تیسری قسط
لہذا جو بندہ چاہے کہ اسے شرح صدر نصیب ہوجائے یعنی اس کا سینہ کھل جائے اور منور ہوجائے۔ اسے فتوحات نصیب ہوں۔ اس کے قلب پر الہام ہوجائے، اسے علم کا کشف ہوجائے اور اسے علم لدنی حاصل ہو تو وہ بندہ اپنے اندر تزکیہ و تصفیہ پیدا کرے۔ تقویٰ و پرہیزگاری کا نور، تہجد سے، نوافل سے، عبادات سے، ریاضات سے، رزق حلال سے، آداب سے، اخلاق سے، اچھے معاملات سے اور ظاہرو باطن کی طہارت سے پیدا کرے کیونکہ جب بندہ حرص و لالچ اور دنیاوی اغراض سے پاک ہوکر علم حاصل کرتا ہے تو وہ علم نور بن جاتا ہے اور جب علم نور بن جاتا ہے تو اندر کے اندھیروں کو ختم کردیتا ہے۔ جب اندر کے اندھیرے ختم ہوجاتے ہیں تو آپ کا اندر کا من عرش الہٰی کے ساتھ مل جاتا ہے اور جو انوار عرش الہٰی پر گرتے ہیں وہ آپ کے قلب کے برتن پر گرتے ہیں۔ آپ چلتے فرش پر ہیں اور علم عرش والا آپ کے پاس ہوتا ہے۔ آپ جب بولتے، لکھتے اور بیان کرتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں ہماری بھی عمر گزری ہے کتابوں میں لیکن ہمیں تو یہ چیز نہیں ملی۔ نہ اساتذہ سے سنی اور نہ کسی جگہ پڑھا لہذا تمہیں کہاں سے آگیا؟
یہ بات سمجھ لیں کہ یہ یہاں سے نہیں آتا یہ وہاں سے آتا ہے۔ وہاں کے علم کو لینے کے لئے اگر تم بھی تقویٰ اختیار کرو گے تو اللہ پاک تمہیں علم دے دے گا۔ کیونکہ جو علم تقویٰ کے ذریعے آتا ہے وہ علم نور ہوتا ہے۔اسی لئے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَنَفْسٍِ وَّمَا سَوّٰهَا. فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَا.
’’اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم۔ پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی‘‘۔
(الشمس، 91: 7، 8)
معلوم ہوا کہ نفس پر بھی القاء کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ علم کا، ارادوں کا اور خیر کا القاء و الہام کرتا ہے جبکہ شیطان شر کا القاء کرتا ہے جس سے شر کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ مگر نیکی اور بھلائی کے القاء کے لئے شرط یہ ہے کہ جو آپ پڑھتے ہیں اس کو آپ ادب و خشیت، تقویٰ و طہارت اور خلوص و پاکیزگی کے ساتھ پڑھیں اور نور پیدا کریں۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:
’’کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ علم حاصل کرے جب تک وہ بیس سال روحانی ریاضت اور حصول ادب پر نہ لگادے یعنی بیس سال تک ادب سیکھے کیونکہ ادب میں تقویٰ ہے ، ادب میں طہارت ہے، ادب میں نیت کا اخلاص ہے، ادب میں پرہیزگاری ہے، ادب میں دوسرے کے حقوق ہیں، ادب میں چھوٹے بڑے کے حقوق ہیں بلکہ ادب سے ساری زندگی بدل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ادب ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب ہے۔ اولیاء اور صلحاء کا ادب ہے۔ والدین کا ادب ہے۔ اساتذہ کا ادب ہے۔ بھائی اور بہنوں کا ادب ہے۔ بڑوں کا ادب ہے۔ چھوٹوں کا ادب ہے حتی کہ جانوروں، پرندوں اور چڑیا کا بھی ادب ہے۔ ادب کہتے ہیں حقدار کو اس کا حق دینا۔ جس نے حق دار کو حق دینا نہیں سیکھا اس کے پاس کیا علم ہے۔ لہذا جس کے پاس ادب نہیں اس کے پاس علم نہیں۔
حضرت ذوالنون مصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حصولِ علم کا طریق یہ ہے کہ اے بندے اگر تو صحیح راستہ حاصل کرنا چاہے تو علماء سے جڑجا۔ جب علماء سے جاہل بن کر جڑے گا تب علم ملے گا۔ لہذا عالم ربانی سے ملے تو جاہل بن کر مل تاکہ اس کا علم پھوٹے۔ اگر زاہد سے ملے تو حریص بن کر اور جھک جھک کے خدمت گزار بن کر مل۔ اگر عارف سے ملے جس کو اللہ کی معرفت ہے تو زبان کو تالا لگاکر مل۔ یہ علم حاصل کرنے کے آداب ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص حضرت عبدالرحمن مہدی کی مجلس میں ہنس پڑا تو انہوں نے اس کو اٹھادیا اور فرمایا ایک مہینے تک تمہیں علم نہیں مل سکتا۔ کیونکہ مجلس علم میں ہنسنا بے ادبی ہے۔ لہذا سنجیدہ ہونا چاہئے۔ معلوم ہوا کہ سراپا ادب ہوئے بغیر علم نہیں ملتا۔
حضرت اسماء بیان کرتے ہیں: میں خود حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور کہا حصول علم کے لئے آیا ہوں۔ فرمایا: ٹھیک ہے آجائو۔ آپ نے برتن پانی کا بھر کے وضو کے لئے میرے کمرے میں رکھ دیا۔ صبح تشریف لائے اور دیکھا وہ پانی جوں کا توں تھا تو فرمایا: سبحان اللہ! عجیب قصہ ہے کہ بندہ علم لینے کے لئے آیا ہے اور رات کو تہجد کے لئے نہیں اٹھا۔ جس کے پاس قیام اللیل نہیں ہے اس کے پاس علم الکتاب نہیں آسکتا۔ یعنی جس نے اللہ کے حضور سجدہ ریزی نہیں کی اسے علم کہاں سے ملے۔
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے 20 سال امام مالک کے پاس پڑھا۔ امام مالک نے مجھے 20 سالوں میں 18 سال ادب سیکھایا اور دو سال علم سکھایا۔ آج وفات کے قریب مجھے حسرت ہے کہ وہ دو سال بھی ادب ہی سکھاتے کیونکہ ادب سے علم صحیح کے چشمے پھوٹتے ہیں۔
نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ا للہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو پر رونق کرے اور اسے آباد و شاد رکھے جس نے مجھ سے علم سیکھا۔
لہذا عزیز طلبہ و طالبات! اگر علم کا شغف پیدا ہوجائے تو اللہ کی قسم یہ بھوک اور پیاس مٹادیتا ہے۔ علم کے اندر ہی کھانا ملتا ہے، علم کے اندر ہی پینا ملتا ہے، علم میں فتوحات ہوتی ہیں، علم میں لذت و حلاوت ملتی ہے اور بندہ دنیا و مافیہا کو بھول جاتا ہے کیونکہ علم ایک واسطہ ہے محبت حاصل کرنے کا۔ آپ حدیث کو پڑھ رہے ہیں یا قرآن کو پڑھ رہے ہیں یا سلف صالحین کو پڑھ رہے ہیں تو علم کے ذریعے آپ ان کی صحبت میں ہوتے ہیں۔ جب قرآن پڑھتے ہیں تو صحبت الہٰی میں ہوتے ہیں۔ جب حدیث کی کتاب پڑھتے ہیں تو صحبت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتے ہیں۔ اولیاء و سلف صالحین کی کتابیں پڑھتے ہیں تو آپ ان کی صحبت میں ہوتے ہیں ایسے جیسے بالمشافہ بیٹھے ہوتے ہیں۔
جس بندے کو یہ راز معلوم ہوجائے اور یہ راز اس کے من پر وارد ہوجائے تو پھر اس کو بھوک پیاس کیسے لگے گی۔ اس کی اس لذت سے ہی سیرابی ختم نہیں ہوتی۔ لہذا اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو مطالعہ کے ذریعے علم حاصل کرکے اس کو محفوظ کرلیں اور دوسرے کو پہنچائیں۔ اگر کوئی چیز معلوم نہیں تو پوچھ کر معلوم کریں اور اسے آگے پہنچائیں۔ ان دو طریقوں سے علم زندہ رہتا ہے۔ مذاکرہ ہو، مجالس علم ہوں، ایک دوسرے کو سنائیں تاکہ حفظ ہو اور بار بار ایک چیز کو دہرائیں۔ ائمہ کرام کی عادت تھی کہ اگر بندہ نہ ملتا تو بچے کو بٹھالیتے اور بچے کو بار بار سناتے اور وہ ہمہ وقت مطالعہ کے ساتھ جڑے رہتے۔ اللہ کا شکر ہے مجھے اگر علمی خطاب کرنا ہو تو تازہ مطالعہ کئے بغیر میں سو خطاب بھی کردوں گا لیکن زندگی بھر میں نے ایسا نہیں کیا۔ اگر میں نے ایک خطاب بھی کرنا ہو تو تازہ مطالعہ اس طرح کرتا ہوں جیسے میں جاہل ہوں۔ یعنی اسے طالب علم بن کر پڑھتا ہوں۔ اس پر گھنٹوں لگاتا ہوں۔ میری نصیحت یاد رکھیں کہ اگر آپ نے آدھ گھنٹہ بھی کہیں خطاب کرنا ہے تو اس کے پیچھے کم از کم 3 گھنٹے کا مطالعہ ہونا چاہئے۔ پھر دیکھیں اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں؟ پھر اگر اس کے ساتھ رات کے سجدے، عبادت، زہد، ورع، تقویٰ، اخلاص و پرہیزگاری اور زبان میں شیرینی ہوتو سونے پر سہاگہ ہے۔ کیونکہ اس زبان سے علم نکلنا ہے اور جس زبان سے گالیاں نکلتی ہوں اس زبان سے نکلنے والا علم کبھی تاثیر نہیں رکھے گا۔ وہ کسی دل پر اثر نہیں کرے گا۔ کیونکہ اسی زبان سے گالیاں بھی نکلتی ہیں اسی سے علم بھی نکل رہا ہے۔ پھر علم میں طہارت اور نور کیسے آئے؟
اگر آپ چاہتے ہیں کہ علم اثر کرے اور لوگوں کے دلوں میں اتر جائے تو زبان کو ساری زندگی پاک رکھیں۔ اس میں نہ غیبت آئے نہ چغلی آئے نہ گناہ کی بات آئے نہ جھوٹ آئے نہ گالی گلوچ آئے۔ زبان جتنی اللہ کے ذکر سے تر ہوگی علم اتنا منور ہوگا۔ انسان کو جو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا وہ بھی علم کی بناء پر بنایا۔ جیسے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا:
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِيْفَةً.
’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘۔
(البقرة، 2: 30)
پھر اگلی آیت میں خلیفہ بنانے کی اہلیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا.
’’اور اللہ نے آدم (ں) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے ‘‘۔
(البقرة، 2: 31)
اسی طرح آقا علیہ السلام نے اپنی امت میں ایک طبقے کو چنا اور فرمایا یہ میرے خلفاء ہیں۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ میرے خلفاء پر رحم فرما۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کے خلفاء کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: میرے خلفاء قیامت تک ہوں گے اور میرے خلفاء وہ لوگ ہوں گے جو بعد کے زمانوں میں آئیں گے۔ وہ میری احادیث کو روایت کریں گے۔ لوگوں کو علم دیں گے اور میری امت تک علم پھیلائیں گے اور سکھائیں گے۔
آپ کو مبارک ہو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ آقا علیہ السلام نے مالداروں کو خلفاء نہیں فرمایا۔ حکمرانوں کو خلفاء نہیں فرمایا بلکہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق علم پہنچانے والوں کو اپنا خلیفہ فرمایا ہے اور وہ کونسا علم ہے؟ یہ وہ علم ہے جو بندے کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت نیابت دیتا ہے اور خلافت اور نیابت کے رشتے میں ڈائریکٹ جوڑ دیتا ہے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم علم نافع کے لئے خود اسی طرح دعا فرماتے تھے:
اللہم اعوذبک علم لا ینفع ومن قلب لایخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوۃ لا یستجاب لہا۔
’’اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جس علم میں نفع نہیں۔ (یعنی جس علم میں عمل اور تقویٰ کا نور نہیں) اور میں پناہ مانگتا ہوں اس دل سے جس میں تیر اخشوع نہیں (یعنی جس دل میں اللہ کی طرف جھکائو نہیں اور اس میں اللہ کے عشق و محبت کی شمع نہیں جلتی)‘‘۔
اور اس نفس سے پناہ مانگتا ہوں جو سیراب نہیں ہوتا (یعنی ساری دنیا کا مال کھا کر بھی اس کا پیٹ بھرتا نہیں اور اس کا پیٹ دوزخ بن جاتا ہے) اور ایسے نفس سے پناہ مانگتا ہوں جس کی قبولیت نہ ہو (یعنی جو رد کردی جائے)۔
دعا تو زبان سے مانگی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے جو زبان سے مانگ رہا ہے اس کے من میں بھی اس کا حال ہے یا نہیں۔ یا من اس کی موافقت میں ہے یا نہیں۔ جو مانگ رہا ہے کیا اس کے پیچھے رات کی کیفیت بھی ہے؟ مصلے کی سجدہ ریزیاں بھی ہیں؟ اور اس کے ساتھ گریہ و زاری بھی ہے؟ تقویٰ و پرہیزگاری بھی ہے؟ لہذا آپ کے اخلاق و آداب اور صالحیت بھی اس کے ساتھ ہو جس کا عالم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی میں یہ تھا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں جارہے ہیں اور لیٹ ہوجاتے ہیں۔ کسی نے پوچھا آپ لیٹ کیوں ہوگئے؟ فرمایا: میرے آگے ایک یہودی چلا جارہا تھا اور گلی کا راستہ تنگ تھا۔ بوڑھا تھا میں ا سکے احترام میں پیچھے پیچھے چلا اور وہ دور تک چلتا رہا اسی لئے میں لیٹ ہوگیا۔ یہ ادب ہے۔ ادب ایک ایسا تعلق ہے جو مذہب بھی نہیں دیکھتا۔ انسان اور حیوان کی جنس کا فرق بھی نہیں دیکھتا۔
ایک مرتبہ گلی سے ایک جنازہ گزرا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ ایک صحابی نے کان میں عر ض کیا یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہودی ہے تو کیا ہوا۔ کیا انسان بھی نہیں ہے؟ یعنی میں انسانیت کے احترام میں اٹھا ہوں۔ یہ ادب ہے ادب کا مطلب ہے حقوق کی پہچان یعنی علم حقوق سکھاتا ہے۔