انسان کے گناہوں کے علل و اسباب کا اگر جائزہ لیا جائے اور ناکامیوں، بدبختیوں اور آلودگیوں کی بنیاد کو تلاش کیا جائے تو وہ انسان کی ضرورت اور غرض ہے۔ اگر وہ اس سے بالکل بے نیاز ہو جائے اور اسکی کسی قسم کی غرض اور ضرورت باقی نہ رہے تو پھر وہ انسان نہیں بلکہ فرشتوں کی صف میں شامل ہو جائے۔ انسان کے دل میں آرزوؤں اور تمنائوں کا ایک ڈھیر اور خود ساختہ ضرورتوں کا انبار لگا ہوتا ہے جسے اگر کوزے میں بند کر کے بات کی جائے تو وہ اکل و شرب یعنی کھانے اور پینے سے عبارت ہے۔ عالم ناسوت اور عالم ملکوت کے دو باشندوں انسان اور فرشتہ میں فرق و امتیاز کے علاوہ انسان کے تمام جرائم، گناہوں، حرص و ہوس، قتل و خونریزی، دہشت گردی، افراط و تفریط اور تعیش کی طویل فہرست تیار کی جائے تو وہ بھی انہی دو چیزوں کے گرد گھومے گی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں اس مادیت کی کثافت سے اپنے آپ کو محفوظ و مامون رکھنے کے لئے اکل و شرب سے پرہیز کو پہلی اور لابدی شرط قرار دیا گیا ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ انسان آہستہ آہستہ اپنی ضرورتوں کا دائرہ محدود کرتے ہوئے اس کی طلب و حرص سے بے نیاز ہو جائے کیونکہ انسان کے تمام تر جرائم اور گناہ اسی علت کا نتیجہ ہیں۔
انسان کی ان ضرورتوں اور اغراض کا ایک وسیع اور لامتناہی سلسلہ ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے؟ کیا خوبصورت اور عالیشان عمارتوں، زرق برق کپڑوں، لذیذ اور مرغن غذاؤں اور زر و مال کے بغیر ہمارا خاتمہ ہو جائے گا؟ نہیں بالکل نہیں تاریخ ہمیں بتاتی ہے جن بادشاہوں نے بھی ’’الفقر فخری‘‘ کی صدائے پیغمبرانہ پر عمل کیا اور بادشاہی اور سلطنت کو ٹھوکر مار کر فقیر ہوگئے انہوں نے نہایت پرمسرت روحانی زندگی بسر کی اور ان کا نام تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگیا۔ اسی لئے ان کی نسبت کہا گیا۔
تخت سکندری پر وہ تھوکتے نہیں ہیں
بستر لگا ہو جن کا تیری گلی میں
پیغمبرانہ تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک نبی اور رسول کو بھی جب انسانیت کی معراج پر پہنچانے اور فیضان نبوت کو عام کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے تو اسے ایک مدت کے لئے عالم انسانی سے الگ کر کے ملکوتی خصائص کا جامہ پہنایا جاتا ہے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب کوہ طور پر تورات کے حصول کے لئے بلایا جاتا ہے تو پہلے انہیں چالیس دن اور راتیں بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی کوہ سعیر پر انجیل کے حصول کے لئے طلب کیا جاتا ہے تو چالیس روز و شب کے لئے بھوک اور پیاس سے گزارا جاتا ہے اور غار حرا میں پیغمبر آخرالزماں آقائے دو جہاں، رحمۃ للعلمین، راحۃ للعاشقین، خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نزول قرآن سے پہلے ایک ماہ تک کھانے پینے سے بے نیاز کر کے مصروف عبادت رکھا جاتا ہے اور پھر حضرت جبریل امین علیہ السلام پہلی وحی لے کر نازل ہوتے ہیں اور رب تعالیٰ کا پہلا الہامی پیغام پہنچاتے ہیں کہ
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَo خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍo اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُo الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِoعَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْo
(العلق، 96 : 1 تا 5)
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیاo پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ (عرفان القرآن)
یہ عظیم واقعہ جس ماہ مبارک میں پیش آیا اسے رمضان المبارک کہتے ہیں جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ.
(البقره، 2 : 185)
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے‘‘۔
اور جس عظیم شب میں یہ قرآن نازل ہوا وہ شب قدر ہے جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّآ اَنْزَلَنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ.
(القدر، 97 : 1)
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے‘‘۔
رمضان المبارک میں نزول قرآن کے موقع پر حامل قرآن اور صاحب قرآن کا غار کے ایک کونے میں خلوت نشین ہونا اور بھوکا و پیاسا رہنا امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فرض اور سنت ٹھہرا۔ بھوکا و پیاسا رہنا روزے کی شکل میں اور خلوت و تنہائی میں عبادت کرنا اعتکاف کی صورت میں۔ اس سے روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ قرآن، رمضان، روزہ، اعتکاف کی ہمارے لئے اصل حقیقت کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ صاحب قرآن نے فرمایا کہ تم بھی اگر خدا کی محبت کو پانا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو خدا تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.
(آل عمران، 3 : 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا ‘‘۔
رمضان المبارک چونکہ نزول قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے اور حق اور باطل میں تمیز پیدا کرتا ہے۔ قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے جو اس نے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی جن پر نبوت اور دین کی تکمیل ہوئی۔
چونکہ قرآن مجید قیامت تک کے ہر دور اور ہر قوم کے انسانوں کے لئے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خاص وعدہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَ.
(الحجر، 15 : 9)
’’بے شک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود قرآن کریم کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے اور تحریف و تبدل (Tampering) سے کلیتاً پاک ہے جبکہ دیگر آسمانی کتب میں بہت زیادہ رد وبدل (alteration) ہو چکا ہے اور ان کا بہت سا حصہ ویسے بھی ضائع ہو چکا ہے اور جو باقی رہ گیا ہے ا سمیں بھی لوگوں نے اپنی طرف سے کئی باتوں کو شامل کردیا ہے۔ لہذا اب یہ کتابیں اپنی اصل شکل و صورت (Original form) میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ جبکہ قرآن حکیم اپنی خالص اور اصلی حالت میں اب بھی موجود ہے اور قیامت تک اسی طرح رہے گا اور پھر قرآن کریم جس زبان میں نازل ہوا وہ بھی زندہ زبان ہے اور آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں بولی جاتی ہے اور یہ عربی زبان دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور اسے دنیا کے بیس سے زائد ممالک کی قومی زبان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جبکہ دیگر الہامی کتب جن زبانوں میں نازل ہوئیں وہ خود بھی ناپید ہیں اور ان کو بولنے اور سمجھنے والے بھی بہت کم لوگ رہ گئے ہیں۔ باقی آسمانی کتابیں کسی خاص قوم یا ملک کے لئے تھیں مگر قرآن حکیم تمام دنیائے انسانیت کے لئے نازل ہوا ہے۔ جیسے صاحب قرآن کی نبوت و رسالت تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ يٰاَيُهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعَانِ الَّذِيْ لَهُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.
(الاعراف، 7 : 158)
’’آپ فرما دیں : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے‘‘۔ (عرفان القرآن)
یہی وجہ ہے کہ یہ مقدس کلام جابجا ’’یا یھا الناس‘‘ (اے لوگو!) کا خطاب کرکے تمام انسانوں کے لئے پیغام ہدایت دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایسی عالمگیر کتاب ہے جس کی تعلیمات ہر دور اور ہر ملک اور ہر جگہ کے لئے قابل عمل ہیں۔ علاوہ ازیں قرآن حکیم اپنے اندر جامعیت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ اس میں عقائد و اعمال، اخلاق و روحانیت، تاریخی واقعات، دعاؤں اور مناجات الغرض ہر پہلو پر ہدایت ربانی کی روشنی موجود ہے جبکہ دیگر الہامی کتابیں بعض عقائد، بعض اخلاقی تعلیمات، بعض تاریخی واقعات بعض دعاؤں اور مناجات اور بعض فقہی مسائل کا مجموعہ تھیں۔ قرآن حکیم کی ایک اور اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی ایسی بات شامل نہیں ہے جو خلاف عقل ہو یا فطرت کے خلاف ہو جسے تجربہ اور دلیل سے غلط ثابت کیا جا سکے۔ یہی وہ کتاب ہے جس نے تمام انبیاء کا ادب سکھایا اور ان پر ایمان لانا ضروری قرار دیا اور ان کی پارسائی اور شرافت و دیانت پر مہر تصدیق ثبت کی اور ان کے خلاف جتنی نازیبا باتیں پھیلائی گئیں ان کو جھوٹ اور خلاف واقعہ قرار دیا۔
قرآن مجید فصاحت و بلاغت کا وہ شاہکار ہے جس کا مقابلہ کرنے سے عرب و عجم کے تمام فصیح و بلیغ لوگ عاجز رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج تک قرآنی چیلنج کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ ایک چھوٹی سی قرآنی سورت کے مقابلے میں تم کوئی سورت بنا لاؤ مگر آج تک اس کا کوئی جواب اور مثال پیش نہیں کر سکا کیونکہ یہ اس خدا کا کلام ہے جس سے پاکیزہ کوئی ذات نہیں اور اس کے کلام سے پاکیزہ کوئی کلام نہیں پھر کوئی بشر اس کا مقابلہ کرنے کی جرات کیسے کر سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کا یہ چیلنج قیامت تک قرآنی صداقت کی دلیل بن کر جملہ دشمنان اسلام کے لئے صدائے حق بلند کرتا رہے گا :
وَإِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ.
(البقره، 2 : 23)
’’اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لیے بے شک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو‘‘۔ (عرفان القرآن)
قارئین محترم! مملکت خداداد پاکستان کا قیام 27 رمضان المبارک کو نزول قرآن کی رات یعنی شب قدر میں ہوا۔ یہ گویا اس حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ اس سرزمین پاک میں اسی مقدس کتاب کا نظام زندگی نافذ کیا جائے گا جو اس مبارک شب میں نازل ہوئی اور قیام پاکستان کیلئے تحریک پاکستان میں جو صدا بلند کی گئی کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ یہ محض ایک نعرہ نہیں بلکہ اس مبارک رات میں آزادی کی نعمت کے حصول پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ عظیم مقصد قرار دینا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ یہاں مصطفوی نظام حکومت قائم کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو 27 رمضان المبارک نہ صرف تشکیل پاکستان کی سالگرہ کا موقع ہے بلکہ رب تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کی تجدید اور موجودہ کرپٹ، فرسودہ اور بیہودہ ملکی انتخابی نظام کی تبدیلی اور امت مسلمہ میں شعور کی بیداری کا دن بھی ہے۔ جس کے لئے تحریک منہاج القرآن اور قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کوشاں ہیں۔ دعا ہے اللہ رب العزت نزول قرآن کی رات کے صدقے پاکستان کے مقدر کو سنوار دے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم