فرمانِ الٰہی
وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَ هَآ اِیَّهُ ج فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ط اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ. وَمَا کَانَ اللہُ لِیُضِلَّ قَوْمًام بَعْدَ اِذْ هَدٰهُمْ حَتّٰی یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ ط اِنَّ اللہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ. اِنَّ اللہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ط وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ.
(التوبة، 9: 114 تا 116)
’’اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ (یعنی چچا آزر، جس نے آپ کو پالا تھا) کے لیے دعائے مغفرت کرنا صرف اس وعدہ کی غرض سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے، پھر جب ان پر یہ ظاہر ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگئے (اس سے لاتعلق ہوگئے اور پھر کبھی اس کے حق میں دعا نہ کی)۔ اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کردے اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لیے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیزکرنا چاہیے، بے شک اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ بے شک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے دردمند (گریہ و زاری کرنے والے اور) نہایت بردبار تھے۔ بے شک اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساری بادشاہی ہے۔ (وہی) جِلاتا اور مارتا ہے، اور تمہارے لیے اﷲ کے سوا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار (جو امرِ الہٰی کے خلاف تمہاری حمایت کر سکے)‘‘۔
(ترجمه عرفان القرآن)
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي اللہ عنهما في روایۃ طویلۃ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ: أَیُّھَا النَّاسُ إِنَّهُ لَمْ یَبْقَ شَيئٌ لَمْ أَکُنْ رَأَیْتُهُ إِلاَّ وَقَدْ رَأَیْتُهُ فِي مَقَامِي ھَذَا وَقَدْ أُرِیْتُکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِي قُبُوْرِکُمْ یُسْأَلُ أَحَدُکُمْ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ؟ وَمَا کُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَإِنْ قَالَ: لَا أَدْرِي رَأَیْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْئًا فَقُلْتُهُ وَیَصْنَعُوْنَ شَیْئًا فَصَنَعْتُهُ قِیْلَ لَهُ: أَجَلْ عَلَی الشَّکِّ عِشْتَ وَعَلَیْهِ مِتَّ هَذَا مَقْعَدُکَ مِنَ النَّارِ وَإِنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ قِیْلَ لَهُ: عَلَی الْیَقِیْنِ عِشْتَ وَعَلَیْهِ مِتَّ هَذَا مَقْعَدُکَ مِنَ الْجَنَّۃِ۔ رَوَهُ أَحْمَدُ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
’’حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ عنہما ایک طویل روایت میں بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! کوئی بھی چیز ایسی نہیں جسے میں نے نہ دیکھا ہو لیکن یہ کہ اب میں اسے اپنی اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں اور تحقیق مجھے تمہیں اپنی قبروں میں آزمائش میں مبتلا ہوتے دکھایا گیا ہے۔ تم میں سے ہر کسی سے سوال کیا جائے گا: تو (دنیا میں) اس ہستی (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) بارے میں کیا کہا کرتا تھا؟ اور تو (دنیا میں) کس کی عبادت کیا کرتا تھا؟ پھر اگر اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا میں نے جس طرح لوگوں کو (ان کے بارے میں) کہتے سنا میں نے بھی اسی طرح کہہ دیا اور جو کچھ انہیں کرتے ہوئے دیکھا اسی طرح کر دیا تو اس سے کہا جائے گا کہ ہاں تو شک پر زندہ رہا اور اسی پر مرا پس اب یہ رہا تیرا آگ کا ٹھکانہ اور اگر اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو اس سے کہا جائے گا کہ تو یقین پر زندہ رہا اور اسی پر مرا لہٰذا تیرا ٹھکانہ یہ جنت ہے۔‘‘
(المنهاج السوّی، ص: 720-721)