رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑے سخی
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور آپ کی شان اجود الناس بالخیر اور اکرم الناس بالخیر تھی۔ سب سے زیادہ جود و کرم کے ساتھ حاجتمندوں، ضرورتمندوں اور محتاجوں پر خرچ کرتے تھے۔ آپ کے خرچ کرنے اور سخاوت کرنے کی شان ’’الریح المرسلہ‘‘ تیز ہوا کی طرح تھی جو کچھ مال غنیمت، تحائف، ہدایا، عطیات، صدقات، خیرات آتے وہ فوراً خرچ کردیتے۔ آپ کی شان سخاوت سے ہر کوئی ’’الریح المرسلہ‘‘ تیز ہوا کی طرح فیضیاب ہوتا تھا اور تیز ہوا کی طرح یہ چیزیں آپ کے پاس رکتی نہ تھی بلکہ مستحقین تک فوری پہنچ جاتیں۔ جو کچھ دن کو آتا وہ رات آنے سے پہلے پہلے بٹ جاتا تھا اور تقسیم ہوجاتا تھا۔
رمضان المبارک میں خلق سخاوت کا اظہار کمال
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ شان سخاوت اور یہ خلق جود و کرم رمضان المبارک میں اپنے کمال پر دکھائی دیتا تھا۔ اس لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:ـ
کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم اجود الناس بالخير واجود ماکان في شهر رمضان وکان اذالقيه جبرئيل عليه السلام اجود بالخير من الريح المرسلة.
(صحيح بخاري، 1/5، صحيح مسلم، 4/ 1802)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان المبارک میں بہت سخاوت فرماتے اور جب بھی جبرائیل امین علیہ السلام آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو آپ تیز ہوا سے زیادہ سخاوت فرماتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے فاقہ کشوں کا فاقہ ختم کرتے، غریبوں اورمحتاجوں کی غربت کا خاتمہ کرتے، ضرورتمندوں کی حاجتوں کو پورا کرتے، تنگدستوں کی تنگدستی دور کرتے۔ افراد امت کی بدحالی کو اپنی شان سخاوت کے ساتھ خوشحالی میں بدلتے۔
خلق سخاوت فروغ اسلام کا باعث
سخاوت کرتے وقت نہ زیادہ سے زیادہ عطا کرکے نہ اپنے فاقے کا اندیشہ کرتے اور نہ ہی عطا کرنے والے کو اندیشہ فاقہ رہنے دیتے، اتنا عطا کرتے کہ وہ فاقہ کش خود صاحب مال اور صاحب عطا اور صاحب سخا بن جاتا۔ اس لئے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
عن انس ان رجلا سالة فاعطاه غنماً بين جبلين فرجع الی قومه وقال اسلموا فان محمدا يعطی عطاء من لا يخشی فاقة.
(صحيح مسلم، 4/ 57)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا تو آپ نے دو پہاڑوں کے درمیان (جتنی بکریاں آتی تھیں) اس کے برابر بکریاں اسے عنایت فرمادیں، جب وہ شخص واپس اپنی قوم میں گیا تو انہیں پکار کر کہنے لگا اسلموا سارے کے سارے مسلمان ہوجاؤ۔
فان محمدا يعطی عطاء من لا يخشی فاقة.
بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنا دیتے ہیں کہ کبھی بھی فاقہ کا خوف نہیں رہتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق سخاوت، لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا باعث اور سبب بن گیا اس شخص نے لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق سخاوت سے متاثر ہوکر دی، پوری قوم اور قبیلے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسلموا مسلمان ہوجاؤ۔
دین اسلام تلوار سے نہیں، کردار سے پھیلا ہے
اس لئے کہ اس دین میں بھوک مٹائی جاتی ہے۔ اس دین کی دعوت دینے والا نبی لوگوں کے فاقے مٹاتا ہے، لوگوں کی بھوک اطعام کھانا کھلاکر ختم کرتا ہے۔ یہ نبی اپنے خلق سخاوت کے ذریعے محتاجوں اور غریبوں کی غربت ختم کرتا ہے۔ یہ لوگوں کو اللہ کا عطا کردہ مال دے کر تنگی مال اور کمی مال کا اندیشہ اور خوف نہیں رکھتا اس لئے آؤ اسلموا اسلام قبول کرو۔
یہ تھا کردار اسلام، یہ تھا کردار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، یہ تھا کردار تابعین اور کردار مسلم، جس کی وجہ سے اسلام پھیلا ہے۔ اسلام نے تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ کردار کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا ہے۔ اس لئے جو اسلام میں آیا وہ اسلام ہی کا ہوکر رہ گیا اور واپس نہیں گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان جود و کرم اور خلق سخاوت اتنے کمال پر دکھائی دیتی ہے جو آج بھی سنتا ہے وہ سر دھنتا ہے۔ فرط محبت میں وہ آپ پر جانثار ہوتا ہے اور دل و جان کو آپ کے حضور پیش کرتا ہے۔ اس تصور کے ساتھ کہ یہ کردار انسانیت کی معراج ہے۔ یہ کردار انسانیت کا فخر ہے، یہ کردار انسانیت کے لئے قابل تقلید ہے کہ دینے والا اتنا دیتا ہے کہ لینے والے کا جی بھر جاتا ہے۔ایسا بھی ہوا کہ کوئی مانگنے والا آیا اور سوال کیا تو اس کے سوال کے جواب میں آپ نے واعطی مائة من الابل (صحيح، 4/ 1806) فرمایا۔ آپ نے اسے سو اونٹ عطا کردیئے۔ اسی طرح صفوان آپ کی خدمت میں آتا ہے اور آپ سے سوال کرتا ہے تو صحیح مسلم میں آتا ہے۔
واعطی صفوان مائة ثم مائة ثم مائة.
(صحيح مسلم، 4/ 1806)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفوان کو سو اونٹ دیئے پھر سو اونٹ دیئے اور پھر سو اونٹ دیئے۔
یہ خلق سخاء اپنی شان مریح مرسلہ تیز ہوا کی طرح اپنے جوبن اور کمال پر دکھائی دیتا ہے۔
نوے ہزار درہم کی تقسیم
صحیح بخاری میں یہ حدیث آئی ہے کہ
حمل اليهي تعون الف درهم فوضعت علی حصير ثم قام اليها فقسمها فما رد سائلا حتی فرغ منها وجاء ه رجل فساله فقال ما عندي شئی ولکن ابتع علی فاذا جاء نا شئی قفيناه فقال له عمر ماکلفک الله مالا تقدر عليه فکره النبي صلی الله عليه وآله وسلم ذلک فقال رجل من الانصار يارسول الله انفق ولا تخش من ذي العرش اقلالا قتبسم رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم وعرف البشر في وجهه وقال وبهذا امرت.
(شمائل ترمذي، 281)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں نوے ہزار درہم آئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو چٹائی بورے پر رکھ کر کھڑے ہوگئے اور آپ نے ان کو تقسیم کرنا شروع کردیا اور کسی بھی سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا، یہاں تک کہ سب کے سب درہم تقسیم کردیئے۔ اس کے بعد ایک سائل آیا اور سوال کیا تو آپ نے فرمایا اب میرے پاس کچھ نہیں لیکن تم میرے نام پر خریدلو جب میرے پاس مال آئے گا تو میں ادا کردوں گا۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس چیز کا مکلف و ذمہ دار نہیں بنایا۔ جس پر آپ قادر نہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اس بات کو سن کر ناپسند کیا، انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ خرچ کرتے جایئے اور عرش کے مالک رب سے کسی کمی کا خوف نہ کیجئے یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنا مسکرائے کہ اس بات کی خوشی کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر نمودار ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔
خلاصہ کلام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خلق سخاوت اور یہ خلق جود و کرم ہماری یہ راہنمائی کرتا ہے کہ ہم اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں سخاوت کے جذبے کے ساتھ خرچ کرتے رہیں اور ہم اپنے عمل کو قرآن کے اس حکم کے مطابق بنائیں۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.
(آل عمران، 3: 92)
تم ہر گز نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک تم اللہ کی راہ میں اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔
اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق سخاوت اور خلق جود و کرم سے اکتساب فیض کریں، اپنے عزیز اقارب اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں۔ ان میں سے حاجتمندوں کی مدد کریں۔ اپنے ضرورت مند دوستوں کے ساتھ وفا کریں اور انکی جائز حاجات کو پورا کریں، معاشرے کے ناداروں اور مفلسوں پر خرچ کریں۔ بے سہاروں کا سہارا بنیں، یتیموں اور بیواؤں کے لئے ایک رحمت اور شفقت کا سائباں بنیں۔
وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا.
(الفجر، 89: 20)
مال کی محبت کو اللہ کی محبت پر غالب نہ آنے دیں۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ.
(البقرة، 2: 165)
ہمارے پاس کوئی بھی آئے ہم سخاوت کے جذبے کے ساتھ اسے ملیں۔ اپنا وقت دینا، اپنی صلاحیت سے کسی کو فائدہ پہنچانا، اپنی اہلیت سے کسی کو اھل بنانا، اپنے ہنر سے کسی کو ہنر مند بنانا، اپنے علم سے کسی کو تعلیم و علم دینا ہی سخاوت ہے۔ اپنے منصب سے کسی کو جائز نفع پہنچانا بھی سخاوت ہے۔ یقینا سخاوت کا اعلیٰ معیار سخاوت فی المال ہے۔ اس لئے مہمانوں کی مہمان نوازی کرنا سخاوت ہے، بھوکوں کو کھانا کھلانا سخاوت ہے، حاجتمندوں کی حاجت پوری کرنا سخاوت ہے، غریبوں و مفلسوں کی مدد کرنا سخاوت ہے۔
یہ کردار ہے جو تعلیمی ادارے کے ہر طالب علم کو اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنانا ہے۔ یہی کردار اختیار کرنا ہی اعلیٰ کردار کی تعلیم ہے اور یہی کردار ہمیں پورے معاشرے میں بپا کرنا ہے۔ اسی کردار کو اپنے اپنے منصب پر اور ایک بڑے منصب پر فائز ہوکر پورے ملک میں بپا کرنا ہے۔ سخاوت کے رویوں کے ذریعے اسلام معاشرے سے غربت اور افلاس کا خاتمہ کرتا ہے۔
باری تعالیٰ اس کردار سخاوت، اس خلق سخاوت اور اس خلق جود و کرم کو ہمیں اپنی زندگیوں میں اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین