علامہ محمد حسین آزاد
ایم فل علوم اسلامیہ منہاج یونیورسٹی
(پہلی قسط)
منہاج یونیورسٹی کالج آف شریعہ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیری خدمات کے حوالے سے پہلا ایم فل کرنے کا اعزاز جامعہ کے ابتدائی فاضلین میں سے علامہ محمد حسین آزاد نے حاصل کیا ہے جو جامعۃ الازہر سے "الدورۃ التدریبیہ" میں بھی سند یافتہ ہیں اور مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ کے علاوہ مجلہ دختران اسلام کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں جن کا مقالہ قارئین کے استفادہ کے لئے بالاقساط شائع کیا جارہا ہے۔ پہلی قسط تحقیقی مقالہ کے مقدمہ پر مشتمل ہے جس میں مقالہ کی اہمیت، سبب، تفسیری تفردات کی تعریف، اسلوب تحقیق اور دائرہ کار کو واضح کیا گیا ہے۔
قرآن حکیم قیامت تک ہمارے لئے منبع اور سرچشمہ ہدایت ہے جس کا مخاطب پوری کائنات ہے۔ صرف لفظ قرآن پر ہی غور کریں تو اس کے کئی مادہ اشتقاق ہیں۔ ان میں سے اگر قرء سے قرآن کو مشتق مانیں تو اس کے دو معنی ہوں گے۔ ایک وہ قرآن جسے جمع کیا گیا اور دوسرا وہ قرآن جس کے اندر سب کچھ جمع کر دیا گیا۔ پہلے معنی کی رو سے قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَه‘ وَقُرْاٰنَه‘
( القيامة، 75 : 17)
"بے شک اسے (آپ کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ذمہ ہے۔ "
دوسرے معنی کے حوالے سے قرآن حکیم نے ارشاد فرمایا :
وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلّا فِيْ کِتَابِ مُّبِيْنٌ
( الانعام، 6 : 59)
"اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں۔ "
یہی وجہ ہے کہ قیامت تک سائنس جتنی ترقی کرتی جائے گی۔ وہ قرآن میں موجود سائنسی حقائق کی تصدیق کرے گی اورمتلاشیان علم و حکمت اس سے کما حقہ مستفید اور مستفیض ہوں گے۔
اﷲ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو تخلیق فرما کر ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور ان میں سے چار جلیل القدر رسولوں پر مبنی چار عظیم البرکت کتابیں نازل فرمائیں جن میں تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام، زبور حضرت داؤد علیہ السلام، انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اپنی آخری کتاب قرآن نبی آخرالزماں حضرت سیدنا محمد مصطفی ا پر نازل فرمائی۔ جس کے متعلق ارشاد فرمایا :
وَاَنْزَلْنَا اِلَيْکَ الذِّکْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَيِهْمْ
( النحل، 61 : 44)
" اور (اے نبی مکرم!) ہم نے آپ کی طرف ذکر عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے۔ "
اس آیت سے روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید کی تشریح و تفسیر کرنا نبی اکرم اکے فرائض میں سے تھاجس کا آپ انے اپنی حیات طیبہ میں بدرجہ اتم اہتمام فرمایا۔ حضور ا کا اس تفسیری ذمہ داری کو پورا فرمانا من جانب اﷲ تھا جو حدیث و سنت کے زمرے میں آتا ہے۔ جسے وحی غیر متلو کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں نبی اکرم انے ارشاد فرمایا :
الاانی اوتيت الکتاب ومثله معه
(ابوداؤد، سليمان بن اشعث سجستانی، السنن، کتاب السُنة، باب فی لزوم السنة، بيروت، لبنان : دارالفکر، 994، رقم : 811، ص 393)
" آگاہ رہو بے شک مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اس کی مثل (حدیث) بھی دی گئی ہے۔ "
اس مقام پر مثلہ معہ یعنی اس کی مثال اس کے ساتھ سے مراد حدیث و سنت ہے جو قرآن حکیم کی طرح اﷲ تعالیٰ اپنے نبی ا پر بصورت وحی نازل فرماتا تھا۔ اسی لئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا :
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیo إِنْ هُوَ اِلّاَ وَحْیٌ يُّوْحٰی
(النجم، 53 : 3.4)
" اوروہ (اپنی )خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ ان کا ارشاد سراسر وحی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔ "
قرآن و سنت میں فرق یہ تھا کہ قرآن حکیم بصورت الفاظ نازل ہوتا تھا اور سنت بصورت معانی وحی کی جاتی تھی جسے نبی اکرم ااپنے اعمال یا تفسیری و تشریحی الفاظ سے ظاہر فرماتے تھے۔ دونوں میں فرق قرآن حکیم کی اس آیت کریمہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا :
وَلَا تَجْعَلْ يَدَکَ مَغْلُوْلَة اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ
(الاسراء : 17 : 29)
اس آیت مبارکہ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ " اپنے ہاتھ کو گردنوں پر نہ باندھو اور نہ بالکل کھلا چھوڑ دو۔ " جبکہ تفسیری ترجمہ یہ ہے کہ "حد درجہ بخل سے کام نہ لو اور نہ اسراف کرو۔ "
اس مثال سے یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ تفسیر ی ترجمہ سے آیت کا نہ صرف اصل مطلوب و مقصود حاصل ہو گیا بلکہ لفظی ترجمہ کا ابہام بھی دور ہوگیا اور فہم و ادراک میں آسانی پیدا ہو گئی۔
اہمیت موضوع
قرآن کے سب سے پہلے مفسر خود حامل قرآن نبی اکرم ا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم تفسیر کو اسلامی علوم و فنون میں سب سے اعلیٰ، افضل اور اشرف علم ہونے کا مقام حاصل ہے۔ اسی بناء پر یہ علم صرف مسلمانوں کا علمی ورثہ ہے جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب، فلسفہ، تھیوری اور فکر ونظریہ میں نہیں ملتی۔ اگر ہم الہامی ادیان اور دیگر مذاہب کا مطالعہ کریں تو یہودیت و عیسائیت کے علاوہ مجوسیت اور صابیت میں بھی یہ علم کہیں نظر نہیں آتا۔
قدیم ترین مذاہب عالم اور جدید دور کے عقائد و نظریات میں بھی یہ علم مفقود ہے۔ اسی طرح دوسری الہامی کتب کی نہ کوئی تفسیر ہوئی اور نہ کسی یہودی اور عیسائی عالم نے لکھنے کی کوشش کی۔ یہ علم تفسیر صرف مسلمانوں کا خاصہ ہے اور دیگر ادیان و مذاہب پر اسلام کی علمی برتری اور فوقیت کا آئینہ دار ہے۔ تفسیر قرآن کے حوالے سے مسلمانوں کا عظیم کارنامہ اصول تفسیر کے فن کی بنیاد رکھنا ہے۔ ان اصولوں نے آج تک اس فن کو زندہ رکھا ہے۔ اس کے سامنے جملہ مذاہب اور افکار و نظریات سرنگوں ہیں۔ یہ علم تفسیر خود نبی اکرم ا کے اپنے الفاظ، معانی اور اعمال پر مشتمل ہے اور انہی کی قولی، عملی اور تقریری تبیین و توضیح کو تفسیرکہا جاتا ہے۔ اس علم کو علوم اسلامی میں اعلیٰ، ممیز اور ممتاز مقام حاصل ہے۔
اعجاز قرآن کے حوالے سے اس میں دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ قرآن حکیم کے الفاظ کے معانی پر کوئی حدلاگونہیں ہوتی کیونکہ جس طرح یہ اس ہستی کا کلام ہے جس کی کوئی انتہااور حد نہیںاسی طرح اس کے کلام کے معانی اور مفاہیم کی بھی کوئی حد نہیں۔ یہی حقیقت ہمارے زیربحث موضوع سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔
سبب اختیار موضوع
قرآن مجید کو اﷲ تعالیٰ نے محاورہ عرب کے عین مطابق نازل فرمایا اور ان لوگوں میں نازل فرمایا جو فصیح اللسان تھے اور عقل و فہم میں اپنی مثال آپ تھے۔ مگر اس کے باوجود انہیں بعض اوقات تفسیر کی ضرورت محسوس ہوتی جس کے بغیر آیات قرآنی کے مدعا و مقصود کو سمجھنا ممکن نہیں تھا۔ جیسے جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی :
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبَسُوْ اَيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَهُمُ الْاَمْنَ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَo
( الانعام، 6 : 82)
"بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا وہی لوگ ہیں جن کے لئے امن و سلامتی ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔ "
اس آیت کریمہ کے نزول پر صحابہ کرام میں اضطراب اور پریشانی کی کیفیت پیدا ہوئی اور انہوں نے حضور نبی اکرم ا سے عرض کیا یا رسول اﷲ ا ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے اوپر ظلم نہ کیا ہو ؟۔ لہٰذا ہم ہدایت یافتہ نہ رہے۔ حضورانے اپنے صحابہسے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا : "تم اس آیت میں ظلم کا معنی و مفہوم نہیں سمجھے۔ اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے۔ لہٰذا ان مومنوں کو ہدایت یافتہ کہا جا رہا ہے جنہوں نے اپنے ایمان کو شرک سے بچائے رکھا۔ "حضور اکی اس تفسیر اور تشریح سے صحابہ کرام کا اضطراب دور ہو گیا۔
دوسرے مقام پر قرآن پاک نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عظِيْمٌo
(لقمان، 3 : 31)
"بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ "
اسی طرح جب آیت صوم کا نزول ہوا تو ایک مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
حَتّٰی يَتَبَيَنَ لَکُمُ الْخَيْطُ اْلاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ o
( البقرة، 2 : 187)
"یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے۔ "
اس آیت کو سن کر ایک سادہ لوح صحابی آیت کو ظاہری معنی پر محمول کرتے ہوئے سحری کھانے کے بعد دودھاگے سفید و سیاہ لے کر لیٹ گئے اور دیکھنے لگے کہ سیاہ دھاگہ سفید دھاگے سے کب بدلتا ہے۔ اس بات کی خبر جب حضور نبی اکرم ا کوہوئی تو حضور انے اس آیت مبارکہ کی تفسیر اور تشریح فرماتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ جب صبح کی سفیدی نمایاں ہونے لگے تو اس وقت سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ اﷲ رب العزت کی طرف سے بھی من الفجر کے الفاظ کا اضافہ کر دیا گیا۔ جس سے آیت کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو گئی۔ یہی قرآنی مثالیں زیربحث موضوع کو اختیار کرنے کا سبب بنیں۔
تفسیری تفردات سے مراد
تفسیری تفردات سے مراد مختلف آیات قرآنی سے وہ منفرد استنباط و استخراج ہے جو اصول تفسیر کے عین مطابق ہو مگر کسی ایک مفسر کا خاصہ ہو اور وہ اس کی اپنی تحقیق ہو جسے وہ اپنی طرف منسوب کرتا ہو اور حقیقتاً ایسا ثابت بھی ہو جائے کہ ان نکات کو کسی دوسرے مفسر نے بیان نہیں کیا تو وہ اس کا تفرد کہلاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیر ابھی منظر عام پر نہیں آئی مگر انہوں نے کئی تفسیری کتب تصنیف کی ہیں جن میں سے چند اہم یہ ہیں۔ تفسیر منہاج القرآن (سورۃ الفاتحہ )، تفسیر منہاج القرآن (سورۃ البقرۃ)، معارف الکوثر، تحفۃ السرور فی تفسیر آیہ نور، تسمیۃ القرآن، تفسیرتعوذ، لا اکراہ فی الدین کا قرآنی فلسفہ، مقام محمود، شان اولیاء، مناہج العرفان فی لفظ القرآن وغیرہ۔ لہٰذا اس مقالہ میں موصوف کی مذکورہ تفسیری کتب کے علاوہ مختلف موضوعات پر دیگر علمی و تحقیقی کتب، درس قرآن و خطابات میں مختلف آیات کی تفسیر سے تفسیری نکات حاصل کئے گئے ہیں۔
اسلوب تحقیق
اس موضوع پر قلم اٹھانے کا خیال اس وقت لوح ذہن پر مرتسم ہو گیا تھا جب راقم نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بعض خطابات سنے اور ان کی کتب کو پڑھا۔ جس میں انہوں نے قرآنی آیات کی تفسیر کے ضمن میں ایسے نکات بیان کئے جو بالکل منفرد اور نئے معلوم ہوتے تھے۔ اس سے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کیوں نہ ان نکات کو موضوع تحقیق بناکر اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ واقعتا یہ علمی نکات اور استدلال نو دیگر مفسرین کے ہاں ہے یا نہیں۔ نیز اس تحقیقی مطالعہ سے معلوم کیا جائے کہ ڈاکٹر صاحب کے اس علمی استنباط و استخراج اور قرآن فہمی سے دیگر مفسرین اور علماء کا اختلاف تو نہیں۔ آیا ان کا یہ استدلال نو قرآن سے متصادم تو نہیں ؟ پھر ان تفردات کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان ہو گا۔ پھر اسی نکتہ نظر سے راقم نے ڈاکٹر صاحب کی تفسیری کتب سے تفسیری نکات کو نکال کر جمع کیا اور اگر کسی عالم یا مفسر کا تحریری اختلاف ملا تو دیانتداری سے اسے نقل کیا اور اگر کسی طرف سے اس کا جواب دیا گیا تھا تو اسے بھی من و عن تحریر کر دیا اور فیصلہ قوی دلائل پر چھوڑ دیا۔ علاوہ ازیں ان کے اردو ترجمہ عرفان القرآن کا دیگر اردو تراجم کے ساتھ جو تقابل شائع ہو چکا ہے اسے بھی من و عن نقل کر دیاگیا تاکہ تحقیق میں غیرجانبداری کا عنصر غالب رہے۔ اس نہایت اہمیت کے حامل علمی و تحقیقی کام کو عرق ریزی کے ساتھ منظرعام پر لانے کیلئے مزید درج ذیل چیزوں کو پیش نظر رکھا گیا۔
- اس کی تحریر میں ایسا عام فہم اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ موضوع کے افہام اور ابلاغ میں بھی تفسیر کی شان دکھائی دے۔
- اس کی تحقیق میں بنیادی مصادر سے استفادہ کیا گیا۔
- مقالے کی تیاری کیلئے ڈاکٹرفریدالدین ریسرچ انسٹیٹوٹ کی لائبریری اور منہاج یونیورسٹی کی لائبریری سے استفادہ کیا گیا۔
- مواد کے حصول کے لیے کیسٹس اور رسائل سے بھی مدد لی گئی۔
- مختلف متعلقہ احباب سے بھی مشاورت کر کے ان کی رائے حاصل کی گئی۔
دائرہ کار
میں نے اس مقالے کو تین ابواب میں تقسیم کیا جس کی ضروری تفصیل درج ذیل ہے۔
- پہلاباب
"تفسیر کا تعارف واقسام "یہ باب دو فصلوں پر مشتمل ہے۔ فصل اوّل میں تفسیر کا تعارف کراتے ہوئے تفسیر کے لغوی اور اصطلاحی معنی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ فصل دوم میں تفسیر کی تین اقسام، تفسیر بالماثور، تفسیر بالرائے اور تفسیر اشاری کوتفصیلاً تحریر کیا گیا ہے۔
- دوسرا باب
"ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا تعارف" یہ باب تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں آپ کے حالاتِ زندگی اور علمی و تحقیقی خدمات تحریر کی گئی ہیں جبکہ دوسری فصل میں جیّد علماء و مشائخ کی نظر میں آپ کا مقام و مرتبہ تحریر کیا گیا ہے۔ تیسری فصل میں آپ کا بطور مفسر تعارف کرایا گیا ہے۔
- تیسرا باب
"ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تفسیری تفردات و امتیازات " اس نہایت اہمیت کے حامل باب کوبھی تین فصلوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلی فصل میں آپ کے ترجمہ عرفان القرآن کے تفسیری معارف اور جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں قرآنی صداقت کو واضح کیا گیا ہے۔ دوسری فصل مختلف سورتوں کے تفسیری تفردات و امتیازات پر مشتمل ہے۔ جب کہ تیسری فصل مختلف قرآنی آیات کی تفسیری کتب کے تفردات و امتیازات پر مشتمل ہے۔
آخر میں نتائج، خلاصہ اور سفارشات تحریر کی گئی ہیں۔ جن کے بعد اشاریہ اور مصادر و مراجع وغیرہ کی فہارس دی گئی ہیں۔
وما توفيقی الا باﷲ
مجھے اپنی کم علمی اور کم مائیگی کا احساس ہے کہ مقدور بھر کوشش کے باوجود ایک عظیم نابغہءِ روزگار شخصیت کی علمی خدمات اور تفسیری تفردات و امتیازات کا کما حقہ احاطہ نہیں کر پایا۔ تاہم یہ بارش کے پہلے قطرے کی طرح آغاز ہے۔ اس موضوع پر مزید محنت اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ جن تفسیری تفردات و امتیازات کو اخذ کیا گیا ہے۔ ان میں بھی احساسِ تشنگی باقی ہے۔
آج جبکہ میرا تحقیقی کام پایہءِ تکمیل تک پہنچ رہا ہے۔ میں اپنے باری تعالیٰ کے حضورسراپا تشکر و امتنان ہوں کہ اس کی توفیق خاص سے اس قابل ہوا کہ اپنے عظیم قائد، مربی اور استاذ کو ان کی شایان شان تو نہیں مگر یہ چھوٹا سا تحفہ پیش کر سکوں۔ میرے یہ بے ربط ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر مشتمل یہ اوراق ایک عظیم مصلح اور مجتہد کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت کے سوا کچھ نہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ صرف ایک ذات اور شخصیت نہیں بلکہ مکمل ادارے اور تحریک کا نام ہے جو اپنی زندگی ہی میں علم و تحقیق کے میدان میں خودحوالہ بن چکے ہیں۔