شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی خطاب (دوسرا اور آخری حصہ)
ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد
معاونت : نازیہ عبدالستاراسلامی معاشرہ کی ترقی میں خواتین کاکردار
عورت کو بیٹی کے روپ میں دیکھیں تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے کہ جب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا اپنے ابا جان سے ملنے کے لئے آتی ہیں تو کائنات کے تاجدار اپنی بیٹی کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں، اپنی چادر بچھادیتے ہیں اور شفقت سے ان کا سرچوم لیتے ہیں۔
(نسائی، السنن الکبریٰ، ج5، ص391، رقم : 2936)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل اپنی نجی زندگی میں اپنی بیٹی کے ساتھ پیار کا مظاہرہ ہی نہیں بلکہ امت کے ہر فرد کی بیٹی کے ساتھ حسن سلوک کا درس دے رہا ہے کہ یہ بیٹی کا حق ہے جو والد نے ادا کرنا ہے۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : "جس شخص نے دو بیٹیوں کو پالا، ان کی پرورش کی ان کو نیک اور صالح کیا اور زندگی میں معزز مقام تک پہنچا دیا میں اس کو جنت کی ضمانت عطا کرتا ہوں"۔
(صحيح بخاری، کتاب الزکاة، ج2، ص514، رقم : 1352)
یہ تو بطور بیٹی کے عورت کا مقام ہے۔ اسی طرح بہن کا مقام ہے، بہن بھی بیٹی کی طرح ہوتی ہے، بہن کے وہ تمام تر حقوق ہیں جو اسلام بیٹی کو دیتا ہے۔ اس میں دلیل اور سند آیات میراث ہیں۔ وراثت میں جو حق ایک بیٹی یا دو بیٹیوں کا بنتا ہے جب بیٹیاں موجود نہ ہوں تو وہی حق بہنوں کا بنتا ہے۔ اس آیت مبارکہ سے پتہ چلا کہ بہن بیٹی ہی کے قائم مقام ہوتی ہے۔ پھر عورت کو بیوی کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اسلام نے انتظاماً و انصراماً مرد کا درجہ عورت پر بلند عطا کیا۔ جیسے قرآن کا ارشاد ہے :
وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ
(البقرة، 2 : 228)
"مردوں کو ان پر فضیلت ہے"۔اس کا معنی یہ ہر گز نہیں کہ عورت مردوں کے مقابلہ میں نیچ اور گھٹیا مخلوق ہے۔ یہ تصور اسلام کا نہیں ہوسکتا "للرجال علیہن درجۃ" کا معنی یہ ہے کہ جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح کے حقوق عورتوں کے لئے بھی ان کے حسب حال انہیں حاصل ہیں۔ مردوں کے جو فرائض ہیں اسی طرح کے فرائض عورتوں پر ان کے حسب حال ہیں۔ رہ گیا ان کا موازنہ تو اللہ تعالیٰ نے ایک گنا مردوں کو فضیلت دی ہے اور فضیلت دینے کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کی تمام تر کفالت اور ضروریات کا انتظام مردوں کے سپرد ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا : "الرجال قومون علی النساء" گویا یہ عورت کو سہولت دی ہے۔ اس آیت مبارکہ نے عورت کو کمانے سے نہیں روکا۔ عورت کو معاشرتی زندگی میں اقتصاد سے نہیں روکا۔ معاشی وسائل پیدا کرنے سے نہیں روکا۔ اپنی عصمت و عفت کی حدود اور اقدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے آزادی دی ہے لیکن ذمہ داری مرد کے سر پر ٹھہرائی ہے اور مردوں کو انتظاماً ایک درجہ بلند کیا ہے۔ اس لئے کہ وہ کفیل ہیں کفیل کا حق ہے کہ اسے انتظامی برتری حاصل ہو لیکن رہ گئے حقوق و فرائض تو اس میں دونوں برابر ہیں۔
لہذا جس طرح مردوں کو ان کے حقوق انہیں حسب حال درجہ عطا کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق ان کے حسب حال ان کو بلند درجہ عطا کرتے ہیں۔ عورت کو ہم انفرادی حیثیت میں خواہ عائلی زندگی کے اعتبار سے یا تعلیمی، معاشرتی، سماجی، قانونی، آئینی اور دستوری اعتبار سے دیکھیں، جن جن اعتبارات سے دیکھیں تو اسلامی معاشرے کے اندر عورت ایک بھرپور کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسلام عورت کو عضو معطل بناکر ایک جگہ نہیں رکھ دینا چاہتا بلکہ عورت کو پورے معاشرے کی تشکیل کی ذمہ داری دیتا ہے۔ عورت اپنی ذات کے اندر پوری انجمن اور مکتب و مدرسہ ہے کیونکہ معاشرے کا ہر مرد اس کی گود میں پل کر نکلتا ہے۔ خواہ وہ حاکم ہے یا محکوم، امام حسن مجتبیٰ ہیں یا امام حسین عالی مقام۔ وہ غوث الوریٰ ہیں یا خواجہ اجمیر وہ بابا فرید الدین گنج شکر ہیں یا داتا علی ہجویری یا کوئی اور بلند مرتبہ کامل ہستی ہیں۔ وہ اس عورت کی گود سے ہی پل کر نکلتا ہے۔ اگر اس عورت کی گود کو تقدس نہیں دیا جائے گا تو اس عورت کی گود سے پل کر نکلنے والا کبھی مقدس نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید نے عورت کو زوجہ کہا۔ مرد کو زوج کہا اور زوج کا مطلب ہے جوڑ اور جوڑ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک دونوں میں یکسانیت نہ ہو۔ یعنی ایک ریڑھا یا ٹانگہ اس کے دو پہیے ہیں وہ جوڑ ہے ایک بڑا ہو اور ایک چھوٹا ہو کیا ریڑھا اور تانگہ چل سکتا ہے؟ نہیں اس کی رفتار اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک دونوں اپنے اپنے حسب حال یکساں نہ ہوں۔ اللہ رب العزت نے فرمایا :
يااَََيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا.
(النساء : 6 : 1)
"اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش کی ابتداء ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا"۔
عورت کو جوڑ کہنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جب تک دونوں کو اپنی اپنی حیثیت کے حسب حال یکساں ذمہ داری نہ سونپی جائے اس وقت تک عورت کا معاشرتی کردار ادا نہیں ہوسکتا۔ اس طرح بیوی کو دیکھتے ہیں تو اسلام نے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کو مرد پر فرض قرار دیا ہے۔ فرمایا :
خيرکم خيرکم لاهله
(جامع ترمذی، ابواب المناقب، ج5، ص709، رقم : 3895)
"تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے ساتھ بہتر ہے (میں تم میں سب سے زیادہ اپنی ازواج اور اپنے بچوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں)"۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج کے ساتھ حسن سلوک کا یہ عالم تھا کہ امہات المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت خدیجۃ الکبریٰ، حضرت حفصہ سے پوچھیں وہ کہتی ہیں کہ مثالی کردار جو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا کیا وہ دنیا کا کوئی فرد نہیں ادا کرسکتا۔ یعنی عدل بین الازواج رکھا۔ حدیث مبارکہ ہے :
ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم اراده سفرا کان اقرع بين النساء.
(صحيح بخاری، کتاب الهبة وفضيلها، ج2، ص916، رقم : 2453)
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر پر جانے کا ارادہ کرتے تو قرعہ اندازی کرتے جس کا نام نکلتا اس کو ساتھ لے جاتے"۔
یہ عورتوں کے ساتھ عدل کا تصور ہے۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھروں کے اوقات کو بانٹتے، ایک ایک لمحہ ایک ایک دن ایک ایک رات ازواج مطہرات کے درمیان تقسیم کرکے گزارتے۔
کان يقسم بين ازواجه
(جامع ترمذی، ابواب النکاح، ج3، ص446، رقم : 1140)
"آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقت کو ازواج مطہرات کے درمیان تقسیم کرتے تھے"۔
حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات قریب آگئی تو چلنا پھرنا اور منتقل ہونا ممکن نہ رہا۔ اس وقت بھی پوچھنے لگے کہ کل ہماری رات کہاں بسر ہوگی؟ اس حالت میں بھی متفکر تھے کہ میرے اوقات کی ترتیب میں بے عدلی نہ ہوجائے تو ازواج مطہرات نے مل کر حضرت عائشہ کے حجرہ کو اپنا حق دے دیا۔ یہ ایثار اور حسن سلوک کی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھوں کے ساتھ اپنی ازواج کے گھروں کے کام کاج میں شرکت کرتے اور ان کی معاونت فرماتے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہر روز عصر کے بعد ہمارے مابین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف رکھتے، ہمارے ساتھ مزاح کی بات بھی کرتے، ہماری دل جوئی بھی کرتے۔ یہ ازواج کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ یہ قرب اور مصاحبت کا موقع دیا جارہا ہے۔
جب بطور ماں عورت کو دیکھیں تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الجنة تحت اقدام الامهات.
