آزادی کہنے کو پانچ حروف کا ایک لفظ ہے لیکن اپنے اندر گہرے مفہوم لیے ہو ئے ہے۔ آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے اور غلامی دنیا کی سب سے بڑی لعنت ہے۔
آزادی کی زندگی کا ایک سانس غلامی کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ غلامی لعنت کا طوق اور آزادی خداوندی رحمت کا ہا ر ہے ۔ غلامی حسن زندگی سے محرومی کا نا م ہے اور غلامی ذہنی صلا حیتوں کو زنگ آلو د کر نے کا نا م ہے۔
شاعر مشرق حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے چند اشعار میں ان روشن اور عظیم دنوں کو یوں قلمبند کیا ہے:
دیں آزانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے صحراؤں میں
دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی کبھی تاروں کی
کلمہ پڑھتے تھے چھاؤں میں تلواروں کی
تجھ سے سر کش ہوا کوئی تو ہم بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم تو توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش تو حیدر کا ہر حرف دل پہ بٹھا یا ہم نے
زیرِ خنجربھی یہ پیغام پہنچایا ہم نے
عروج و زوال کی یہ داستان چلتی ہوئی جب برصغیر میں پہنچی تو یہاں بھی بڑے بڑے حکمرانوں نے اپنے کردار کی مضبوطی اور سچے مسلمان ہونے کے ناطے لبیک کہا۔اور پھر جب وہ ارواح، جسم فانی کے لباس کو زیب تن کر کے اس امتحان گاہ جسے دنیائے فانی کہا جاتا ہے پہنچی تو وہ حضرت انسان جسے رب ِکریم نے اشرف المخلوقات جیسے اعلیٰ مقام پر فائز فرمایا تھا وہ اس دنیا کی ظاہری چکا چوند میں کھو گیا اور اس کی بھو ل بھلیوں میں ایسا گم ہوا کہ اپنے رب سے کئے ہوئے اس عہد کو بھول کر کئی مذاہب کی تقسیم میں کھوگیا اور اپنے آباؤ اجداد کے جھوٹے مذاہب اور فرقوں میں بٹ کر خود کو بھی بانٹ بیٹھا۔ کوئی عیسا ئی اور کوئی ہندو تو کوئی زرتشت کوئی یہودی بن گیا۔ یہی انسان دنیاوی چکروں لغزشوںاور بھول بھلیوں میں ایسا گم ہوا کہ اس کے جسم میں موجود روح کے تڑپنے کی آواز بھی نہیں سن سکا جو اس انتظار میں رہی کے کب اس حرص و ہوس ،نا فرمانی اور گناہوں کے پنجرے سے آزادی ملے اور وہ اپنے پیارے خالق حقیقی سے جا ملے۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے پیارے عظیم ترین آقا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بعثت کے بعد ایک اعلیٰ اخلاقی کردار اور بہترین معاشرتی نظام لے کر آئے۔ کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے جو نہ صرف انسانوں کے معاشرتی ،سماجی ،اخلاقی اور مذہبی پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے بلکہ جانوروںکے حقوق کے بارے میں بھی ہماری ر ہنمائی کرتا ہے۔ اس وقت مسلمانوں نے ان احکامات پر عمل کر کے اتنی ترقی و کامیابی حاصل کی کہ بڑی بری طاقتیں بھی انگشت بد نداں رہ گئیں۔
مسلمانوں نے اس قطعۂ زمین پر کم و بیش (700) سات سو سال حکومت کی ۔یہا ں ایسے بھی حکمران گزرے جب حضرت بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو ان کے غلام نے کہا کہ شیخ کا فر مان تھا کہ میری نماز جنازہ ایسا شخص پڑھے گا جس کی زندگی میں کبھی تکبیر اولیٰ قضاء نہ ہوئی ہو،نماز تہجد اور نماز عصر کی سنتیںقضاء نہ ہوئی ہوں۔یہ سن کر بہت سے علماء کے سر جھک گئے۔ پھر شام کے وقت ایک نقاب پوش گھوڑ سوار زار و قطار روتا ہوا آیا اور کہا میرے مرشد آپ نے میرا راز فاش کر دیا اور ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔یہ کوئی اور نہیں اس وقت کا باد شاہ سلطان التمش تھا۔
یہ اس دور کے حکمران تھے اور اگر ہم اپنے آج کل کے حکمرانوں پر نظر دوڑائیں اور ان کو دیکھیں تو ان کے عمل اور کردار کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
14 اگست1947 ء دنیائے عالم کے کیلینڈر میں ایک عام تاریخ ہے لیکن ہم پاکستانیوں کیلئے انتہائی اہم دن کی حیثیت سے ابھرا ہے۔ آزادی کا دن، خوشیوں کا دن ،رہائی کا دن اور پتہ نہیں کیا کیا مفہوم لے کر آیا اور اسلامک کلینڈر کے مطابق ماہ رمضان کی 27 تاریخ کو بہت اہم دن تھا جس دن پاکستان وجود میں آیا جس دن قرآن پاک جیسی معجزاتی کتاب کا نزول ہوا تھا۔یہ تاریخ اس سر زمین پر وجود میں آنے والی دوسری تمام ریاستوں سے زیادہ پاکستان کو اہم ریاست بنا دیتی ہے۔
پاکستان دو لفطوں کا مجموعہ ہے(پاک) معنی پاکیزہ اور (ستان) معنی سر زمین یعنی پاک لوگوں کی سر زمین جن کیلئے لاکھوں لوگوں نے قر بانیاں دیں تاکہ وہ اس میں اپنے رب ذوالجلال اور اس مولائے کل محبوب ترین ہستی ختم الرسل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزار سکیں کیونکہ ان مسلمانوں کو بر صغیر میں مذہبی،معاشی اور معاشرتی استحصال کا سامنا تھا۔وہ اس سے نجات چاہتے تھے کیونکہ اب تو وہ اپنی شناخت تک کھو تے جا رہے تھے۔فرقہ ورایت کے جال کے ذریعے ان کو توڑا جا رہا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان اپنے رب کریم کے بتائے ہوئے احکام پر چلتے رہے وہ دنیا پر راج کرتے رہے ہیں۔ اور جب انھوں نے اس سے روگردانی کی تو اُنھیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔
ایسے حالات میں جب انسانیت پھر تڑپتی ہو ئی اپنی خطاؤں کی معافی مانگتی ہوئی اپنے رحیم و کریم رب ِزوالجلال کی طرف لوٹتی ہے اور اللہ پاک دوبارہ اُن کو معاف کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ تو ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ اپنی محبوب ترین ہستی ختم الرسل اورہمارے عظیم ترین آقا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اٰمت کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تو پھر وہ اُن میں علامہ اقبال جیسے رہبر اور مدبر اور قائدِ اعظم جیسے نڈر اور دلیر لیڈر بھیجتا ہے تاکہ پستی میں گری ہوئی انسانیت دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکے۔پاکستان ان گنت قربانیوں سے وجو د میں آیا۔کئی ماؤں نے اپنے بیٹے ،کئی بہنوں نے اپنے بھائی گنوائے۔ کئی بچوں نے یتیمی سہی پھر جا کے پاکستان بنا ۔بیٹیوں کی عصمتیں تا ر تار کی گئیں۔ لوگوں نے قربانیاں دیں کہ آنے والے دنوں میں ان کی نسلیں ایسی تکلیفوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہیں جن سے وہ گزرے۔
پاکستان اس لیے بنایا گیا کہ اس میںدنیائے ِعالم کے عظیم ترلیڈر حضرت عمرفاروق جیسا عدل وانصاف پر مبنی نظام حکومت ہو۔جہاں وہ گلیوں میں پھر کر عوام کے مسائل کو جانا کرتے تھے۔ایسا نظام جہاں کی عورتیں با عزت اور با وقار ہوں اور حیا کا پیکر ہوںجن پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ جہاں کے جوان حضرت امام حسین علیہ السلام جیسے اورحضرت امام حسن علیہ السلام جیسا کردارلے کر آئیں جنہوں نے جابر حکمرانوں کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے رب کی خوشنودی کیلئے اپنا پورا خاندان شہید کروادیا۔
ہمیں 14 اگست کا دن ضرور منانا چاہئے مگر اپنے رحمٰن و رحیم و کریم و جواد اللہ کے حضور شکرانہ بجا لاتے ہو ئے نہ کہ موسیقی کی محفلیں سجا کر منانا چاہیے ۔اپنے دلوں کو قرآن پاک کی تعلیمات سے منور کرتے ہوئے نہ کہ ریاکاری اور دکھلاوے کے لئے گھروں اور بازاروں کو روشنیوں سے سجاتے ہوئے۔یہی وقت ہے ہمیں اپنی عملی کو ششوں سے کچھ نہ کچھ اپنے وطن کیلئے آنے والی نسلوں کیلئے کرنا چاہیے۔ہمیں دوسروں کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ پہلا قدم اٹھائیں گے کیونکہ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔
مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب بڑے بڑے اینکر ٹی وی چینل پر آکر کہتے ہیں کہ جی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دھرنا دیا لوگوں کو مر وایا۔لوگ تکلیف میں تھے اور وہ خود کنٹینر میں بیٹھے تھے۔میں ان سے پوچھتی ہوں کہ قائداعظم نے جب مطالبہ پاکستان کیا تھا اور اس کیلئے جدو جہد کی تھی تو کیا ان کی جان کی حفاظت نہیں کی گئی تھی۔کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ اس میں بہت سے لوگوں کی جانیں جائیں گی۔ بہت سی مائیں اپنے بیٹے ،بہنیں اپنی عصمتیں اور بچے اپنے ماں باپ کو کھوئیں گے جبکہ اس وقت ان کا مقابلہ کافروں سے تھا۔ جنہوں نے آج تک پاکستان کے لوگوں کو چین سے نہیں جینے دیا۔
جب آپ کو کوئی بڑا مقصد پانا ہوتا ہے جس میں تمام انسانیت کی بھلائی ہو تو قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔تاکہ آنے والی نسلیں ان مسائل سے بچیں۔تو پھر قائد کی بھی حفاظت کرنی پڑتی ہے کیونکہ لیڈر تو ایک ہوتا ہے۔ جو تمام لوگوں کو منزل مقصود پر لے جاتا ہے۔ اگر تمام لوگ ان کا ساتھ دیں جیسے قائد اعظم کا دیا تھا ۔کیونکہ موجودہ حالات بھی وہی رخ اختیار کر گئے ہیں بلکہ یہ حالات اُن دنوں سے بھی بد تر ہیں۔ اگر ان سے نہ نمٹا گیا تو ہم تباہی کے دھانے پہ جا کر کھڑے ہونگیں۔ خدانخواستہ!
اگر آج کے حالات کو دیکھا جائے تو کیا نہیں ہو رہا پاکستان میں؟ جو مسلمانوں کے ساتھ بر صغیر میں ہوا تھا۔مذہبی،معاشی اور معاشرتی استحصال۔ مذہبی آزادی کی بات کریں تو قرآن پاک سپیکر میں پڑھنا،نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا یہاں تک کہ جمعہ کے خطاب کی بھی اجازت نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف ٹی وی پر موسیقی و رقص کے پروگرام ،بے حیائی، عریانی،فحاشی اور عورت کو ایک نمائشی گڑیا کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
شراب، سود، دہشت گردی، چوری چکاری، اسٹریٹ کرائم، قتل و غارت کیا نہیں ہو رہا پاکستان میں۔ پاکستان کے چھوٹے سے قصبے سے لے کر جدید شہر تک عورتوں کی عصمتوں کے سودے نہ ہو رہے ہوں تو بتائیں۔ کیا یہ ہے وہ پاکستان جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا جس کے لئے قائد اعظم نے اپنی زندگی اور گھر بار کی قربانی دی۔ یہاں تک کہ اسی پاکستان میں ان کے خاندان کے لو گوں کو قتل کیا گیا۔
اس پاکستان کیلئے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں تھیں۔ اگر ایسا ہی بے دین ماحول چاہیے تھا تو ہم نے آزادی کیوں حاصل کی تھی؟ ہماری تو اب کوئی پہچان ہی نہیں رہی ۔ہم نے تو خود کو مغربی و ہندی رنگ میں رنگ لیا ہے۔اب ہم آزاد ہوں یا کسی غیر مسلم ملک کے انڈر ہوں۔ہمیں کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ہاں ایک فائدہ ہوا ہے ہمارے حکمرانو ں کو ایک ایسا ملک مل گیا ہے جس کے وہ باد شاہ بن بیٹھے ہیں اور اس میں لوٹ کھسوٹ کر کے اپنے لئے دولت کے انبار اکٹھے کر رہے ہیں۔یہ ملک ان کیلئے کاروباری منڈی بن گیا ہے جس کا سودا وہ جیسے چاہیںکر رہے ہیں۔شایدیہ بد بخت ظالم فاسق و فاجر جھوٹے حُکمران تاریخ بھلا بیٹھے ہیں کہ ان جیسے تو پہلے بھی آئے تھے ان کا کیا انجام ہوا؟
یہ مسلم قوم کیلئے لمحہ فکر یہ ہے ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم نے حکمرانوں کی عیاشی کیلئے یہ ملک حاصل کیا تھا یا کلمہ طیبہ کے عملی نفاذ کے لئے۔ کیا ہم واقعی قرآن پاک کی تعلیمات کا درس دے رہے ہیںاپنی آنے والی نسلوں کو ؟
اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو آپ دعا کر سکتے ہیں کہ اے اللہ ہماری آنے والی نسلوں کو ہم جیسا بنا دے ؟
اور اگر نہیں تو پھر پاکستان کی ریاست بچانے کے لئے موجودہ منافقانہ سیاست کو ختم کرکے ایسا نظام سیاست لانا ہوگا جو ریاستِ مدینہ کی یاد تازہ کردے اور یہ وہی لاسکتا ہے جس کا دامن ہر قسم کی کرپشن سے پاک اور ماضی بے داغ ہو۔ آیئے تکمیل پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے، ریاستی دہشت گردی کرنے والے حکمرانوں کے احتساب اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں سے قصاص لینے کے لئے میدان عمل میں اتریں۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے