نور ایمان انسانی چہروں سے ظہور پذیر ہوتا ہے
سب سے بہتر معاشرت اہل وعیال کے ساتھ عمدہ زندگی بسر کرنا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيْمِ.
(المطففين، 83: 24)
’’آپ ان کے چہروں سے ہی نعمت و راحت کی رونق اور شگفتگی معلوم کر لیں گے‘‘۔
اہل ایمان کے چہروں پر سب سے بڑی رونق ایمان کی نعمت ہوتی ہے۔ یہی ایمان ہی ان کے چہروں کو ترو تازہ رکھتا ہے اور ان کے وجودوں میں جس قدر ایمان کی بہار ہوتی ہے اسی قدر ان کے چہروں پر شگفتگی اور تازگی رقصاں ہوتی ہے۔ چہروں کی اصل تروتازگی اور حسن و شائستگی اور جاذبیت و کشش ان کے باطن میں موجود ایمان کی قوت اور طاقت ہوتی ہے جو ان کے چہروں کو روشن و تاباں رکھتی ہے اور ان چہروں کو کبھی مرجھانے اور دھندلانے کی کیفیت سے دوچار نہیں ہونے دیتی۔ اس لئے کہ ایمان چہروں سے عیاں ہوتا ہے نور ایمان انسانی چہروں سے ظہور پذیر ہوتا ہے، نور ایمان اور انسانی چہرہ لازم و ملزوم کیفیت رکھتے ہیں۔
زندگی خوش رہنے کا نام ہے
اسی طرح سورہ انشقاق میں ارشاد خداوندی ہے:
اِنَّهُ کَانَ فِیْٓ اَهْلِهِ مَسْرُوْرًا.
(الانشقاق، 84: 13)
’’بے شک وہ (دنیا میں) اپنے اہلِ خانہ میں خوش و خرم رہتا تھا‘‘۔
سب سے بہترین معاشرت اہل و عیال کے ساتھ عمدہ طریقے سے زندگی بسر کرنے سے عبارت ہے۔ معاشرتی اور عائلی زندگی کا کمال یہ ہے اہل خانہ کے ساتھ زندگی کی تمام تر مشکلات میں مسرور کن زندگی بسر کی جائے اور زندگی کا یہ مسرور چہروں کے تبسم اور مسکراہٹ کے بغیر میسر نہیں آتا۔ اہل ایمان کی معاشرتی زندگی کی ابتداء اہل و عیال سے ہوتی ہے وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ جو زندگی گزارتے ہیں اس زندگی کے نہج میں غلبہ و تفوق حالات سرور اور حالت فرحت اور حالت بشاشت کو ہوتا ہے۔ اہل و عیال کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کرنا یہ بہترین معاشرتی اور اعلیٰ انسانی زندگی ہے۔
اس لئے جو انسان گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے وہ باہر والوں کے ساتھ بھی اچھا ہے، وہ جو گھر میں برا ہے وہ باہر والوں کے ساتھ بھی برا ہے، گھر والوں کے ساتھ اچھا کیسے رہا جاسکتا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ تمہارے چہرے پر حالت غضب سے زیادہ حالت سرور ہو، تم گھر میں خود کو خوش و خرم رکھنے کی کوشش کرو تمہاری یہ گھر کی عادت ہی تمہاری باہر کی زندگی کی شناخت بن جائے گی۔ گھر والوں کے ساتھ خوش و خرم رہنا اہل ایمان کی پہچان اور خصوصی صفات میں سے ہے اس لئے قرآن کہتا ہے:
اِنَّهُ کَانَ فِیْٓ اَهْلِهِ مَسْرُوْرًا.
(الانشقاق، 84: 13)
’’بے شک وہ (دنیا میں) اپنے اہلِ خانہ میں خوش و خرم رہتا تھا‘‘۔
انسانی چہرے پر غضب اور تکبر نہ آئے:
انسانی چہروں پر دو چیزوں کا ظاہر ہونا ناپسندیدہ ہے۔ ایک غیض و غضب ہے اور دوسرا تکبر و غرور ہے۔ اس لئے قرآن کہتا ہے اگر تمہارے چہروں پر غیظ و غضب کے آثار آئیں تو کوشش کرو ان کو ضبط کرلو، اس غیظ و غضب کو بھڑکنے نہ دو، اگر یہ غیض و غضب بھڑک اٹھا تو یہ آگ کی طرح پھیلتا جائے گا اور جس وجود سے ظاہر ہوگا اسے بھی جلائے گا اور دوسروں کو بھی جلاتا جائے گا جس چہرے میں یہ نمایاں ہوا اس کے بدن میں خون کی گردش کو بڑھائے گا اور اپنے مخاطب کے خون کو بھی طیش میں لائے گا، دونوں طرف کے خون کی یہ حرارت اور تمازت بیماری کی صورت میں ظاہر ہوگی اور فتنہ و فساد کی صورت میں بھی نمایاں ہوگی اس لئے غیض و غضب اور غصہ ایک آگ ہے۔ آگ کا وظیفہ ہی جلنا اور جلانا ہے۔ غیض و غضب اور غصہ دو طرفہ کام کرتا ہے۔ یہ غصہ جس فرد کو آتا ہے اس کے لئے بھی نقصان دہ ہے اور جس پر انسان غصہ کرتا ہے اس کے لئے بھی خسارہ جان ہے۔
دوسرا برا خلق جو انسان کے حسن کو ماند کرتا ہے اور انسان کے چہرے کی عظمت اور ملائمت کو روبخاک کرتا ہے وہ تکبر و غرور کا اس چہرے پر ڈیرے ڈالنا ہے اور دوسرے افراد کو ملتے ہوئے اپنے چہرے کو متکبرانہ اور مغرورانہ انداز میں کج کرنا اور اپنے رخساروں کو کج رو کرنا اور اپنے چہرے پر تکبر اور غرور کے آثار ظاہر کرنا یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو سخت ناپسندیدہ ہے۔ اس لئے قرآن کہتا ہے:
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ.
(لقمان، 31: 18)
’’اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر‘‘۔
چہرے کے رخساروں کا کج ہونا اور دوسروں سے ملتے ہوئے اپنا چہرہ ہی پھیر لینا یہ علامت تکبر ہے، علامت ایمان ہرگز نہیں بلکہ یہ عمل ایمان کے منافی ہے۔ انسان کا وہ چہرہ رب کو پسندیدہ ہے جس چہرے میں عاجزی و انکساری کے احساسات اور جذبات کا ظہور ہو جو چہرہ دنیا کی ساری عظمتوں کو سمیٹنے کے باوجود عاجزی و انکساری کا اعلیٰ شاہکار ہو وہ چہرہ جو رحمتیں اور عظمتیں عطا کرنے والے رب کی عظمت اور ربوبیت کی علامت ہو۔
انسانی چہرہ اور اللہ کی معرفت:
انسان کا چہرہ تو درحقیقت رب کی معرفت دیتا ہے اور یہ انسانی چہرہ ہی ہے جو رب کے انوار اور تجلیات کا مھبط بنتا ہے۔ یہی انسانی چہرہ جسے دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے۔ یہ چہرہ اللہ کی قدرتوں کا امین ہے یہ چہرہ اللہ کی رحمت کا آئینہ دار ہے۔ یہ چہرہ رب کی صفت ربوبیت کا شاہکار ہے یہ چہرہ خدا کی پہچان اور معرفت دیتا ہے اور یہ انسانی چہرہ آیت من آیات اللہ ہے۔ اس لئے مناسب نہیں اس چہرے پر وہ آثار ظاہر ہوں جو اللہ کو پسند نہیں۔ اس پر وہ علامات دکھائی دیں جو اللہ کی رحمت کے لئے مغضوب ہیں۔ اس لئے کہ یہ چہرہ رب کی نشانی ہے اس میں وہ صفات ظاہر ہوں جو اللہ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہوں اور سب سے بہترین صفات اور اعلیٰ خوبیاں اور عمدہ ترین خلق، خلق الہٰی ہے۔ اس لئے قرآن کہتا ہے:
ومن احسن من الله صبغة؟
’’اللہ کے رنگ سے بڑھ کر کس کا رنگ اچھا ہے؟‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ، انوار الہٰیہ کا مظہر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کی لطافت، نورانیت، ملائمت اور چمک و دمق، مسروریت و فرحت کا عالم کیا تھا حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
عن کعب بن مالک یحدث حسین تخلف حین تبوک قال فلما سلمت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وھو یبرق وجھہ من السرور وکان رسول اللہ اذا سر استنار وجھہ حتی کانہ قطعۃ قمر۔ (متفق علیہ)
’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اس وقت کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں (توبہ قبول ہونے کے بعد) جب میں رسول اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا تو آپ کا چہرہ انور خوشی سے جگمگا رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی مسرور ہوتے تو آپ کا چہرہ مبارک یوں نور بار ہوجاتا تھا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہے‘‘۔
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کے احوال کا ذکر کیا جارہا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت سرور اور حالت فرحت میں ہوتے اور کوئی خوشی کی خبر جب آپ کو ملتی تو آپ کا چہرہ اقدس خوشی و مسرت سے چمک اٹھتا ہے، بے پناہ روشن و تاباں ہوجاتا، چمکتا دمکتا دکھائی دیتا، ایک سلسلہ ’’نور علی النور‘‘ چہرہ اقدس پر چھا جاتا یہاں تک کہ وہ چہرہ رسول چاند کا ایک ٹکڑا محسوس ہونے لگتا۔ اس چہرے کی دید کرنے والے کہتے، ’’کانہ قطۃ قمر‘‘ وہ چہرہ اتنا روشن ہوتا جیسے کہ وہ ایک چھوٹا سا چاند ہے اور چاند کا ٹکڑا ہے۔ کوئی صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو دیکھتا یا سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مل کر دیکھتے تو کہتے:
کان وجهه ورقة مصحف.
(صحيح بخاری، 1: 93)
رسول اللہ کا چہرہ اقدس کتاب مبین قرآن کے اوراق کی طرح روشن و تاباں لگتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کی اسی نورانیت اور چمک و دمق کا اظہار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب آپ کے ایام وصال میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں اپنے چہرہ کی دید و زیارت کرائی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حالت نماز میں آپ کے چہرہ اقدس کی نورانیت کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:
فلما وضح لنا وجه نبی صلی الله عليه وآله وسلم کانظرنا منظرا قط اعجب الينا من وجه النبی صلی الله عليه وآله وسلم حين وضح لنا.
(صحيح بخاری، 1: 94)
’’جب پردہ ہٹا آپ کا حسین چہرہ انور ہمارے سامنے آیا تو یہ اتنا حسیں اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا‘‘۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں:
کان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم احسن الناس وجها واحسنه خلقا.
(صحيح مسلم، کتاب الفضائل، 93)
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس لوگوں کے چہروں میں سے سب سے زیادہ حسین تھا اور آپ کا خلق سب سے بہترین اور عمدہ تھا‘‘۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب چہرہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اور دید کا شرف پاتے ہیں تو چہرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوکر یوں گویا ہوتے ہیں:
مارايت شيئا احسن من رسول الله کان الشمس تجری فی وجهه.
(جامع ترمذی، 2: 206)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو حسین و جمال نہیں دیکھا آپ کا چہرہ اتنا پُرنور تھا ایسے محسوس ہوتا جیسے سورج آپ کے چہرہ قدس میں رقصاں ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نظر آپ کے چہرہ اقدس پر پڑی تو یوں بیان کرتے ہیں:
کان شقه وجهه القمر.
(سبل الهدیٰ، 2: 58)
’’آپ کا چہرہ اقدس چاند کی مانند تھا‘‘۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات چودھویں کا چاند پورے شباب و کمال پر تھا ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی میرے سامنے تشریف فرما تھے میری ایک نگاہ چاند پر پڑتی تھی اور دوسری نگاہ آپ کو تکتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرخ چادر اوڑھے ہوئے تھے میں بار بار کبھی چاند کو دیکھتا کبھی آپ کا چہرہ اقدس دیکھتا، میری نگاہیں اللہ کے ان دونوں حسینوں کا موازنہ کررہی تھیں۔ کہتے ہیں: اللہ کی قسم میں اس نتیجے پر پہنچا میرے آقا کا چہرہ چاند سے حسین تر ہے۔
فهو عندی احسن من القمر.
(شمائل ترمذی: 3)
’’میرے نزدیک آپ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں‘‘۔
حضرت ہند ابی بکر بیان کرتے ہیں:
يتلالو وجهه تلالو القمر ليلة البدر.
(شمائل ترمذی: 2)
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اللہ کی کھلی آیت ہے:
یہ چہرہ مبارک حق کا پتہ دیتا تھا۔ یہ چہرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انوار کا مظہر تھا، یہ چہرہ رسول، چہرہ خداکا مظہر تھا، اس چہرے میں خدا دکھائی دیتا تھا۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من رانی فقد رای الحق فان الشيطان لايتکوننی.
(صحيح بخاری، کتاب التفسير، 2: 1036)
’’جس شخص نے مجھے دیکھا اس نے حق کو دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا‘‘۔
اس لئے آپ کی خدمت میں دور دراز سے اعرابی لوگ آتے آپ کا چہرہ اقدس دیکھتے تو یوں عرض کرتے۔ حضرت حارث بن عمرہ السہمی بیان کرتے ہیں:
قال فجاء الاعراب فاذا اراد وجهه قال هذه وجه مبارک.
(سنن ابی دائود، کتاب المناسک، 8)
’’جب بھی کوئی دیہاتی آپ کے پاس آتا اور آپ کے چہرہ اقدس کی زیارت کرتا تو وہ پکار اٹھتا یہ چہرہ مبارک چہرہ ہے اور انوار الہٰیہ کا مظہر اتم ہے‘‘۔
جو بھی سلیم الفطرت اور طبع سلیم والا شخص اس چہرہ مصطفی کی زیارت کرتا تو وہ اس چہرے کو ہی دیکھتے رہتا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کی جاذبیت اور کشش:
ام طبرانی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا ذکر کرتے ہیں:
کان رجل عند النبی صلی الله عليه وآله وسلم فينظر اليه لا يطرف.
’’ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں آیا اور آپ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا، نہ آنکھ جھپکتا تھا اور نہ ہی کسی اور طرف دیکھتا تھا‘‘۔
آپ نے اس کی یہ حالت دیکھ کر پوچھا اور فرمایا: مابالک۔ تم اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ۔
بالی انت وامی الی اتمتع بک بالنظر اليک.
(ترجمان السنه، 1: 265، بحواله طبرانی)
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘‘۔ میں اس طرح دیکھ کر آپ کے چہرہ اقدس کی زیارت سے لطف اندوز ہورہا ہوں۔
(جاری ہے)