دین اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ دین اسلام نے انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے لئے مکمل تعلیم و ہدایت کا سامان فراہم کیا ہے۔ اگر دین کو ایک کل مانا جائے تو اس کل کے تین اجزاء بنتے ہیں:
- ایمانیات و عبادات (Beliefs and Prayers)
- معاملات و تعاملات (Dealings and Conduct)
- اخلاقیات و ادبیات (Morality and Ethics)
قرآن و حدیث میں ان میں سے ہر ایک کی مکمل تفصیل آئی ہے۔ آج امت مسلمہ بالعموم اور پاکستانی قوم بالخصوص دینی تعلیمات سے منہ موڑ چکی ہے یا موڑتی جارہی ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ہر لحاظ سے زوال کا شکار ہیں۔ ہمارے عقائد و عبادات ہوں یا معاملات و تعاملات یا پھر اخلاقیات و ادبیات سبھی گراوٹ کا شکار ہیں۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
ہمارے معاملات تو بہت زیادہ بگڑ چکے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے حقوق بھول گئے۔ ہر ایک اپنی انا کی آگ میں جل رہا ہے۔ ہر صاحب اختیار اپنے ماتحت پر اپنے حق اور اختیار کا (الا ماشاء اللہ) غلط استعمال کرتا ہے۔ اگر وہ خاوند ہے تو وہ اپنے حق شوہر کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنی بیوی پر ناجائز تشدد کرتا ہے۔ اگر والدین ہیں تو اپنی اولاد پر حد سے زیادہ سختی اور مارپیٹ کرتے ہیں۔ اسی طرح مدارس یا سکول کے اساتذہ بھی اپنے طلباء و طالبات کی جائز سرزنش کرتے ہوئے بھی حد سے تجاوز کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آئے روز ٹی وی اور اخبارات میں جلی حروف میں خبریں لگتی ہیں کہ ٹیچر نے تشدد کرتے ہوئے بچے کا سر پھوڑ دیا یا بازو توڑ دیا وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا تشدد بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ لگتا ایسے ہے کہ ہم من حیث القوم انتہاپسندی (Extremism) کی طرف جارہے ہیں۔ ایسا نہ ہو ہم انجانے میں مارے جائیں اور یہ رویہ ہمیں دوزخ کے گڑھے میں گرادے۔ (العیاذ باللہ) آیئے ہم سب اپنے اس رویے سے خدا کے حضور معافی مانگیں اور دین اسلام کی دی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں معتدلانہ زندگی بسر کریں۔ اگر ہم اپنے ماتحت کی جائز سرزنش بھی کریں تو حد سے تجاوز نہ کریں۔
ذیل میں چند قرآنی آیات اور احادیث بیان کی جائیں گی تاکہ ہم حقیقت جان سکیں اور پھر اس نیت سے پڑھیں کہ جو جو تعلیم ملے گی اس پر کماحقہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ چنانچہ صحیفہ انقلاب کی سورۃ النساء میں ارشاد خداوندی ہے:
وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِلا وَمَا مَلَکَتْ اَيْمَانُکُمْ ط اِنَّ اﷲَ لَا يُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا.
’’اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بے شک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو‘‘۔
(النساء، 4: 36)
مندرجہ بالا آیت بینات میں اللہ جل جلالہ نے مختلف افراد معاشرہ، مختلف رشتہ داروں اور مختلف ماتحتوں کا ذکر کرکے حکماً فرمایا کہ ان سے حسن سلوک کرو۔ ان پر بے جا سختی اور درشتی نہ کرو۔
متذکرہ بالا آیت کریمہ میں ’’وما ملکت ايمانکم‘‘ کے الفاظ بڑے قابل غور ہیں۔ اس کے معانی و مفاہیم مختلف تراجم قرآن کی روشنی میں ملاحظہ فرمایئے:
- تفسیر ضیاء القرآن از پیر کرم شاہ الازہری ’’اور جو (لونڈی غلام) تمہارے قبضے میں ہیں‘‘۔
- عرفان القرآن از ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ ’’اور جن کے تم مالک ہوچکے ہو‘‘۔
- تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف ’’جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام کنیز)‘‘۔
ان تمام تراجم کی روشنی میں یہ بات بالاتفاق کہی جاسکتی ہے کہ اس سے مراد لونڈی، غلام، کنیز، باندی، نوکر، ملازم ہیں۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں:
اس میں گھر، دکان اور کارخانوں، ملوں کے ملازم اور نوکر بھی آجاتے ہیں کیونکہ یہ بھی غلاموں سے ایک گونہ مشابہت رکھتے ہیں۔
اسی طرح حضرت صدرالافاضل نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
یعنی بی بی یا جو صحبت میں رہے یا رفیق سفر یا مجلس و مسجد میں برابر بیٹھے۔
اور مزید لکھتے ہیں:
کہ انہیں ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دو اور سخت کلامی نہ کرو اور کھانا کپڑا بقدر ضرورت دو۔ کاش ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔
ناقابل برداشت ملازمین کو رہا کرنے کا حکم
بعض اوقات ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے ملازمین ہمارا نقصان کرتے ہیں یا سلیقہ مند نہیں ہیں یا وہ وفا شعار نہیں تو اس صورت حال میں ہمیں انہیں آزاد کردینا چاہئے یا انہیں ملازمت سے برخاست کردینا چاہئے تاہم یہ کسی صورت بھی جائز نہیں کہ انہیں ان کے معمولی جرائم کی پاداش میں غیر معمولی سزا دیں چنانچہ اس سلسلہ میں ایک روایت ملاحظہ فرمایئے:
عن ابی علی سويد بن مقدن قال: لقد رايتنی سابع سعة من بنی مقرن مالنا خادم الا واحدة لطمها اصغرنا فامرنا رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم ان نعتقها.
’’حضرت ابو علی سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں نے دیکھا کہ میں بنو مقرن میں ساتواں تھا۔ ایک لونڈی کے سوا ہمارا کوئی غلام نہ تھا۔ ہم میں سب سے چھوٹے نے اس کو طمانچہ ماردیا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس لونڈی کو آزاد کردیں۔
(صحيح مسلم)
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمایئے:
عن ابن عمر رضی الله عنه ان النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم قال: من ضرب غلاما له حدا لم ياته او لطمه فان کفارته ان يعتقه.
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے غلام کو ایسے جرم کی سزا دی جس کا اس نے ارتکاب نہیں کیا یا اسے طمانچہ مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کردے‘‘۔
(صحيح مسلم)
غلاموں کو مارنے سے دوزخ کا عذاب
ہمارا معاشرہ اس قدر بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے کہ ہر بڑا اور وڈیرہ معمولی معمولی کوتاہیوں پر اپنے گھریلو ملازمین پر بہت زیادہ تشد دکرتے ہیں۔ ان ظالموں نے اپنی نجی جیلیں اور قید خانے قائم کررکھے ہیں جہاں پر ان معصوم، غریب اور بے کس لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ مگر ان ظالموں اورجابروں کو خبر نہیں کہ وہ ایسا کرکے اپنے اوپر دوزخ کی آگ واجب کررہے ہیں۔
چنانچہ صحیح مسلم شریف کی ایک روایت پڑھنے کی سعادت حاصل کیجئے۔
حضرت ابو مسعود البدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی:
اعلم ابا مسعود! اے ابو مسعود! جان لو۔ میں غصے کی وجہ سے اس آواز کو سمجھ نہ سکا۔ جب آواز قریب آئی تو وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور آپ فرمارہے تھے:
اعلم ابا مسعود ان الله اقدر عليک منک علی هذا الغلام.
(اے ابو مسعود! تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جتنی قدرت تمہیں اس غلام پر حاصل ہے اس سے زیادہ تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ قدرت والا ہے)۔
میں نے عرض کیا: اس کے بعد میں کسی غلام کو کبھی نہیں ماروں گا۔ ایک اور روایت میں ہے: اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیبت سے کوڑا میرے ہاتھ سے گر پڑا۔ ایک اور روایت میں ہے: میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ غلام خدا کے لئے آزاد ہے۔ حضور سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
امالو لم تفعل للفحتک النار اولمستک النار.
’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو تمہیں آگ جلاتی یا فرمایا: تمہیں آگ چھولیتی‘‘۔
اسی موضوع کی مناسبت سے ایک روایت پڑھئے: حضرت ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ملک شام میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے۔ انہیں دھوپ میں کھڑا کردیا گیا تھا اور ان کے سر پر روغن زیتون انڈیلا گیا تھا۔ انہوں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ کہا گیا: انہیں خراج کی وجہ سے سزا دی جارہی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: انہیں جزیہ کی وجہ سے قید کیا گیا ہے۔ تو حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں شہادت (گواہی) دیتا ہوں کہ میں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
ان الله يعذب الذين يعذبون الناس فی الدنيا.
’’اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں‘‘۔
پھر حضرت ہشام رضی اللہ عنہ وہاں کے امیر کے پاس گئے اور اسے حدیث سنائی تو اس کے حکم سے ان لوگوں کو چھوڑ دیا گیا۔
(صحيح مسلم)
مندرہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ اپنے ماتحتوں پر ناجائز یا حد سے زیادہ تشدد اور ظلم دوزخ کا باعث بنتا ہے۔ اگر ان سے کوئی معمولی جرم سرزد ہو یا معمولی کوتاہی ہو تواس سلسلے میں قرآن حکیم ہماری رہنمائی کرتے ہوئے مومن کی پہچان بتاتا ہے:
وَالْکَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ.
’’اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں‘‘۔
(آل عمران: 134)
اس قرآنی حکم کے تحت انہیں معاف کردیں اور اگر ان سے کوئی بڑا جرم سرزد ہو تو انہیں آزاد کردیں یا نوکری سے برخاست کردیں یا قانون کے حوالے کردیں مگر از خود ہمیں منصف بن کر سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں۔
بلی پر تشدد دوزخ کا باعث بن گیا
ہمارے دین اسلام نے جہاں پر انسانوں پر ناجائز ظلم اور تشدد سے منع فرمایا ہے وہاں پر جانوروں پر بھی تشدد سے روکا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ایک روایت ملاحظہ فرمایئے:
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عذبت امراة فی هرة. حبستها حتی ماتت فدخلت فيها النار لاهي اطعمتها وسقتها اذهی حبستها ولاهی ترکتها تاکل من خشاش الارض. (متفق عليه)
’’ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذا ب دیا گیا۔ اس نے بلی کو پکڑے رکھا حتی کہ وہ مرگئی اور اسی کی وجہ سے وہ عورت دوزخ میں داخل ہوگئی۔ جب اس نے اسے بند رکھا تھا تو اسے نہ کھلایا اور نہ کچھ پلایا اور نہ ہی آزاد کیا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھالیتی‘‘۔
(بخاری و مسلم)
اللہ کی لعنت
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ قریش کے کچھ نوجوانوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک پرندہ باندھ رکھا تھا اور اس پر تیر پھینک رہے تھے اور انہوں نے پرندے کے مالک سے یہ شرط لگارکھی تھی کہ جو تیر بھی خطا جائے گا وہ اسے دے دیا جائے گا۔ جب انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو منتشر ہوگئے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ کس نے کیا ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ بے شک حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص پر لعنت بھیجی ہے جو کسی روح والی چیز کو نشانہ بنائے۔
(بخاری و مسلم)
اسی طرح ایک اور متفق علیہ حدیث ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا:
نهی رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم ان تصبر البهائم.
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے زبان جانوروں کو مارنے کی غرض سے باندھنے سے منع فرمایا۔
(بخاری و مسلم)
چہرے پر مارنا منع ہے
ہمیں ضبط نفس سے کام لینا چاہئے۔ سرزنش کرتے وقت چہرے پر مارنے سے گریز کرنا چاہئے۔ میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:
نهی رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم عن الضرب فی الوجه وعن الوسم فی الوجه.
’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور چہرے پر داغ دینے سے منع فرمایا‘‘۔
(صحيح مسلم)
حضور رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانوں اور جانوروں پر نہ صرف تشدد سے منع فرمایا بلکہ چہرے پر داغ دینے سے بھی منع فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے چہرے پر داغ دیا گیا تھا۔ آپ نے فرمایا:
لعن الله الذی وسمه.
’’اللہ تعالیٰ اس کو داغ دینے والے پر لعنت کرے‘‘۔
(صحيح مسلم)