(ديلمی، مسند الفردوس، ج2، ص116، رقم2611)
"لوگو! جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے"۔
اس حدیث پاک میں دو نکتے قابل توجہ ہیں جو میں واضح کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا یہ کہ یہ آیت بتارہی ہے کہ ہر مرد کی جنت کسی نہ کسی عورت کے قدم کے نیچے ہے۔ اس سے بڑھ کر کسی عورت کا مقام کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ نے ہر مرد کی جنت کو کسی نہ کسی عورت کے قدموں سے منسلک کردیا ہے۔ وہ عورت کون ہے وہ اس مرد کی ماں ہے۔ مطلقاً فرمایا تمہاری جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
گویا بطور ماں کے عورت کی یہ قدرو منزلت ہے۔ ایک صحابی پوچھتے ہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہم پر کس کا حق ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری ماں کا۔ اس نے پوچھا حضور ماں کے بعد کس کا حق ہے؟ فرمایا : ماں کا۔ پوچھا : اس کے بعد کس کا حق ہے؟ پھر فرمایا : ماں کا۔ پھر کس کا؟ فرمایا تیرے باپ کا۔
(صحيح بخاری، کتاب الادب، ج5، ص2227، رقم : 5626)
اللہ اور رسول کے بعد تین گنا ماں کا حق قرار دیا۔ چوتھا حق باپ کا قرار دیا۔ اس سے بڑھ کر معاشرے میں کسی عورت کے تقدس کا معیار کیا ہوسکتا ہے۔ مغربی فکر پر اپنے آپ کو اذیت میں مبتلا کرنے والی عورت جو آج اپنی ترقی کا راز مغربیت میں تصور کرتی ہے۔ میں ان محترم مائوں بہنوں سے کہتا ہوں کہ مغرب کی ساری سوسائٹی میں عورت کے تقدس اور عظمت کا کوئی تصور نہیں۔ عورت اس عظمت کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی جو اسلام نے عورت کو عطا کی ہے۔ وہ تو عورت کے حق کے طور پر اولاد کی جنت ماں کے قدموں کے نیچے قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ایک کا حق دوسرے کا فرض ہوا اور ایک کا فرض دوسرے کا حق ہوا۔ یہاں عورت کا حق تو آپ سمجھ گئے کہ بطور ماں کے اولاد کا حق ہے کہ وہ اس کی تعظیم بجا لائے تاکہ جنت کمائے لیکن کوئی فرض بھی بنتا ہے ماں کا وہ اس حدیث میں ہے۔ اگر اس حدیث کا خطاب مردوں سے ہو تو انہیں یہ بتایا جارہا ہے تمہاری جنت تمہاری ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ اگر اس حدیث کا خطاب ماں سے ہو تو پھر ماں کو جھنجھوڑا جارہا ہے اور اسے خواب غفلت سے بیدار کیا جارہا ہے کہ تمہاری اولاد کی جنت تمہارے قدموں کے نیچے ہے۔ ان کی ایسی پرورش کرو کہ جنت تک پہنچادو یا ایسی پرورش کرو کہ دوزخ تک پہنچادو۔
اس حدیث کا دوسرا رخ کبھی بے نقاب نہیں کیا گیا اور نہ ہی بیان کیا گیا۔ اگر اولاد بدتمیزی کرے تو مائیں انہیں یہ تو سناتی ہیں کہ تمہاری جنت میرے قدموں کے نیچے ہے۔ کاش آج کی ماں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا شروع کردے کہ اللہ کے رسول نے اولاد کی جنت ماں تیرے قدم کے نیچے رکھی ہے گویا تجھے ذمہ داری دی جارہی ہے کہ اے ماں اگر تیری اولاد دوزخ میں جاتی ہے تو ذمہ دار تو ہے کہ اس کی جنت تو تیرے قدم کے نیچے تھی۔ اس کے باوجود کیوں دوزخ کے لائق بن گئی۔ ماں کی گود کی تربیت کی اہمیت بتائی جارہی ہے وہ مائیں جو بچپن سے اپنی اولاد کی تربیت کرتی ہیں تو پھر جنت ان کے دروازوں پر چلی آتی ہے۔ ایسی ماں ہو تو پھر کیسے بیٹے جنم لیتے ہیں۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر وہ اپنی والدہ کے بطن میں تھے۔ (ان کے سوانح نگاروں نے یہ واقعہ لکھا ہے۔ ) ان کی والدہ محترمہ بہت عابدہ زاہدہ متقی خاتون تھیں۔ انہوں نے بغیر اجازت کسی کا مال نہ کھایا تھا۔ ان کی ماں کے پیٹ میں حاجت ہوئی باہر تشریف لے گئیں وہاں بیر کا درخت تھا جس کے دو چار دانے گرے ہوئے تھے۔ مالک کا تو پتہ نہیں تھا کون ہے؟ ان کو طلب ہوئی اور وہ بیر کے دانے اٹھا کر کھانے لگیں۔ ابھی ان کا ہاتھ منہ کے قریب نہ پہنچا تھا کہ پیٹ میں جو بچہ تھا اس نے تیزی سے حرکت کی اور وہ اتنی تکلیف میں مبتلا ہوگئیں کہ بیر کے دانے گر گئے اور کھا نہ سکیں پھر وہ بچہ بابا فریدالدین گنج شکر کے روپ میں پیدا ہوا۔ جب پیدا ہوگئے ابھی بچپن میں تھے نو عمر تھے، نو دس سال کے بچے تھے۔ ایک روز ماں انہیں گود میں لے کر کھلارہی ہے۔ والدہ فرمانے لگیں "دیکھ جب تو میرے پیٹ میں تھا تو میں نے تیری خاطر کبھی ایک ناجائز دانہ بھی اپنے منہ کے قریب لے جانے کا تصور نہیں کیا تھا۔ میں نے عمر بھر جو خون تجھے مہیا کیا ہے وہ حلال کیا ہے"۔ ایک چھوٹا سا معصوم بچہ (بابا فریدالدین گنج شکر) مسکرا پڑا اور کہنے لگا۔ "اماں جان! آپ درست فرمارہی ہیں لیکن ایک دن غلطی ہونے لگی تھی جب آپ بیر کے دانے بغیر اس کے مالک کی اجازت کے کھارہی تھیں"۔
جب مائیں اس قدر احتیاط سے چلتی ہیں اور تقویٰ و طہارت اور پرہیزگاری کو اپناتی ہیں، ہمہ وقت باوضو رہتی ہیں اور قرآن کی تلاوت ہر وقت کرتی ہیں تو بیٹا پیدا ہوتے ہی قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ جب مائیں ایسی ہوں تو بیٹا بابا فرید ہوتا ہے۔ لہذا جب اولاد جوان ہوجائے اور ادب و احترام کو ملحوظ نہ رکھے۔ بڑھاپے میں آپ کا خیال نہ کرے تو بوڑھی مائیں شکوہ کرتی نظر آتی ہیں کہ ان کو ہوش تک نہیں کہ ماں کے حق کو پہنچانے، بے ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں اور فلاں کے کہنے لگ کر ہمارے ساتھ گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن اے ماں کاش اس وقت اپنے بیٹے کے کردار پر شکوہ کرنے سے پہلے اس کے بچپن کے وقت اپنے کردار پر نظر ڈالی ہوتی جب اس کو سنوارنا تمہاری ذمہ داری تھی تو تم نے کس حد تک ذمہ داری کو نبھایا۔ کس حد تک قرآن کی تعلیم دی۔ اعلیٰ سے اعلیٰ سکولوں میں اپنے بچے کو تعلیم دلوانے کے لئے تو کوشاں نظر آئی لیکن قرآن کی تعلیم دینے کے لئے پریشان نظر نہ آئی۔ آپ نے کب بتایا کہ ماں باپ کے حقوق کیا ہیں؟ جب پرورش کی ذمہ داری تم پر تھی تو تم نے فرض نہیں نبھایا۔ جب ادب و احترام کی ذمہ داری اولاد پر آئی تو اس نے بھی فرض نہ نبھایا تو معاملہ برابر ہوگیا۔ اس لئے سوسائٹی میں ماں کا کردار بڑا اہم ہے۔ ماں، عورت اپنے اعتبار سے تو ایک فرد ہے لیکن وہ پوری سوسائٹی کے کردار کو تشکیل کرتی ہے۔ کیونکہ سوسائٹی کا ہر فرد اس کی گود سے پرورش پاکر آتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ماں کے کردار کی بالواسطہ سوسائٹی کے سارے مردوں میں جھلک نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کی دینی تعلیم اور عصری تعلیم پر بھی ضروری توجہ دی ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا :
طلب العلم فريضة علی کل مسلم و مسلمة
(سنن ابن ماجة، المقدمة، ج1، ص81، رقم : 221)
"علم حاصل کرنا فرض ہے ہر مسلمان مرد اور عورت پر"۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو ہی نہیں بلکہ اپنی صحابیات کو بھی تعلیم فرمائی۔ آج بعض لوگ اسلام کے تصور کو معاذ اللہ فرسودہ بنانے کے لئے اور نئی نسل کو اسلام سے باغی اور متنفر کرنے کے لئے اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ عورت کو تعلیم کی حاجت نہیں تاکہ وہ جاہل رہے کیا آپ ایک جاہل فرد سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کو ذمہ داری سے نبھائے۔ ایک جاہل اپنے فرض کو ہی نہیں سمجھ سکتا اور اپنی ذمہ د اری کو ہی نہیں جان سکتا تو وہ اسے نبھائے گا کیسے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم و تربیت کے لئے ہفتہ میں ایک دن مستقل طور پر خواتین کے لئے مقرر کررکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواتین کے اجتماع میں تشریف لے جاتے۔
(صحيح بخاری، کتاب العلم، ج1، ص50، رقم : 101)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی وعظ و نصیحت اور تربیت کے لئے ایک دن اس لئے مختص کررکھا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب تک اس پر توجہ نہیں دی جائے گی تب تک پوری سوسائٹی کی تعلیم و تربیت کا اہتمام نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت عائشہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصف دین کہا۔ فرمایا : "عائشہ نصف دین ہے"۔ کیا آپ آدھا دین بغیر حصول دین کے ہوگئیں۔ تقریباً آٹھ سو کے قریب حضرت عائشہ کے شاگرد تھے۔ انہوں نے حضرت عائشہ سے سنا۔ ان سے روایت کیا، بیان کیا، نقل کیا۔ ام المومنین کا علم کے باب میں اس قدر بلند مقام و مرتبہ ہے۔ حضرت عائشہ بہت بڑی عالمہ اور فاضلہ تھیں۔ آپ کی نظر قرآن و حدیث اور دینی علوم پر ہی نہیں تھیں بلکہ شعر و ادب کی ماہرہ بھی تھیں۔ انساب اور تاریخ کی ماہرہ تھیں، حتی کہ میڈیکل سائنس کی ماہرہ تھیں۔ علم طب پر حضرت عائشہ کی گہری نظر تھی۔ علوم فنون میں بھی حضرت عائشہ کا بلند مقام تھا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حفصہ کے لئے قرآن کی تعلیم کا باقاعدہ انتظام فرمایا تھا۔ قرآن نے کہا :
قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ.
(الزمر، 39 : 9)
"کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں"۔
جب قرآن پاک علم کی فضیلت بیان کرتا ہے تو کسی سطح پر عورت کو پیچھے نہیں رہنے دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کی عورتیں دینی اور فقہی اعتبار سے اپنا بھرپور کردار ادا کرتیں۔ سیاسی اور سماجی، آئینی اور دستوری زندگی اور دیگر اہم امور میں عورتوں کے مشورے شامل ہوتے تھے۔
حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کے مابین جب حضرت عبدالرحمن بن عوف استصواب رائے کروارہے تھے تو تاریخ کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں آپ نے مرد کی طرح عورتوں کو بھی رائے میں شامل رکھا اور مقیم اور مسافر، عالم اور جاہل، مرد اور عورت، بیمار اور صحت مند ہر ایک سے رائے طلب کی۔ عورت ایک اکائی اور معاشرے کی ایک فرد ہے، اسے نظر انداز کرکے کسی بھی اعتبار سے سوسائٹی ترقی نہیں کرسکتی۔ صرف حدود اور کام اپنے اپنے متعین ہیں۔ ترجیحات بھی اپنی اپنی مقرر ہیں ان ترجیحات کو ترک کریا جائے اور ان حدود کو پھلانگ دیا جائے تو نظام ہمیشہ باطل ہوجاتا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم کا دور حکومت ہے آپ عورتوں کے مہر کی حد مقرر کرنا چاہتے تھے کہ چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا جائے تو صحابہ اور صحابیات کے اجتماع میں سے ایک عورت کھڑی ہوئی اور کہنے لگی اے امیرالمومنین! جب اللہ نے ہمارے مہر پر حد مقرر نہیں کی تو آپ کو حق کس نے دیا ہے کہ آپ ہمارے مہر پر حد مقرر کریں۔
(عبدالرزاق، المصنف، ج6، ص180، رقم : 10420)، (سيوطی الدرالمنشور، ج2، ص466)
اس دور کی عورتوں کا اجتہاد، بصیرت اور علم کے اندر گہرائی کا یہ عالم تھا۔ حضرت فاروق اعظم نے پوچھا اے بہن! آپ کے پاس کیا دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ نے حق مہر پر حد مقرر نہیں فرمائی۔ صحابیہ عرض کرنے لگی۔ امیرالمومنین! جب اللہ نے کہا :
وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍلا وَاٰتَيْتُمْ اِحْدٰهُنَّ قِنْطَارًا فَـلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَيْئًاط اَتَاخُذُوْنَه بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًاo
(النساء، 4 : 20)
اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو؟"۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مہر کی کوئی حد نہیں جہاں تک بساط ہو دیا جاسکتا ہے۔ عورت کے رائے سن کر سیدنا فاروق اعظم نے اپنی رائے واپس لے لی اور فرمایا : "مرد نے فیصلہ میں خطاء کی اور عورت صحیح نتیجہ پر پہنچی"۔ یہ سیدنا فاروق اعظم کی وسعت ظرف اور عظیم حوصلہ ہے۔ کاش ہمارے اندر بھی ایسی وسعت اور حوصلہ پیدا ہوجائے۔ دوسری طرف اس سے پتہ چلا کہ سماجی، معاشرتی، آئینی، دستوری اور سیاسی زندگی نء عورت کو اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے سوسائٹی میں کیسے بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔
اسی طرح اللہ رب العزت نے اکتساب مال میں بھی عورت کو محروم نہیں رکھا۔ اللہ رب العزت نے فرمایا :
لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط وَلِلنِّسَآءِ نَصِيْبٌ مِّمََّا اکْتَسَبْنَ.
(النساء : 32)
"مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا"۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ اپنے دور کی مالدار عورت تھیں۔ عرب کے سارے مالداروں کی دولت ایک طرف اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا مال تجارت ایک طرف۔ اگر ان کا اکتساب مال اور تجارت کرنا ناجائز ہوتا تو کم از کم ایک عورت کا مال تجارت آقا علیہ السلام خود شام کی منڈیوں تک نہ جاتے۔ آقا علیہ السلام کا تعلق بھی اسی بنیاد پر قائم ہوا۔ جب حضور علیہ السلام دین اسلام کی تبلیغ فرمارہے تھے تو اوائل دور میں دس گیارہ سال تک حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا مال خرچ ہورہا تھا۔
معزز خواتین! آج عورتیں اسلام کے عطا کردہ اس کردار کو پہچانیں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیں تاکہ ان کی عصمت و عفت بھی محفوظ رہے مگر افسوس ہم اپنے کردار کے تعین کے لئے نہ قرآن حکیم سے روشنی لینا چاہتے ہیں نہ سنت مصطفوی سے۔ ہم نے تو اپنا آئیدیل مغرب کو بنارکھا ہے۔ ہم افراط و تفریط کا شکار ہوگئے ہیں اور عورت کو عضو معطل کرنا چاہتے ہیں یا اس قیمتی متاع کو سڑکوں پر ننگا کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ہم ان کے پردے اور عصمت کی بات کرتے ہیں۔ یہ تصور دیا جارہا ہے کہ آخر عورت کو ضرورت کیا ہے کہ وہ باپردہ خاتون ہو۔ مغرب میں عورت پردہ نہیں کرتی تو کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن انہیں اس بات کی سمجھ نہیں ہے کہ جو قدر و منزلت عورت کو دین اسلام نے عطا کی ہے وہ مغرب عطا نہیں کرسکتا۔ جتنی کوئی قیمتی شے ہوتی ہے اس کی حفاظت کا اس قدر انتظام کیا جاتا ہے اور جو سڑکوں پر عام پھینک دی جائے وہ چیز قیمتی نہیں بلکہ ردی ہے۔ سو پردے اور عصمت و عفت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عورت ایک قدر ہے، عورت ایک متاع ہے، عورت ایک نایاب دولت ہے۔ جس کو اسلام ہر صورت محفوظ کرنا چاہتا ہے اور اس کے تقدس، اس کی عصمت و عفت کو قائم رکھتے ہوئے سوسائٹی میں اس کے کردار کو بھرپور طریقے سے انجام دینا چاہتا ہے۔ اسلام کی تبلیغ میں بھی تاریخ میں عورتوں نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ آج کا دور اسلام کی نشاط ثانیہ کا دور ہے اور تحریک منہاج القرآن آج کے دور میں احیاء اسلام اور تجدید دین کی تحریک ہے۔
لہذا احیاء اسلام کی نشاط ثانیہ کے اس دور میں جو ذمہ داری مردوں کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے وہ معزز خواتین اور میری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ آپ کو چاہئے کہ اپنے فرائض منصبی کو پہچانتے ہوئے اپنی اولاد کی تربیت کریں، اپنے گھر کے ماحول کو سنواریں، اپنی ذمہ داری کو اس طرح سے نبھائیں کہ احیاء اسلام کی اس تحریک میں آپ بھی برابر کا کردار ادا کرسکیں۔ خوشی اور غمی کے موقع پر بہت غلط رسوم و رواج ہمارے معاشرے میں پیدا ہوچکے ہیں۔ اگر خواتین چاہیں تو ان غلط رسوم کا قلع قمع ہوسکتا ہے۔ خواتین اگر سادہ زندگی کو شعار بنائیں اور سادہ زندگی کے خلاف اٹھنے والے بے بہا اخراجات، بے جواز رسوم و رواج کو اپنے اوپر بند کرنے کا عہد کرلے اور اپنے مرد کے سامنے کہے کہ میں اس کو اپنی ٹھوکر سے رد کرتی ہوں۔ یہ تیل، مہندیاں، منگنیاں اس پر لاکھوں روپے بے دریغ اخراجات اسراف کے زمرے میں آتے ہیں اگر آج کی عورت یہ فیصلہ کرلے تو میں سمجھتا ہوں کہ سادگی کی زندگی کے لوٹ آنے میں ایک دن بھی نہیں لگے گا۔ یہ انقلاب اور تبدیلی عورت پر منحصر ہے۔ معزز خواتین! یہ میری آپ سے التجاء اور درخواست تھی جو میں نے آپ تک پہنچادی اور میں توقع کرتا ہوں آپ اپنے منصب اور ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس دور میں اس عظیم مشن کے ساتھ وابستگی اختیار کرکے انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی اپنی ذمہ داری کو کماحقہ نبھائیں گی۔