یہ تعلیمات اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہیں کہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس طرح سب کو یکساں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس میں ایک فریق کو کچھ نہ کچھ غلبہ حاصل ہوتا ہے یہ ایک فطری اصول ہے۔ اور اسی بناء پر چند چیزوں میں مرد کو عورت پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ اس کی وجہ حیاتیاتی اور عضویاتی فرق بھی ہے اور فطرت کے لحاظ سے حقوق و مصالح کی رعایت بھی ہے اسی لیے قران نے مرد کو عورت پر نگران اور قوامیت کی فوقیت دی ہے۔ مگر دوسری جانب اسلام نے ہی عورت کو یہ عظمت بخشی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتا یا ہے گویا کچھ باتوں میں اگر مرد کو فوقیت حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو بھی فوقیت حاصل ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے دائرہ کار کا ہے۔ یہی وہ تعلیمات ہیں جنہوں نے دنیا کی ان عظیم خواتین کو جنم دیا یہی وجہ ہے کہ حضرت علامہ محمد اقبال نے ا جہانں اپنی شاعری سے اُمت اسلامیہ کے افکار میں تلاطم برپا کیا وہیں یورپ سے آتے تصور آزادی نسواں کہ رد کرتے ہوئے اسلام میں حیثیت نسواں کو اپنی شاعری سے بخوبی بیان کیا ۔
اقبال کا نظریہ:
عورت کے بارے میں اقبال کا نظریہ بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے وہ عورت کے لیے وہی طرز زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں تھا۔ اس لیے طرابلس کی جنگ میں ایک لڑکی فاطمہ بنت عبد اللہ غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہو گئی تو اس واقعہ سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسی لڑکی کے نام کوہی عنوان بنا کر اپنی مشہو ر نظم لکھی۔ فاطمہ! تو آبرو ئے ملت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر!
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر!
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
اقبال کی نظر میں عورت کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ اپنے دائرہ کار میں شرعی پردہ کے اہتمام کے ساتھ ایسے زندگی گزارنی چاہیے کہ معاشرہ پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرتو سے حریم ِ کائنات اس طرح روشن ہو جس طرح ذاتِ باری تعالیٰ کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑ رہی ہے۔
مرد کی برتری:
اس سلسلہ میں ڈاکٹر یوسف حسین خان روح اقبال میں لکھتے ہیں۔
’’اقبال کہتا ہے کہ عورت کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہیں جو مرد کو لیکن دونوں کا دائرہ عمل الگ الگ ہے دونوں اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون عمل کرکے تمدن کی خدمت انجام دے سکتے ہیں‘‘۔
عورت پر مرد کی برتری کی وجہ اقبال کی نظر میں وہی ہے جو اسلام نے بتائی ہے کہ عورت کا دائرہ کار مرد کی نسبت مختلف ہے اس لحاظ سے ان کے درمیان مکمل مساوات کا نظریہ درست نہیں۔ اس عدم مساوات کا فائدہ بھی بالواسطہ طور پر عورت کو ہی پہنچتا ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری مرد پر آتی ہے۔
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگو ں میں ہے لہو سرد
نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
یہی احتیاج اور کمزوری و ہ نکتہ ہے جس کے باعث مر د کو عورت پر کسی قدر برتری حاصل ہے اور یہ تقاضائے فطرت ہے۔ اس کے خلاف عمل کرنے سے معاشرے میں انتشار لازم آتا ہے۔
خواتین کے لئے پردہ کی اہمیت:
اقبال عورت کے لیے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں حائل نہیں ہوتابلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی ہے اسلام میں پردہ کا معیار مروجہ برقع ہر گز نہیں ہے۔
بلکہ اصل پردہ اور شرم و حیا کے مکمل احساس کا نام ہے اور یہ پردہ عورت کے لیے اپنے دائرہ کا ر میں کسی سرگرمی کی رکاوٹ نہیں بنتا۔ اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے کہ آدمی کی شخصیت اور حقیقت ذات پر پردہ نہ پڑا ہو اور اس کی خودی آشکار ہو چکی ہو۔
بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے
خُدایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے
تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں، میں نے
وہ خلوت نشیں ہے! یہ خلوت نشیں ہے!
ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے
عورتوں کی تعلیم:
اقبال عورت کے لیے تعلیم کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس تعلیم کا نصاب ایسا ہونا چاہیے جو عورت کو اس کے فرائض اور اس کی صلاحیتوں سے آگاہ کرے اور اس کی بنیاد دین کے عالمگیر اُصولوں پر ہونی چاہیے۔ صرف دنیاوی تعلیم اور اسی قسم کی تعلیم جو عورت کو نام نہاد آزادی کی جانب راغت کرتی ہو۔ بھیانک نتائج کی حامل ہوگی۔
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے لیے اس کا ثمرموت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
اقبال کے خیال میں اگر علم و ہنر کے میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے تو اس کا مرتبہ کم نہیں ہو جاتا۔ اس کے لیے یہ شرف ہی بہت بڑا ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں کا رہائے نمایاں انجام دینے والے مشاہیر اس کی گود میں پروان چڑھتے ہیں اور دنیا کا کوئی انسان نہیں جو اس کا ممنونِ احسان نہ ہو۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِ دروں
شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خا ک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کادر مکنوں!
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن!
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
آزادی نسواں:
اقبال اگرچہ عورتوں کے لیے صحیح تعلیم، ان کی حقیقی آزادی اور ان کی ترقی کے خواہاں ہیں۔ لیکن آزادی نسواں کے مغربی تصور کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں اس آزادی سے ان کی نظر میں عورتوں کی مشکلات آسان نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہو جائیں گی۔ اور اس طرح یہ تحریک عورت کو آزاد نہیں بلکہ بے شمار مسائل کا غلام بنا دے گی۔ ثبوت کے طور پر مغربی معاشرہ کی مثال کو وہ سامنے رکھتے ہیں جس نے عورت کو بے بنیاد آزادی دے دی تھی تو اب وہ اس کے لیے درد ِ سر کا باعث بنی ہوئی ہے کہ مرد و زن کا رشتہ بھی کٹ کر رہ گیا ہے۔
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا!
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور!
کہ مرد سادہ ہے بے چارہ زن شناس نہیں
اقبال کی نظر میں آزادی نسواں یا آزادی رجال کے نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ انتہائی گمراہ کن ہیں۔ کیونکہ عورت اور مرد دونوں کو مل کر زندگی کا بوجھ اُٹھانا ہوتا ہے۔ اور زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے لیے دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے دونوں کے کامل تعاون کے بغیر زندگی کاکام ادھورا اور اس کی رونق پھیکی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ان دونوں کو اپنے فطری حدود میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو بنانے سنوارنے کا کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا ساتھی ثابت ہونا چاہیے۔ نہ کہ مدمقابل چنانچہ آزادی نسواں کے بارے میں وہ فیصلہ عورت پر ہی چھوڑ تے ہیں کہ وہ خود سوچے کہ اس کے لیے بہتر کیا ہے۔
عورت کا بحیثیت ماں اہم کردار:
اقبال کی نظر میں عورت کی عظمت کا راز اس کے فرض امومیت میں پوشیدہ ہے معاشرتی اور سماجی زندگی میں ماں کو مرکز ی حیثیت حاصل ہے۔ اور خاندانوں کی زندگی اسی جذبہ امومیت سے ہی وابستہ ہے۔ ماں کی گود پہلا دبستان ہے جو انسان کو اخلاق اور شرافت کا سبق سکھاتا ہے۔ جس قوم کی مائیں بلند خیال عالی ہمت اور شائستہ و مہذب ہو گی اس قوم کے بچے یقینا اچھا معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل بن سکیں گے۔ گھر سے باہر کی زندگی میں مرد کو فوقیت حاصل ہوتی ہے لیکن گھر کے اندر کی زندگی میں عورت کو فوقیت حاصل ہے کیونکہ اس کے ذمہ نئی نسل کی پرورش ہوتی ہے۔ اور اس نئی نسل کی صحیح پرورش و پرداخت پر قوم کے مسقبل کا دارو مدار ہوتا ہے اس لیے عورت کا شرف و امتیاز اس کی ماں ہونے کی وجہ سے ہے۔
اقبال کی نظر میں دنیا کی تمام سرگرمیوں کی اصل ماں کی ذات ہے، ماں کی ذات امین ممکنات ہوتی ہے اور دنیا کے انقلابات مائوں کی گود میں ہی پرور ش پاتے ہیں۔ اسی لیے ماں کی ہستی کسی قوم کے لیے سب سے زیادہ قیمتی متاع ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی مائوں کی قدر نہیں کرتی اس کا نظام ہستی بہت جلد بکھر جاتا ہے۔
ماں کی ہستی اس قدر بلند مرتبت ہے کہ قوم کہ حال و مستقبل انہی کے فیض سے ترتیب پاتا ہے۔ قوم کی تقدیر بنانے میں ماں کا کردار بنیادی ہے۔
مثالی کردار:
اقبال نے حضرت فاطمہؓ کے کردار کو عورتوں کے لیے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کے تما م عورتوں کے لیے نمونہ ہے۔
فررع تسلیم را حاصل بتولؓ
مادراں راسوہ کامل بتولؓ
فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند
چشم ہوش از اُسوہ زُ ہرا مند
اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے بنیادی اوصاف فقر، قوت، حریت اور سادگی سے عبارت ہیں اور یہ تمام حضرت فاطمہؓ کی زندگی میں بدرجہ اتم جمع ہو گئے تھے۔ انہی اوصاف نے ان کے اُسوہ کو عورتوں کے لیے رہتی دنیا تک مثالی بنا دیا ہے۔ اور ان کی ہستی کی سب سے بڑھ کریہ دلیل ہے کہ حضرت امام حسینؓ جیسی عظیم و مدبر شخصیت کو انہوں نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ اقبال کی نظر میں عورت کے بطن سے اگر ایک ایسا آدمی پیدا ہو جائے جو حق پرستی اور حق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین اور مقصد قرار دے تو اس عورت نے گویا اپنی زندگی کے منشاء کو پورا کر دیا۔
اقبالؒ کے افکار کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہے اور عورت کے متعلق بھی وہ انہی حدود و قیود کے حامی ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں۔ یہ حدود و قیود عورت کو نہ تو اس قدر پابند بناتی ہیں جو پردہ کے مروجہ تصور نے سمجھ لیا ہے۔ اور نہ اس قدر آزادی دیتی ہیں جو مغرب نے عورت کو دے دی ہے۔ نہ یہ پردہ اسلام کا مقصد ہے اور نہ یہ آزادی اسلام دیتا ہے۔ اسلام عورت کے لیے ایسے ماحول اور مقام کا حامی ہے جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بہتر طور پر استعمال کرسکے اور یہی بات اقبال نے کہی ہے یہ فطرت کے بھی عین مطابق ہے اس کی خلاف ورزی معاشرت میں لازماً بگاڑ اور نتشار کا باعث بنتی ہے۔