سید محمد عابد
بچوں کو جو کچھ شروع سے سمجھایا جاتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں وہ بھی ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر انسان مستقبل میں بچپن اور جوانی کے اثرات اور تجربات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اگر بچوں کو بچپن سے ہی سائنس و ٹیکنالوجی کے ماحول میں رکھا جائے جہاں وہ روزانہ سائنسی تجربات سے ہمکنار ہوں تو وہ ان چیزوں میں دلچسپی لیں گے اور اس طرح بچوں میں سائنس کا شعور پیدا ہوگا۔ ان بچوں کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں ان کا جوش وجذبہ سائنس وٹیکنالوجی سے وابستہ ہو تو ملک میں تقریباً ہر دو سے چار دن میں ایک نئی ایجاد سامنے آئے گی۔
سائنس کو اردو میں علم کہتے ہیں اور علم کا مطلب ہوتا ہے جاننا یا آگہی حاصل کرنا، اپنے اردگرد کے ماحول کا مشاہدہ کرنا، مختلف قدرتی چیزوں کے بارے میں سوچنا اور پھر اس پر تجربہ کرنے والے کو سائنسدان کہتے ہیں یعنی سائنسدان وہ ہوتا ہے جو مشاہدہ کرتا ہے اور سوچ کر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ یہ سب کچھ بچے تو بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں اور آج کل کے بچے تو دیکھتے ہی دیکھتے بڑی بڑی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ بچوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کا شعور بیدار کر کے ہم متعدد ایجادات کو حاصل کر سکتے ہیں۔
اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ علم انسان کا زیور ہے اور یہ انسان کو سنوارتی ہے۔ تو اس تعلیم کو ہم سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر تعلیمی اداروں میں ہفتے کے دوران کسی ایک دن ایک آدھ گھنٹہ سائنسی تجربات میں لگایا جائے یا پھر سال میں ایک دن سائنسی تجربات کے لئے وقف کر دیا جائے۔ اس دن اساتذہ بچوں کو سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق اہم معلومات فراہم کریں اور بچوں کو نئی نئی چیزیں بنانے کا موقع دیں۔ اس کے علاوہ سال بھر میں سائنس سے متعلق بچوں کے مختلف شوز بھی منعقد کئے جائیں۔
پاکستان میں ذہانت کی کمی نہیں ہے اور اس بات کو پاکستان کے ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والا چودہ سالہ بابر اقبال ثابت کر چکا ہے۔ اس کم عمر لڑکے نے اپنی چھوٹی سی عمر میں بھی انفورمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں چار ورلڈ ریکارڈ قائم کئے۔ بابر اقبال نے پہلا ورلڈ ریکارڈ نو سال کی عمر میں قائم کیا۔ اتنی کم عمری میں چار ورلڈ ریکارڈ حاصل کرنے کی وجہ سے مائیکر وسوفٹ نے بابر اقبال کو امریکہ میں مفت تعلیم کے لئے منتخب کیا۔ جس طرح جاوید اقبال نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں اپنی کم عمری کے باوجود چار ورلڈ ریکارڈ قائم کیئے، بالکل اسی طرح کل کوئی اور بچہ سائنسی ایجاد بھی کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کو تعلیمی اداروں کی سطح پر فروغ دیا جائے۔ غیر سرکاری اسکولز ہر ہفتے کوئی نہ کوئی دن مثلا رنگوں کا دن، ماں کا دن، باپ کا دن، پھولوں کا دن، خوراک کا دن اور دیگر ایام مناتے ہیں جو کہ بچوں کو معلومات فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ ہم بالکل اسی طرح ایک دن سائنس و ٹیکنالوجی کے نام پر منا سکتے ہیں۔ ویسے تو یونیسکو کے کہنے پر ہر سال دنیا بھر میں 10 نومبر کو ورلڈ سائنس ڈے منایا ہی جاتا ہے مگرملکی سطح پر بھی تعلیمی اداروں میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے ایک دن وقف کرنا بہترین اقدام ہوگا۔
ملک میں پاکستان سائنس فاؤنڈیشن (پی ایس ایف) سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے کام کر رہا ہے۔ پی ایس ایف ملک بھر میں پانچ سائنس سینٹرز قائم کر رہا ہے جو کہ سائنس کی ترقی کے لئے کام کریں گے۔ ان سینٹرز کی تعمیر تین سال کے عرصے میں دو سو ستاون اعشاریہ بہتر چار ملین لاگت سے مکمل ہو گی۔ ان پانچ سائنس سینٹرز میں سے دو صوبہ بلوچستان جبکہ باقی دیگر صوبوں میں تعمیر کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ پی ایس ایف تین سال کی ہی مدت میں ملک بھر کے 100 اسکولوں میں پچاسی اعشاریہ ترانوے نو ملین کی لاگت سے سائنس کلب تعمیر کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ پی ایس ایف کے تعاون سے پی ایس ایف کے علاوہ نیشنل اکیڈمی آف ینگ سائنٹسٹ، پاکستان سائنس کلب اور دیگر ادارے بھی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہ بات جان کر نہایت افسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں سائنس ڈے ہر سال دھوم دھام سے منایا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں گزشتہ سال مالی و دیگر وجوہات کی بنا پر سائنس ڈے ہی نہیں منایا گیا۔ ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کی بات تو کر رہے ہیں مگر سال میں آنے والے سائنس کے عالمی دن کو ہی نہیں مناتے۔ حکومت پاکستان کو سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے متعدد انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