افسردہ نگاہیں، مرجھایا ہوا چہرہ اور بوجھل قدم ہر اس شخص کے غم کے غماز ہوا کرتے جسے بیٹی کی پیدائش کی نوید سنائی جاتی تھی۔ وہ اپنے ساتھیوں سے نظریں چرائے اور منہ چھپائے لامتناہی فکروں کی بند گلیوں میں بھٹکتے بھٹکتے بالآخر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ کیوں نہ اسے ماتھے کے کلک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دھو ہی ڈالے تاکہ کچھ تو نجات و تفاخر کا بھرم رہ جائے۔ اگر قسمت کی دیوی اس معصوم جان کا ساتھ دے جاتی توحد ہے پانچ یا چھ برس کے لئے اس کے والدین اسے اپنے گھر میں جینے کا حق دیتے مگر۔ ۔ پھر وہ بالآخر معاشرے کے طعنوں کے تھپیڑوں سے تنگ آ کر اسے موت کے کنویں میں ابدی نیند سلا دیتے۔ ۔ ۔ آہ۔ ۔ ۔ دورجہالت میں صنف نازک اپنی زندگی کے حق سے بھی محروم تھی۔
اللہ رب العزت نے فرقان حمیدمیں اس کھلے ظلم پر مواخذہ کرنا ہی تھا۔ فرمایا :
’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصے سے بھر جاتا ہے۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے۔ اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے۔ (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کردے) خبردار کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں‘‘۔
(النحل، 16 : 58.59)
اسی طرح روز محشر جب کسی کو بھی انصاف سے محروم نہ رکھا جائے گا تو اس معصوم، بے زبان اور ناتواں بچی کی بھی فریاد رسی ہوگی اور اسے انصاف دیا جائے گا۔ اللہ رب العزت نے فرمایا :
وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْo بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْo.
(التکوير، 81 : 8، 9)
’’اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گاo کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی‘‘۔
یہاں براہ راست کلام اس زندہ درگور لڑکی سے ہے مگر بالواسطہ طور پر اسکے والدین کی سخت سرزنش ہورہی ہے۔ مفسرین کرام نے بصراحت ذکر کیا ہے کہ بغیر جائز شرعی وجہ اور اضطراری حالت کے اسقاط حمل جیسا گھناؤنا گناہ بھی زندہ درگور کے حکم میں ہے (اس نکتہ کی تفصیل بعد میں ذکر کی جائیگی)
اسلام سے قبل، دور جہالت میں دختر کشی جیسا سنگدلانہ رواج عام تھا۔ اس قبیح فعل کے پس منظر میں کئی ایک وجوہات تھیں مثلاً اسلام سے قبل ’’عورت‘‘ من حیث المجموع مظلوم اور عزت و احترام سے محروم تھی۔ اس کی حیثیت ایک عام متاع سے زیادہ نہ تھی۔ والدین اسے محض اس وجہ سے قتل کر دیا کرتے کہ وہ بڑی ہو کر ان کے رزق کی حصہ دار بنے گی یا جوان ہوگی تو کسی کی بیوی بنے گی جو کہ ان کے غلط قسم کے نخوت پر حرف لانے والی بات تھی۔ جنگ و جدل میں بیٹے کی نسبت بیٹی کوئی عملی کردار ادا نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے برعکس ایسے حالات میں اس کی حفاظت ایک مسئلہ ہوتی۔ وہ وراثت میں حصے سے محروم تھی اور یوں معاشی طور پر خود دوسروں کے رحم و کرم پر تھی۔ عرب جیسے بے آب و گیاہ میدان میں جہاں خود والدین کا اپنا پیٹ پالنا مشکل تھا، ایسے حالات میں انہیں بیٹے کی نسبت بیٹی کی پرورش نہایت بوجھ محسوس ہوتی۔ لہذا وہ بیٹوں کو تو زندہ رہنے دیتے مگر بیٹی کو نہایت سفاکی سے قتل کر دیتے۔ ۔ اسلام نے ان کے اس صریح گناہ کی صریح الفاظ میں مذمت کر دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًاo وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيرًاo
(بنی اسرائيل، 17 : 30، 31)
’’بے شک آپ کا رب جس کے لیے چاہتاہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، بے شک وہ اپنے بندوں (کے اعمال و احوال) کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہےo اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔
قربان جائیں رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مقدسہ پر۔ ۔ ۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تو دو جہانوں کے لئے پیغام امن و سلامتی لائے۔ ۔ ۔ اور صنف نازک تو اس رحمت و شفقت کے بے پایاں سمندر کا ادنیٰ سا بدلہ بھی نہیں دے سکتی جو اسے بوسیلہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا ہوا۔ اس دور میں بھی عورتوں کی حالت زار تھی جب پہلے یہودیت اور پھر عیسائیت نوع انسان کی اصلاح کے لئے وقوع پذیر ہوئی مگر انہیں رحمت و شفقت کا جو بحر بیکراں، رحمت دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے عطا ہوا اس کی نظیر تو پورے عالم کی قدیم سے جدید ترین تہذیب بھی نہ دے سکی۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر بیٹی والدین کے لئے رحمت ہے اور بیٹا نعمت ہے۔ معلوم ہوا ساری کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کی محتاج ہے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام خود بھی 4 بیٹیوں کے باپ ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادیوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی رحمت کا باعث ہیں۔ اس شرف اور امتیاز نے بیٹی کو خواتین میں مقام ارفع پر فائز کر دیا ہے۔ اسی طرح رحمت دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص بیٹیاں دے کر آزمایا گیا، پھر وہ ان کی اچھی تربیت کرے تو قیامت کے دن یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی‘‘۔ ۔
(بخاری 1418، مسلم : 2629)
بچیوں کی بہتر پرورش کرنے والے کو روز محشر اپنی معیت کی نوید سنائی گئی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح کھڑے ہوں گے۔ یہ فرمایا اور اپنی انگلیوں کو باہم پیوست کر دیا‘‘۔
(مسلم)
والدین اپنی بچی کو زیور تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں یہ اچھی پرورش و تربیت کا جہیز مادی دنیا کے جہیز سے کہیں بہتر ہے۔ اس طرح ایک اور مقام پر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جس کی ایک بچی ہوئی اور اس نے اس کی تربیت کی اور بڑے اہتمام سے اسے علم کے زیور سے آراستہ کیا اور جو مہربانیاں اللہ تعالیٰ نے اس پر کی ہیں وہ اس نے اپنی بیٹی پر بھی کیں تو وہ بچی آتش جہنم سے اس کے لئے پردہ ہوگی‘‘۔
(قرطبی)
تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمہ گیری کا اندازہ کرنے کے لئے یہ حدیث مبارکہ پڑھیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سراقہ بن جعشم سے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑے صدقہ پر آگاہ نہ کروں۔ عرض کیا ضرور مہربانی فرمایئے۔ فرمایا : ’’تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا اس کے لئے کمانے والا کوئی نہ ہو‘‘۔ اسی کی تائید ایک دوسری حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے۔ بخاری و مسلم میں ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’اگر کوئی شخص اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرے تو یہ اس کے لئے صدقہ ہے‘‘۔
(بخاری 55، مسلم 1002)
بیٹا نعمت ہے تو بیٹی رحمت ہے۔ دونوں کے مابین فرق نہ کرنے والے کو جنت میں داخلے کا مژدہ سنا دیا فرمایا :
’’جس کی ایک بچی ہو وہ اسے زندہ درگور بھی نہ کرے، اس کی توہین بھی نہ کرے، اپنے بیٹے کو اس پر فوقیت بھی نہ دے تو اس امر کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا‘‘۔
(ابو داؤد)
مذکورہ بالا احادیث کسی بھی مسلم گھرانے کے لئے بے پناہ خوشی و مسرت کا باعث ہیں جب ان کے ہاں بچیاں پیدا ہوتی ہیں تو دیندار والدین اس سے خوش ہوتے ہیں کہ یہ بچیاں ان کے لئے جنت کا دروازہ کھول رہی ہیں اور جہنم سے آڑ بن رہی ہیں۔ ایسے والدین جن کے پاس بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں یا بیٹوں سے زیادہ ہیں تو ان کو لڑکی کی پیدائش پر افسوس نہیں بلکہ خوشی کا اظہار کرنا چاہئے کہ بیٹی تو والدین کے لئے رحمتیں لے کر آتی ہے مگر نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں آج پھر وہی فرسودہ اور اندوہناک حالات پیدا ہو رہے ہیں جیسا کہ دور جاہلیت میں بیٹی کی پیدائش و پرورش پر ہوا کرتے تھے۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ایسے تمام مظالم کا اپنی سیرت و تعلیم کے ذریعے قلع قمع فرما دیا تھا۔ ۔ ۔ مگر آج پھر وہی بچی معاشرے کے لئے تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔ جس اسلام نے اسے جینے کا حق دیا تھا اسی اسلام کے نام لیوا آج اس سے جینے کا حق چھین رہے ہیں۔ ۔ ۔ قتل اولاد حرام ہے جیسا کہ پہلے بآی ذنب قتلت کی ذیل میں بیان کیا گیا اور بتایا گیا کہ اسقاط حمل جیسا سنگین فعل بھی اسی گناہ کے زمرے میں ہے کیونکہ حمل کے چار ماہ بعد جنین میں بالامر الہٰی روح پھونک دی جاتی ہے اور اس کا حکم مکمل انسان کا ہے اور اس کو ضائع کرنا قتل انسان کے زمرے میں ہے۔ مگر آج الٹراساؤنڈ کے ذریعے بچے کی جنس معلوم کر کے بیٹی کی پیدائش کے انکشاف پر حمل ساقط کروانا عام ہو گیا ہے۔ اس فعل کے پس منظر میں وہی دور جاہلیت جیسے حالات کی توجیہ کی جاتی ہے جو کہ سراسر گناہ، ظلم اور اللہ کے حکم کی صریح مخالفت ہے۔
اسقاط حمل سے متعلق اقوام متحدہ UNO کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کو کم کرنے کے لئے اسقاط حمل کے زیادہ تر واقعات چین، کوریا، تائیوان، سنگاپور، ملائیشیا، بھارت اور پاکستان کے علاوہ ایشیا اور شمالی افریقہ کے بہت سے ممالک میں ہوتے ہیں۔ حالیہ اندازے کے مطابق جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے سات کروڑ 90 لاکھ کم ہے جس کی وجہ سے اسقاط حمل اور طفل کشی (Infanticide) ہے۔ کئی معاشروں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو خوراک اور ضروریات زندگی کم مہیا کی جاتی ہیں اور ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی جس سے وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ ۔ ۔ اسقاط حمل کا یہ وہ مکروہ پہلو ہے جس کے خلاف بھارت میں حال ہی میں قانون سازی کی گئی ہے۔
اسقاط حمل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی غیر قانونی ہے مگر پاپولیشن کونسل کے ایک اندازے کے مطابق مختلف وجوہ کی بناء پر پاکستان میں ہر سال دس لاکھ عورتیں اسقاط حمل کروانے پر مجبور ہوتی ہیں اور ان میں زیادہ تعداد بچیوں کے حمل کی ہوتی ہے۔ تاہم اس سرگرمی کی پس پردہ نوعیت کی وجہ سے اس پر درست اور حتمی اعداد و شمار موجود نہیں اور اصل تعداد اوپر دیئے گئے اعداد سے کافی بلند ہو سکتی ہے۔
یہ ان تلخ حقائق کی ہلکی سی جھلک ہے جس سے صرف یہ اندازہ لگانا مقصود ہے کہ ایک اسلامی ملک میں رہتے ہوئے کس قدر خاموشی سے انسانی جان کا خون کیا جا رہا ہے۔۔۔ خدارا خوف کیجئے۔۔۔ اپنے آپ پر اور اپنے جسم و جگر کے ٹکڑے پر رحم کیجئے۔۔۔ شیشے جیسے دل اور پھول جیسے چہرے سے منہ مت موڑیئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل روز محشر ان معصوم بے زبان شیشوں کو توڑنے کی وجہ سے آپ فرمان الہٰی بای ذنب قتلت کے سزاوار ہوں۔۔۔ اور وہ ذلت و رسوائی اس فانی دنیا کے مقابلے میں عظیم تر ہے۔۔۔۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین اسلام کی سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم آخرت کے خسارے سے بچ سکیں۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )