شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد، معاونت: نازیہ عبدالستار
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عظیم الشان محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوٹ لکھپت لاہور سے مورخہ 14 اپریل 2005ء کو خصوصی خطاب فرمایا جس کی اہمیت کے پیش نظر ایڈیٹ کرکے شائع کیا جارہا ہے جو احباب مکمل سماعت کرنا چاہیں وہ سی ڈی نمبر416 سماعت فرمائیں۔ منجانب: ادارہ دختران اسلام
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.
(الم نشرح، 94: 4)
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر اپنے ذکر کے ساتھ ملاکر دنیا و آخرت میں ہر جگہ بلند فرمادیا‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن امت مسلمہ کے لئے یوم عید ہے۔ عید کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے عید شرعی اور عید واجب اور دوسری عید فرحت، عید مسرت اور عید تشکر ہے۔ یہ مستحب اور مستحسن ہوتی ہے۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن کو عید کہنا یا سمجھنا اس لئے درست نہیں کہ اسلام میں عیدیں صرف دو ہیں اور وہ ہے عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ ان دو عیدوں کے ہوتے ہوئے بعض احباب کسی تیسری عید کو عید کہنا بھی جائز نہیں سمجھتے۔ گفتگو کی ابتداء اسی نکتہ کی وضاحت سے کرتا ہوں صحاح ستہ کی کتب احادیث سنن ابی دائود سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن کے بارے میں فرمایا:
يوم عيد جعله الله للمسلمين.
(سنن ابن ماجه ج1، ص349، حديث1098)
’’اللہ نے اسے مسلمانوں کے لئے عید مقرر کیا ہے‘‘۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے صرف دو عیدیں کہنے کا تصور کہاں گیا؟ آقا علیہ السلام نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا: جمعہ کا دن بھی ہماری عید ہے اس سے معلوم ہوا دو عیدوں کے علاوہ بھی اسلام میں عید کا تصور ہے۔ وہ دو عیدیں واجب ہیں۔ وہ عیدیں احکام اور مناسک کی ہیں اور یہ عید تعلق اور محبت کی ہے۔ یہ فرحت اور مسرت کی عید ہے۔ اس لئے میں نے اس کو عید فرحت، عید مسرت اور عید تشکر کا نام دیا اور وہ دو عیدیں عید شرعی ہیں اور واجب ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے آقا علیہ السلام نے جمعہ کو ہماری عید کا دن کیوں فرمایا؟ اس کا جواب بھی حدیث پاک میں ہے۔ یہ بھی سنن ابی دائود کی حدیث ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
ان يوم الجمعة من افضل الايام.
(صحيح ابن خزيمه، ج3، ص115، حديث1728)
’’بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل دن ہے‘‘۔
عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ سب دنوں سے افضل کیسے ہوگیا؟ فرمایا:
فی خلق آدم.
اس لئے کہ اس دن آدم کی ولادت ہوئی تھی۔ آپ کے ماں باپ نہیں تھے۔ آپ کی پہلی تخلیق عمل میں آئی۔ (میں ولادت بمعنیٰ پیدائش لے رہا ہوں)۔ فرمایا: جمعہ سب دنوں سے افضل اس لئے ہے کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہے۔ یہ بات حدیث پاک سے طے ہے تو دوستو! جو دن سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ہو وہ تو ہوجائے یوم عید اور افضل الایام اور جو دن ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہو اس پر کتنے جمعے قربان ہوجائیں اور آقا علیہ السلام کی پیدائش جمعہ کو عید بنادے۔ حضور علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کی بھی ایک نسبت اور تعلق ہے وہ یہ ہے: سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ آدم علیہ السلام جب جنت سے زمین پر اتار دیئے گئے تو طویل مدت تک آپ گریہ و بکا میں رہے پھر آپ نے ایک روز اللہ کے حضور دعا کی اور جب توبہ کے لئے ہاتھ اٹھائے تو عرض کیا:
اللهم مغفرلی وتقبل توبة بحق محمد نبی آخرالزمان.
(المستدرک، علی الصحيحين، ج2، ص272، حديث4228)
’’اے اللہ مجھے معاف کردے اور میری توبہ قبول کر (حضرت) محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جو سب سے آخری نبی تشریف لانے والے ہیں ان کے صدقے اور وسیلے سے معاف کردے‘‘۔
جب آپ نے یہ دعا کی تو اللہ رب العزت نے فرمایا: اے آدم! توبہ تو قبول کرلوں گا، معاف بھی کردوں گا مگر یہ بتا تمہیں میرے اس محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر کیسے ہوئی؟ تو آدم علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ! جب تو نے مجھے پیدا کیا اور جنت میں رکھا تو میں نے اپنا سر اٹھا کر جنت کو دیکھا تو میں نے عرش کے ہر پائے پر اور جنت کے ہر درخت ہر ہر پتے اور محلات پر اور جنت کے ہر دروازے پر یہ لکھا دیکھا تھا۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ میں اس دن سمجھ گیا تھا یہ کوئی خدا کا بڑا ہی محبوب ہے کہ جنت کے ایک ایک پتے پر جس کا نام ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر لکھ رکھا ہے۔ سو میں نے اس دن جان لیا تھا اور آج وہ جاننا میرے کام آگیا۔ اس کا واسطہ دے کر تجھ سے معافی مانگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے معافی عطا فرمادی۔ یہ آدم علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق ہے ایک نسبت ہے اور پھر حضرت حوا علیہا السلام جب پیدا ہوئیں تو اللہ نے چاہا کہ آدم و حوا کے درمیان نسبت زوجیت قائم کردی جائے۔ حضرت حوا کو آدم علیہ السلام کی بیوی بنادیا جائے تو فرمایا تمہارا آپس میں نکاح کرتے ہیں۔ نکاح ہوا تو آدم علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ نکاح کے وقت حوا کو میں مہر کیا ادا کروں۔
اللہ پاک نے فرمایا: تم دونوں مل کر میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیس مرتبہ درود پڑھ لو۔ حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام نے مل کر بیس مرتبہ درود پڑھا۔ اس مہر سے عقد اور نکاح ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے نتیجے میں اس عقد سے ہم سارے پیدا ہوئے۔ یہ ساری کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے مہر کی اولاد ہے۔ سب نبی ولی سب انسان اولاد ہیں اس نکاح کی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام سے منعقد ہوا۔ اگر ہم اولاد ہی درود و سلام والے نکاح کی ہوں تو اس درود و سلام سے دوری ہمیں زیب نہیں دیتی۔ یہ آدم علیہ السلام کا آقا علیہ السلام سے تعلق ہے۔ سمجھانا مقصود یہ ہے جن کے توسل سے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہو۔ ان کی پیدائش کا دن افضل الایام اور یوم العید ہوجائے اور جس دن آقا علیہ السلام کی اپنی ولادت ہو۔ اس دن کی عظمت اور افضلیت کا عالم کیا ہوگا۔ اس لئے کل جمعوں اور کل افضل دنوں کی فضیلتیں یوم میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت پر قربان ہوجاتی ہیں۔ آپ اس میلاد پاک کی خوشیاں منارہے ہیں۔ اس میلاد کے جشن منارہے ہیں۔ جمعہ چونکہ پیدائش آدم علیہ السلام کا دن ہے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ـ
فاکثروا عليه من الصلوة فی.
(القول البديع ج1، ص158، 159)
’’جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود و سلام پڑھا کرو‘‘۔
پیدائش حضرت آدم علیہ السلام کی ہے اور درود و سلام مجھ پر کثرت سے پڑھا کرو۔ اس لئے جب مجھ پر کثرت سے درود و سلام پڑھو گے۔ اس سے میرا سینہ ٹھنڈا ہوگا بلکہ یہ ٹھنڈک آدم علیہ السلام تک جائے گی۔ جن کا نکاح درود و سلام سے منعقد ہوا۔ گویا کل نبیوں کے سینے ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ اب جمعہ کی الگ سے کوئی فضیلت نہ تھی۔ اس کی فضیلت حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کی نسبت سے بنی باقی فضیلتیں اس نسبت سے بعد میں ایڈ ہوئیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کے اس دن کو اللہ پاک جشن منوا رہا ہے۔ اس دن منبر سجادیئے جاتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا جمعہ کا دن ہو تو نہایا کرو۔ یہ آدم علیہ السلام کے میلاد کا دن ہے۔ جس کے پاس خوشبو ہے وہ خوشبو لگایا کرے اور سج دھج کے مسجدوں میں اس طرح آیا کرو۔ پھر مسجد میں اجتماع ہو، منبر پر کھڑے ہوکر خطبے ہوں۔ سب کاروبار، معاش اور روزگار بند کردیئے جائیں ساری کائنات میں اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبر کی ولادت کا اہتمام کروایا ہے۔ اس دن کے بارے میں فرمایا کہ اس دن بطور خاص جو مجھ پر درود و سلام پڑھتا ہے۔ اس کا درود و سلام براہ راست مجھ تک پہنچتا ہے۔
یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ پھر درود و سلام پہنچانے کے لئے فرشتہ کیوں مقرر کررکھا ہے؟ وہ فرشتہ اس لئے مقرر نہیں کررکھا کہ حضور تک پہنچتا نہیں ہے اور صرف اسی کے ذریعے پہنچ سکتا ہے نہیں بلکہ پہنچتا تو یہ براہ راست ہے مگر بارگاہ رسالت کا ادب ہے کہ کوئی ادب کے ساتھ پیش کرے۔ یہ اسی طرح مقرر کررکھا ہے۔ جس طرح رب تعالیٰ نے اپنے لئے دو فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ جیسے آپ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ براہ راست دیکھتا ہے مگر براہ راست دیکھنے کے باوجود دو فرشتے مقرر کررکھے ہیں جو نامہ اعمال اللہ تعالیٰ کو پہنچاتے ہیں اور پیش کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بارگاہ جب بڑی ہوتی ہے تو اسکے آداب دربار یہ ہوتے ہیں کہ ہرکارے پیش کرتے ہیں۔
اسی طرح ساری کائنات کے درود و سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود سنتے ہیں۔ مگر ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے خدام پیش کریں۔ اللہ نے جو قانون اپنے محبوب کے لئے بنا رکھا ہے۔ وہی قانون اپنے لئے بنا رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بھی نامہ اعمال فرشتے پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو پیش کرنے کے لئے دو فرشتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کرنے کے لئے ایک ہے۔ اب کیا کہیں گے اگر وہ دو فرشتوں کے پہنچانے کے باوجود وہ دیکھتا ہے تو اسی طرح ایک کے فرشتے کے پہنچانے کے باوجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے ہیں۔ ان فرشتوں کے مقرر کرنے کا مطلب سننے نہ سننے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق آداب بارگاہ سے ہے کہ کوئی ادب سے پیش کرے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
وما من احد يسلم علی الا رد الله علی روحي حتی ارد عليه السلام.
(سنن ابو داؤد، ج2، ص175: 2041)
مشرق سے مغرب تک اس کائنات میں کوئی شخص ایسا نہیں جو مجھ پر سلام پڑھے اور میں اس کا جواب نہ دوں۔ فرمایا: جو شخص مجھ پر سلام پڑھتا ہے۔ (الا رد اللہ علی روحی) اللہ نے میری روح مجھ میں واپس لوٹادی ہوئی ہے (حتی ارد علیہ السلام) حتی کہ میں اس کے سلام کا خود جواب دیتا ہوں۔ حدیث صحیح سے ثابت ہوا کہ آقا علیہ السلام ہر ایک کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ اب کوئی سن لیتے ہیں کوئی نہیں سنتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمن جامی آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں 17 مرتبہ حاضر ہوئے اور آخری بار جب سلام عرض کرکے پلٹے تو اندر سے آواز آتی تھی خوش روی جامی باز آید خوش رہنا اور اگلی بار پھر آنا۔ جب سترھویں بار حاضری دی سلام عرض کیا: جواب آیا جامی خوش رہنا حضرت جامی رو پڑے۔ خدام نے عرض کیا:
حضرت رو کیوں رہے ہیں، کہنے لگے: یہ میری آخری حاضری تھی کیونکہ جب میں نے اگلی بار آنا ہوتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ پھر آنا اب صرف خوش رہنا کی دعا کی ہے۔ پلٹ کے آنا نہیں فرمایا پھر حضرت جامی گئے اور بعد میں وفات پاگئے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو آج بھی ہیں اور قیامت تک ہوں گے کہ وہ نماز میں تشہد کے وقت جب آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام عرض کرتے اور کہتے ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ تو اللہ تعالیٰ کی عزت اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گنبد خضریٰ کی قسم! سلام عرض کرکے اس وقت تک اگلا کلمہ نہیں پڑھتے تھے جب تک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے جواب نہیں آتا تھا۔ یہ تو تعلق کی بات ہے۔ اگر ہم نہ سن سکیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آقا علیہ السلام نے جواب نہیں دیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انبیاء کرام علیہم السلام کے میلاد کا ذکر کیا۔ میلاد کہتے ہیں ولادت کو اور جس دن نبی کی ولادت ہوئی وہ یوم میلاد ہے۔ سورہ مریم کو پڑھیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا.
(مريم،19: 15)
’’اور یحییٰ پر سلام ہو ان کے میلاد کے دن اور انکی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے‘‘۔
مذکورہ آیت کریمہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کی ساری زندگی میں سے تین خاص دنوں کو سلامتی کے لئے چن لیا۔ کیا ان تین دنوں کے علاوہ اللہ رب العزت اپنے نبی کی زندگی میں سلامتی نہیں بھیجتا۔ وہ تو ہر روز بھیجتا ہے پھر جب پیغمبر کی زندگی کے ہر دن وہ سلامتی، رحمت اور اپنی برکت بھیجتا ہے۔ تو پھر ان تین دنوں کے انتخاب کا کیا مطلب ہوا۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ رب العزت نے اعلان کردیا ہے۔ یوں تو پیغمبر کی زندگی کا ہر دن میری سلامتی کا دن ہے۔ مگر ان سب دنوں میں خصوصیت کا دن ہے جس دن میرے پیغمبر کا میلاد ہوا۔
اگر بعض لوگوں کے ذہن میں خیال آئے۔ ولادت کا دن آپ کیوں مناتے ہیں؟ کیونکہ Birthday تو انگریزوں نے بنا رکھا ہے۔ لہذا اس کی کوئی اہمیت اسلام میں نہیں ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں نادانی اور کم علمی کے باعث یہ خیال آئے تو اسے دور کرلینا چاہئے کیونکہ پیدائش کے دن کی اہمیت تو خدا نے مقرر کی ہے۔ جیسے مذکورہ آیت میں فرمایا گیا: ’’سلام علیہ یوم ولد‘‘ سلام ہوا میرا اس دن جس دن (یحییٰ علیہ السلام) کا میلاد ہوا۔
پھر کوئی یہ کہے کہ چلو میلاد تو ثابت ہوا پھر آپ وفات کا دن بھی مناتے ہو؟ اس کا بھی جواب یہ ہے کہ ہم کیا کریں اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت بھی قرآن میں مقرر کردی ہے۔ جیسے فرمایا: ’’یوم یموت‘‘ (اور اس دن بھی سلام ہو جس دن ان کی وفات ہوئی)۔ گویا اللہ والوں کے لئے دو دن خاص ہوگئے۔ ایک میلاد کا دن ایک وفات کا دن۔ اب اسی سورہ مریم میں آگے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کلام ہیں۔ آپ خود باری تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:
وَ السَّلٰمُ عَلَيَ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا.
(مريم، 19: 33)
’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا‘‘۔
فرمایا: سلام ہو مجھ پر جس دن میرا میلاد ہوا۔ اللہ نے فرمایا سلام ہو یحییٰ پر جس دن اس کا میلاد ہوا۔ گویا پیغمبر کے میلاد کے دن سلام پڑھنا، خدا کی سنت ہوگئی کیونکہ اللہ تعالیٰ خود سلام بھیج رہا ہے۔ (سلام علیہ یوم ولد) اور پھر اگلی آیت میں پیغمبر کے یوم میلاد پر سلام پڑھنا پیغمبر کی اپنی سنت بھی ہوئی کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بارے میں فرمایا: السلام علی یوم ولدت سلام ہو مجھ پر جس دن میرا میلاد ہوا۔ گویا میلاد کے دن نبیوں پر سلام پڑھنا خدا کی بھی سنت ہے۔ انبیاء کی بھی سنت ہے۔ جب دوسرے نبیوں کی بات تھی تو ان کے میلاد اور ولادت کا ذکر اللہ رب العزت نے صرف سلام سے کیا اور جب میلاد کے دن کی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات آئی تو فرمایا: ان کی ولادت کے دن الصلوۃ والسلام پڑھتا ہوں۔ اپنے محبوب کی زندگی کا ہر دن یوم ولادت بنادیا۔ یہ فرماکر کہ
اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ.
(الاحزاب، 33: 56)
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں‘‘۔
کیونکہ محبوب کا ہر دن یوم میلاد ہے۔ باری تعالیٰ نے دیگر انبیاء پر ان کی ولادت کے دن سلام پڑھا تھا جبکہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولادت کے دن کی قسم کھاتا ہے۔ فرمایا:
لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَo
(البلد، 90: 1-3)
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی‘‘۔
میلاد کے سلسلے میں یہ تیسری آیت جس میں فرمایا: میں اس شہر مکہ کی قسم کھاتا ہوں۔ باری تعالیٰ کیوں؟ اس لئے کہ وَ اَنْتَ حِلٌّم بِہٰذَا الْبَلَدِ اے حبیب! اس شہر مکہ کی قسم اس لئے کھاتا ہوں کہ تری جائے سکونت ہے۔ اس لئے تو قسم کھاتا ہوں۔ دوسرا فرمایا: ما ولد کہ تیرا شہر سکونت ہی نہیں یہ تیرا شہر ولادت بھی ہے۔ لہذا اس مکہ شہر کی قسم کھاتا ہوں۔ دو نسبتوں سے تیرا شہر سکونت ہے اور تیرا شہر ولادت ہے۔ شہر سکونت کی قسم کھا کر اگلی آیت میں اپنے حبیب کے نسب کی بھی قسم کھائی گئی اور فرمایا کہ دیگر انبیاء کی قسم کھائی جو اپنی کی ذات تک محدود تھی مگر اے حبیب قسم ہے ہر اس ولد کی جو آدم علیہ السلام سے اسماعیل تک تیرے آبائو اجداد کی نسل میں آیا۔ جس جس کی پشت میں تیرا نور منتقل ہوتا چلا گیا اور تیرے آبائو اجداد میں جس جس کو بھی تیرے ساتھ نسبت اور ولدیت عطا ہوئی۔ محبوب تیرے ساتھ اس نسبت رکھنے پر تیرے ہر والد کی قسم۔ کسی نے کہا ولد سے مراد حضرت ابراہیم ہیں۔ میں نے کہا کوئی اعتراض نہیں کسی نے کہا اس سے مراد حضرت آدم ہیں میں نے کہا اس میں کوئی اعتراض نہیں۔ کوئی کہتا ہے اس سے مراد حضرت اسماعیل ہے۔ میں کہتا ہوں اس میں کوئی اعتراض نہیں۔ کوئی کہتا ہے حضرت عبداللہ ہیں میں کہتا ہوں اس میں بھی کوئی اعتراض نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو تنوین کے ساتھ فرمایا وولد یہ تنوین دو فائدے دے رہی ہے۔ تکریم کا بھی اور عموم بھی کہ محبوب تیرے آبائو اجداد کا ہر فرد لائق تعظیم ہے۔ یہ تنوین دوسرا فائدہ عموم کا دے رہی ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حضرت آدم علیہ السلام تک سب کی قسم! یعنی میرے محبوب کے والد کی قسم۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ وہ والد کسی اور کا نہیں وہ والد تو میرے محبوب کا ہی ہے۔ خواہ حقیقی والد کرلیں خواہ دادا کرلیں خواہ پردادا کرلیں خواہ شکر دادا کرلیں 40 پشت اوپر کرلیں یا 70 پشت اوپر کرلیں پھر بھی کسی اور کے والد کی قسم نہیں، قسم ہے تو والدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔ کوئی اگر یہ کہے کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد کا کہاں ذکر ہے؟ میں کہتا ہوں اچھا چلو آپ بتادیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد کی نہیں تو کس کے والد کی قسم کھائی جارہی ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ عام لوگوں کے والدوں کی قسم کھاتا پھرتا ہے۔ وہ تو اپنے مکہ شہر کی بھی اپنے کعبہ کی وجہ سے قسم نہیں کھاتا۔ اس نے کہا کہ میں شہر مکہ کی قسم اس لئے نہیں کھائی کہ میرا گھر ہے بلکہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی وجہ سے کھائی ہے۔ فرمایا: حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مکہ شہر میں دو گھر ہیں۔ حرم آئو تو میرا گھر ہے اور سارا جہاں میرے گھر کے طواف کے لئے آتا ہے۔ جبکہ صحن کعبہ سے نکل کر سوق الیل میں آمنہ کی گلی میں چلے جائو وہاں تیرا گھر ہے۔ میرے حبیب! میں نے مکہ کی قسم کھائی ہے۔ گھر میرا بھی یہیں تھا مگر اپنے گھر کی وجہ سے نہیں بلکہ ’’وانت حل بھذا البلد‘‘ بلکہ اس لئے کہ تیرا گھر اس شہر میں ہے۔ اب وہ شہر کی قسم تو کھا رہا ہے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی وجہ سے تو یہاں کس کے والد کی قسم کھا رہا ہے۔ اب (نعوذ باللہ) اللہ کا اپنا والد تو ہے نہیں کیونکہ لم یلد ولم یولد (الاخلاص، 112: 3) ’’نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ پیدا کیا گیا ہے‘‘۔
نہ اس کا والد ہے نہ اس کی اولاد ہے۔ نہ باپ نہ بیٹا لہذا اگر کوئی انکار کرے کہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد نہیں ہیں تو پھر اس سے پوچھ لو کہ کس کے والد کی قسم ہے کیونکہ اگر قسم ہوتی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی تو سیدھا نام لے لیا جاتا کہ قسم ہے اسماعیل کی یا قسم ہے ابراہیم کی یا قسم ہے موسیٰ کی یا قسم ہے آدم کی۔ اگر ان کی قسم ان کی وجہ سے ہوتی تو ان کا نام لیتے ان کا والد کیوں کہا جاتا اور والد کوئی ہوتا کیونکر ہے جس کا کوئی بیٹا ہی نہ ہو۔ کوئی اس کو والد کہتا ہے؟ والد کون بناتا ہے۔ جیسے ماں باپ کی طرف سے بیٹا بنا۔ بیوی کی نسبت سے شوہر بنا۔ بہنوں کی نسبت سے بھائی بنا۔ پھوپھی کی وجہ سے بھتیجا کہلایا۔ خالہ کی نسبت سے بھانجا کہلایا۔ اسی طرح باپ بیٹے کی وجہ سے کہلایا۔ بیٹا ہوا تو والد ہوا۔ ولد ہو تو والد ہوتا ہے لہذا کسی نبی کا نام لے کر نہیں فرمایا بلکہ فرمایا: ’’ووالد‘‘ اور قسم ہے کسی والد کی۔
اب ہمیں تو عمر بھر والد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور نظر نہ آیا خواہ اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ وہ والد تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں اور اس میں ایک اشارہ بھی ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کرلیا۔ جوں جوں دیواریں اونچی ہونے لگیں تو ایک پتھر اٹھا کر لے آئے اور اس پتھر پر کھڑے ہوگئے تو ساتھ ساتھ پتھر بھی اونچا ہوتا چلا گیا۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام ساتھ ساتھ تعمیر کا سامان مہیا کرتے رہے جب کعبہ تعمیر ہوگیا تو جس پتھر پر کھڑے تھے وہاں آپ کے دونوں قدم اس کے سینے پر ثبت ہوگئے اور نقش ہوگئے۔ اب اسی پتھر پر کھڑے تھے کعبہ کی تعمیر مکمل کرلی تھی تو بارگاہ الہٰی سے عرض کیا:
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ.
(البقرة، 2: 127)
’’کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے‘‘۔
وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰهيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ.
(البقرة، 2: 127)
’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) ‘‘۔
ہم نے دیواریں کھڑی کرلی ہیں لہذا ہماری محنت اور مزدوری قبول فرما۔ اور تجھ سے اور کچھ نہیں مانگتے بس ایک ہی اجرت مانگتے ہیں اور اس مزدوری میں وہ عطا کردے۔ پتھر پر کھڑے دعاکررہے ہیں۔ فرمایا: ابراہیم کیا مانگتے ہو۔ عرض کی:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّيَتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَکَ.
(البقرة، 2: 128)
’’اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا ‘‘۔
باری تعالیٰ جو امت مسلمہ آنی ہے وہ ہماری نسل سے پیدا کر۔ باری تعالیٰ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ اصل چاہتے کیا ہو؟ پھر عرض کی:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِکَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَيُزَکِّيْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ.
(البقرة، 2: 129)
’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی باری تعالیٰ تو اس کعبہ کی تعمیر پر کوئی اجرت یا مزدوری اگر دینا چاہتا ہے تو یہ مزدوری دے دے کہ مجھے اس محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا باپ بنادے اور میری نسل اور ذریت سے اس نبی آخرالزماں کو پیدا کردے۔ لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کرکے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد ہونا اجرت میں مانگا کہ مجھے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا والد کردے۔ (مجھے تو یہ لگتا ہے اور یہ بات کسی کی سمجھ میں آئی ہو یا نہ آئی ہو۔ کسی نے ان دو نکتوں کو جوڑ کر لکھا ہو یا نہ لکھا ہو۔ مگر میرے فہم و ادراک اور میری معرفت میں یہی نقش ہے) کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ باری تعالیٰ تیرے کعبے کی مزدوری کی اگر کوئی اجرت بنتی ہے تو یہ دے دے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا والد کردے اور میری نسل میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو پیدا کردے۔ اللہ تعالیٰ نے قبول کرلیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگئے۔ جب پیدا ہوگئے تو یہ اس دعا کا جواب ہے کہ ’’ووالد و ما ولد‘‘ قسم ہے اس والد کی جو دعا مانگ کر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد بنا جو میرا کعبہ تعمیر کرکے اس تعمیر کعبہ پر اجرت مانگ کر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد بنا تھا۔ لہذا والد کی قسم ولد کی وجہ سے ہی ہے ولد کہتے ہیں جس کا میلاد ہوا۔ فرمایا اس والد کی قسم جس نے مزدوری میں والد ہونا مانگا اور اس محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی قسم جس کا میلاد ہوا اور اس نے ابراہیم علیہ السلام کو والد بنادیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے والد کی قسم کھائی گئی۔ آپ نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا تذکرہ اللہ رب العزت نے کتنے حسین پیرائے میں کیا۔