قائد اعظم محمد علی جناح کوان کی ان تھک محنت و کاوش اصول پسندی، مستقل مزاجی، فرض شناسی اورایمان داری کی وجہ سے پاکستان کا پہلا گورنر جنرل بنایا گیا۔ اس عہدے پر سرفرازی، قائد کی بے لوث خدمات کا اعتراف تھا۔ کیونکہ صرف جناح کی قیادت اور درخشندہ شخصیت ہی مسلمانوں کو مطمئن ومتحرک کر سکتی تھی۔ بحیثیت گورنر جنرل قائد اعظم کی شخصیت بے مثل تھی ان کی حیثیت مروجہ طرز حکومت میں محض ایک روایتی سربراہ مملکت کی نہیں تھی، بلکہ انہیں وہ حیثیت حاصل تھی جو کہ بانی پاکستان اور بابائے قوم کے لیے وقف تھی۔ ایسی شخصیت جنھیں نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی مانتے تھے۔ قائد اعظم کے کارنامو ں اور تاریخی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے اسٹینلے والبرٹ نے تحریر کیا کہ
’’چند افراد نے تاریخ کے دھارے کو بدلنے کی نمایاں کوشش کی اور دنیا کا نقشہ تبدیل کی، لیکن شائد ہی کسی رہنما کو قومی ریاست قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہو یہ کارنامہ محمد علی جناح نے سرانجام دیا‘‘۔
محمد علی جناح نے یہ تینوں کارنامے انجام دیے۔ قائد اعظم ایک ہمہ گیر سیاسی رہنما تھے یہ ان کی سچی اور پر خلوص جدوجہد کانتیجہ تھاکہ بے شمار دشواریوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایک مقتدر مملکت پاکستان وجود میں آئی۔ قائد اعظم پاکستان کو مضبوط و مستحکم، ترقی یافتہ اور خود کفیل بنانا چاہتے تھے مگر زندگی نے ان کو مہلت نہ دی اور وہ مختصر علالت کے بعد 11ستمبر1948ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ قائد اعظم کہتے تھے کہ میرا کام اب ختم ہوچکا ہے اب مجھے مرنے کا افسوس نہ ہوگ، چندبرس قبل یقینا میری آرزو تھی کہ میں زندہ رہوں اس لیے نہیں کہ مجھے دنیا کی تمنا تھی یا میں موت سے خوف کھاتا تھابلکہ اس لیے کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا تھا اور قدرت نے جس کام کے لیے مجھے چنا تھ، میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ وہ کام پورا ہوگیا ہے میں اپنا فرض نبھا چکاہوں، پاکستان بن گیا ہے۔ اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اس کی تعمیر کرے اورناقابل تسخیر اور ترقی یافتہ ملک بنائے۔
حکمران حکومت کا کام نظم و نسق، دیانت داری، اور محنت سے چلائیں۔ صد افسوس کہ قائداعظم جس پاکستان کو مضبوط و مستحکم، ترقی یافتہ اور خود کفیل دیکھنا چاہتے تھے آج اسی پاکستان کی ہم نے چو لیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور وہ ترقی کی راہ سے بھٹک کرگداگری کی راہ پرآن پڑا ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ سونا اگلتی زرخیز زمینیں، سمندر، دری، پہاڑ، میدان، سون، چاندی، تانبے، قیمتی پتھر، کوئلے کے ذخائر، قدرتی نمک کے ذخائر، قدرتی گیس، تیل، سال میں چار موسم، پاکستان کپاس کی پیداوار کے حوالے سے دنیاکاپہلا ملک، چینی پیدا کرنے والا 5 واں، گندم پیداکرنے والا 9 واں ملک ہے مگر پھر بھی پاکستان کے حکمرانوں کا بھیک مانگناعوام کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ جس کے گھر میں پیٹ بھرنے کے لیے کھانا ہو۔ جس کے پاس تن ڈھکنے کے لیے کپڑا موجود ہو۔ جس قوم کا تھوڑی سی محنت کرنے پر تابناک مستقبل قدم چومے اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دوسروںکے سامنے دست دراز کرے۔ وہ قوم جس پر زکواۃ دینا فرض ہو۔ وہ قوم خود غیر مذہب لوگوں سے جھولی پھیلائے اور دوسروں سے صدقہ و خیرات مانگ رہی ہے۔ قائد اعظم جس قوم کو معاشی چکی میںپسنے سے بچانا چاہتے تھے آج اسی قوم کا برا حال ہے اور ایسا صرف اس لیے ہوا ہے کیونکہ ہم نے قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ایمان داری، دیانت داری، مستقل مزاجی، فرض شناسی، روشن خیالی اور عمدہ اصولوں کوبھی ان کے ساتھ ہی دفن کردیاہے۔ آج ہم اپنے بڑے بڑے دفتروں میں بڑے فخرکے ساتھ اپنے قائد کی بڑی سی تصویر لگاتے ہیں کہ ہم تو بڑے محب وطن، اور قائدانہ سوچ کے حامل ہیں، اور پھر اسی دفتر میںبیٹھ کرنا انصافی، بددیانتی، رشوت، سفارش، اقرباء پروری اوردوسرے بہت سے معاملات میں سارا سارا دن ہیر پھیرکرتے رہتے ہیںاور ہماری پشت پر لگی ہے قائد کی تصویر! کیا یہ ان کی پر خلوص قربانی کی توہین نہیں ہے۔ اگر ہم ان کی سیاسی بصیرت اورعمدہ اصولوںسے رو گردانی نہ کرتے تو یقیناآج ہمارا حال کچھ اور ہوت۔ مگر ہم نے نہ صرف ان کے احسانات بلکہ ان کے قول و عمل کو بھی فراموش کردیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری نو جوان نسل بھی اپنے عظیم قائد کی پر وقار زندگی سے پوری طرح آگاہ نہیں اگر ان سے غیرملکی فلمسٹاروں کے بارے میںپوچھا جائے تو وہ فر فر پورا بائیو ڈیٹا بتائیں گے، ٹی وی ڈراموں کا پوچھا جائے تو یقینا سبھی یاد ہونگے، مگر اگر ان سے قائد اعظم کی زندگی کا کوئی حوالہ پوچھا جائے تونتیجہ غلط جواب کی صورت میں نکلے گ، مگر اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے یہ سارا کیا دھرا تو ہمارا ہے ہم نے ان کو بتایا ہی کب ہے اور سکھایاہی کب ہے؟ ان کے سامنے ایمان داری، دیانت داری، مستقل مزاجی، فرض شناسی، روشن خیالی اور عمدہ اصولوں کا مظاہرہ کیا ہی کب ہے؟افسوس کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ نوجوان نسل جسے قائد اعظم قوم کا سرمایہ کہتے تھے کو بھی تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
لہذا ہم سب کو حکمرانوں سمیت یہ عہد کرنا ہوگا کہ ان کی جماعت مسلم لیگ کا صرف نام رکھنے کی بجائے یا دفتروں میں ان کی تصاویر آویزاں کرنے سے یا سالانہ برسی منانے سے قائداعظم کے مقاصد کی تکمیل نہیں ہوسکتی جب تک ان کی سیرت کو اختیار کرکے اصول پسندی اور فرض شناسی کو اختیار نہیں کیا جات۔ آج ہمیں تجدید عہد کرنا ہوگا کہ ان کے فرمودات کے مطابق عمل پیرا ہوکر اور اپنے اندر ایمان، اتحاد اور تنظیم قائم کرکے پاکستان کی قسمت بدلنے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر کریں۔