دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین نہیں جس نے علم کو اتنی اہمیت و عظمت بخشی ہو اور اہل علم کو اس قدر معتبر اور معزز ٹھہرایا ہو۔ اسی علم کی بدولت انسان اشرف المخلوقات قرار پایا تو اسی علم کی وجہ سے مسجودِ ملائکہ کے مقام پر فائز ہوا۔ قرآن و احادیث نے علمائے حق کو اس بلند مقام پر فائز کردیا ہے جہاں پہنچنے کے لیے علم کے بغیر نہ کوئی قدم اٹھا سکتا ہے نہ پر تول سکتا ہے۔
حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں۔ علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ قوموں کو سرفرازی عطا کرتا ہے تو ان کے اندر شرافت و قیادت اور سیاست و ہدایت سے مالا مال رہنما پیدا کردیتا ہے جو ہر گام پر ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ایسے رہنما خیرو بھلائی کی نشانیاں ہوتے ہیں لوگ ان کے نقش قدم پر چلنا باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ ان کے اعمال و افعال کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں: اگر علماء نہ ہوتے تو لوگ جانوروں کی سی زندگی گزارتے یعنی علماء لوگوں کو بہیمت کے دائرہ سے نکال کر انسانیت میں داخل کردیتے ہیں۔
یحییٰ بن معاذ کا قول ہے۔ علماء امت محمدیہ کے لیے ان کے والدین سے بھی زیادہ رحیم و شفیق ہیں۔ پوچھا گیا کیسے کہا اس طرح کہ والدین تو ان کو دنیا کی آگ سے بچاتے ہیں جبکہ علماء انھیں جہنم کی آگ سے بچاتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے سلسلہ نبوت تاجدار ختم نبوت حضرت محمدﷺ پر ختم کردیا اور دین اسلام کی تعلیمات آپﷺ پر تمام کو دی۔ انبیاء کرام کے وارث علماء حق قرار پائے۔ رسول اکرمﷺ نے اپنی امت کے علما کو بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند قرار دیا۔ گویا دین کی تعلیمات کی اشاعت و تبلیغ اور فروغ کا فریضہ حق علمائے امت کی دائمی ذمہ داری ہے۔
جب ہم تاریخ اسلام پر ایک نظر عمیق ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ یہ علماء دین اور اہل علم ہی وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر حق پرستی کے رنگ میں ڈھالا ہی اہل علم ہیں جو بکھرے ہوئے افراد کو ایک امت کی شکل دینے والے ہیں۔
آج سے تیس چالیس سال قبل امت مسلمہ من حیث المجموع زوال کے دور سے گزر رہی تھی۔ اسلامی افکار و کردار گردشِ زمانہ سے دھندلا دیا تھا جب وعظ و تبلیغ، خطاب، ارشاد، ابلاغ سب جاری تھا مگر مفہوم سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اسلامی روایات اور اقدار پامال ہورہی تھیں۔ ان حالات میں سیدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ایسے معلم عصر بن کر منصۂ شہود پر ابھر کر سامنے آئے کہ ہر قسم کے علوم کا فیض ان کی ذات میں جمع ہے ان کے آنے سے علم و فکر، فلسفہ و طریق اور زندگی بامقصد ہوگئیں۔
آج شیخ الاسلام جو کہ علم کا بحرِ بیکراں میں عظیم مفسرِ قرآن محدثِ عظام اور مجتہد زمانہ ہیں نے اس زمانے اور اس صدی کے لوگوں کو تعلیم کی مقصدیت کا فیض عطا کردیا۔ یوں تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت ہمہ جہت ہے مگر علم اور تعلیم کے میدان میں آپ کی فتوحات اور خدمات انتہائی حیران کن حد تک بے مثال ہیں اگر آپ کی تمام تر علمی فتوحات اور تعلیمی خدمات کا سیر حاصل جائزہ لیں تو صفحات ختم ہوجائیں گے مگر اس کو کماحقہ بیان کرنا ممکن نہیں۔
کیسے بیان ہو تیرے اوصافِ کمالات
خوبیوں کا ایک حسین مرقع ہے تیری ذات
زیر بحث مضمون میں پہلے شیخ الاسلام کے فلسفہ ہائے تعلیم کو مختصر بیان کیا جائے گا۔ پھر بطور معلم ان کے اوصاف و خصوصیات کا تذکرہ ہوگا اور بعد ازاں ان کی علمی فتوحات و خدمات پر نہایت اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جائے گی۔
شیخ الاسلام کا فلسفۂ تعلیم:
کسی قوم کی حقیقی آزادی، ترقی اور خوشحالی کا دارومدار اس کے ایمان و فکر اور نظریہ تعلیم پر ہوتاہے لیکن افسوس کہ اب تک ہمارے معاشرے کے افق سے ایمان و فکر کا خورشید زندگی افروز طلوع نہیں ہوا۔ ہم دوسرے نظام تعلیم کے ہاتھوں اپنی نوجوان نسلوں کی ذہنی اور فکری آبیاری مناسب انداز میں نہیں کرپارہے۔ علامہ اقبالؒ کے بعد پہلی بار صحیح مسلم زاویہ نگاہ سے ایک مکمل تعلیمی انقلاب کی آواز شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اٹھائی ہے صرف آواز ہی نہیں بلکہ عملی وانقلابی اقدامات بھی کیے ہیں۔
1۔ منہاج یونیورسٹی لاہور
2۔ منہاج شریعہ کالج
3۔ منہاج کالج برائے خواتین
4۔ منہاج ماڈل سکولز
5۔ لارل ہوم سکولز (انگلش میڈیم)
6۔ نظام المدارس پاکستان
7۔ فرید ملت ریسر چ انسٹی ٹیوٹ
درج بالا علمی مراکز و انسٹی ٹیوٹ میں جدید و قدیم اور دینی و عصری علوم کا حسین امتزاج نہایت اعتدال و توازن کے ساتھ رائج کیا گیا ہے۔ اپنے مروجہ مذکورہ نظام تعلیم کو عملاً پیش کرکے مغرب کے ملحدانہ و مادہ پرستانہ تہذیب کے خلاف عملاً علمی جہاد کرکے دکھایا۔ آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہی یہ ہے کہ مسئلہ تعلیم جو کسی قوم کا بے حد اہم و اولین مسئلہ ہے۔ اس پر توجہ دی جائے وگرنہ سارا معاشرہ چوپٹ ہوکر رہ جائے گا۔ علامہ اقبال مغربی تعلیم کے ملحدانہ اثرات کو اس اندازمیں بیان کرتے ہیں:
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
لیکن اگر آج علامہ مرحوم ایک بار پھر ہمارے درمیان آجائیں تو اپنی آنکھوں سے منہاج القرآن کے علمی و تعلیمی مراکز، کالجز، سکولز میں انہیں یقیناً زندگی، محبت اور معرفت سب کچھ دکھائی دے گا۔
ان کے وسیع لٹریچر کے مطالعہ اور خطابات کو سن کر آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ایک آدمی اتنا زیادہ جو بیک وقت پوری دنیا میں میں تحریکی و تنظیمی راہنمائی کرتے ہوئے 600 سے زائد معیاری کتب اتنی ضخامت کے ساتھ کس طرح مرتب کر ڈالتا ہے۔ یہ لٹریچر اسلام کے بارے میں ایک میں مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے مگر صرف لٹریچر کی وسعت اور ضخامت ہی حیران کن نہیں اور تعجب میں ڈالنے والا وہ غیر معمولی تنوع سے جو بحث و فکر موضوعات میں پایا جاتا ہے۔ عقائد نظریات، اخلاق و تصوف، سیرت ، تفسیر، حدیث، قانون، فقہ، سیاست و معیشت، سائنسی علوم، قضا، مالیات، تجارت، سود، بینکنگ، ٹیکینکل اور فنی علوم و دیگر مسائل اور بے شمار دوسرے موضوعات پر نہ صرف معلومات بلکہ ان کے ساتھ اجتہادی نقطہ نظر مزید یہ کہ ایک جذبہ انقلاب و تبدیلی پڑھنے والوں کو ان کے ہاں ملتا ہے۔
بہت سے لوگ معلومات کے سمندر کے سمندر دماغ میں اتار جاتے ہیں لیکن زندگی کی کوئی ایک گرہ سلجھا نہیں سکتے۔ کتابیں لکھتے ہیں بے حساب لکھتے ہیں مگر شیخ الاسلام کا تصور علم اتنا جامع، مربوط اور مرتب ہے کہ آپ نے اسلامی نظام کو تحریک منہاج القرآن کی شکل میں ایک سائنس بناکر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ آپ نے تعلیم کے میدان میں ایسی علمی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں کہ ایک ایسے عظیم اسلامفکر، فلاسفر ہیں جو جیسی فکر دے رہے ہیں ویسی ہی تحریک ہی بپا کیے ہوئے ہیں۔
کبھی سوزو ساز رومی ، کبھی پیچ و تاب رازی
اسی کشمکش میں گزری میری زندگی کی راتیں
شیخ الاسلام بطور معلم عصر:
مالک ارض و سماء نے اپنے حبیب تاجدار کائناتﷺ کو بے شمار صفات و اوصاف کا پیکر مجسم بناکر بھیجا مگر آقائے نامدار حضرت محمدﷺ نے اپنا تعارف جس خوبی اور وصف کے ساتھ بیان کرنے پر فخر کیا وہ معلمیت کی شان ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: انما بعثت معلما۔ بے شک مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے۔ گویا معلم انسانیت کو بھی اپنے معلم ہونے پر فخر تھا رسولﷺ کا فرمان ہے:
خیرکم من تعلم القرآن وعلمه.
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا۔‘‘
ایک سچا عالم نائب رسول کی حیثیت سے منصب معلمین پر فائز ہوکر اپنے زمانے کا سچا معلم اور مربی ہوا کرتا ہے۔
غذا شعور کو ملتی ہے تو جو لب کھولے
خرد کے نور کا موسم ہیں صحبتیں تیری
شیخ الاسلام بطور معلم کن خصوصی اوصاف کے حامل ہیں۔ ذیل میں مختصراً بیان کیا جاتا ہے:
1۔ اہل علم کی قدر افزائی کرنا اور طالب علم کی حوصلہ افزائی کرنا:
ایک معلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے طالب علم کو حصول تعلیم کے لیے ابھارے اس کے ساتھ ہنس مکھی اور بشاشت روئی سے پیش آئے تاکہ طالب علم کے اندر استاد کا خوف اور تعلیم سے فرار کا جو رجحان موجود ہے۔ اس کا خاتمہ ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام نوجوان نسل، طالب علموں اہل علم کے ساتھ نہایت خوش مزاجی، نرم روئی سے پیش آتے ہیں۔ گفتگو کا آغاز مسکراتے ہوئے، ہلکے پھلکے انداز میں کرتے ہیں۔ قدرے بے تکلفانہ ماحول خود مہیا کرتے ہیں وگرنہ آپ کی شخصیت کا علمی رعب و جلال اس قدر ہے کہ مجلس پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے اور کسی کی جرات نہیں پڑتی کہ چون چرا کرسکے مگر آپ کی شفقت، دلجوئی اور خوش خلقی ہے کہ ہر کوئی یکساں آپ کی علمی صحبت اور تربیتی نشستوں سے مستفید ہوتا نظر آتا ہے۔ پچھلے سال کے اعتکاف کے دوران میرا بیٹا حسنین مصطفی قادری، مسنون اعتکاف بیٹھا ہوا تھا اسے بھی نفس کے وساوس خطرات جیسے دقیق موضوع سمجھ میں آرہے تھے۔ یہ آپ کا طرہ امتیاز ہے اپنے مشائخ اور اساتذہ کا ذکر نہایت آداب و القابات سے کرتے ہیں اور اہل علماء و مشائخ عظام کے جوڑے اپنے سر پر اٹھانے کو قابل فخر عمل قرار دیتے ہیں۔
2۔ علمی و تحقیقی بنیادوں پر ذہن سازی کرنا:
شیخ الاسلام طالب علموں کی علمی و تحقیقی بنیادوں پر ذہن سازی کررہے ہیں۔ کسی دعویٰ کو دلیل کے بغیر قبول نہ کیا جائے مدعی خواہ کوئی ہو دلیل ایسی ہو جو عقل و شعور کے نزدیک دلیل کی حیثیت رکھے۔
قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ.
(النمل،27: 64)
’’فرما دیجیے: (اے مشرکو!) اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔‘‘
محسوس کی جانے والی چیزوں کے ضمن میں مشاہدہ اور تجربہ علم کی اساس ہے۔ منقول معاملات میں صحیح اور باوثوق بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی علمی بات یا دلیل کو آج تک کوئی مائی کا لال رد نہیں کرسکا۔ آپ کسی علمی موضوع یا مسئلہ پر بات کرتے ہیں تو دلائل و براہین کے انبار لگادیتے ہیں۔ آج ان کے شاگرد لاکھوں نہیں تو ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر میں تحقیق و ریسرچ کے میدان میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں میں آپ کے علمی شذرات پر Ph.D اور ایم فل ہورہا ہے۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل سکالرز آپ کے تحقیقاتی کاموں پر ریسرچ کررہے ہیں۔
بے یقینی کے اندھیروں سے نکلنا ہوگا
حق پرستی کے ہمیں رنگ میں ڈھلنا ہوگا
نسلِ نوخیز تجھے اپنی بقا کی خاطر
شیخ الاسلام کے افکار میں ڈھلنا ہوگا
تعلیم کے ساتھ تربیت پر زور دینا:
شیخ الاسلام ایسے علم جس پر عمل نہ ہو ایسی تعلیم جس میں تربیت کا فقدان ہو ہرگز قائل نہیں ہیں۔
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
لیکن علامہ اقبال کا یہ شکوہ بھی معلم عصر، غزالی دوراں یعنی شیخ الاسلام نے اپنے افکار و تعلیمات کے ذریعے دور کردیا ہے آپ کی تعلیمات میں سوز و ساز رومی بھی ہے تو تلقین غزالی بھی۔
نماز پنجگانہ کے ساتھ تہجد کی پابندی، ہمہ وقت باوضو رہنا، ایام بیض کے روزے، مسنون اعتکاف، تربیتی ورکشاپس۔ یہ سب فکرو عمل کو انقلاب مصطفوی میں ڈھالنے کا باعث بنتے ہیں۔ ایک افراد ملت کے نفوس و قلوب کی تربیت کے لیے ’’حسن اعمال‘‘، حسن اخلاق اور حسن احوال جیسی عظیم تالیفات کا تحفہ دے چکے آپ کی سیرت و کردار میں قول و فعل کا تضاد ہرگز نہیں بلکہ اہل خانہ آپ کے صاحبزادگان، بیٹے، بیٹیاں، بہوئیں، پوتے پوتیاں ہر کوئی آپ کی تعلیمات اور تربیت کے رنگ میں مجسم عملی پیکر ہیں۔
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی
ذیل میں شیخ الاسلام کی علمی فتوحات اور تعلیمی خدمات کو اختصار کےساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
شیخ الاسلام اور علوم القرآن:
شیخ الاسلام کی دینی علوم میں بالخصوص قرآن اور علوم القرآن کے لیے علمی کاوشیں اور خدمات لازوال و بے مثال ہیں۔
A Man who’s universe of knowledge
قرآن مجید تحریک منہاج القرآن کی فکری اساس ہے۔ آپ نے احیائے اسلام کی عالمگیر جدوجہد کا نام منہاج القرآن رکھ کر یہ واضح کردیا کہ ہمارے مشن کا مرکز و محور قرآن ہے۔ آپ نے قرآن اور علوم القرآن پر 50 سے زائد کتب کی اشاعت کی ملک کے اندر اور بیرون ملک میں درس قرآن کے کلچر کو فروغ دیا۔ دور حاضر کے کے مطابق جدید علمی و فکری اور سائنسی پہلوؤں پر مشتمل ترجمہ عرفان القرآن آپ کا بہت بڑا علمی کارنامہ ہے۔ قرآن مجید کی 20 جلدوں پر تفصیلی جبکہ 8 جلدوں پر مختصر تفسیر کی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ آٹھ جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلو پیڈیا جو کہ 5000 سے زائد موضوعات پر مبنی ہے۔ حلقات دروس قرآن اور مراکز علم کے ذریعے منعقد ہونے والی کلاسز کے ذریعے لاکھوں افراد کو فہم قرآن سے روشناس کرایا جارہا ہے۔
شیخ الاسلام اور علوم الحدیث:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آج امت مسلمہ کے لیے احادیث رسول ﷺ کا ایک انسائیکلو پیڈیا تیار کردیا ہے جو ہر طالب حدیث کو علم حدیث کے ہر موضوع پر وافر مواد فراہم کرتا ہے اور ہر شخص براہ راست ان کی مرتب کردہ احادیث اور ان کے تراجم الابواب سے مستفید ہوسکتا ہے۔ منہاج السوی (دو جلدوں)، معارج السنن (5 جلدوں)، عرفان السنہ موسوعۃ علوم الحدیث 9 جلدوں پر مشتمل جو کہ 25 ہزار احادیث پر مشتمل ایک ضخیم ذخیرہ احادیث ہیں چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ موسوعۃ علوم الحدیث کی آٹھویں جلد میں کتب حدیث کی صحیح احادیث، اقسام احادیث، مصطلحات محدثین پر مشتمل اہم مباحث زیر بحث لائی گئی ہیں۔ اسی کی نویں جلد میں حدیث ضعیف پر اٹھنے والے تمام تر اعتراضات کو رد کرتے ہوئے بتایا کہ لفظ ضعیف کا وارد ہوجانا اس بات کو مستلزم نہیں کہ اب یہ حدیث نقابل استفادہ و احتجاج نہیں۔
شیخ الاسلام اور جدید سائنسی علوم:
شیخ الاسلام نے جدید سائنسی علوم پر بھی بے شمار علمی شذرات قلمبند کیے ہیں اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ جدید سائنسی و ٹیکنالوجی اسلام کی ابدی تعلیمات و حقائق کی تصدیق کرتی ہیں۔ آپ نے ’’اسلام اور سائنس‘‘ ’’انسان کی تخلیق و ارتقاء‘‘، ’’کائنات کی تخلیق و ارتقاء‘‘ جیسی عظیم تصنیفات قلمبند کی علاوہ ازیں ’’اسلام کے نظام معیشت‘‘ اسلام کے نظام سیاست پر بھی اپنا فلسفہ اور نقطہ نظر بیان کیا۔ آپ کے انسٹی ٹیوٹ،یونیورسٹی اور کالجز اور سکولز کے طلبہ و طالبات جدید سائنسی علوم سیکھنے پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں۔