کہتے ہیں کہ ارسطو سے کسی نے پوچھا تھا کہ تمہارے پاس مضبوط ترین چیز کیا ہے تو اس کا جواب تھا میرا ارادہ اور میرا عزم کیونکہ میرا ارادہ ہی مجھے کامیابیوں کی منزلوں سے آشنا کرتا ہے۔ اللہ نے ہر شخص کو اس عزم، ارادہ اور تصور کی قوت سے نوازا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ کوئی اسے اپنی زندگی میں کہاں تک عملی طور پر استعمال کرتا ہے۔ بعض ماہرین نفسیات تو انسانی سوچ اور تصور کے اس قدر قائل ہیں کہ وہ یہاں تک بلا جھجک کہتے ہیں کہ ’’آپ اپنے بارے میں جو سوچتے ہیں، آپ کی شخصیت ویسی ہی ہوجاتی ہے‘‘۔ یہاں تک کہ اگر کوئی خود کو کمتر اور حقیر سمجھنے لگے گا تو وہ ویسا ہی بن جائے گا۔ اسی طرح اگر آپ خود کو پر اعتماد، کامیاب، ذہین اور پرکشش تصور کرنے لگیں گے تو آپ کی شخصیت میں یہی خصوصیات شامل ہونا شروع ہوجائیں گی۔
اگر آپ اپنے اردگرد غور کرنا شروع کریں گے اور لوگوں کا جائزہ لیں گے تو آپ کو ایسے کئی لوگ مل سکتے ہیں جو ایک عمر دوسرے رنگ میں گزار دیتے ہیں لیکن پھر آپ ان کی شخصیت میں تبدیلی کو واضح طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔ ان لوگوں نے زندگی کو ایک نئے انداز سے جینے کا عزم کیا اور اپنے ارادے پر ڈٹ گئے تو کامیابیاں ان کا مقدر ٹھہریں۔
تصورات کی حیران کن تاثیر
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ تصورات آپ کے ظاہری خدوخال کو بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ بہتر اور مثبت سوچ حیرت انگیز طور پر آپ کی شخصیت کو تبدیل کرسکتی ہے۔ آپ اپنے بارے میں جیسا نظر آنے کا سوچیں گے یقین کریں کہ ویسا ہی نظر آنے لگیں گے۔ اسی لئے ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ اتنے ہی خوبصورت، خوش شکل، ہنس مکھ اور پرکشش ہیں جتنا کہ خود کو سمجھتے ہیں۔ اگر آپ نے ایک بار اپنے تصورات کی قوت سے کام لینے کا فیصلہ کرلیا تو وہ وقت ضرور آئے گا جب اس کے نتائج آپ کے سامنے ہوں گے۔ اور لوگ انہی خوبیوں کا تذکرہ کریں گے جو آپ چاہتے تھے۔
کچھ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ تصورات آخر کس طرح کام کرتے ہیں؟ اس کا جواب بہت ہی آسان اور سیدھا سا ہے۔ جب ہم کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارا ذہن ہماری ہدایت اور ارادوں کو بھانپ لیتا ہے بلکہ وہ ان ہدایات کے لئے خود کو تیار کرنا شروع کردیتا ہے اور پھر آپ کو اس پر عمل کرنے کے لئے اکساتا ہے۔ اس طرح ہمارا عمل ہماری سوچ کے تابع ہوجاتا ہے۔ عمل اور سوچ کی ہم آہنگی جتنی زیادہ ہوتی جاتی ہے کامیابی کا تناسب بھی اسی حساب سے بڑھتا رہتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہم تصور کی قوت سے کام لیتے ہیں تو اس طرح خود کو ایک طے شدہ راستے پر گامزن کرلیتے ہیں اور قدرت بھی پھر ہماری مدد کرتی ہے۔ ہم اپنے تصور کی قوت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح اٹھاسکتے ہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ ماہرین نفسیات اس کے لئے کچھ مشورے تجویز کرتے ہیں۔
مثبت سوچ رکھنے والے افراد مقصد کا تعین ضرور کرتے ہیں کیونکہ جب تک آپ واضح طور پر ایک ہدف کا انتخاب نہیں کریں گے آپ اپنے ارادوں کی قوت کو درست طور پر استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے تصور کے معاملے میں بالکل کلیئر ہوں کہ کیا کرنا ہے؟ اور کب تک کرنا چاہئے؟ یہ ممکن ہے کہ آپ کا تصور دوسروں کی نظر میں قابل عمل نہ ہو یا ناممکن ہو لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات آپ اپنی ذات کے بارے میں دوسروں سے بہت زیادہ جانتے ہیں۔
اچھی اور بہتر زندگی گزارنے کے لئے زندگی کا بامقصد اور بامعنی ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ مقاصد اور اہداف کا تعین ہمیں زندگی کی معنویت اور قدروقیمت سے آگاہ کرتا ہے ممکن ہے کسی مقصد کا تعین ذہنی پریشانی یا بے چینی کا سبب بنے لیکن یہ پریشانی اور اضطراب تعمیری محرک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ آپ کو کامیابیوں کی طرف لے جانے کی تحریک اور ترغیب دے سکتا ہے۔ رکاوٹیں بعض اوقات ارادوں کو اور مضبوط بنادیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقصد کے حصول میں ناکامی سے زیادہ خطرناک بات مقصد کی عدم موجودگی ہے۔
آپ کسی بھی مقصد کا تعین تو کرلیں گے لیکن یہ تعین ہی سب کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے حصول کے طریق کار پر بھی آپ کو سوچنا ہوگا۔ آپ کو اپنے مقصد کے حصول کے لئے قابل عمل راستے تلاش کرنا پڑیں گے۔
ناکامی کا خوف۔۔۔ تصور کا دشمن
ہم سب کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ ہمارے تصورات کی قوت کا سب سے بڑا دشمن ’’خوف‘‘ ہے۔ اس سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ کیونکہ جب بھی ہم اپنے تصور کو حقیقت یا عمل کا روپ دینے کی طرف مائل ہوتے ہیں تو مختلف قسم کے خوف و خدشات ہم پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر فرد کسی نہ کسی خوف کا شکار ہوتا ہے لیکن اس سے چھٹکارا بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مقصد کے حصول میں ناکامی کا خوف آپ کو پہلے ہی مرحلے میں اپنی گرفت میں لینے کے لئے سرگرم ہوجاتا ہے۔ اگر آپ خوف زدہ ہیں تو پھر کامیابی ممکن نہیں۔ خوف سے نجات پاکر ہی اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لایئے۔
مشہور مفکر رابرٹ براؤننگ کا کہنا ہے کہ ’’فرد کو اپنی استطاعت اور وسائل کے مطابق بھرپور کوشش کرنی چاہئے‘‘۔
اسی طرح جیمز رسل لائل کہا کرتا تھا کہ ’’ناکامی نہیں بلکہ کمتر مقصد کا تعین جرم ہے۔ ہمیشہ بڑا سوچئے، آپ بڑے ہوجائیں گے‘‘۔
رابرٹ ایچ اسکالر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’میں ایک وسیع و عریض میدانی علاقے میں بننے والی ایک عمارت کے متعلق سوچ رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی جو بندوق اٹھائے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ ہیلو ہائے ہونے کے بعد اس نے مجھے بتایا کہ وہ یہاں خرگوش کے شکار کے لئے آیا ہے۔ ’’تو اب تک تم نے کتنے خرگوشوں کا شکار کیا ہے؟ میں نے بات آگے بڑھائی۔۔۔ ’’ایک بھی نہیں اور آج بھی شکار مشکل ہی نظر آئے گا‘‘۔۔۔ ’’وہ دیکھو خرگوش نظر آرہے ہیں جاکر قسمت آزمائی تو کرو‘‘۔ میں نے اسے کہا۔۔۔ ’’مشکل ہے‘‘۔ اس نے مایوسی کے انداز میں کہا۔۔۔ ’’میں جاؤں گا تو وہ بھاگ جائیں گے۔ کیونکہ یہ بڑے تیز ہوتے ہیں، قدموں کی چاپ سے بھی بھاگ جاتے ہیں۔ ان کی سماعت بڑی تیز ہوتی۔۔۔‘‘ اس نے ایک لمبی تقریر کرنا شروع کردی۔ وہ اپنی ناکامی کے بارے میں کتنا پر امید تھا۔۔۔ میں نے اسے عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ جاکر ٹرائی تو کرو۔ پہلے سے نتائج اخذ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ تم نے ابھی عمل بھی نہیں کیا۔۔۔ وہ تیار ہوگیا۔ پھر اس نے بڑی احتیاط سے خرگوش کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ مناسب فاصلے پر پہنچ کر اس نے فائر کیا اور خرگوش مجھے جھاڑیوں میں دوڑتے ہوئے نظر آئے۔ اس نے غیر یقینی انداز سے جھاڑیوں کی طرف دیکھا اور اس طرف دوڑا۔ جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک خرگوش تھا۔ کچھ دیر پہلے وہ شخص اپنی کامیابی کے بارے میں کس قدر ناامید تھا لیکن جب اس نے ناکامی کے تصور سے کنارہ کش ہوکر عملی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا تو وہ مثبت انداز فکر رکھنے والوں میں شامل ہوگیا اور کامیاب ہوا۔
آپ کو بھی خود کو شکاری تصور کرنا ہے۔ آپ کا ہدف کیا ہے؟ اس کو طے کئے بغیر آگے بڑھنا ناممکن ہے۔
پہلا قدم اٹھایئے
جب آپ اپنا مقصد طے کرلیں تو پھر قدم اٹھائیں۔ ماہر نفسیات اور عمرانیات جی سی پینی کا کہنا ہے کہ کسی بھی کام کی ابتدا ہی سب سے مشکل ہوتی ہے۔ آپ جب تک کام کو شروع نہیں کریں گے، اس کی تکمیل ہونے کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ جب آپ سفر شروع کردیتے ہیں تو پھر ہر قدم آپ کا آپ کو اپنی منزل کی طرف لے جارہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ابتدا میں ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی کامیابی مشتبہ لگنے لگتی ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ہم اپنے ارادے میں زیادہ باعمل اور متحرک ہوتے جاتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ چیلنج حصول زندگی کی علامت ہے۔ اگر ہمارے سامنے مسائل، مشکلات نہیں تو ہم سست اور بے جان ہوتے جائیں گے۔ اس چینی قوم کی طرح جو ماؤزے تنگ سے پہلے تھی۔ چرس اور نشہ آور اشیاء کے استعمال کے بعد بے کار پڑے رہنے ہی کو وہ زندگی سمجھتے ہیں۔ ماؤزے تنگ نے انہیں یہی سبق دیا تھا کہ جدوجہد ہی انہیں کامیاب بناسکتی ہے اور جو جدوجہد کے جذبے سے خالی ہیں ملک و قوم کو ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ خود ان کے گھر والوں کو بھی ان کی کوئی ضرورت نہیں۔
ایک کامیابی۔۔۔ دوسری کامیابی کا زینہ
یقینا وہ لمحہ بہت مسرت انگیز ہوتا ہے جب ہم اپنا مقصد حاصل کرلیتے ہیں لیکن انسان کی فطرت ہے کہ وہ بہت جلد اپنی اس کامیابی کو ناکافی سمجھنے لگتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ہماری حاصل شدہ خوشی کے اثرات کم ہونے لگتے ہیں۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ہم نئے راستوں کا تعین کریں۔ آگے بڑھیں۔ اگر کوئی کامیابی آپ کا قدم چومتی ہے تو نئے چیلنج کی طرف بڑھیں۔ اپنے تصور کے دائرہ کار کو مزید وسعت دیں کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوگا تو بے کیفی اور اداسی کی کیفیات آپ کو جکڑنے لگیں گی۔ ہر نئے چیلنج کا مطلب نئے حالات اور مسائل سے نمٹنا ہے اور جب آپ اپنے مقصد کو حاصل کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کام ختم ہوگیا اور آپ اب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ زندگی ہر دم سرگرم، فعال اور متحرک رہنے کا نام ہے۔ ایک مسئلہ ختم ہوتے ہی دوسرا مسئلہ ڈھونڈ کر اس کا حل تلاش کریں۔ پھر دیکھئے آپ کا شمار کامیاب انسانوں میں ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
مواقع کی تلاش۔۔۔ لیکن کیسے؟
اگر آپ کی سوچ مثبت ہے تو آپ ہر قسم کے حالات میں اپنے لئے مواقع تلاش کرلیں گے۔ ماہرین نے بہترین مواقع کی تلاش کے لئے چند باتوں کی نشان دہی کی ہے۔
تاریخ سے متاثر ہوں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ اس میں کھوکر رہ جائیں۔ آپ جو بھی کام کررہے ہوں اسے مزید بہتر طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔ بہتر سے بہتر کی تلاش مثبت انداز فکر والوں کی خاص خوبی ہوتی ہے۔ دیکھیں! آپ بہت ساری خوبصورت عمارتوں کو جانتے ہوں، ایسی کئی عمارتیں آپ نے دیکھی بھی ہوں اور کئی کے بارے میں پڑھا یا سنا ہوگا۔ اس طرح ماہرین تعمیرات دنیا کے مختلف حصوں میں ایک سے بڑھ کر ایک عمارت بنا رہے ہیں لیکن ابھی تک دنیا کی حسین ترین عمارت وجود میں نہیں آئی ہے۔ اسے ابھی بننا ہے۔ مثبت سوچنے والے اسی فکر میں رہتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور تاریخ کے صفحات پر اپنے نقش چھوڑ جائیں۔
کسی ایسی چیز کی جستجو اور تلاش کریں جو دوسروں کے نزدیک حیرت انگیز ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے خیال میں کوئی آئیڈیا قابل عمل ہونے کی صورت میں زبردست ہوتا ہے مگر آپ اس پر عمل کرتے ہوئے جھجکتے ہیں۔ یہی آپ کی غلطی ہے جب بھی آپ کے ذہن میں کوئی ایسا خیال آتا ہے تو یہ سمجھ لیں کہ آپ کے پاس زبردست مواقع ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانا آپ کا کام ہے۔
بہت سی چیزیں ناممکن نظر آتی ہیں لیکن ہر روز بہت سی ناممکن چیزیں ممکن ہوکر دنیا کے سامنے آتی ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں ہر جگہ آئے دن حیرت انگیز اور ناقابل یقین باتیں سامنے آرہی ہیں۔ آپ کسی بھی شعبہ میں کارہائے نمایاں انجام دے سکتے ہیں۔
نیو یارک سے آپ واقف ہیں ناں؟ امریکا کا شہر۔ یہاں ایک گلاس فیکٹری نے 1963ء میں شیشے کو مضبوط تر اور پائیدار بنانے کے تجربات پر ڈیڑھ کروڑ ڈالرز خرچ کئے۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے۔ خاص طور پر اس وقت کے حساب سے لیکن یہ انسانی ذہن ہے جو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی دھن میں رہتا ہے اور نت نئے مواقع کی تلاش کرتا ہے۔
مشکلات اور رکاوٹوں سے کیا گھبرانا
اکثر دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے موٹے مسائل، رکاوٹیں اور پریشانیاں لوگوں کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہیں۔ وہ اپنے مقصد اور تصور کی طاقت کھوبیٹھتے ہیں۔ وہ ہمت ہارنے لگتے ہیں۔ اگر وہ یہ سوچیں کہ ہر رکاوٹ ایک چیلنج ہے اور ایک نئی کامیابی کی راہ دکھاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ناکامی ان کے قریب پھٹک سکے۔ آپ نے ڈاکٹر اسٹینلے کا نام سنا ہوگا۔ جی ہاں وہ کسی مرض کا شکار ہوکر اندھا ہوگیا تھا پھر جب اس کی حالت سنبھلی تو اس نے سوچا کہ وہ موجودہ حالات میں کیا کرسکتا ہے؟ ایک دن اسے کتاب لکھنے کا خیال آیا۔ اس نے زندگی سے ناامید اور مایوس لوگوں کے لئے لکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے اپنی کتاب Not alone anymore لکھی جس نے مارکیٹ میں تہلکہ مچا دیا۔ اگر ہم اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لائیں تو نت نئی کامیابیاں ہمارا مقدر بن سکتی ہیں۔ صلاحیتوں کی کمی یا کسی معذوری پر کڑھنا کسی فرد کے لئے بھی مناسب نہیں ہے اس طرح نہ صرف موجودہ صلاحیتیں ماند پڑتی ہیں بلکہ مایوسی اور افسردگی بھی دیمک کی طرح شخصیت کو چاٹ جاتی ہے۔ آپ کو پیش آنے والا ہر مسئلہ آپ میں جستجو کی خواہش پیدا کرے تو آپ کامیاب ہیں لیکن اگر آپ ہر مسئلے کو اپنی ناکامی کی علامت سمجھنے لگیں گے تو پھر ناکام ہی ہوں گے۔ مسائل سے منہ چھپانے یا بھاگنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے، اس کے لئے آپ کو مردانہ وار مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔
کامیابی کے نئے اور حیران کن پہلو تلاش کریں
ہمارے اردگرد بہت ساری چیزیں ہیں، ایسی چیزیں جن پر انسانوں نے شاید ہی کبھی سوچا ہو۔ آپ ان پر سوچنا شروع کریں۔ آپ ان پر کام کرکے ان کی قدرو قیمت بڑھا سکتے ہیں۔ آپ اچھے بزنس مین بن سکتے ہیں۔ یہ انسان ہی ہے جو سینکڑوں برس سے بنجر اور غیر آباد زمین کو سبزہ زار بنارہا ہے۔ دنیا میں اس قسم کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ شمالی کیلے فورنیا کا ایک وسیع علاقہ غیر آباد اور بنجر پڑا ہوا تھا۔ ایک ادارے نے اپنی منصوبہ بندی سے وہاں جھیل بنائی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس علاقے کی قیمت بڑھنے لگی۔ وہ زمین جسے کوئی پوچھتا نہیں تھا بے حد قیمتی بن گئی۔
شاہراہ قراقرم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ برف اور پہاڑوں سے ڈھکی اس سرزمین پر کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ سڑک بنے گی لیکن سڑک بنی اور آج ہزاروں انسان یہاں سے روزانہ گزرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ مشن گن میں 1907ء میں ایک کان کھودی گئی جو 1947ء تک سینکڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی تھی لیکن پھر اسے بند کردیا گیا۔ پال نامی ایک شخص نے اس ناقابل استعمال اور ناکارہ کان سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ کیسے؟ اس نے کان کو ’’سرد خانے‘‘ یعنی کولڈ اسٹوریج میں بدل دیا۔ یہاں جدید مشینیں لگائیں اور گوشت، پھل اور دوسری بہت ساری چیزیں اسٹور کرنا شروع کردیں۔ آج یہاں سینکڑوں لوگ دوبارہ ملازمت کررہے ہیں اور پال کی کمپنی خوب منافع بھی کمارہی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ انفرادیت بھی منصوبوں کی کامیابی کا ذریعہ بنتی ہے۔
آپ غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آج سے چند سال پہلے تک یہاں ’’ملک پیک‘‘ کا تصور نہ تھا۔ البتہ خشک دودھ مختلف صورتوں میں ملتا تھا مگر اب ملک پیک عام ملتا ہے اور اسی طرح اور بہت ساری چیزیں جو کہ فی زمانہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں۔ آج کئی ادارے اسی طرح کا کام کررہے ہیں لیکن اس کامیابی کا سہرا اس شخص کے سر ہے جس نے اس منفرد منصوبے کو عملی شکل دی۔ آپ بھی اپنے منصوبوں کو عملی شکل دے سکتے ہیں کچھ منفرد کرکے لیکن اس کے لئے آپ کا سوچنا بنیادی شرط ہے۔ آپ سوچیں اور پھر دیکھیں کہ آپ کے سامنے راستے کیسے بنتے چلے جاتے ہیں۔