جو لوگ ایمان والے ہیں وہ ہر ایک سے بڑھ کر اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں
خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
مرتب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون:محمد خلیق عامر
محبت اگر خالص ہو تو زندگی کی ترجیحات مقرر کرتی ہے۔ ایک محبت وہ ہے جس کا ہم لوگ دعویٰ کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں۔ یہ خالی محبت ہوتی ہے۔ زندگی میں اس کا وجود نہیں ہوتا، بس ایسے ہی نعرہ بازی ہوتی ہے۔ حالاں کہ محبت نعرہ بازی کا نام نہیں ہے بلکہ محبت زندگی کی ترجیحات کا عملی تعین کرتی ہے اور پہلے سے موجود ترجیحات کو تبدیل کر دیتی ہے۔ اگر محبت صحیح ہو تو ترجیحات (priorities) اور ہو جاتی ہیں۔ دنیاوی ترجیحات کی اور سمت ہے جبکہ محبت الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی زندگی کی ترجیحات (priorities of life) کی ایک الگ سمت ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ.
(البقرة، 2: 165)
’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں ایک موازنہ ہے۔ ایک طرف فرمایا: وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا ’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں‘‘۔ وہ کون ہیں؟ ان کے بارے میں فرمایا: اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ یعنی وہ اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اَشَدُّ فرماکر مبالغے کا صیغہ استعمال کیا کہ ’’وہ اللہ کی محبت میں بہت شدید ہوتے ہیں‘‘۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے بارے میں کہا کہ وہ اللہ کی محبت میں بہت شدید ہیں تو دوسری طرف مقابلے میں یہ بھی تو کہا ہوتا کہ ’’جو بہت مضبوط ایمان والے ہیں‘‘۔ یعنی جو بہت پختہ، اونچے درجے اور کامل ایمان کے حامل ہیں وہ لوگ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح جوڑ نہیں بنایا بلکہ ایمان کی بات سادہ طریقے سے کی کہ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا (جو اہل ایمان ہیں) دوسری طرف جب محبت الٰہی کی بات کی تو اُس کے لیے اَشَدُّ کہا کہ وہ بہت شدت سے محبت کرتے ہیں۔
اس اسلوب کو اختیار کرنے سے واضح ہوا کہ محض ایمان والا ہونا بھی اس وقت تک ثابت نہیں ہوتا جب تک اللہ یا اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں شدت نہ ہو۔ اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر عام درجے کا ایمان اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی شدت مانگتا ہے تو اعلیٰ درجے کا ایمان محبت میں کس درجہ کی شدت کا متقاضی ہوگا؟ گویا ایمان میں جوں جوں ترقی ہوتی چلی جائے گی اُسی نسبت (ratio) سے شدتِ محبت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ایمان کی بنیاد محض محبت سے نہیں شدید محبت سے شروع ہوتی ہے۔
پس معلوم ہوا کہ محبت زندگی کی ساری priorities اور direction of life کو change کر دیتی ہے۔ یہ تبدیلی کیسے ہوتی ہے؟ آیئے قرآن مجید کی روشنی میں اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِيْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی يَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِهِ ط وَاﷲُ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَo
(التوبة، 9: 24)
’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں دنیا میں موجود محبت کی درج ذیل اقسام کا ذکر کیا گیا ہے:
1۔ اولاد کی والدین سے محبت:
محبت کی اقسام میں سے پہلی محبت اولاد کی والدین سے محبت ہے جو کہ مذکورہ آیت میں لفظ اٰبَآؤُکُمْ سے واضح ہے۔ محبت میں والدین کی عزت، ادب، احترام اور اُن کی خدمت کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔ اولاد کی والدین کے ساتھ محبت کا خمیر، مزاج اور nature ایسی ہے کہ اُس میں ادب، احترام، خدمت اور چاہت کا مزاج غالب رہتا ہے۔ یعنی بندوں کے ساتھ ایسی محبت جس میں عزت، ادب، احترام اور خدمت کا جذبہ غالب ہے۔
2۔ والدین کی اولاد سے محبت:
مذکورہ آیت کریمہ میں لفظ اَبْنَآؤُکُمْ کے تحت محبت کی دوسری قسم والدین کی اولاد سے محبت کا ذکر ہے۔ گویا ان الفاظ کے ساتھ بیان نے اس امر کو واضح کردیا کہ قرآن مجید اس بات کی تصدیق کررہا ہے کہ اولادکو اپنے والدین سے اور والدین کو اپنی اولاد سے محبت ہے اور ہوگی۔ والدین کو جو محبت اولاد کے ساتھ ہے اس کی nature different ہے، اتنی different ہے کہ اس میں بندہ اپنی جان بھی دے دیتا ہے، اپنا آرام بھی ترک کرتا ہے، اپنا مال بھی قربان کرتا ہے، سارا کچھ کما کر اولاد کی محبت کی خاطر لگا دیتا ہے۔ یہ محبت اس حد تک چلی جاتی ہے کہ جب اُس اولاد کی اپنی شادی ہو جاتی ہے، ان کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں تو اب ایک طرف اُس کے والدین ہوتے ہیں اور ایک طرف اُس کی اولاد ہوتی ہے مگر اب اس کا concern والدین سے بھی بڑھ کر اپنی اولاد کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے وہ اولاد تھا، والدین سے محبت کا ایک منظر تھا، اب جب وہ خود والد بھی بن گیا تو اب اس کے سامنے دو ends ہیں اور وہ درمیان میں کھڑا ہے۔ ایک end اٰبَآؤُکُمْ کی صورت میں والدین سے محبت کا ہے اور دوسرا end اَبْنَآؤُکُمْ کی صورت میں اپنی اولاد کے ساتھ محبت ہے۔
ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ اگر والدین بھی زندہ ہوں اور اپنی اولاد بھی ہو تو قربانی، رات دن کا concern، فکر، بھاگ دوڑ والدین کی نسبت کہیں زیادہ اولاد کے لیے ہوجاتی ہے۔ یہاں اولاد کی محبت ایک sense میں والدین کی محبت کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ اولاد کی محبت میں خدمت، ادب یا احترام کا جذبہ نہیں ہے بلکہ اس محبت میں چاہت کا جذبہ ہے کہ آنکھیں اولاد کو دیکھ دیکھ کر ٹھنڈی ہوتی ہیں، راحت ملتی ہے، سکون ملتا ہے۔ گویا یہ محبت کا ایک الگ مزاج ہے۔
3۔ بیوی کی محبت:
مذکورہ آیت میں وَاَزْوَاجُکُمْ (تمہاری بیویاں) کے ذریعے محبت کی تیسری قسم کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کا فطری طور پر بیوی کے ساتھ جو رشتہ بنایا ہے یا بیوی کا شوہر کے ساتھ جو رشتہ بنایا ہے یہ محبت کی وہ قسم ہے جو نہ والدین کے ساتھ محبت میں exist کرتی ہے اور نہ اولاد کے ساتھ بلکہ یہ انسان کے اپنے بشری وجود کی جنسی محبت کی category ہے۔
4۔ رشتہ داروں کی محبت:
وَعَشِيْرَتُکُمْ فرماکر رشتہ داروں کی محبت کو بھی اقسامِ محبت میں شامل فرمایا۔ اُن کی محبت کی شدت مذکورہ محبتوں سے درجے میں کم ہوتی ہے مگر ہوتی ہے۔ اس میں برادریاں اور قبیلہ و خاندان کی محبت بھی آگئی اور غیرت کا عنصر، نام و نمود کا عنصر، وہ category بھی اس کے اندر شامل ہے۔5۔ کاروبار، تجارت کی محبت:
پانچویں قسم کاروبار اور تجارت کی محبت ہے۔ اسے مذکورہ آیات میں وَتِجَارَةٌ کے ذریعے بیان فرمایا۔ اس کاروبار و تجارت کے لیے انسان رات دن محنت کرتا ہے، یہ اُس کی اپنی زندگی کی ضرورت ہے۔ لہذا اسے اپنے ہاتھوں سے سنبھالتا ہے اور اس کی محبت میں جیتا ہے۔
6۔ گھروں کی محبت:
رہائش گاہیں مَسٰکِنُ کی محبت میں شامل ہے۔ انسان انہیں بناتا اور سنوارتا ہے اور اپنی زندگی کا ایک حصہ اس کے حصول و آرائش پر خرچ کرتا ہے۔
اس آیت کریمہ میں جتنی اقسام کی محبتیں دنیا میں انسان کی زندگی میں ہو سکتی ہیں، وہ ساری categories اللہ تعالیٰ نے یہاں جمع کر دی ہیں۔ انسان کی انسانوں کے ساتھ، انسان کی مال کے ساتھ، انسان کی رشتوں کے ساتھ، انسان کی رہائشگاہوں کے ساتھ، انسان کی دنیا کے ساتھ جتنے رشتے بن سکتے ہیں محبت کے ساری قسموں کو جمع کرلیا اور جمع کرنے کے بعد آخر پر فرمایا:
اَحَبَّ اِلَيْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی يَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهِ.
(التوبة، 9: 24)
(یہ تمام محبتیں اگر) تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (عذاب) لے آئے‘‘۔
یعنی اگر ان ساری محبتوں کی شدتیں اور ان کا totalaggregate مل کر بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دین پر عمل کرنے اور دین کی محبت سے بڑھ جائے، ان پر غالب آ جائے تو پھر اپنے انجام کا تباہی کی صورت میں کا انتظار کرو۔ گویا اللہ تعالیٰ کا فرمان categorical declaration ہے۔
معلوم ہوا کہ اگر ہماری زندگی میں یہ ترجیحات اور یہ محبتیں بڑھ گئیں تو بربادی ہے۔ افسوس! ہم نے اپنا معاملہ اُلٹ کر رکھا ہے۔ اللہ سے بھی محبت ہے، رسول سے بھی محبت ہے، دین سے بھی محبت ہے مگر غالب اولاد، والدین، بیوی، کاروبار اور مکان کی محبت ہے۔ جن محبتوں کو اللہ مغلوب کرنا چاہتا ہے وہ ہماری زندگی میں غالب ہیں اور جس محبت کو غالب رکھنا تھا وہ ہماری زندگی میں مغلوب ہے۔ محبت کے دو levels ہم نے الٹ کر رکھے ہیں، سر نیچے اور پاؤں اوپر کردیئے ہیں، اس کی وجہ سے ہماری زندگی کی priorities بھی change ہوگئیں۔ ہمارےactions بھی صحیح directions پر نہیں رہے۔ طرح طرح کے خیالات آتے ہیں کیونکہ purity نہیں رہی۔ ہمارے stance بھی صحیح نہیں رہے، ہم stand بھی نہیں لے سکتے۔ چونکہ محبتوں کا جو تناسب ہے اُسے ہم نے خلط ملط کر دیا ہے۔
ہم میں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کئی حوالوں سے بہت سے فرق ہیں مگر اُن فرقوں کی بنیاد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ایک جملے سے سمجھ میں آتی ہے۔ غزوہ بدر میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا ابھی تک مسلمان نہ ہونے کے باعث کفار و مشرکین کی طرف سے لڑ رہا تھا جبکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ قبول اسلام کے بعد اس بیٹے نے ایک دن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ غزوہ بدر کے موقع پر دو بار آپ کی گردن میری تلوار کی زد میں آئی تھی مگر میں نے باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا: خدا کی عزت کی قسم! اگر تمہاری گردن میری تلوار کی زد میں آ جاتی تو میں تمہیں بیٹا سمجھ کر کبھی نہ چھوڑتا۔ بیٹے کی محبتوں کی اپنی ترجیحات صحیح تھیں۔ اس لیے کہ اگر باپ اِدھر ہے بیٹا اُدھر ہے تو اُس کی ترجیح کفر والی تھی کہ باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ترجیح ایمان والی تھی۔ اس لئے فرمایا کہ بیٹا سمجھ کر کبھی نہ چھوڑتا۔
ہماری زندگیوں میں ایمان کی محبت based ترجیحات درہم برہم ہوگئی ہیں۔ اس کا اثر ہماری زندگی کی ترجیحات اور directions پر بھی ہو رہا ہے اور روزمرہ کی زندگی پر رات دن ہو رہا ہے۔ محبت صرف برائے نام رہ گئی ہے جبکہ ترجیحات اپنی دنیاوی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق ہم خود بناتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے ہم رہنمائی نہیں لیتے۔ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہماری priorities کا تعین نہیں کرتی، وہ ہمارے معمولات و معاملات کنٹرول نہیں کرتی بلکہ ہم اپنے نفس اور دنیا کے ہاتھ سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے جہاں اپنی بات کی اس جگہ فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.
(آل عمران، 3: 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا‘‘۔
اللہ رب العزت نے اس آیت میں اپنی محبت کے حصول کے طریقے کا ذکر کیا اور اپنی اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو یہاں بھی ایک کر دیا کہ طریقہ یہ ہے کہ پھر میرے محبوب کی اتباع کرو۔ یاد رکھیں! اتباع محبت سے ہوتی ہے۔ فَاتَّبِعُوْنِیْ فرما کر واضح کردیا کہ اگر محبت مجھ سے کرتے ہو تو پھر زندگی کی ترجیحات اپنی مرضی سے مقرر نہ کرو بلکہ میرے محبوب کی مرضی سے مقرر کرو۔ اگر اللہ سے محبت کرتے ہو تو جو priorities میں نے fix کی ہیں اُن کے مطابق زندگی گزارو۔ جو limitations میں نے fix کر کے دے دی ہیں، جو boundaries میں نے fix کر کے دے دی ہیں اُن کے مطابق چلو۔ گویا اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اے حبیب! آپ فرما دیں کہ اگر اللہ سے محبت کرتے ہو تو پھر life کی priorities اور decisions میرے ہاتھ میں دے دو۔ جو priorities اور decisions میں نے fix کی ہیں اُن کے مطابق چلو، اپنی مرضی کے مطابق نہیں۔ جب ایسے ہو جاؤ گے تو يُحْبِبْکُمُ اﷲُ تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔
جب بندہ اللہ کا محبوب بن جائے تو پھر اُس کے درجات کی کوئی limit ہی نہیں۔ جیسے بندہ اپنے محبوب کے لیے کوئی limit نہیں رکھتا اسی طرح اللہ بھی اپنے محبوب بندوں کے لیے کوئی limit نہیں رکھتا۔ گویا ایمان کا پورا دائرہ محبت کے گرد گھومتا ہے۔ اول بھی محبت ہے اور آخر بھی محبت ہے۔ ترجیحات کو محبت fix کرتی ہے۔ جو محبت ہماری زندگی کی سمت کو کنٹرول نہ کرے اور جو محبت زندگی کی priorities کو fix نہ کرے بلکہ priorities اپنے طریقے سے چلیں اور محبت کا دعویٰ الگ چلے تو یہ محبت نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی جملہ تعلیمات میں کسی جگہ اولاد کو محبت دینے سے نہیں روکا، مقدار کا تعین بھی نہیں کیا، جتنی دو اُس سے بھی نہیں روکا مگر صرف ناجائز میں جانے سے منع فرمایا ہے۔ والدین سے کتنی محبت کرو؟ اولاد سے کتنی محبت کرو؟ کاروبار سے کتنی محبت کرو؟ ان چیزوں پر اللہ رب العزت نے کوئی limit fix نہیں کی۔ ایک مقام پر کاروبار، بزنس اور پیسہ کمانے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
وَاِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌo
(الذاريات، 100: 8)
’’اور بے شک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہےo‘‘
