علامہ اقبال علیہ الرحمہ کا مدار فکر اور معیار تمدن ہمیشہ اسوہ حسنہ رہا۔ ان کا دماغ علم سے پر رہا اور دل عشق سے معمور رہا۔ علم سے انہوں نے راستہ معلوم کیا اور عشق سے منزل کو پایا۔ فلسفے کا تھوڑا علم انسان کو خدا سے بیزار اور گہرا علم خدا کا پرستار بنادیتا ہے اور اقبال علیہ الرحمہ بلاشبہ فلسفے کے گہرے عالم تھے۔ وہ بڑی گہرائی میں اتر کر عشق رسول کے موتی چن کر باہرلائے اور انہیں اپنے دامن میں سجاکر پوری دنیا کو دعوت نظارہ دی اور بڑی بلند آہنگی اور خود اعتمادی سے کہا: اے منطق و کلام کے متوالو! اور اے افلاطون اور ارسطو کے شیدائیو! ان کی بارگاہ میں پہنچ کر کچھ سیکھو جن کے ہاتھوں نے تختی کو چھوا اور نہ ان کی انگلیوں نے کبھی قلم پکڑا۔ لیکن لوح و قلم کے سارے رازان پر منکشف ہوگئے۔
ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا ’’پہلے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرو اور اپنی زندگی کو اسی میں ڈھالو اور پھر اپنے آپ کو دیکھو۔ یہی ان کا دیدار ہے۔ کسی نے پوچھاکہ آپ کو اتنی بصیرت کیسے حاصل ہوئی؟ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا کہ اکثر اوقات رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا رہتا ہوں۔ اب تک ایک کروڑ مرتبہ درود شریف کا ورد کیا ہے۔
آپ کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم لکھتے ہیں کہ میں نے اماں جان کی موت پر بھی انہیں روتے نہیں دیکھا مگر قرآن سنتے وقت یا رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام زبان پر آتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔ 1933ء میں ایک نوجوان نے حکیم الامت سے اس بارے میں استفسار کیا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تھے تو درخت تعظیم سے جھک جاتے تھے۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟ کیونکہ یہ بات ماورائے فطرت معلوم ہوتی ہے۔ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے جواب دیا کہ تمہارا ذہن مختلف راستے پر منتقل ہوگیاہے۔ تم الجھ کر رہ گئے ہو۔ قدرت کے مظاہرے اور درختوں کے جھکنے کا یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عشق بتاتا ہے کیونکہ ان کی آنکھ یہ دیکھتی ہے اور اگر تمہیں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھ نصیب ہو تو تم بھی دیکھو گے کہ دنیا ان کے سامنے جھک رہی ہے‘‘۔
1929ء کا واقعہ ہے کہ انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ تھا۔ علامہ اقبال اس جلسے کے صدر تھے۔ جلسے میں کسی خوش الحان نعت خواں نے حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک نظم شروع کردی جس کا ایک مصرعہ یہ تھا۔
خدا کی رضا چاہتے ہیں دوعالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
نظم کے بعد علامہ اقبال اپنی صدارتی تقریر کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور یہ دو شعر ارشاد فرمائے۔
تماشہ تو دیکھو کہ دوزخ کی آتش
لگائے خدا اور بجھائے محمد
تعجب تو یہ ہے کہ فردوسِ اعلیٰ
بنائے خدا اور بسائے محمد
ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمہ کی زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز، محبوب اور قابل قدر وصف جذبہ عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدہ تر سے ہوتا تھا کہ جب کسی نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی ان کے سامنے لیا یا ذکر کردیا تو ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہوجاتی تھی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوجاتے اور وارفتگی کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے احباب نے انہیں بارہا آنسو بہاتے دیکھا تھا۔
1926ء میں لاہور میں عید میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلسے کی صدارت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے جذبہ تقلید اور جذبہ عمل قائم رکھنے کے تین طریقے بتائے۔ پہلا طریقہ درود سلام ہے جو مسلمان کی زندگی کا جزولاینفک ہے۔ دوسرا طریق اجتماعی ہے کہ مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور کوئی آقائے دوجہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوانح حیات بیان کرے اور تیسرا طریقہ اگرچہ مشکل ہے لیکن بہرحال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ یاد رسول اس کثرت اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب، نبوت کے مختلف پہلوئوں کا خود مظہر ہوجائے یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مقدس سے پیدا ہوتی تھی، وہ آج ہمارے قلوب کے اندر پیدا ہوجائے۔
شاعر مشرق کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیر معمولی وابستگی کا ثمر یوں عطا ہوا کہ ان کے نعتیہ اشعار بقائے دوام حاصل کرگئے۔ زمانہ صدیوں کی مسافتیں طے کرتا رہے گامگر اقبال علیہ الرحمہ کے نعتیہ کلام کی آب و تاب میں کمی رونما نہیں ہوگی۔ بلکہ ہر آنے والا دور اس سے فیض یاب ہوتے ہوئے فخر محسوس کیا کرے گا۔ نئے سے نیا پیغام، نئی سے نئی تجلی، غرضیکہ تجلیات نعت کی فراوانی نے ان کی نعت کو عالمگیریت عطا کردی ہے۔ اس طرح انہوں نے تحفظ ناموس رسالت کا فریضہ سرانجام دیا۔
اسی طرح ختم نبوت کے عقیدے پر گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ ’’ختم نبوت کے عقیدے کی ثقافتی قدروقیمت یہ ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ کے لئے اعلان فرمادیا کہ آئندہ کسی انسان کے ذہن پر کسی انسان کی حکومت نہیں ہوگی۔ میرے بعد کوئی شخص دوسروں سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری بات کو بلاچون و چراں تسلیم کرلو۔ ختم نبوت ایسا عقیدہ ہے جس کی بدولت انسانی علم کے دائرے کو وسعت نصیب ہوگئی ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک مقام پر انہوں نے فرمایا:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں