رمضان حضور کے امتیوں کا مہینہ، موسم بہار کی طرح حسین، بے شمار شاخوں پتوں پھولوں اور پھلوں سے لدا ایک تناور درخت، دنیا میں اپنی نعمتیں بانٹتا ہوا اور ٹھنڈی چھائوں سب پر لٹاتا ہوا۔ ہر محبت کرنے والا اس سے اپنی استطاعت سے بڑھ کرفیض یاب ہوتا ہے، کوئی دس گنا کوئی سو گنا اور کوئی سات سو گنا تک لیکن نہ اس کی ٹھنڈی چھائوں میں کمی آتی ہے نہ رحمتوں کے خزانے میں ریت کے ذرے کے برابر بھی جگہ خالی ہوتی ہے۔ ذرا سوچیئے اس ایک سال میں کتنے ہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے لیکن ہم اللہ کے فضل و کرم اور حضور علیہ السلام کے نعلین پاک کے تصدق سے اپنی اس مختصر زندگی میں ایک بار پھر اس ماہ مبارک کی رحمتیں، برکتیں اور بہاریں دیکھ رہے ہیں اگرچہ ہمارے مادر وطن میں ظلم و ستم کی تاریک رات ہر حوالے سے تاریک ترین ہو چکی ہے پھر بھی رمضان کی بہاریں اپنے جوبن پر ہیں کہیں افطاری کی رونقیں، کہیں سحریوں کے رت جگے، کہیں تراویح کی گہما گہمی، کہیں ذکر و اذکار کی محفلیں، کہیں دروس قرآن کے سلسلے اور کہیں درود و سلام سے مہکتی ہوائیں۔ رمضان کی تربیت اور برکت ایسی کہ سارا سال عام گفتگو میں بھی گالی گلوچ کا بے دریغ استعمال کرنے والے ہر وقت زبانوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ مسجدیں نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہیں۔ گھٹنوں سے بھی اوپر نیکریں پہن کر گھومنے پھرنے والے اپنے سروں کو ٹوپی سے ڈھک کر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ گھروں کے عین باہر گلیوں میں گانے گاتے ہوئے اور ٹھٹھا مذاق کر کے ایک دوسرے سے اوئے اوئے کہہ کر چیخ چیخ کر باتیں کرنے والے لڑکے اور مردوں کی زبانوں پر تلاوت، درود اور نعتوں کے ترانے ہیں۔ سبحان اللہ کچھ بھی ہو رب نے فرمایا رمضان میں شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے تو اب شیطان جکڑا ہوا ہے۔ بے راہ روی، گستاخی، بے ادبی اور بدتہذیبی کے اس انتہائی حساس دور میں بھی وہ اس ماہ میں آزاد نہ ہو سکا۔ ہاں ہمارے اندر کا وہ شیطان جسے ہم اپنی فطرت بنا لیتے ہیں وہ اب بھی سرکشی کرتا نظر آتا ہے لیکن غلبہ بحر حال رب کے فرمان کا ہی ہے۔ آیئے ذرا اندرون خانہ بھی دیکھتے ہیں کیا ہو رہا ہے۔ رمضان کے نور سے گھر جگمگا رہے ہیں، ماحول میں پاکیزگی ہے، گھر کے بڑے خود بھی عبادت کا اہتمام کر رہے ہیں۔ بچوں کو بھی ترغیب و تاکید کی جا رہی ہے۔ مائیں سحری کی تیاریوں میں مصروف ہیں کسی بچے کو دودھ سویاں پسند ہیں کسی کو گرم گرم پراٹھے سالن کے ساتھ، شوہر کے لئے کچھ زیادہ اہتمام کرنا ہے تو بزرگوں کے لئے گرما گرم پھلکے سالن چائے وغیرہ جلدی جلدی سحری کی کہ اس کے بعد تہجد کے نوافل بھی پڑھنے ہیں اگر کہیں اس عمل سے غفلت ہے تو کہیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ گھر کا سربراہ سب گھر والوں کو ساتھ کھڑا کر کے نماز پڑھوا رہا ہے عورتیں گھروں میں اور مرد مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے بعد تلاوت کلام پاک میں مصروف ہو جاتے ہیں گھر کا ماحول قرآن پاک کی ہلکی ہلکی آوازوں اور تلاوت کے نور سے گونجنے اور جگمگانے لگتا ہے۔ دوپہر ہوتی ہے افطار کے اہتمام شروع ہو جاتے ہیں۔ دستر خوان سجنے کے تیاریاں ہو رہی ہیں۔ پھلوں کی چاٹ بن رہی ہے۔ دہی بھلوں پر مصالحہ چھڑکا جا رہا ہے اور پھر پکوڑے پہ پکوڑے تو افطاری کے لئے ایسے لازم ہیں جیسے ان کے بغیر تو روزہ کھلے گا ہی نہیں، ساتھ املی کی چٹنی چٹخارے کو اور بڑھا دیتی ہے۔ بیٹیاں، بہوئیں ماؤں کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ بزرگ دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ رمضان کی برکت سے سب کے دستر خوان وسیع ہیں۔ بچوں کے بے صبر اور بے تاب نظریں گھڑی پر اور کان مسجد کے اعلان پر لگے ہیں۔ سحری افطاری کی یہ خوشیاں اور رمضان کی یہ بہار ہر آنگن میں اتری ہے گھر کا ہر فرد اس بہار سے خوش ہے جھوم رہا ہے۔
گھر سے نکل کر فرد اور معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ فرد ایک اکائی ہے انہیں اکائیوں سے مل کر معاشرہ بنتا ہے اور معاشروں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے ہی رب کائنات کی منصوبہ بندی کے مطابق انبیاء آتے رہے، صحیفے اترتے رہے، کتابیں نازل ہوتی رہیں، حکومتیں بنتی رہیں بگڑتی رہیں، ملک وجود میں آتے رہے قافلے بنتے رہے، کارواں چلتے رہے۔ کبھی سحر ہوئی کبھی ظلمت کی سیاہ رات کے سائے پھیلے تاریخوں کی اس ادھیڑ بن میں ماہ و سال پر لگا کر اڑتے رہے۔ صدیوں کے سفر پر محیط قافلہ زندگی 20 ویں صدی میں داخل ہوا۔ اس صدی کا آغاز ہوا تو وہ مشرق جہاں سے میر عرب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ٹھنڈی ہوا آتی تھی۔ وہ ظلم و بربریت کا شکار ہو کر صحرا کی تپتی ریت کی طرح جل رہا تھا۔ اپنی بداعمالیوں، بے دینی اور عاقبت نااندیشیوں کی وجہ سے مسلمان پورے ایشیا خاص طور پر برصغیر میں ذلیل و رسوا تھے، برباد تھے ان کی کوتاہیوں کی وجہ سے اسلام کا پاکدامن داغدار ہو رہا تھا۔ سب کچھ تھا لیکن وہ خواب غفلت میں پڑے تھے۔ رب نے انہیں جھنجھوڑا، اسلام کی بجھتی ہوئی شمع کی حفاظت کے لئے پروانوں کا انتخاب شروع ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کے لئے ہندوؤں کے ساتھ ایک جگہ رہتے ہوئے سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تو ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی اس پاک منصوبے کی تکمیل کے لئے اللہ نے ایک عاشق رسول کو ہی منتخب فرمایا۔ سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتے ہیں۔ دن کی شفاف روشنی میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سچا خواب دیکھا۔ انہیں فکر پاکستان عطا ہوئی۔ قائداعظم کے ہاتھوں میں اللہ نے اس تعبیر کی باگ دوڑ تھمائی، اللہ کے فضل و کرم سے لوگ ملتے گئے قافلہ بنتا اور بڑھتا چلا گیا۔ بے شمار مشکلات آئیں بے اندازہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حوصلے پست کئے گئے پاکستان کے خواب اور نام کو دیوانے کی بڑ کہا گیا لیکن اللہ نے بتلا اور دکھلا دیا کہ یہ عظیم مقصد دیوانے کی بڑ نہیں تھا یہ تو اسلام کے نام پر دنیا کی پہلی نظریاتی مملکت بننے جا رہی تھی۔ عظیم کام عظیم مواقع پر ہی وجود پذیر ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی سربلندی کے لئے اسلام کا قلعہ بنانے کے لئے پاکستان کے قیام کے لئے اور اپنے محبوب کے امتیوں کے لئے اللہ نے اپنے محبوب کے امتیوں کا ہی مہینہ منتخب فرمایا۔ قرآن کی عظمت کا بول بالا کرنے کے لئے، نظامِ قرآن کو نافذ کرنے کے لئے، نزول قرآن کی رات کا انتخاب ہوا، غلبہ دین حق کے لئے جمعۃ الوداع کا انتخاب ہوا۔ رمضان کا مہینہ 27ویں کی رات جمعۃ الوداع کا دن سبحان اللہ دنیا کے نقشے پر ایک عظیم ملک وجود میں آ گیا۔ رنگ و نور میں نہائی ہوئی لیلۃ القدر کی پاکیزہ صبح طلوع ہوئی اور وجود پاکستان کا پہلا دن شروع ہوا۔ یہ بھی رمضان کا مہینہ ہے وہ بھی رمضان کا ہی مہینہ تھا ایسی ہی سحریاں افطاریاں تھیں لیکن 1947ء کے رمضان کی ترنگ اور امنگ ہی کچھ اور تھی جشن پاکستان منایا جا رہا تھا لیکن آج کی طرح نہیں۔ بہنوں، بیٹیوں کے سروں سے دوپٹے تب بھی کھینچے جا رہے تھے لیکن تب یہ کام پاکستان کے دشمن اسلام کے دشمن ہندو سکھ اور عیسائی کر رہے تھے۔ افسوس آج یہی کام اپنے پاکستانی مسلمان بھائی کر رہے ہیں۔ تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات میں معصوم بچوں کو نیزوں کی انی پر چڑھایا جا رہا تھا لیکن تب یہ کام اسلام اور پاکستان کے دشمن کر رہے تھے آج ان واقعات میں اپنے ہی ملوث ہیں گھر تب بھی جلائے جا رہے تھے آج بھی جلائے جاتے ہیں لیکن آج یہ کام اپنے ہی کرتے ہیں۔ اس تب اور اب میں مقصد پاکستان کہیں کھوگیا۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ منوں مٹی تلے دب گیا اور 27 رمضان گم ہوگیا۔ صرف 14 اگست رہ گیا۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کی سرحدوں کو اسلام کے ہی خلاف استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ملک عزیز پاکستان کو آج اپنے وجود کے سبب سے خطرناک بحرانوں کا سامنا ہے۔ کرپشن کی صورت میں مال کے فتنہ عظیم سے گزر رہا ہے غدارانِ وطن کی ایک کھیپ نے اسے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ اگرچہ پاکستان آج بھی قائم ہے۔ ان شاء اللہ کل بھی قائم رہے گا لیکن یہ قیام اپنے وجود کی کیا قیمت ادا کر رہا ہے یہ سب جانتے ہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آج ہمارے موجودہ حکمرانوں کی صورت میں ہمارے وطن عزیز پر کون سی طاقتیں حکومت کر رہی ہیں۔ ایک عظیم زرعی ملک ہونے کے باوجود مہنگائی اور اس کے باعث غربت کا یہ عالم کہ مائیں اپنے بھوکے پیاسے بچوں سمیت خود کشی کررہی ہیں تو کہیں دو وقت کے کھانے کی خاطر ماں باپ اپنے بچے فروخت کررہے ہیں۔ پورے ملک میں گاڑیوں کی بہتات ہے لیکن انہیں چلانے کے لئے ایندھن نایاب یا کمیاب تو ضرور ہے۔
فحاشی، عریانی، بے غیرتی اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ بے حجاب فیشن شوز بند عمارتوں سے نکل سمندر کے کھلے ساحلوں تک پہنچ گئے ہیں۔ غریب پاکستانی کے پاس 5 روپے کی ایک روٹی خریدنے کے لئے پیسے نہیں۔ حکمران 20، 20 لاکھ کے کوٹ زیب تن کر رہے ہیں۔ جوانوں کی اکثریت ہے لیکن شاہینوں نے پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنا چھوڑ دیا ہے، عوام کا ہجوم ایک منتشر مضطرب بھیڑ بن گیا ہے سیاسی قیادت اور لیڈرز کی ایسی کمی کہ ہر قائد اور لیڈر صرف اور صرف اپنے وجود کی بقا کی فکر میں مصروف کار ہے۔ ملک عزیز میں زیاں تو حد درجہ ہے جبکہ احساس زیاں ختم ہوگیا ہے اور سب سے بڑا ستم یہ کہ ہر شخص کو دوسرے پر بھروسہ ختم ہوگیا ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے ہر طرف بداعتمادی کی فضا ہے۔ سب کو کسی مسیحا کا انتظار تو ہے لیکن اب شاید کوئی مسیحا کو بھی مسیحا ماننے پر تیار نہیں۔ ناامیدی، مایوسی، بے اعتمادی اور خود غرضی کی تاریکی ایسی کہ ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہیں دے رہا لیکن قانون فطرت ہے کہ رب بڑا رحمن ہے۔ رات کی سیاہی انتہا کو پہنچتی ہے تو سپیدہ سحر نمودار ہوتا ہے۔ بندہ بندے سے مایوس ہوتا ہے لیکن رب بندے کو دوبارہ کھڑے ہونے اور سنبھلنے کا موقع ضرور دیتا ہے۔ 65 سال بعد ایک بار پھر رمضان شریف میں مغفرت کے عشرے میں طاق راتوں میں یوم آزادی پاکستان آ رہا ہے وہی 65 سال قبل والی نورانی فضائیں پاکیزہ ہوائیں ہوں گی ہر طرف دروس قرآن ہوں گے ذکر و اذکار تسبیح و تہلیل کی محفلیں ہوں گی ہر شخص روزہ دار ہوگا۔ رب کے حضور بخشش کا طلبگار ہوگا۔ روح ذکر الہٰی کے انوار سے سرشار ہوگی طاق راتوں میں رب کے حضور سجدہ ریزیاں ہوں گی اور مساجد میں رو رو کر پاکستان کی بقاء کے لئے دعائیں ہوں گی۔ یوم آزادی پاکستان تو ہوگا لیکن اس خوشی میں ساحلوں پر فیشن شوز اور میوزک کنسرٹ نہ ہوں گے سر پر ٹوپیاں تو ہوں گی گھٹنوں سے اوپر شارٹس نہ ہوں گی۔ سڑکوں پر گاڑیاں تو ضرور ہوں گی بہنوں کے سروں سے دوپٹے کھینچتے ہوئے بھائی اور مائوں کی گود اجاڑتے ہوئے ون ویلنگ کے دلخراش نظارے نہ ہوں گے۔ طاق رات ہوگی، شب بیداری بھی ہوگی، نماز تراویح میں جوانوں کی کثرت ہوگی لیکن سڑکوں پر سیٹیاں بجاتے اور بیہودہ حرکتوں سے عوام کی زندگی عذاب بناتے ہوئے نوجوان نہ ہوں گے۔ پھر عبادت کے نور میں دھلی پاکیزگی کے سانچے میں ڈھلی نکھری ہوئی پاکیزہ صبح ہوگی۔ پاکستان دوبارہ پیدا ہوگا پاکستان کو دوبارہ پیدا ہونا ہی ہے کہ بقول شاہ فیصل مرحوم پاکستان اسلام کا قلعہ ہے نشانیاں بتا رہی ہیں کہ غفورالرحیم رب ہمیں اس ملک کو دوبارہ بنانے کا موقع ضرور دے گا ہم عاجز ہیں، رب کائنات عاجز نہیں۔ قانون قدرت ہے جو چیز ایک بار عدم سے وجود میں آئی وہ دوبارہ بھی پیدا ہو سکتی ہے اور پھر سب سے بڑھ کے میرے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی وہ بشارت جسے عاشق رسول علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح شعر میں ڈھالا۔
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے