نصاب سازی ایک باقاعدہ سائنس ہے اور مضبوط اور پائیدار نصاب قومی ضروریات اور حاجات کا عکاس ہوتا ہے۔ تشکیل نصاب ایک مسلسل تدریجی عمل ہے جو وقت کے تقاضوں کے اور ماہرین، تجربہ یافتہ اور وسیع فکری و اصلاحی صلاحیتوں اور استعداد کے مالک افراد کی تجاویز و نظریات کت مطابق متغیر اورتبدیل ہوتا رہتا ہے۔ بہترین، پائیدار، مقصد خیزی سے مامور، جامع و قابل عمل شعبہ ہائے زندگی سے متعلقہ نصاب وہ شخصیت دے سکتی ہے جو بین الاقوامی ویژن اور کثیر الجہتی صلاحیتوں، پختہ و راسخ فکری استعدادوں اور طویل علمی واصلاحی کاوشوں کا تجربہ و مشق رکھتی ہو۔ نہ صرف یہ بلکہ اس ویژنری شخصیت نے اپنے نظریہ و فکر کی تکمیل وترویج کے لئے باصلاحیت و وجیہہ ٹیم بھی تیار کی ہو، جو اسکے فکری وعلمی تجارب سے مستنبط اصول و ارشادات اور افادات علمیہ کو تنفیذی جامہ پہنانے اور ان کی ترویج وفروغ کے لئے کوشاں بھی ہوں۔
دور حاضر میں جب ہم شرق و غرب میں نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں اس صدی میں حضرت مجدد القرن الخامس عشر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اطال اللہ عمرہ بالصحۃ والعافیۃ۔ تابندہ و روشن آفتاب کی مانند نظر آتے ہیں۔ بلا شبہ آپ وقت شناس بھی ہیں اور پختہ نظریات کے مالک بھی ہیں۔ جو عرب و عجم کے تعلیمی نصابات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور جدید و قدیم علوم پر بھی عمیق نظر رکھتے ہیں۔ اس دور میں آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ مسلمان نوجوان نسل، طلبہ و طالبات، رجال کار، آفیسرز، آئمہ دین و خطباء و واعظین، سرکاری ملازمین، تاجر و کاروباری افراد، اساتذہ و معلمین اور دیگر افراد کی ذہنی و فکری، علمی و اصلاحی فنی و ادبی ہر حوالہ سے ان کے لیے کیسا علمی ذخیرہ ہو جس کا وہ مطالعہ کر سکیں اور اپنی تشنگی پوری کر سکیں اور اس کے مشتملات کیا ہونے چاہیے۔ بلاشک وشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مشرق و مغرب اور عرب و عجم میں معروف و معترف شخصیت ہیں ہےاور آپ کی اصلاح معاشرہ، تربیت افراد اور احیاء دین کے لیے علمی و عملی تمام کاوشیں معتبر و مسلم ہیں۔ آپ نے کئی نصابات مرتب فرمائے ہیں۔ ان میں سے نمونہ کے طور پر چند ایک کی نمایاں خصوصیات پیش کرتے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ منھاج القرآن کےنصاب کی اہم خصوصیات:
یاد رہے کہ مراکز علم، درسگاہوں اور تعلیمی اداروں کے قیام کے مقاصدو اہداف میں سے اہم امر یہ ہے تعلیمی ادارے اور مراکز علم معاصر چینلجز اور تحدیات (contemporary challenges) کا مقابلہ کرنے اور باصلاحیت افراد تیار کرنے کی خاطرقائم ہوں، اور نتیجتاً افراد کی ایسی کھیپ تیار کریں جو معاشرے کی ترقی اور اصلاح اوراس میں امن قائم کرنے میں اپنا مثبت و ممتاز کردار ادا کریں۔ کیونکہ ان کا کردار ایک گائیڈپوسٹ (guide post) کا ہوتا ہے جو قوم کو اعلیٰ سے اعلیٰ منزل کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔
تہذیب و تمدن (culture) میں نکھار اور اجلہ پن پیدا کرتےہیں۔ اور اس وقت معاشرے میں پیدا ہونے والے ہر قسم کے پیچیدہ و مشکل مسائل و مشکلات کا حل دیتے ہیں۔ نہ صرف فکری و علمی جمود و تقلیدکوتوڑنے کی مضبوط سعی وکاوش کرتے ہیں بلکہ علمی میدان میں نئی نئی تحقیق و ترقی کی راہیں اور جہات آشکار کرتے ہیں۔
انہی مقاصد و اہداف کے حصول کے لئے شیخ الاسلام نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہےاور فکری طور افراط و تفریط اور انحراف ا ور عدم توازن جیسی روشوں کے خاتمہ کے لئےحضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی تعلیمی و تربیتی درسگاہیں دنیا بھر میں قائم کی ہیں ان میں سے جامعہ اسلامیہ منھاج القرآن ہے، جس کی 18 ستمبر 1984ء بنیاد رکھی، جو پاکستانی معاشرے میں احیاء دین اور فکری اعتدال و توازن کی ترویج و فروغ کے لیے گزشتہ چار دہائیوں سے اس اہم فریضہ کو ادا کر رہی ہے۔ اس جامعہ نے ایسے باصلاحیت، تربیت یافت اور فکری وسعت کے مالک فراد تیار کیے ہیں جو شیخ الاسلام کی سر پرستی میں معاشر ے میں موجود فکری و علمی جمود و تقلیدکوتوڑنے کی مضبوط سعی وکاوش کر رہے ہیں۔ جو معاصر چینلجزاور تحدیات (contemporary challenges) کا مقابلہ کرنے کے لئے اور معاشرے کی ترقی اور اصلاح اوراس میں امن قائم کرنے میں اپنا مثبت و ممتاز کردار ادا کر رہے ہیں۔ جنہوں نے تہذیب و تمدن میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی اصلاح کا فریضہ ادا کرکے اس میں نکھار اور اجلہ پن پیدا کرنے کی مثال قائم کی ہے۔
یہ ایک مسلم حقیقت اور قاعدہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا انحصار افراد معاشرہ کی ذہنی و فکری استعداد وصلاحیت پر محمول ہوتا ہے اور مراکز علم افراد معاشرہ میں ذہنی و فکری استعداد اور قابلیت کو ترقی دینے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں یہ ادارے، درسگاہیں اور مراکز علم جتنے مضبوط نصاب اور وقت شناس بنیادوں پر قائم ہوں گے نتائج اتنے ہی مثبت مفید اور کارگرہوں گے۔
ان مثبت و مفید نتائج کے حصول کی بنیاد اس جامعہ کا نصاب تعلیم ہے جو نصاب کی تشکیل کی سائنس کے ہم آہنگ تشکیل دیا گیا ہے یعنی کسی بھی نصاب علم کی تشکیل کے لیے بنیادی عناصر و اہداف، اصول و ضوابط کا تعین کرنا ضروری ہے۔ اہم عناصر نصاب درج ذیل ہوتے ہیں:
1۔ مقاصد تعلیم کو متعین کرنا
2۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلقہ تشنگی پوری کرنے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے متعلقہ مضامین شامل نصاب کرنا
3۔ افراد کی سیرت وکردار کو بہتر بنانے کے لیے مختلف انواع و اقسام کی سر گرمیوں کا اہتمام کرنا
4۔ نصاب کے مشتملات افراد تک پہنچانے کے لیے ابلاغی حکمت عملی کا تعین
5۔ نصاب کی تکمیل کے بعد ان کی صلاحیتوں کی جانچ پڑتال اور علمی و فکری درجے کی معلومات کے لیے کوئی خاص طریقہ وضع کرنا
نصاب سازی کے بنیادی اصول وضوابط میں سے ہے کہ یہ:
1۔ طلبہ کی ذہنی سطح سے مطابقت رکھتا ہو
2۔ افراد معاشرہ کی ضروریات کو پورا کرتا ہو
3۔ متوازن و متسلسل ہو
4۔ نظریاتی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے عصر حاضر کے تقاضے پورے کرتا ہو۔
ان مقاصد و ضوابط کے تناظر میں دیکھیں تو جامعہ اسلامیہ منھاج القرآن کا نصاب جامع وشامل اور قابل عمل ہے۔ جس کے مقاصد تعلیم متعین ہیں اور جو نصاب تعلیم کی تشکیل کے بنیادی اصولوں کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔ یعنی جامعہ کا نصاب ایک نظریاتی بنیاد پر قائم ہے۔ متوازن و مسلسل اور مراحل کے مطابق طلبہ کی علمی و ذہنی استعداد کے مطابق ہے عصر حاضر میں معاشرہ اور فرد کی ضروریات کو پورا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
دور حاضر میں کامیاب نصاب کی اہم خاصیات میں سے یہ بھی ہے کہ دینی علوم کی تدریس جدید طریقہ پر ہو، ملٹی میڈیا کا استعمال کیا جائے اور دینی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تدریس جیسے معاشرت، معاشیات، نفسیات، سیاسیات، طبیعیات، شماریات، حیاتیات، کیمیا، کمپییوٹر، لینگونجز وغیرہ۔ کا اہتمام بھی کیا جائے۔ بلاشک و شبہ علمی میدان میں ترقی کے لیے ضروری ہے کہ جدید سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا کی اہم ضرورت ہے اس کے بغیر علمی میدان میں ترقی ناممکن ہے۔
صدہا افسوس پاکستان کا نظام تعلیم دینی و عصری دونوں سطحوں پر وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا دونوں کے مابین بہت بڑی خلیج واقع ہے۔ طبیعیات فلکیات، فزیولوجی، عمرانیات، سماجیات، سیاسیات معاشیات وغیرہ کا طالب علم خدا شناسی اور دین یاقدار و اخلاقیات سے سے محروم ہے اور مذہب کی ضرورت سے انکار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب دین کا طالب علم دور حاضر کے تقاضوں اور حالات کے احساس سے محروم نظر آتا ہے۔
بحمد اللہ تعالی جامعہ اسلامیہ منھاج القرآن نے ان چیزوں کے حصول کے لیے مرحلہ وار اور تدریجاً کاوشیں سر انجام دی ہیں۔ جہاں پر دینی علوم کی تعلیم کی تعلیم بھی جدید وسائل ِ تعلیم کو بروئے کار لا کر دی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ عصری مضامین کی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ملک پاکستان میں مروجہ نصابات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ:
1. مدار س کا مجموعی ماحول ایک روایتی سست روی کا شکار ہے۔
2. ان کا نصاب معاشرے کے اضطراب سے لاتعلق مزاج افرادکو پروان چڑھا رہا ہے۔
3. معاصر تہذیبی یلغار کے مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
4. دینی قیادت اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا کرنے سے قاصر۔
شیخ الاسلام نے مروجہ نصابات میں موجود اس خلیج پر ضربِ کاری لگائی ہے اور علماء و افراد معاشرہ کے ذہن پر مسلط زنجیر کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ جب شیخ الاسلام نے معاشرے میں مروجہ دینی نصابات کا جائزہ لیا تو انہوں نے شدت سے محسوس کیا کہ مدارس میں سالہا سال سے پڑھائے جانے والے درس نظامی کے نصاب کو ایک مربوط اور جامع سکیم کے تحت از سر نو تشکیل دینا ناگریز ہےچانچہ آپ نے اس مقصد کے لیے نصاب کی از سر نو تشکیل دی۔
جب شیخ الاسلام نے مروجہ نصابات میں قرآن کریم کے مضمون سے دوری ملاحظہ فرمائی تو آپ نے نصاب کی تشکیل کرتے ہوئے درسی مواد کی تشکیل وترتیب میں قرآن مجید کی تعلیم وتفہیم پرسب سے زیادہ زور دیا ہے اور تعلیمی اداروں کی نصابی تاریخ میں یہ اولین اعزاز بھی جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کو حاصل ہے کہ پورے قرآن مجید کو الشہادۃ الثانویۃسے الشہادۃ العالمیۃ تک آٹھ سالوں میں ایک لازمی درسی کتاب کی حیثیت سے شامل کیاگیا ہے، جس میں ترتیب وارمتنِ قرآن اور تفسیر کے علاوہ متعلقہ موضوعات کے مطالعہ کے ساتھ شامل نصاب ہے۔ آپ کے اس عملی قدم سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے ترجمہ قرآن کریم کو بطور مضمون شامل نصاب کیا ہے۔ اس طرح عربی زبان میں بول چال کی مہارت پیدا کرنے کیلئے عربی تکلم کو بطور مضمون متعارف کرایا گیاہے۔
مراکز علم کے نصاب کی اہم خصوصیات:
حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے پچاس ہزار (50ہزار) مراکز علم کے قیام کا ہدف تحریک منھاج القرآن کے مختلف فورمز کو سونپ دیا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں مراکز علم کاقیام عمل میں لایا جائے گا۔ اور ان کے نصاب کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:
1. نصاب عام فہم اور آسان ہوگا، تاکہ صرف اردو پڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد بھی استفادہ کر سکیں گے۔
2. نصاب افراد معاشرہ کی مختلف فکری، معاشرتی اور دینی ضروریات کو پورا کرے گا۔
3. نصاب کی کتب کی دستیاب ممکن اور افراد معاشرہ کی قوت خرید کے مطابق ہوگی۔
4. معاشرہ کے تمام طبقات کے لیے موزوں ہو گا۔
5. قرآن فہمی کا اہتمام کیا جائے گا۔
6. عقیدہ و اسلامی افکار کی تفہیم پر ترکیز ہوگی۔
7. روحانی و اخلاقی امور کی ترغیب اور تربیت پر مشتمل ہوگا۔
8. ذات مصطفیٰ سے حبی و عشقی تعلق راسخ کرنے کا اہتمام کیا جائے گا۔
9. دینی و فقہی مسائل سے آگاہی حاصل کرنے کا اہتمام ہو گا۔
10. حقوق و آداب کی تعلیم و تعلم پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
نظام المدارس کے نصاب کی اہم خصوصیات:
”نظام المدارِس پاکستان“ کی بنیاد 4 فروری 2021ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدّظلہ العالی کی علمی و فکری اور نظریاتی راہ نمائی میں رکھی گئی۔ جس کا مقصد دینی نظامِ تعلیم کی جدید خطوط پر استوار کرنا، طلبہ کی اخلاقی و روحانی تربیت اورتعمیر شخصیت کرنا، طلبہ و طالبات کی شخصیات کو اِسلامی علوم کے ساتھ عصری علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کرنا تاکہ وہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر معاشرے میں مؤثر و مثبت کردار ادا کر سکیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے شیخ اسلام نے نظام المدارس کے نصاب کو تشکیل دیا۔
نظام المدارس پاکستان کے نصاب کی خصوصیات کو دیکھا جائے تو یہ نصاب ایک طرف دین اِسلام کے مصادرِ اصلیہ سے تعلق کو مضبوط بناتا ہے تو دوسری طرف بڑی حد تک جدید عصری تعلیمی ضروریات اور مقاصد کو پورا کر رہا ہے۔ نصاب میں شامل قرآن و علوم القرآن، حدیث و علوم الحدیث، سیرت و فضائلِ نبوی ﷺ، فقہ و علوم الفقہ، عربی زبان و ادب، تصوف و آداب، افکار وعقائد کے مضامین طلبہ کے اندر علوم اسلامیہ میں رسوخ اور پختگی کا ذریعہ ہیں جبکہ دوسری طرف انگریزی، اُردو، مطالعہ پاکستان، کمپیوٹر سائنس، معاشیات، شہریت، ایجوکیشن، سیاسیات، تاریخ، اِسلام اور سائنس، تقابلِ اَدیان، وسطیات اور دعوہ و اِرشاد طلبہ کی معاشرتی و سماجی ضروریات کو پورا کرنے میں مدگار ثابت ہو رہے ہیں۔ علوم اسلامیہ کے نصاب کی تدوین و تشکیل میں حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ ہر مضمون کے لیے مقرر کی جانے والی نصابی کتب قدیم اور جدید ذخیرہ علمی میں سے ہو اور ان کتب تک طلبہ کی رسائی آسان ہو۔
عصر حاضرمیں جہاں زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات میں نمایاں تبدیلیاں آئیں وہیں تعلیم کے شعبہ میں بھی انقلاب برپا ہوا۔ ملک بھر میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کا نہ صر ف اضافہ ہوا بلکہ طلبہ کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن درس نظامی کے ماہرین کی طرف سے اسلامی تعلیم وتدریس کے سلسلسہ میں کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے اور نہ ہی معاشرے اور حکومت نے ضروری جانا ہے کہ ان موضوعات پر سنجیدہ غور کیا جائے اور ان کی تعلیم کو آئندہ نسلوں کے لئے مفید تر بنانے کی لئےتعلیمی صورتحال کا مسلسل جائزہ لیا جائے۔ اس افسوسناک صورتحال کے تناظر میں ہمارے ملک اور پورے خطے میں مدارس کے طلباء معاشرے سے کٹ گئے ان کے علم میں جمود وانحطاط پیدا ہوا جو صدیوں سے اب تک جاری ہے۔ اب فوری اور شدید ضرورت ہے علماء در س نظامی کے نصاب میں عصری تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کریں۔ فرنگی محل ماڈل جس میں اُس وقت کے تقاضو ں کے مطابق شرعی و عصری دونوں طرز کی تعلیم دی جاتی تھی لہذا عصر حاضر میں بھی اگر مدارس کے طلباء کو شرعی علوم کے ساتھ معاصر عصری علوم بھی پڑھائے جائیں تو موثر نتائج کا حصول ممکن ہے۔
شیخ اسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کے مرتب کردہ نصابات نہایت جامع ہیں۔ اگر مقتدر طبقات متعدل فکر اور دینی علوم کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور اسلام کے اصل چہرہ کو عالمی سطح پر روشنا س کروانا چاہتے ہیں تو شیخ اسلام مدظلہ العالی کے نصابات سے کماحقہ استفادہ کر سکتے ہیں۔ نیز یہ نصابات، علوم شریعہ کے ماہرین، اساتذہ اور طلبہ اور عامۃ الناس کے لیے ایک بہترین لائحہ عمل اور فکری و روحانی نشو ونما کا بہترین ذریعہ بھی ہیں۔ امید واثق ہے کہ دنیا صحیح اسلامی تعلیمات کے مطابق امن و سلامتی، علمی ترقی اور استحکام کا گہوارہ بن سکے گی۔ اللہ تعالیٰ حضور شیخ الاسلام کی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نوازے اور انہیں آنے والی نسلوں کی فکری و ذہنی، اخلاقی اور روحانی اور علمی آبیاری کا بھی ذریعہ بنائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین