خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اسلامی مہینوں کی ترتیب میں حکمت:
بارہ اسلامی مہینوں میں سے سب سے زیادہ بابرکت مہینہ رمضان المبارک کا ہے لیکن اس سے پچھلا مہینہ یعنی شعبان المعظم بھی بڑا برکتوں والا مہینہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے‘‘۔
مندرجہ بالا حدیث سے ظاہر ہوا کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہینہ ہے اور پھر اللہ جل مجدہ کا مہینہ اور یہ اس لیے تاکہ نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مومن کا قلب و باطن پاک و صاف اور روشن و منور ہوجائے اور جب اللہ کا مہینہ شروع ہو تو انوار و تجلیات الہٰیہ کا نزول اس پر ہوسکے اور وہ فیوضاتِ الہٰیہ سے حصہ لینے کے قابل ہوسکے۔
قرآنی سورتوں کی ترتیب میں حکمت:
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلامی مہینوں کی طرح قرآنی سورتوں کی ترتیب میں بھی ایک حکمت ہے۔ سورۃ تغابن اور دخان میں بھی ایک تعلق ہے۔ تغابن سے پہلے دخان ہوگا یعنی وقت قیامت آئے گا جن کی طرف تغابن میں اشارہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اس سے پہلے دخان یعنی دھویں کا دور آئے گا اور وہ اسی طرح ہوگا جس طرح کائنات اور زمین کی ابتدا میں دھویں کا ایک دور تھا‘‘۔
قرآن مجید کی چوالیسویں سورت اور پچیسویں پارہ میں ہے جس کا آغاز حروف مقطعات یعنی حم سے ہوتا ہے۔ حروف مقطعات کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ ان کا حقیقی معنی اور مراد صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہے اور یہ حروف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان راز ہیں اور ان میں غیر کا دخل نہیں جس طرح
درمیان عاشق و معشوق رمز است
محب اور محبوب کے درمیان ایک رمز و اشارہ ہے کوئی اپنے علم و عقل، فہم، تدبر و حکمت کی بنا پر اس راز تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ اب اس راز میں سے حصہ پانے کی صورت یہی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کو جتنا چاہیں عطا کردیں اور جس کو چاہیں عطا نہ کریں۔
قرآنی احکام کے درجات:
قرآن مجید کی آیات کے ذریعے جو احکامات دیئے گئے ان کے تین درجات ہیں:
1۔ آیات محکمات:
احکام قرآن کا ایک درجہ عامۃ الناس اور عام مسلمانوں کے لیے ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ قرآن مجید سے روشنی حاصل کریں اور تعلیمات قرآنی پر عمل کرکے اپنی زندگی کی اصلاح کریں۔ ان آیات کو آیات محکمات کہتے ہیں۔ یہ عوام کے لیے ہوتی ہیں اور جو چیز عوام کے لیے ہو اس میں خواص بھی شامل ہوتے ہیںکیونکہ خواص میں سے عوام تو خارج ہوتے ہیں مگر عوام میں سے خواص خارج نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ آیات عامۃ المسلمین کے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہیں۔
2۔ آیاتِ مشتبہات:
آیات محکمات کے بعد قرآن کی کچھ آیات مشتبہات ہیں۔ یہ وہ آیات ہیں جن کی اصل مرادکو سمجھنے میں مغالطہ لگ سکتا ہے۔ اس لیے ان آیات کے معانی اور حقیقی مراد و مفہوم تک رسائی عوام کا کام نہیں۔ ان کے معانی ومفاہیم تک رسائی صرف خواص کو حاصل ہوتی ہے اور خواص کو قرآن مجید کچھ یوں بیان کرتا ہے:
وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ.
’’اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے‘‘۔
(عمران، 3: 7)
باقی اہل ایمان کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ فقط اس پر ایمان لائیں بحث نہ کریں۔ جیسے کہ ایک جگہ ارشاد فرمایا:
بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ.
’’بلکہ اس کے دونوں ہاتھ (جودو سخا کے لیے) کشادہ ہیں‘‘۔
(المائده، 5: 64)
یہ آیت آیات مشتبہات میں سے ہے۔ عوام کو حق نہیں کہ وہ اس پر بحث کریں کہ اللہ کے ہاتھ کیسے ہیں۔ کتنی انگلیاں ہیں۔ اس پر جتنی گفتگو اور سوچ بچار کریں گے اتنا ہی کفر کی طرف جائیں گے چونکہ عام انسانوں میں وہ فہم نہیں رکھا گیا کہ وہ آیات قرآنی کے متشابہات کا بھی ادراک کرسکیں۔ اس لیے اس میں بحث کرنے سے روک دیا۔ قرآن میں اللہ کے چہرے کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح احادیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ ڈالے گا، کہیں اللہ پاک کے کرسی پر بیٹھنے کا ذکر آیا ہے۔ یہ سب آیات مشتبہات میں سے ہیں۔ ان پر بحث کرنے کی اجازت عوام کو نہیں۔
ان الله خلق آدم علی صورته.
’’بے شک اللہ نے آدمؑ کو اپنی صورت پر پیدا کیا‘‘۔
یہ حدیث مشتہبات میں سے ہے۔ اب اگر اس پر بحث کریں گے تو انسان کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ بعض لوگ غیراللہ کو سجدہ کرنے کے قائل ہوتے ہیں جوکہ کبھی حرام ہوتا ہے اور کبھی کفر۔ اس کی دلیل مندرجہ بالا حدیث میں ہے کہ جیسا حضرت آدمؑ کو بھی سجدہ کیا گیا تو اب وہی صورت ولی و مرشد میں ہے۔ لہذا ولی اور مرشد کو بھی سجدہ کرنا جائز ہے۔ یہ بات سراسر بے بنیاد ہے لہذا فرمایا کہ متشابہات میں کھوج نہ لگایا کرو کیونکہ یہ صرف خواص کے لیے ہے اور خواص ہونا بڑی مشکل بات ہے۔
چونکہ متشابہات کا علم خواص کو ہے لہذا خواص اگر کوئی اس کا معنی و مفہوم بیان کریں تو ہم اسے روایتاً بیان کرسکتے ہیں۔ استنباط کرنے کا حق ان لوگوں کو ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم میں رسوخ اور کامل دانائی عطا کی ہے۔ ان لوگوں میں عام اولیاء اللہ سے لے کر سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ تک سب شامل ہیں جو کہ خواص ہیں۔ ان میں سے بعض اخص الخواص ہیں مگر یہ سب متشابہات کی دنیا میں رسائی پانے والے ہیں۔
3۔ حروفِ مقطعات
تیسرے درجے میں حروف مقطعات ہیں جیسے الٓمٓ، حٓمٓ، یٰسٓ، طٰہٰ۔ ان حروف کے معانی عوام تو درکنار خواص بھی نہیں جانتے، صرف اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے ہیں۔ یہ اللہ اور اس کے محبوب کے درمیان کچھ راز ہیں۔
جیسا کہ ہر فن کے اندر کچھ حروف ہوتے ہیں جنہیں اس فن کا آدمی ہی جانتا ہے دوسرا نہیں جانتا۔ مثلاً کیمسٹری کو ہی لیں اس کے اندر کچھ Symbol ہوتے ہیں مثلاً سوڈیم کے متعلق کہیں گے: NA یہ دونوں حرف ایسے ہیں جو سوڈیم میں ہے ہی نہیں مگر جاننے والا جانتا ہے کہ یہ سوڈیم کے متعلق لکھا ہوا ہے لیکن ناواقف کو معلوم نہیں۔ علم کیمیا میں پوٹاشیم کو K لکھیں گے حالانکہ اس میں K نہیں آتا۔ کیمیا گر جانتا ہے کہ بات پوٹاشیم کی ہورہی ہے جبکہ دوسرا سوچتا رہے گا کہ اس سے کیا مراد ہے۔ اسی طرح فارمولے بن جاتے ہیں پانی کے لیے H2O لکھا جائے گا جو اہل کیمیا ہیں وہ جانتے ہیں اور جو اہل کیمیا نہیں وہ نہیں جانتے۔
اگر کسی مجمع میں دو بڑے گہرے دوست ہیں اور باقی دس پندرہ عمومی دوست ہیں تو ان میں بھی کچھ کلمات کبھی کبھار اشارہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ وہ دو لفظ بول کے اپنا پیغام منتقل کرتے ہیں اور بقایا دس پندرہ لوگ دیکھتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ہر محکمے والوں کے اپنے اپنے اشارے ہوتے ہیں۔ جنہیں ان محکمے والوں کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔
تو گویا دنیا کے ہر نظام کے اندر کچھ چیزیں راز کے طور پر ہوتی ہیں۔ انہیں اپنوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ محبوب کی کچھ باتیں ہر کوئی جانے تو انہیں آیات محکمات میں داخل کردیا۔ کچھ وہ ہیں جنہیں ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین جانیں مگر ابوجہل و ابولہب سمجھ نہ پائیں تو انہیں متشابہات میں داخل کردیا اور جو باتیں محبوب کی مرضی پر چھوڑنا تھیں کہ جن کو جتنا بتانا چاہے وہ خود ہی بتادے تو وہ باتیں حروف مقطعات سے کردیں اور طہ، حم، کھیعص کہہ دیا اور سارے مضامین بیان کردیئے۔ یہ وہ اسرار و رموز ہیں جنہیں اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں لیکن پھر بھی بعض لوگوں کو اپنے اپنے ظرف اور حال کے مطابق بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حصہ ملتا ہے۔ انہیں اتنی ہی خبر ہوتی ہے جنتی وہ دیتے ہیں اس سے زائد کی خبر نہیں ہوتی۔ اب وہ خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ حم میں کئی اشارے ہیں۔ عرفاء کہتے ہیں کہ ح سے مراد حامد ہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، م سے مراد محمود ہے یعنی اللہ جل مجدہ۔
اللہ تعالیٰ ان حروف کے ذریعے اپنے محبوب سے کہہ رہا ہے کہ تیری ذات حمد کرنے والی ہے اور میری ذات محمود ہے، تیرے جیسا حامد کوئی نہیں اور میرے جیسا محمود کوئی نہیں، تجھ پر حامدیت ختم ہے اور مجھ پر محمودیت۔
حم کا ایک اور معنی بھی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء گرامی میں سے ہے۔ اس معنی کی رو سے یہ پیار کا نام ہے۔ اصل نام تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے مگر پیار کے کئی نام رکھے ہیں اور جب پیار آتا ہے تو کبھی حم کہہ کر پکارتے ہیں تو کبھی طہ اور کبھی یس کہہ کر پکارتے ہیں۔ حم سے مراد فقط ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے۔
پھر اس میں تیسرا معنی بھی بیان کیا گیا ہے۔ ح سے مراد وہ وحی خاص ہے جو شب معراج اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بغیر واسطہ جبرائیل امین کے ذریعے فرمائی جیسے:
فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰی.
’’پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اللہ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
(النجم، 53: 20)
اور م سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اسی طرح حروف مقطعات کی مختلف شکلیں ہیں جو بعض آئمہ اور اہل معرفت نے قائم کی ہیں۔
کتاب روشن کی قسم:
سورۃ دخان کی اگلی آیت میں قرآن کی قسم کھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کچھ یوں فرماتے ہیں:
وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ.
’’اس روشن کتاب کی قسم‘‘۔
(الدخان، 44: 2)
اسی طرح فرمایا:
وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ.
’’حکمت سے معمور قرآن کی قَسم۔ بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں‘‘۔
(یسین، 63: 2-3)
سورۃ یسین کی ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطبہ ہے کہ اے میرے حبیب: حکمت والے قرآن کی قسم ہے۔ تو اونچے درجے کے پیغمبروں میں سے ہے۔ آگے سورۃ دخان میں اللہ تعالیٰ نے حم کہہ کر وحی خاص کی قسم کھائی ہے، وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی، محبوب کے حامد اور اپنے محمود ہونے کی قسم کھائی ہے۔ دوسری آیت میں سورۃ یسین کی دوسری آیت میں اس روشن کتاب کی قسم کھائی جو محبوب پر نازل کی۔
برکت والی رات:
روشن کتاب کی قسم کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کتاب کے نزول کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
اِنَّـآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ.
’’بے شک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ہے بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں‘‘۔
(الدخان، 44: 3)
اگلی آیت میں برکت والی رات کی کچھ تفصیل یوں ہے:
فِیْهَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ.
’’اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتاہے‘‘۔
(الدخان، 44: 4)
آیت ظاہر کرتی ہے کہ تمام اہم امور اسی رات میں طے کیے جاتے ہیں۔
مبارک رات کے بارے میں مفسرین کے تین اقوال ہیں:
1۔ لیلۃ القدر: پہلا قول یہ ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے جو ماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے۔ دلیل یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کے نازل ہونے کا ذکر صراحت کے ساتھ آیا ہے جیسے فرمایا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ.
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔‘‘
(البقره، 2: 185)
اور شب قدر کی نسبت سے فرمایا گیا:
اِنَّآ اَنْزَلَنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ.
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے‘‘۔
(القدر، 97: 1)
علماء مندرجہ بالا آیات سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ لیلۃ مبارکۃ سے مراد شب قدر ہی ہے۔ بعض روایات بھی اس کے حق میں ملتی ہیں اور اس اقوال کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔
2۔ لیلۃ النصف: بعض صحابہ کرام، تابعین اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ لیلۃ مبارکۃ سے مراد پندرہ شعبان کی رات یعنی شب برات ہے۔ اس پر کئی احادیث ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ماہ شعبان کی نصف یعنی پندرہ شعبان کی رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنی شان کے لائق آسمان دنیا پر جلوہ افروز ہوجاتا ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک ساری رات آسمان دنیا سے اپنے بندوں پر ندائیں فرماتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا۔۔۔۔ (بیہقی، شعب الایمان، 3، 381)
شب قدر اور شب شعبان دونوں کے بارے میں ارشادات ربانی ملتے ہیں۔ اس پر کئی آئمہ اور بزرگان دین نے تطبیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں اقوال متضاد نہیں۔ ان میں ایک مطابقت ہے اور وہ یہ کہ لیلۃ القدر اور شب برات کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا وہ حق ہے بلکہ شب شعبان نصف کے بارے میں تو یہاں تک فرمایا گیا کہ
اس رات جب اللہ پاک اپنا جلوہ حسن فرماتا ہے تو عرش معلیٰ سے تحت الثریٰ تک ایک ایک ذرہ اللہ کے حسن کے پر تو سے چمکنے لگتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی فرمایا گیا کہ شب نصف شعبان میں مسجدوں میں لوگ اجتماع کرتے ہیں۔ آسمانوں پر ملائکہ کا اجتماع ہوتا ہے۔ رات بھر اللہ کے بندے زمین پر اللہ کی تسبیح اور ذکر و اذکار کرتے رہتے ہیں اور ساری رات ملائکہ آسمانوں پر تسبیح و تہلیل، استغفار اور اللہ کی عبادت کرتے رہتے ہیں تو کثرت تسبیح کے ساتھ شب برات شب مبارکہ بنتی ہے۔
شب قدر اور شب برات میں پہلی تطبیق:
ان دونوں راتوں کے بارے میں جو الگ الگ حکم آئے اس میں سے اصل مراد کیا ہے اس میں ایک تطبیق ہے کہ دونوں قولوں میں کوئی تضاد نہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے اپنے قول سے اس کی تطبیق فرمادی۔ وہ فرماتے ہیں:
تمام امور کا فیصلہ اس ماہ شعبان کی پندرھویں شب کو ہی ہوتا ہے مگر ملائکہ کو ان فیصلوں کی سپردگی لیلۃ القدر میں ہوتی ہے۔ ایک مہینہ اور دس بارہ دنوں کی مہلت دی جاتی ہے کہ کوئی روئے، گڑ گڑائے اور منت سماجت کرے شب قدر تک انتظار کیا جاتا ہے اور جب وہ رات آتی ہے تو حکم ہوتا ہے کہ ایک مہینہ اور دس دن فیصلہ کے بعد نظر ثانی کے لیے رکھے گئے تھے۔ فلاں فلاں کی اپیل آگئی اور قبول ہوگئی اور فلاں فلاں کی اپیل مسترد ہوگئی اور فلاں فلاں کی اپیل آئی ہی نہیں۔
اب مدبرات امر (ایسے فرشتے جن کے زمے کام کا کرنا ہوتا ہے) کو سارا کام دیا جاتا ہے۔ وہ پورے سال کا حساب کتاب لے کر اپنی اپنی جگہ چلے جاتے ہیں اور مقررہ وقت پر اس کا نفاذ کرتے چلے جاتے ہیں۔
اب پتہ نہیں کہ اکیسویں رات کو لیلۃ القدر آجائے یا ستائیسویں کو، تو آخری عشرے کو کسی بھی وقت سپردگی ہوسکتی ہے۔
شبِ قدر اور شبِ برات میں دوسری تطبیق:
بعض عرفاء کہتے ہیں کہ دوسری تطبیق یہ ہے:
فِیْهَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ.
’’اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتاہے‘‘۔
(الدخان، 44: 4)
وہ کہتے ہیں اس کا آغاز شب برات سے ہوتا ہے اور اس عمل کی تکمیل شب قدر میں ہوتی ہے۔ یعنی ایک مہینہ اور دس بارہ دن یہ عمل جاری رہتا ہے۔ ملائکہ حاضر ہوتے ہیں اور پندرہ شعبان کی رات سے ہمارے امور کے فیصلے اللہ کی بارگاہ میں صادر ہونا شروع ہوتے ہیں اور لیلۃ القدر پر جاکر ختم ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ط اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ. رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ.
’’ہماری بارگاہ کے حکم سے، بے شک ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔ (یہ) آپ کے رب کی جانب سے رحمت ہے‘‘۔
(الدخان، 44: 5-6)
حم سے بات شروع ہوئی تھی اور رحمۃ من ربک پر ختم ہوئی کہ میرے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ جو تمہیں مہلت دی ہے اور ہر رات آسمان دنیا پر آکر درخواست کررہا ہوں کہ ہے کوئی درخواست کرنے والا میری بارگاہ میں کہ آج قبولیت کا وقت ہے، ہے کوئی میری منت سماجت کرنے والا مجھ سے مانگو تو سہی فیصلہ ہوگیا تو کیا ہوا بدل بھی تو سکتا ہوں کیونکہ
یَمْحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ ج وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ.
’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے‘‘۔
(الرعد، 13: 39)
3۔ لیلۃ المعراج: لیلۃ مبارکۃ سے مراد معراج کی رات ہے کہ جس میں دوست دوست سے ملا تھا اور اس پر اس کو مبارکباد دی جارہی ہے۔
خلاصہ کلام:
مذکورہ بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو آدمی اپنی بخشش کروانا چاہتا ہے وہ شب برات سے لے کر شب قدر تک کے عرصے میں کثرت سے عبادت کرے۔ خصوصاً ان راتوں میں جاگیں، تسبیح کریں، روئیں، ذکرو اذکار کریں اور قرآن خوانی بھی کریں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من اراد ان یتکلم مع الله فلیقرء القرآن.
’’جو چاہتا ہے کہ اللہ سے گفتگو کرے پس وہ قرآن کی تلاوت کرے‘‘۔
قرآن بڑی عظیم شے ہے جبکہ ہم نے اسے نظر انداز کردیا ہے۔ اگر امت مسلمہ کامیاب و کامران ہونا چاہتی ہے تو قرآن کو اپنا حرزِ جاں بنالیں۔ ہر روز قرآن کو محبت سے پڑھیں اور شوق سے سنیں۔ تلاوت کریں، ذکر کریں، نوافل پڑھیں، گڑ گڑا کر دعا کریں۔ پھر شب برات سے لے کر ماہ رمضان کے اختتام تک ڈیڑھ مہینہ کے لیے اپنے معمولات بدلیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کریں اور حسن قرات کی محافل منعقد ہونی چاہئیں اور حسن نعت کی محافل بھی منعقد کریں تاکہ باطن عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے جگمگا اٹھے۔