں۔
دوسری طرف جب ہم ویسٹرنائزیشن کی طرف نظر کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ویسٹرنائزیشن میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کرنے کو قابل توجہ نہیں گردانا جاتا۔
گلوبلائزیشن ایک عمل ہے جس میں ساری دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔۔۔ جہاں کم ترقی یافتہ گروہ اپنی حالت کو سدھار سکتے ہیں۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے جو ہر گروہ کے لئے ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول کو ممکن بناتا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس ویسٹرنائزیشن کا عمل بند گلی کی طرف لے جاتا ہے۔ گلوبلائزیشن میں مختلف گروہ آزادانہ مرضی سے اس عمل کو اختیار کرتے ہوئے فوائد و معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں جبکہ ویسٹرنائزیشن کا عمل دوسرے علاقوں پر جبراً مسلط کیا جاتا ہے۔
اسلام اور گلوبلائزیشن
گلوبلائزیشن اور ویسٹرنائزیشن کے مابین فرق کو جاننے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام حقیقی مفہوم کے حامل گلوبلائزیشن کا مخالف نہیں ہے اور نہ ہی اس جدت کا مخالف ہے جو گلوبلائزیشن کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ دوسری طرف ویسٹرنائزیشن مسلمانوں کے لئے بجا طور پر ایک مسئلہ ہے کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی تو قبول ہے لیکن اسلامی معاشرے کو مغربی رنگ میں رنگنا اور بے دین ہونا قطعاً قبول نہیں۔ پس اسلامی معاشرے کو ویسٹرنائزیشن اور مغربی رنگ سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ یہ اسلامی اقدار و روایات کے ماتحت ہوں۔ اسلام واضح طور پر گلوبلائزیشن کو اپنے دامن میں لیتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی اصلی حالت میں ہو اور اس کی بنیاد آزادانہ رائے پر ہو نہ کہ دھونس پر مشتمل مغربی مطالبات پر جو وہ مشرق سے کرتا ہے۔
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنا نہایت اہم ہے کہ اسلام لوگوں کو وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان کاحکم دیتا ہے کہ خیر پر مبنی صلاح و فلاح کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے اور شر وفساد کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکمل طور پر قطع نظر اس سے کہ پڑوسی مسلمان ہے یا نہیں اس اصول کو نافذ فرمایا۔ یقینی طور پر اس اصول کو عالمی سطح تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے، جہاں ایک ہمسایہ ملک کو بھی وہی مقام دیا جاسکتا ہے جو اس ملک کا ہے جس کے اسلامی دنیا کے ساتھ معمولی معاشی اور سیاسی تعلقات ہیں۔
اسلام نے نہ صرف گلوبلائزیشن کے عمل کو قبول کیا بلکہ اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کئی صدیوں تک علوم کی دنیا میں عربی زبان رہنما کے طور پر رہی۔ مسلمانوں نے حساب، علم نجوم اور طب میں اہم پیش رفت کی۔ یہ ایک ایسا ورثہ تھا جس سے یورپی سکالروں نے عظیم فوائد حاصل کئے اور یہی چیز ان کی ترقی کا سبب بنی۔
گلوبلائزیشن کا تعلق محض مغرب کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ گلوبلائزیشن کے قالب میں ڈھلنے والے نہ تو یورپی ہیں، نہ مغربی اور نہ ہی مغربی غلبے سے تعلق رکھنے والے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یورپ حساب، سائنس اور ٹیکنالوجی کی گلوبلائزیشن کو روکتا تو وہ معاشی، ثقافتی اور سائنسی حوالے سے مغرب کی نسبت بہت پیچھے رہ جاتا۔
ہمیں گلوبلائزیشن اور ویسٹرنائزیشن کی پیدا کردہ اشیاء کے درمیان فرق کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور گلوبلائزیشن کے حوالے سے بحث کی بنیاد بہت ہی غلط تشخیص پر رکھی گئی ہے جس نے گلوبلائزڈ دنیا کو اسلام کے مقام کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار کردیا ہے حالانکہ اسلام تو وہ ہے جو ماضی میں ہر اعتبار سے زرخیز اور بار آور ثابت ہوا اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ گمراہ کن تصور کہ اسلام گلوبلائزیشن اور جدت کا مخالف ہے، نہایت خطرناک ہے کیونکہ لازمی طور پر اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ باقی ماندہ دنیا میں بھی اسلام کا شاندار کردار ختم ہوجائے گا۔
ویسٹرنائزیشن کے حوالے سے مسلمانوں کا رویہ
ویسٹرنائزیشن کے حوالے سے، عالم اسلام کے رد عمل اور عالم مغرب کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔ عالم مغرب ایک غالب طاقت کے طور ظاہر ہوا ہے اور جس نے دنیا کی صورت کو ہی تبدیل کر ڈالا ہے۔ عالم مغرب کا اس طرح ظاہر ہونا بالکل اسی طرح ہے جیسے ساتویں اور آٹھویں صدی میں عرب مسلمان عالمی طاقت کے طور پر ظاہر ہوئے۔
اٹھارہویں صدی کے اختتام پر مغرب میں ایک بالکل مختلف قسم کی تہذیب (موڈرنائزیشن) کا اٹھنا مسلمانوں کی کمزوری کا باعث بنا۔ اس وقت عالم اسلام کے لئے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا سخت مشکل تھا لیکن ماضی میں مسلم گروہ اس قابل تھے کہ وہ دنیا میں اسلام کے کردار اور طاقت کو از سر نو حیات تازہ بخشتے۔ تاہم ویسٹرنائزیشن کا اثر ایک بے مثال تجربہ تھا جس نے زبردست انداز میں اسلام کو چیلنج کیا اور ایسی فضا پیدا کی جس نے مغرب کو باقی سب سے بالعموم اور اسلام سے بالخصوص جدا کردیا۔
ایک تاریخی پہلو سے ویسٹرنائزیشن نے اسلام کے کردار کو کم کردیا اور امور کی انجام دہی کے حوالے سے اسے مغربی انداز و اطوار کا ماتحت بنا دیا۔ موڈرنائزیشن (Modernization) کے عمل نے عالم اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بجائے اس کے کہ عالم اسلام، عالمی تہذیب کا راہنما ہوتا، یورپی طاقتوں نے اسلام کو تیزی سے مستقل طور پر ماتحت بلاک تک محدود کردیا۔ جس کے نتیجے میں مغرب کے لئے غصے کے جذبات ابھرے۔ مسلمانوں نے سوال اٹھایا کہ کیا وہ مغربی انداز و اطوار اورجدت کو قبول کریں یا انہیں گلوبلائزیشن کا مخالف سمجھا جائے؟
اس مقام پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مغرب کی اس نئی تہذیب کے اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کے لئے اٹھی لیکن اسلامی تاریخ کو واپس صراط مستقیم پر لانے کے لئے ان کی کوششیں کسی حد تک مایوس کن ثابت ہوئیں۔ اسلامی تاریخ میں خود کش بم حملے اور اس سے ملتے جلتے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ مسلمانوں کو اس بات کا یقین دلایا گیا ہے کہ انہیں مایوس کن مصائب کی خندق میں ڈال دیا گیا ہے۔
انتہا پسندی کے ظہور اور اس کی اٹھان کو براہ راست اس غصے کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے جو مغربی طرز کی گلوبلائزیشن کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کیونکہ یہ ایک یکطرفہ عمل ہے جو مغرب اور دیگر علاقوں کے مابین ایک مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ تاہم ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ تشدد اور انتہا پسندی کا تعلق اسلام کے ساتھ نہیں ہے۔ مغربی میڈیا اکثر یہ تاثر دیتا ہے کہ مذہبی تعلق کی شدید ترین قسم بنیاد پرستی خالصتاً اسلامی وصف ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ بنیاد پرستی ایک عالمی حقیقت ہے جو جدت سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے ہر بڑے مذہب میں نمودار ہوئی ہے۔
اسلامی معاشرے کے خدشات
- گلوبلائزیشن کے حوالے سے اسلامی معاشرے کے خدشات یہ ہیں کہ عالمی دباؤ کے سامنے اپنے انمول ورثے کو کیسے بچایا جائے؟
- مذہبی اقدار و روایات کو کیسے سنبھالا جائے؟
- اپنی زبان کو (بیرونی آمیزش سے)محفوظ کیسے رکھا جائے؟
- معاشرتی اداروں کا دفاع کیسے کیا جائے؟
- اور تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں اپنی شناخت کو کیسے قائم رکھا جائے؟
اسلامی تعلیمات کے مطابق تمام مسلمانوں کے لئے پہلی ترجیح اللہ تعالیٰ کے حضور مکمل طور پر سرتسلیم خم کردینا ہے۔ ہر وہ چیز جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو اسے دنیا میں اسلام کی بقا اور قوت کے لئے خطرہ سمجھا جائے گا۔ ہمیں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہونا چاہئے کہ اسلام تیزی سے ایک عالمی حقیقت بنتا جارہا ہے جو ان حدود سے ماوراء ہے جنہوں نے مغرب کو باقی دنیا سے الگ کردیا تھا۔
اسلام دنیا میں دوسرا بڑا اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ عرب میں اسلام تقریباً 610ء میں پھیلنا شروع ہوا اور آج اسلام ایک عالمگیر حقیقت ہے جسے مسلمانوں نے سارے عالم کے سامنے پیش کیا ہے۔ پندرہ ملین مسلمان یورپ اور سات سے آٹھ ملین امریکہ میں رہتے ہیں۔ جرمنی میں تقریباً ہزار اور برطانیہ میں پانچ سو مساجد ہیں۔ پس اسلام کے تیزی سے پھیلنے کا سبب بذات خود گلوبلائزیشن کا عمل ہے۔
اسلام کے مستقبل کا انحصار
- اسلام کے مستقبل کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ اپنی تعلیمات کو مغربی طرز کی جدت کے ساتھ ہم آہنگ کرسکتا ہے یا نہیں؟
- دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ کیا اسلام ایک اسلامی طرز کی جدت کی بنیاد رکھ سکتا ہے یا نہیں؟
چیلنج یہ ہے کہ اسلامی اقدار کو قربان کئے بغیر یا اسلامی تعلیمات کو ضرر پہنچائے بغیر جدت کے عمل میں شریک ہوا جائے حالانکہ اسلام واقعتا ایک عالمگیر مذہب ہے اور ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطی کی طرح یورپ اور امریکہ میں بھی بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ اسلام کے مستقبل کے لئے انتہائی نیک شگون ہے کہ اسلام کے بڑے بڑے شہر اور دارالخلافے صرف قاہرہ، استنبول اور مکہ ہی نہیں بلکہ پیرس، لندن اور نیویارک بھی ہیں۔ یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ آج کی جدید دنیا میں بھی اسلامی تعلیمات قابل قبول ہیں۔
گلوبلائزیشن کا مقصد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے اخلاقی اصول و اقدار کو سمجھا جائے اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی جائے۔ گلوبلائزیشن اور دنیا کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کرنا از حد ضروری ہے۔ گلوبلائزیشن اور موڈرنائزیشن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر مذہب کے تشخص کے احترام کو یقینی بنائے اور انسانیت کے لئے ایک قدرتی ضرورت کے طور پر مذہب کا احترام کرے۔
بہت سا لٹریچر جو اسلام اور گلوبلائزیشن کے حوالے سے بحث پر مشتمل ہے وہ گلوبلائزیشن کے عمل میں مذہب کے کردار کے حوالے سے انتہائی نامناسب اور نامکمل تصور پر مشتمل ہے۔ سیکولرازم جسے ترقی دے کر گلوبلائزیشن کی موجودہ صورتوں میں پیش کیا گیا ہے ایک نیا تصور ہے۔ حقیقت میں تاریخی قدامت پر مبنی مذہب نے گلوبلائزیشن کے عمل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور خاص طور پر اسلام کا کردار انتہائی نمایاں ہے۔ ایک گلوبلائزڈ دنیا کے مستقبل کے لئے چیلنج یہ ہے کہ فلاح و صلاح کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے اور شرو فساد کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا جائے۔