اللہ رب العزت نے مال کے لیے خیر کا لفظ استعمال کیا کہ بندہ ’’خیر‘‘ کی محبت میں بڑا شدید ہے۔ گویا مال کی محبت کو طعن یا مذمت کے معنیٰ میں بیان نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ خود ہی مال کو خیر کہہ رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مال میں itself کوئی خرابی نہیں ہے، اس لیے اُس کو خیر کہا کہ خیر صدقہ ہوتا ہے، خیرات اُسی سے ہوتی ہے، ہم جسم کو اُسی سے ڈھانپتے ہیں، مدد اُسی سے کرتے ہیں، حقوق و فرائض اُسی سے ادا کرتے ہیں، مسجد اُسی سے بناتے ہیں، دین کے مراکز اُسی سے بناتے ہیں، خدمت دین اُسی سے کرتے ہیں، حج کرتے ہیں تو مال خرچ کر کے کرتے ہیں۔ اللہ کے گھر کی زیارت کو جاتے ہیں تو خرچ کرتے ہیں۔ شرط بھی یہ لگائی کہ
وَِﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلاً.
(آل عمران، 3: 97)
’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘۔
جس کے پاس سفر کی مالی طاقت ہو وہی حج کر سکتا ہے۔ تو حج کے لیے بھی مال اور زکوٰۃ کے لئے بھی مال درکار ہے۔ اس لیے اُس کو خیر کہا اور شدید کہا۔ ان چیزوں پر یہ limit نہیں لگائی بلکہ اجازت دی ہے۔ مگر فرق یہ رکھا کہ جب مال کی محبت کی بات کی تو فرمایا لَشَدِيْد مال کی محبت میں بہت سخت، شدید ہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر بھی یہ محبت غالب آچکی ہے۔ اس آیت میں شدید پہ جا کر end کیا اور جب اپنی محبت کا ذکر کیا تو فرمایا:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ.
لفظ اَشَدُّ واضح کررہا ہے کہ محبتوں میں جب ایک توازن پیدا کرو تو اللہ اور اس کے رسول کی محبت سب سے اوپر رکھو۔ یہ سارا مسئلہ priorities کا ہے۔ جب ہم اپنی Life میں priorities قائم نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے جو دل میں آتا ہے اُس سے ہم اپنی priorities قائم کرتے ہیں۔ اس طرح معاملہ دگرگوں ہو جاتا ہے۔ اللہ کی محبت مال پر غالب کیسے آئے گی؟ فرمایا:
وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهِ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ.
(البقرة، 2: 177)
’’اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے‘‘۔
اللہ کی محبت غالب اسی وقت ہوگی جب اُس کی محبت میں وہی محنت و محبت سے کمایا ہوا محبوب مال بندہ خرچ کر دیتا ہے۔ اس لئے کہ جو چیز بندہ خرچ کر دیتا ہے اس کا مطلب ہے کہ جس کی خاطر خرچ کیا ہے وہ اس مال سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ priorities ہیں۔
وہ مال جس سے اُسے محبت تھی، رات دن جاگ جاگ کے محنت کرکے کمایا تھا، اللہ کی محبت میں اُس کو خرچ کر دیا۔ یعنی مال خرچ کرنے والی چیز ہے اور وہ بندہ جو مال کو سنبھال کے رکھ لیتا ہے، خرچ نہیں کرتا، priorities غلط کر بیٹھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کی محبت غالب ہے۔ اسی طرح اولاد اور رشتوں کا معاملہ ہے۔
پس اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین کی محبت سب محبتوں پہ غالب ہونی چاہیے۔ اگر سب محبتوں پر یہ غالب ہیں تو آیت میں مذکور کسی شے کی محبت بھی گناہ اور بری چیز نہیں ہے۔