انتخابی اصلاحات پر مشتمل ایک مسودئہ قانون حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے اور منظور کروانے کا اعلان کیا گیا ہے، دیکھتے ہیں یہ بل کب اسمبلی میں آتا اور منظوری کے مراحل طے کرتا ہے کیونکہ پانامہ لیکس کے فیصلے کی آمد آمد ہے، زیر نظر تحریر کے شائع ہونے تک فیصلہ آجانے کی قوی امید ہے اور پھر حکومت کس حال میں کھڑی نظر آتی ہے اور انتخابی بل 2017ء منظور کرنا موجودہ حکومت کی قسمت میں ہے کہ نہیں اس بارے فی الحال کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔ 25جولائی 2014ء کے دن ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک انتخابی، اصلاحاتی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کے ذمہ شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے انتخابی اصلاحات تیار کرنا تھا، کمیٹی نے 3ماہ میںسفارشات مرتب کرنا تھیں مگر 3 سال میں 119 اجلاس مرتب کرنے کے بعد ایک ایسا مسودئہ قانون تیار ہوا جو متفقہ نہیں ہے اس مسودئہ قانون پر پارلیمانی اپوزیشن کی کچھ جماعتوں نے دستخط نہیں کئے۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ انتخابی اصلاحات پر متفقہ بل ڈرافٹ نہیں ہوسکا۔ اس مجوزہ بل میں خواتین کے حوالے سے2 بطور خاص قابل ذکر امور ہیں، اگر واقعتا ان پر قانون سازی ہو جاتی ہے تو یہ پاکستان کے انتخابی، جمہوری ماحول میں خوش کن ہو گی اور آئین کے آرٹیکل 34 جو کہتا ہے قومی زندگی کے تمام شعبوں میں عورتوں کی مکمل شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کئے جائیں گے کی طرف ایک سنجیدہ پیش رفت ہوگی۔ مذکورہ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں پانچ فی صد نشستیں خواتین کیلئے بطور کوٹہ مختص کریں گی۔ دوم جس حلقے میں خواتین کے ووٹ 10 فی صد سے کم کاسٹ ہونگے وہاں دوبارہ پولنگ کروانے کا حکم دیا جا سکے گا ۔ ان شرائط سے خواتین کی انتخابی جمہوری ماحول میں اہمیت بڑھے گی اور 10 فی صد سے کم ووٹ کاسٹ ہونے کے نقصانات سے بچنے کیلئے متحارب امیدوار خواتین کو پولنگ سٹیشنز تک لانے کے حوالے سے سر دھڑ کی بازی لگائیں گے۔ بعض صوبوں اور علاقہ جات میں خواتین کے سیاسی کردار کو پسند نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ انہیں ووٹ بھی کاسٹ نہیں کرنے دیا جاتا ۔ 2013ء کے انتخابات میں ایسی رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں کہ بعض پولنگ سٹیشنز پر خواتین کا ایک ووٹ بھی پول نہیں ہوا، اور ایسا مخصوص سوچ رکھنے والے مردوں کے دباؤ کے سبب سے تھا۔
2002ء میں سابق آرمی چیف / صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے خواتین کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں فکسڈ 66نشستیںاور بلدیاتی اداروں میں 33فی صد نمائندگی دی اور یہ باور کرایا کہ بتدریج خواتین کے سیاسی کرداراور نمائندگی کو بڑھایا جائے گا۔ ایل ایف او کی روشنی میں چاروں صوبوں سے پہلی بار مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی پڑھی لکھی مگر ناتجربہ کار خواتین کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں آئی مگر مسلسل تین Tenures گزرنے کے باوجود خواتین کے آئینی، سیاسی کردار کو اس طرح تسلیم نہیں کیا گیا جس کی توقع اور ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ خواتین اراکین اسمبلی کو مرد اراکین اسمبلی کی طرح ترقیاتی عمل سے دور رکھا گیا، قانون سازی کے عمل میں بھی خواتین کو اہمیت نہیں دی گئی، کابینہ میں بھی خواتین کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر رہی، اس کے ساتھ ساتھ یومیہ اسمبلی بزنس میں بھی خواتین کو اس طرح شامل نہیں کیا گیا جس طرح مرد اراکین اسمبلی کارروائی میں شریک رہتے ہیں۔ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونیوالی خواتین کو ’’طفیلی‘‘ رکن اسمبلی سمجھا گیا۔ مرد اور عورت کی تفریق کی گئی۔ پنجاب اسمبلی میں یہ صورت حال تو انتہائی ناگفتہ بہ رہی، حکمران جماعت نون لیگ کے ایک سابق وزیر اور ایک موجودہ صوبائی وزیر نے تو باقاعدہ خواتین اراکین اسمبلی پر اسمبلی کے اندر حملے کئے، آوازے کسے اور انکی توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بہرحال 21 ویں صدی اور دنیا کے گلوبل ویلج میں تبدیل ہونے کے باوجود وطن عزیز میں خواتین کے بارے میں مخصوص سوچ تبدیل نہیں ہوئی اور مقتدر حلقوں نے خواتین کے آئینی کردار کو دل سے تسلیم نہیں کیا اگر ہم گزشتہ 14 سال پر محیط تین اسمبلیوں میں خواتین کے پیش کردہ پرائیویٹ بلز کی منظوری کی شرح جاننا چاہیں تو نتائج مایوس کن ملیں گے۔ شاید کوئی ایک آدھ بل منظور ہوا ہو۔ یہ جاگیردارانہ، غاصبانہ سوچ کے آئینہ دار رویے ہیں۔ اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں خواتین کا ایک فعال سیاسی، سماجی، عسکری، معاشی، علمی کردار نظر آتا ہے، اسلام میں خواتین کو تعلیم کے حصول سے لے کر صنعت و حرفت تک آزادانہ مسابقتی کردار کی ادائیگی کا ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ اگر ہم عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وقوع پذیر ہونیوالے غزوات پر ایک نظر ڈالیں تو خواتین کا ایک قابل رشک متحرک کردار نظر آتا ہے جو اس بات کی نا قابل تردید دلیل ہے کہ اسلام ایک ماڈریٹ اور صنفی امتیاز اور تعصب سے بالا ایک ضابطہ حیات ہے مگر افسوس اسلام کے قلعہ پاکستان میں اسلام کی غلط تعبیر پیش کر کے خواتین کے سیاسی، سماجی، معاشرتی کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی اور خواتین کے بارے میں مجموعی عمومی رویے زمانہ جاہلیت سے مختلف نہیں۔ آج بھی خواتین کی خرید و فروخت، بدلے کی شادی، ونی، سوارا جیسی جاہلانہ رسومات اور استحصالی رویے موجود ہیں اور یہ سب کچھ اسمبلیوں میں خواتین کے ہوتے ہوئے ہو رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین کو انکا کردار ادا نہیں کرنے دیا جا رہا۔
آج خواتین کو جس ملک پاکستان میں سیاسی، معاشی، انتظامی، استحصالی رویوں کو سامنا ہے اسی وطن کے حصول میں خواتین کا کردار تاریخ پاکستان کا ایک قابل فخر اور سنہرا باب ہے۔ بانی پاکستان نے خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میںآگے آنے کی تلقین اور ترغیب دی۔ 1919ء میں پٹنہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں کچھ خواتین نے قائد اعظم کو تحریری درخواست دی کہ خواتین کو قومی سیاسی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔ قائد اعظم نے بخوشی یہ درخواست قبول کی اور خواتین کو ہر صوبہ، ضلع، تحصیل، مواضعات میں ویمن لیگ کی شاخیں قائم کرنے کی اجازت دی، اس ایک فیصلہ کے باعث تحریک پاکستان میں خواتین لیڈر شپ کی ایک ایسی کھیپ سامنے آئی جس نے آزادی کے پیغام کو ہر گھر تک پہنچایا اور تحریک آزادی میں جان ڈال دی۔ ان باوقار خواتین میںمادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ بی اماں، بیگم نصرت عبد اللہ ہارون، بیگم اقبال حسین ملک، بیگم جہاں آراء شاہنواز، بیگم رعنا لیاقت علی، بیگم سلمہ تصدق حسین، بیگم شائستہ اکرام اللہ، بیگم کمال الدین، بیگم محمد علی جوہر، بیگم فاطمہ بطور خاص شامل تھیں۔ جس طرح تشکیل پاکستان میں خواتین کے متحرک کردار کے باعث حصول پاکستان کی منزل قریب تر ہوئی اسی طرح پالیسی ساز ذہن نشین کر لیں کہ خواتین کو نظر انداز کر کے پاکستان کی تعمیر و ترقی کا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔ انتخابی اصلاحات میں خواتین کے آئینی سیاسی کردار سے متعلق قانون سازی اچھی بات ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کے حوالے سے مخصوص مائنڈ سیٹ کو بدلا جائے۔ قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد بھی کیا جائے۔ اس موقع پر ہم یہاں قائد انقلاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا فخر کے ساتھ ذکر کریں گے کہ انہوں نے تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم کو ملک و ملت کی تعمیر اور دین کی خدمت کے حوالے سے خواتین کیلئے کھلا رکھا۔ تحریک منہاج القرآن کے تعلیمی اور فلاحی منصوبہ جات میں خواتین کی تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود کو خصوصی توجہ حاصل ہے۔