اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر خاص نوازشات اور انعام و اکرام سے بھرپور اپنا خاص ماہ مقدس رمضان المبارک عطا فرمایا۔ یہی وہ ماہ مقدس ہے جس میں اللہ پاک نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی بس سے مقدس کتاب قرآن مجید نازل فرمایا جو رہتی دنیا تک سرچشمہ ہدایت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ ط وَ مَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط یُرِیْدُ ﷲ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُوا ﷲ عَلٰی مَا هَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اُتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، ﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
(البقرة، 2: 185)
رمضان المبارک اسلامی مہینوں میں نواں مہینہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس مہینے کو خاص اہمیت بیان کی گئی ہے۔ رمضان المبارک جہاں مومنوں کیلئے فضل و رحمت سے بھرپور ہے وہیں گناہگاروں کیلئے بخش و مغفرت کا مژدہ جانفزاں بھی ہے، اس ماہ مقدس میں اللہ پاک اپنے بندوں پر خاص لطف و کرم فرماتے ہوئے شیاطین کو جکڑ دیتا ہے اور اپنی مخلوق کو اپنا قرب عطا کرنے کیلئے انعام کی برسات فرماتا ہے۔اس ماہ مبارک میں عبادات کا اجر و ثواب دیگر مہینوں کے نسبت کئی گنا زیادہ عطا فرماتا ہے۔ اس مہینے کے دن خیر و برکت سے بھرپور اور راتوں کو سونا بھی عبادت کا درجہ رکھتا ہے، اس کی ایک رات (لیلتہ القدر) ایسی آتی ہے جو ہزار راتوں سے افضل و بہتر ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے:
اے لوگو! تمہاری طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آرہا ہے۔ جس میں گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ مہینہ خدا کے یہاں سارے مہینوں سے افضل و بہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے مہینوں کے دنوں سے بہتر، جس کی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر اور جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہتر ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں حق تعالیٰ نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے اور اس مہینے میں خدا نے تمہیں بزرگ افراد میں قرار دیا ہے کہ اس میں تمہارا سانس لینا تسبیح اور تمہارا سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے۔ اس میں تمہارے اعمال قبول کئے جاتے اور دعائیں منظور کی جاتی ہیں۔
رمضان المبارک کی فضیلت یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اس ماهِ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت فرمائی اور مسلمانوں پر روزے فرض فرمائے اوراس کی جزا اور اجر و اکرام کا تعین بھی اپنی رضا پر رکھا ہے یعنی جسے جتنا چاہے گا بے حساب عطا فرمائے گا۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّیَامَ، فَإِنَّهُ لِی وَأنَا اَجْزِیْ بِهِ.
ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب هل یقول انی صائم اذا شتم، 2: 623، رقم: 1805)
اللہ پاک نے اپنے بندوں کے لئے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حکمت پائی جاتی ہے۔ نماز اللہ کے وصال کا ذریعہ ہے۔ اس میں بندہ اپنے معبودِ حقیقی سے گفتگو کرتا ہے۔ روزہ بھی اللہ کے قرب کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ.
جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الصلاة التراویح، باب فضل لیلة القدر، 2: 209، رقم: 1910)
رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہمسری نہیں کر سکتے۔
رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مبارک مہینے سے ربِ ذوالجلال کا خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماهِ رجب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے۔
عن انس بن مالک قال: کان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اذا دخل رجب قال: اللهم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔
(مسند احمد بن حنبل، 1: 259)
اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس لیے عطا فرمایا کہ گیارہ مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں مگن رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت و کوتاہی پیدا ہوسکتی ہے، روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہوجائے توانسان رمضان المبارک میں اللہ کی عبادت کرکے اس کمی کو دور کرسکتا ہے، دلوں کی غفلت اور زنگ کو ختم کرسکتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے۔
عام طور پر دو چیزیں گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث بنتی ہیں۔ ایک نفس کی بڑھتی ہوئی خواہش اور اس کی بڑھتی ہوئی سرکشی، دوسرا شیطان کا مکر و فریب۔ شیطان انسان کا ازل سے دشمن ہے وہ نہ صرف خود بلکہ بلکہ اپنے چیلوں کی مدد سے دنیا میں ہر انسان کو دین حق سے غافل کرنے کی کوششوں میں مگن رہتا ہے مگر رمضان المبارک کی برکتوں اور فضیلتوں کے برعکس شیطان کو اس ماہ مبارک میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا جبکہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک آواز آتی ہے: اے طا لبِ خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جاا ﷲتعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور ماهِ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔
ایک اور جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نے ارشاد فرمایا:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَھَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ. (رواه البخاری و مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔
رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کروا سکے، جس پر حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا آمین! حضرت جبرائیل علیہ السلام کی یہ دعا اوراس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آمین کہنا اس دعا سے ہمیں رمضان کی اہمیت کو سمجھ لینا چا ہیے۔
رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے۔
تحریک منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے رمضان المبارک کے مقدس اور بابرکت مہینے میں بالخصوص پاکستان کے چاروں صوبوں میں ہر ہر علاقے میں سینکڑوں مقامات پر منہاج القرآن ویمن لیگ علماء کونسل، نظامت دعوت و تربیت کے سکالرز اسلام، احسان، حصول تقویٰ، قیام صیام، حقوق والدین، مثالی معاشرہ، قرآن فہمی، عقیدہ ختم نبوت، قرب الٰہی، شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، بنیادی عقائد، معاشرتی مادیت پرستی کے فتنے کو قرآنی تعلیمات کے ذریعے ختم کر کے آئندہ نسلوں میں قرآن حکیم کی محبت پیدا کر کے قرآن اور صاحب قرآن سے تعلق کو مضبوط کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
رمضان المبارک باطنی اصلاح اور اللہ کو راضی کرنے کا مہینہ ہے، اس مبارک مہینے کا احترام یہ ہے کہ ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں سے بچا جائے اور اللہ تعالیٰ سے استقامت مانگی جائے اور زیادہ سے زیادہ وقت عبادات اور خدمت خلق میں گزارا جائے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے رمضان پلان میں ہر عمر کی بچیوں کو تربیتی، تدریسی دائرہ کار میں شامل کرنے اور شہر اعتکاف کا حصہ بنانے کے حوالے سے تشکیل دیا جاتا ہے، ویمن لیگ کی رہنماؤں نے رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنے کے لئے منہاج القرآن کے ہر فورم کے تحت کوئی نہ کوئی لائحہ عمل دیا جاتا ہے، ایم ایس ایم سسٹرز کے تحت طالبات اور مختلف ادارہ جات کیلئے تربیتی پروگرامز وضع کئے جاتے ہیں، وائس مستحقین کیلئے اشیائے ضروریات کی فراہمی کے حوالے سے مخیر حضرات سے مل کر اپنا کردار ادا کرتی ہیں، اسی طرح عرفان الہدایہ پروگرام کے تحت ملک گیر دورہ قرآن کیلئے تدریسی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
انسان اپنے معبود اور پالنے والے کے ساتھ مختلف طریقوں سے تعلق قائم کرتا ہے کبھی تنہائی میں رو رو کر اور کبھی محفل میں پکار پکار کر، کبھی حسین وادیوں میں گھومتے ہوئے تو کبھی پہاڑوں کی چوٹیوں کو دیکھتے ہوئے، کبھی دریا اور سمندر عبور کرتے ہوئے، کبھی خوشی و نعمت ملنے پر شکرادا کرتے ہوئے اور تو کبھی تکلیف میں گلہ کرتے ہوئے غرض یہ کہ انسان فطرتاً صبر اور برداشت کے مطابق اللہ سے مختلف طریقوں سے رابطے میں رہتا ہے۔
کبھی کبھی انسان کا دل کرتا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر اس کی تلاش میں نکل پڑے جس نے ساری دنیا بنا کر اشرف المخلوقات کے قدموں میں رکھ دی، کبھی جی میں آتا ہے کہ سر میں خاک ڈال کر بستی بستی قریہ قریہ دیوانہ وار اس پروردگار کی وحدانیت اور عظمت کے راگ گائے جائیں جس نے انسانی پتلے میں اپنی محبت کا جوہر عظیم رکھ کر اسے بے مثل بنا دیا، کبھی دل میں یہ تمنا اٹھتی ہے کہ کسی جنگل یادریا کے کنارے ڈیرہ لگا لیا جائے اور ساری دنیا سے کٹ کر بس اسی ذات کے راگ آلاپے جائیں جو فرماں برداروں کے ساتھ ساتھ نافرمانوں کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔
گویا انسان اللہ سے لو لگانے کے لئے تنہائی کی تلاش میں رہتا ہے اور تنہائی کے حصول کے لئے بعض اوقات دنیا سے بھی کٹ جاتا ہے اس کیفیت میں مبتلا افراد کے لئے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہونے والا اعتکاف اللہ پاک کی طرف سے دیا ہوا بہت عمدہ تحفہ ہے اس سلسلے میں اعتکاف تلاش حق کی اس جستجو کا نام ہے جس پر رہبانیت کا سایہ تک نہیں بلکہ اعتکاف تو رہبانیت کی ضد ہے۔ اعتکاف اجتماع سے کٹ جانے کا نام بھی نہیں بلکہ اجتماع میں رہتے ہوئے اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پا جانے کا نام ہے۔ اعتکاف چند روز کے لئے دنیا کی الجھنوں سے بے نیاز ہو کر اپنے خالق و مالک سے تعلق بندگی قائم کرنے کا نام ہے، یادالٰہی میں آنسو بہانے،عشق الٰہی میں تڑپتے ہوئے اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا نام ہے۔ اسلام میں تمام عبادات کا مقصود اس واحدہ لا شریک کی بندگی ہے جو اس جہان کا مالک ہے، جو ہواؤں کو اذن سفر دیتا ہے، جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور پر ختم نبوت کا تاج سجایا اور انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ اجتماعی اعتکاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے جو فرد کے ظاہر و باطن کا منظر نامہ روشنیوں سے تحریر کرتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمول اعتکاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
ان النبی کان یعتکف العشر الآواخر من رمضان حتی توفاه اللّٰہ تعالیٰ.
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔
(صحیح البخاری، 1: 221 کتاب الاعتکاف، رقم حدیث: 1922)
اعتکاف میں انسان دنیاوی معاملات سے علیحدگی اختیار کر کے خدا کی رضا کی تلاش میں گوشہ تنہائی اختیار کرتا ہے۔ صوفیاء کرام اور اولیاء کرام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں چلہ کشی کے عمل کو اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ اس عمل کے ذریعے خدا کو راضی کر سکیں اور تزکیہ نفس کے مقام کو حاصل کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