درس نمبر 50 : دروس سلوک و تصوف

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی (مرکزی امیر تحریک)

آغوشِ مادرِ صالح۔ سلوک و تصوّف کی پہلی درسگاہ

دنیا کے مختلف مذاہب اوراقوام میں مروّجہ معاشی، معاشرتی، سیاسی، اخلاقی اورروحانی قواعد و ضوابطِ حیات میں دین اسلام وُہ واحد اور مکمل ضابطہ ءِ حیات ہے جو انسانی زندگی کے انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے ہر پہلو پر تفصیلی بحث کرتا ہے، قرآن حکیم انسان کو خالقِ آفاق و انفس کی مرضی اور منشاء سے آگاہ کرتا ہے اور اس کو اللہ کی مرضی کے مطابق دنیا میں زندگی گذارنے کی تعلیم دیتا ہے، دنیا کی زندگی آخرت کا توشہ ہوتی ہے۔ انفرادی زندگی میںہر انسان تولید، پیدائش، طفولیّت، بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے کے مقررہ مراحل سے گزرتا ہے اوروفات کے بعد برزخ اور آخرت کے ادوار میں داخل ہوتا ہے۔ اسلامی عقیدہ کے مطابق آخرت انسان کی آخری اور حقیقی دنیا ہے۔ جہاں وُہ ابد الآباد تک رہتا ہے۔ آخرت میںانسان کا انجام دنیا میں اس کی گزاری ہوئی زندگی کے مطابق ہوتا ہے۔ دنیا دارالعمل ہے اس میں انسان جوعمل کرتا ہے اس کی جزا یا سزا کا صِلہ اُس کو دارالبقاء میں ملتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں رہنے کے لیے فطرتی طور پراچھے بُرے اعمال، نیکی بدی اورخیر و شر کا فرق پہلے سے بتا دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

"وَهَدَيُنَاه‘ النَّجْدَيْن

(البلد : 10)

(اور ہم نے تو اِسے دونوں راہیں دکھا دیں)

" فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَا"

(الشمس : 8)

(پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور نیکو کاری(اختیار کرنے) کی سمجھ عطا کی)۔

اسی طرح قدم قدم پر زندگی کے تمام ممکنہ نشیب و فراز جو انسان کی زندگی میں پیش آنے والے ہوتے ہیں اس سے انسان کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور عالم بقا ء میں ان کے نتائج سے اس کوپہلے سے خبر دے دی ہے۔ نطفہّ تولید قرار پانے سے لے کر روح کے قبض ہونے تک ہر انسان زندگی کے ان تمام مراحل کو طے کر تا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے اس کے لیے مقررہوتے ہیں۔ آج کے بچے نے کل باپ بننا ہے، بالکل اُسی طرح جیسا اُس کا باپ کل بچہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موجودہ نسل کو آنے والی نسل کی پیدائش اور افزائش کا وسیلہ اور سبب بنایا ہے، اللہ جل شانہ‘ نظر آنے اور نہ آنے والی تمام مخلوق کا خالق اور مسبب الاسباب ہے۔ وہ کائنات آفاق و انفس کے ذرے ذرے کا رَبُّ العالمین، خالق مطلق اور مربیّ ہے۔ آفاق و انفس کے شجرِ حیات کو رحمت کے پانی سے پروان چڑھنے کے لیے ذات باری تعالیٰ نے رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلق اول ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو کائنات کا منبع و مصدر بنایا ہے، اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمّی یعنی کائنات کی اصل، جڑ اور سر چشمہ کے لقب سے یاد فرماتا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو نر اور مادہ کے جوڑوں میں بنایا، تخلیق آدم کے بعد خبت میں حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو آپ کی پسلی سے پیدا فرمایا اور ہبوط کے بعد دنیائے ارضی میں دونوں کے نکاح کے بعد آپ کو اولاد عطا فرمائی اوران کی باہمی تقریب سے نسل انسانی کے سلسلہ کو فروغ دیا۔ یہ سلسلہ تناسل قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ سورہ الروم کی اکیسویں آیت کریمہ میں ارشاد ربانی ہے :

"اور(یہ بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے جوڑے پیدا کئے تا کہ تم ان کی طرف سے سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پید کر دی، بیشک اس (نظام تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو غوروفکر کرتے ہیں۔ "

اللہ نے انسان کو مدنی الطبع بنایا ہے، اس نے انسانوں کے معاشرہ میں آپس میں مل جل کر رہنا ہوتا ہے۔ دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے انسان کو تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی اولادکو علم و حکمت سکھانے کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پہلا نبی اور پیغمبر مقرر فرما کر آپ کے ذریعے تعلیم و تربیت کا آغاز فرمایا اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا کی آغوش کو بچوں کی تعلیم و تربیت کی پہلی خانقاہ اور درسگاہ بنایا۔

خانقاہی نظام میں تعلیم و تربیت "عمل" کے ذریعے زیادہ دی جاتی ہے۔ ماں بچے کی پہلی معلمہ اور مربیّ ہوتی ہے۔ اس کے ہر عمل میں اولاد کے لیے علم اور تربیت کاسامان ہوتا ہے۔ بچہ اپنی ماں کے ہر قول و فعل کو سنتا اور دیکھتا ہے اور اپنی فطری جبلّت سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وُہ اپنے والدین اور ارد گرد کے ماحول کے افراد کے حرکات و سکنات اور گفتگو کو دیکھ سن کر سیکھتا ہے۔ بچہ جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے اُ س کی شعوری طاقتیں اُسی لحاظ سے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ بچپن میں وہ کسی کے غصہ کرنے پر رونے لگتا ہے اور جب اُس سے پیار کیا جائے تو وہ خوش ہو کر مسکرانے لگتا ہے۔ ماں، انتہائی پیار و محبت، شفقت، ہمدردی، توجہ، صبر اور استقامت سے اپنے بچے کی خبر گیری اور حفاظت کرتی ہے۔ اللہ جل مجدہ نے ماں کی جبلّت میں فطرتی طور پر بچے کی حفاظت، کفالت اور نگہداشت کا جوہر زیادہ رکھا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ رحمان و رحیم اور رب العالمین ہے، ذات باری تعالیٰ نے ماں باپ کو بھی صفاتِ رحم و ربوبّیت سے متصّف فرمایا ہے۔ مشیت ایزدی کے مطابق ہر نوعِ مخلوق کی تولید، فطام اور بچپن کی کفالت و حفاظت اس کوجنم دینے والی ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہر طرح کے چرند پرند، حیوانات، جنات اورانسانوں کو جنم دینے والی ماں اس کی نگہداری کرتی ہے۔ وہ ہر سخت اور مشکل وقت اپنے بچوں کے سامنے ڈھال بن جاتی ہے۔ اپنے سکھ چین آرام کو بالائے طاق رکھ کروُہ اپنے بچے کے آرام کا خیال رکھتی ہے۔ ماں کی فطرۃ بالقوہ میں بچوں کی نگہداشت کے حوالے سے احساس ذمہ داری اور امانت کی پاسداری کا عنصر نسبتاً باپ کے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انسانی جان کی بقاء کی اہمیت دین اسلام کے بنیادی مبادیات سے ہے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق انسانی جان کی حرمت صرف یہ نہیں ہے کہ کسی آلہءِ قتل سے ہی انسان کی جان لی جائے بلکہ اس کی نگہداشت، کفالت و حفاظت میں کوتاہی بھی اتنا ہی سنگین جرم ہے جس کو قتل کے مترادف شمارکیا جاتاہے۔

اللہ کے احکام اور فرموداتِ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق بچوں کی مناسب اخلاقی اور روحانی تعلیم و تربیت سے پہلو تہی کرنا اور ان کو دین کی بجائے معاشرے میں رائج بے دینی کا خوگر بنانا بھی ان کا معنوی قتل ہوتا ہے۔ اپنے ہاتھوں اولاد کی اس طرح کی تباہی تو والدین کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ابنائے ملت کی ایک بہت بڑی تباہی ریاستی سطح پر آمرین وقت کی وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ وہ نوجوانوں کے اذہان سے قومی احساسِ زیاں مٹانے کے لیے ان کو فتنہءِ جنس، فتنہءِ فحش، فتنہءِ کثرت پیداوار، کثرت فتنہءِ ترسیل، فتنہءِ کثرت استعمال، فتنہءِ کثرت ضیاع، فتنہءِ تنافُس، فتنہءِ نفرت دین اور فتنہءِ تحقیر شعائر اللہ کا شکار کرتے ہیں۔ نسل انسانی کو تباہ کرنے والے سیاسی آمروں(political dictators) کی ایک تباہ کن حکمت عملی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں وضاحت سے فرمایا ہے کہ کس طرح ہر زمانے کا فرعون اور آمر رعایا کے مرد و زن کو اخلاقی بے راہ روی اور جنسی نراج(sexual exploitation) کے راستے پر ڈال کر انہیں کردار کی موت(death of moral character) سے دو چار کرتا ہے۔

دجال کے آنے سے پہلے دور فتن میں اس کے سیاسی دجالی ایجنٹ یہ تدابیراکثر اپنے اقتدار کو برقراررکھنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ وُہ مردوں سے ان کا عسکری جوہر، شجاعت، بہادری اور مردانگی چھیننے کے لیے ان کو بد کاری، فحاشی اور عریانی کی راہ پر ڈالتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر میں لوٹ آنے اور قوم میں بیداری شعور کی مہم کا آغاز کرنے کے بعد فرعون کے سردار اور سیاسی اتحادی اس کو اشتعال دلانے کے لیے اس سے کہتے تھے کہ موسیٰ(علیہ السلام) ملک میں فساد پیدا کر رہا ہے اور رعایا کو تمہاری حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسا رہا ہے لہذا اُس کے خلاف سخت اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ سورہ الاعراف کی ایک سو ستائیسویں آیہ کریمہ میں ارشاد خداوندی ہے :

"اور قومِ فرعون کے سرداروں نے کہا کہ کیا تو موسیٰ علیہ السلام اور اس کی قوم کوکھلی چھٹی دے دے گا کہ وُہ ملک میں(یونہی) فساد پھیلاتے پھریں اور تجھ کو اور تیرے معبودوں کو چھوڑدیں(ان کو نہ مانیں اور ذلیل کریں۔ فرعون نے) کہا۔ ہم ان کے لڑکوں کو قتل کریں گے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھیں گے اور ہم ان پر(ہر طرح) زور آور ہیں"

اس آیہ کریمہ میں"سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَ هُمْ و نَسْتَحْی نِسَا ءَ هُمْ" (ہم ان کے لڑکوں کو قتل کریں گے اور لڑکیوں کو زندہ رکھیں گے) کے الفاظ ذو معنی اور قابلِ توجہ ہیں۔ لفظی اعتبار سے فرعون اپنے مخالف کو قتل کرتا ہے اور معنوی لحاظ سے وہ مردوں کی وہ صلاحتیں معدوم کرتا ہے جن سے مرد کی شجاعت، غیرت اور حمیّت عبارت ہوتی ہے اس غرض کے لیے وہ قوم کو گانے بجانے، رقص و سرود، لہوولعب، فحاشی اور عریانی کے کاموں پر لگاتا ہے، بدکاری کے اڈوں کو عام کرتا ہے۔ جنسی کاروبار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، منشیات اور شراب و کباب کے کاروبار کو پوری آزادی سے فروغ دیتا ہے، نوجوانوں کو قوت، توانائی اور مردانگی سے محروم کرنے کے لیے بدکاری کے کاروبار کی سرپرستی اپنے سیاسی اتحادیوں، ساتھیوں اور اقربا کے ذریعے کرتا ہے۔ اس کاروبار کو فروغ دینے کے لیے حکومت خزانوں کے منہ کھول دیتی ہے۔ فحش قصے کہانیاں، افسانے، لٹریچر اور رقص و سرود کی تعلیم و تربیت دینے کے لیے آرٹس کونسل، رقص و غنا کے تھیٹروں اور بد چلنی کے اندر اکھاڑوں کو جگہ جگہ قائم کرتا ہے۔ اپنے وزیروں مشیروں کو بد چلنی اور فحاشی کے اڈلے بنانے کے لیے بڑی بڑی اراضیاں اور پلاٹ الاٹ کرتا ہے، بوڑھے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں سب بے حیائی کے حمام میں یکساں ننگے ہوتے ہیں، مخنثوں اور ہیجڑوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ان کو کھلے عام بد چلنی کرنے دیا جاتا ہے، اغلام بازی عام ہو جاتی ہے۔ نوخیز لڑکوں اور نوجوانوں کو عورتوں کی طرح حلیہ بنانے اور بننے سنورنے پر لگا دیتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

از حیا بیگانہ پیرانِ کہن
نوجواناں چوں زناں مشغول تن

(اقبال)

اس کے ساتھ ہی وہ نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو عریانی اور فحاشی کے کاروبار میں مختلف حیلے بہانوں سے ملوث کرتا ہے اور ان کو بدنامی کے خوف میں مبتلا کر کے بلیک میل کرتا ہے۔ قران کی مذکورہ بالا آیہ کریمہ میں فرعون کا عورتوں کو زندہ رکھنے کا معنوی طور پر یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ عورتوں کو ایسے مشاغل اور افعال کی طرف راغب کرتا ہے کہ جس میں عریانی، بر ہنگی اور بے حیائی کی ضرورت کاروباری لحاظ سے لازم ہوتی ہے۔ جیسے موجودہ دور میں فلم، تھیٹر، ڈرامہ، کاروباری اشتہارات اور کیٹ واک جیسے ایمان سوز کاروبار جس میں عورتیں اپنی عصمت و عفت کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نسوانی حسن کا مظاہرہ بر سر بازار آ کر کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ حکومتی سر پرستی میں سرِ عام کیا جاتا ہے، ہر زمانے کا ڈکیٹیٹر، آمر اور ناجائزذریعے سے حکومت پر قابض ہونے والا حکمران بد چلن عورتوں کے ذریعے اپنے ساتھیوں کو قابو کرتا ہے۔ وُہ عورتوں کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کے لیے ان کے عشوہ و شوخی و غمزہ کو حداعتدال سے اتنا آگے بڑھاتا ہے جہاں سے فتنہ و فساد کی حدیں شروع ہوتی ہیں اور اس طرح شَرٌّ النَفَّثٰتٍ کو پروان چڑھا کر معاشرہ کو بے حیائی اور عیش پرستی میں غرق کر دیتا ہے۔ اس طرح کے بد کردار مردوں اور عورتوں سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے ان کے خون میں بھی فحاشی اور بدکرداری کے جراثیم شامل ہو تے ہیں۔ ایسے بچے اپنے گھر، والدین، اقرباء، عزیزوں اور ماں باپ کے دوستوں کی محافل میں جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ بچپن سے ہی وہی کچھ خود کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے بچے کی جان اور ایمان و عقیدہ کی حفاظت، بقا اور نشو ونما چاہے لڑکا ہو یا لڑکی ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے۔ سورہ الانعام کی آیت کریمہ ایک سو اکاون میں مفلس اور نادار ماں باپ کو بھی اللہ جل شانہ‘ کا حکم یہ ہے کہ وہ مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل نہ کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جس طرح ماں باپ کو رزق دیتا ہے اسی طرح وہ ان کے بچوں کو بھی عطا فرماتا ہے۔ اسی آیہ مقدسہ میں اللہ جل مجدہ‘ ماں باپ کو بے حیائی اور حرام کاری سے بچنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے تاکہ پیدا ہونے والے بچے کی زندگی ولدالزنا ہونے اور ماں باپ کی حرام کاری کاداغ لگنے سے محفوظ رہے اور معاشرہ میں عزت و تکریم سے اس کی نشو ونما وہو سکے۔ تکریم اور احترام انسانیت کی نشوونما اور بقا کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نطفہ انسانی کی پاکیزگی کو لازم قرار دیا ہے۔ مردوزن کا آزادانہ اختلاط شریعت میں ان حرام اعمال میں آتا ہے جس سے زمین پر فساد رونما ہوتا ہے۔ فساد فی الارض کو دین اسلام میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے۔ جس کی سزا حدود اللہ سے تجاوز کے ذیل میں آتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

"اور(اے لوگو!) بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ(خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وُہ پوشیدہ ہوں اور (حرام کاری چھپانے کے لیے) اس جان کو قتل نہ کرو جسے(قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ بجزِ حقِ(شرعی) کے یہی وہ (امور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تا کہ تم عقل سے کام لو۔ "

(الانعام : 151)

اسلامی معاشرہ میںبے حیائی، زنا اور حرام کاری کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ایک ناجائز بچے کی پوری زندگی اس کے لیے جہنم زار بن جاتی ہے، وُہ ساری عمر ماںباپ کے گناہوں کے بوجھ تلے محرومی، بیکسی اور احساس ِ ندامت کے تحت ایک عجیب شرمندگی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کی نگاہیں ہر کسی کے سامنے جھکی رہتی ہیں دائمی خوف و غم میں مبتلا وہ ایک عضو معطل بن جاتا ہے اور اس طرح وہ معاشرے کا کارآمد رکن بننے کی بجائے بیکار محض بن کر وقت گذارتا ہے۔ سوسائٹی میں اس کا کوئی ساتھی ہوتا ہے اور نہ کوئی والی وارث۔ دین اسلام ہر شخص کو شرمندگی اور مستقل احساسِ ندامت سے محفوظ رکھنے کے لیے برائی کو اس کی جڑ سے ختم کرتا ہے اورناجائز بچے کو جنم دینے والے ماں باپ کو حرام کاری کرنے سے پہلے سختی سے تنبیہہ کرتا ہے کہ وُہ نطفَّہ انسانی کی حفاظت کرے اور بے حیائی کے نزدیک بھی نہ جائے وہ سوچے کہ وقتی نفسانی خواہش کی تکمیل اور لذت کے لیے وہ ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے کہ جس کی وجہ سے ساری عمر کے لیے وہ اپنی اولاد اور ایک با عزت بندہ خداکو ندامت اور شرمندگی کے ایسے عمیق گڑھے میں گرا رہا ہے۔ جہاں وہ ساری عمر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ دین اسلام نے انسانیت کی اس گھناؤنی تذلیل کے سدباب اور نطفہءِ انسانی کی حرمت اور پاکیزگی کی حفاظت کے لیے قانون شریعت میں ایسی سخت سزائیں مقرر کی ہیں کہ جس کے خوف سے کوئی مرد اور عورت ناجائز اور حرام تعلقات قائم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔

حضرت آدم و حوا کا اپنی اولاد کو تعلیم و تربیت دینے کا مقصد ان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توحید، ارض و سماء کا مقتدرِ اعلیٰ اور اس کو طاقت و قوت کا واحد مالک و مختار سمجھ کر صرف اس کی عبادت کرنا، اس کی رضا کے حصول کو زندگی کا مقصد سمجھ کر دنیا میں زندگی بسر کرنا اور سفرِ آخرت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سنتِ آدم و حوا پر عمل پیرا ہونے کے لیے دنیا کے تمام ماں باپ کو اپنی صفاتِ ربوبیت و رحمت اور کفالت و حفاظت میں سے کچھ حصہ عنایت کیا ہے لہذا سب والدین اپنے بچوں کے اولین معلم و مربیّ ہوتے ہیں۔ والدین کے تعلیم و تربیت کے طور طریقے کیا ہوتے ہیں ا س کا انحصار والدین کی اپنی حاصل کردہ تعلیم و تربیت اور ماحول کے مطابق ہوتا ہے۔ لیکن ازل سے ابد تک ایک قاعدہ اور کلیّہ طے شدہ ہے کہ ہر نوع کی مخلوقات میں ماں باپ بچوں کی تعلیم، تربیت کفالت اور حفاظت کی ذمہ داری نبھاتے رہیں گے۔

دورِ جدید میں بچے کی خصوصی نگہداشت علمی دنیا کا سب سے اہم موضوع قرار پایا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مونٹیسیری، کنڈرگارٹن اور نرسری طرز کے سکول بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے وجود میں آچکے ہیں۔ جہاں ایک خاص ماحول (particular environment) ڈیزائن کر کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ جہاں خاص قسم کے اساتذہ اور بچوں کی نفسیات کے ماہرین ان کے رویّوں (attitudes, behaviours) کو قوم کے مخصوص تہذیب و تمدن کے سانچوں میں ڈھالنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ تعلیم و تربیت پر مغربی دنیا اور ترقی یافتہ ممالک میں قومی آمدن کا بہت بڑا حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔ پرائمری سطح کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے خاص قسم کے سکول اور ان میں خاص تربیت یافتہ اساتذہ کا تقرر ہوتا ہے۔ غرضیکہ مغربی دنیا اور ترقی یافتہ ممالک بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگہداری کو اہم قومی فریضہ سمجھ کر سر انجام دیتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ جس کربناک صورت میں ان کے سامنے آرہا ہے اس سے نہ صرف مغربی دنیا، امریکہ بلکہ تمام ترقی یافتہ اقوام یکساں طور پرپریشان اور مضطرب ہیں۔ یہ امر ان کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ پرائمری درجات سے ہی بہترین تعلیم و تربیت کے طریقے اختیار کرنے کے باوصف ان کے بچوں کا اخلاق دن بدن تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ درسیّات سے بھی بہت زیادہ وقت اخلاقیات (ethics) برتاؤ (behaviours) اور رویوں (attitudes) کی درستگی اور اصلاح احوال پر صرف کیا جاتا ہے۔

لیکن نتیجہ توقعات کے بر عکس نکلتاہے۔ بچوں کی نفسیات کے ماہرین، تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کے اداروں کے اساتذہ اور سماجی انجمنوں اور جماعتوں کے کار پردازاں سب پریشان ہیں کہ بچپن سے ہی بچوں میں جھنجھلاہٹ، ذہنی انتشار، ظلم و تشدّد کے رجحانات، جنسی بے راہ روی اور منشیات کے استعمال کا رجحان خطرناک حد تک بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ سکول، ہاسٹلوں اور گھروں میں بچوں کے رویوں میں جارحیت (aggresion) خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر طیش میں آجانا اور شدید غصے کا اظہار معمول بن چکا ہے۔ اس موضوع پر ہرجگہ بڑے بڑے سیمنار، سمپوزیم، کانفرنسوں اور مذاکرات کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ؛جو ان کے فکرو خیال سے اوجھل ہے۔ وُہ ایک نیک اور صالح ماں کی گود کی اہمیت اورضرورت کا ہے۔

مغربی دنیا اور ترقی یافتہ ممالک کا سب سے بڑا المیہ "صالح آغوش مادر" کا فقدان ہے۔ یہی بیماری ملک عزیز کے نئے فیشن کے دلدادہ خاندانوں کو بھی تیزی سے لاحق ہو رہی ہے جہاں ایک خاتون کی دینداری، نیکی، تقویٰ اور پرہیز گاری دیکھنے کی بجائے اس کے خاندان کی مالداری، ثروت، اقتدار، لمبی چوڑی جہیز دینے کی سکت، آزاد سوسائٹی اور فیشن زدہ ماحول کو دیکھ کر اُسے بیاہ کر لایا جاتا ہے۔ چند دِن شادی کو خوشی دیکھنے کے بعد پھر غم ہی غم کا دور شروع ہو جاتا ہے لیکن حقیقی المیہ اولاد کی پیدائش کے بعد شروع ہو جاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی روشنی میں بچے کی نگہداشت اور ایمانی حفاظت کے لیے صالح ماں کی آغوش موجود نہیں ہوتی ہے۔

سلوک و تصوف میں نیک، صالح، متقی، پرہیزگار اور دینی تعلیم سے مزیّن "ماں" کا بہت اہم کردار ہے۔ ایک ایسا کردار جو بچے کو اس کی آغوش سے لے کر سفرِ آخرتک ایک ایسے روحانی الذہن معاشرہ کی تشکیل کے لیے تیار کرتا ہے۔ تصوف، اخلاقیات اور خاص کر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی اتباع سے مزیّن ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے آراستہ ایک مومنہ ماں؛ اللہ جل مجدہ کے احکامات، معلِّم کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات اور دین اسلام کی تعلیمات کی پیروی کے تحت بچے کی پرورش اور نگہداشت کو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر سر انجام دیتی ہے اور اس کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا نیکی کا عمل سمجھتی ہے۔