بلاشبہ علم ایک لازوال دولت ہے، علم کے ذریعے ہی لوگ معاشرے میں طاقت حاصل کرتے ہیں۔ علم کو اس زمین پر کسی اور طاقت سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ علم کا مقابلہ علم سے ہوتا ہے۔ علم کا مقابلہ جہالت سے ہرگز نہیں ہوتا ہے۔ علم ہی انسان کو صحیح معنوں میں افضل الخلق بناتا ہے اور یہی علم ہی انسان اور جانور میں فرق پیدا کرتا ہے۔ انسان جسمانی طاقت میں جانوروں سے کم ہے مگر یہ اپنے علم کی بنا پر جانوروں سے افضل اور طاقتور ہے۔ انسان زمین پر اللہ کی بہت تیز اور سمجھدار مخلوق ہے۔ یہ انسان اپنے علم، تحقیق اور تجربات کی روشنی میں دنیا کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔
علم کے ذریعے انسان فطرت کی قوتوں کو کنٹرول کرنا سیکھتا ہے، علم ایسے شخص کو طاقت دیتا ہے جو اپنے حقوق کی جنگ لڑنا چاہتا ہے۔ علم ہماری مستقبل کی منصوبہ بندی میں مدد کرتا ہے اور ہمیں صحیح راستے پر گامزن کرتا ہے۔ علم کے ذریعے ہم اپنی مشکلات پر قابو پاتے ہیں۔ علم انسان کو ذہنی و اخلاقی ترقی دے کر طاقتور بناتا ہے۔ علم انسان کو لڑائی جھگڑوں سے بچاکر پرامن رکھتا ہے اور معاشرتی برائیوں سے دور رکھتا ہے۔ علم ہمیں دنیا میں زندہ رہنے اور پنپنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمیں غلامی سے آزادی کی طرف لاتا ہے۔ آزادی ہی اصل طاقت ہے۔ علم ہمیں اشیا اور افراد کے بہتر انتخاب میں مدد دیتا ہے۔ علم ہم سے اپنی ذات کی عزت کراتا ہے جس کے نتیجے میں دوسرے لوگ بھی ہماری عزت کرتے ہیں۔ علم ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ مال کی ہمیں خود حفاظت کرنا پڑتی ہے جبکہ علم ہماری حفاظت کرتاہے۔ علم و تعلم انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتے ہیں۔ قوم کی اقتصادی، سیاسی ترقی اور سماجی انصاف کا انحصار علم و تعلیم پر ہے۔ تعلیم یافتہ قوموں کا جاہل قومیں مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں۔ تعلیم کے ذریعے افرادِ معاشرہ تقابلی جائزہ اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ علم کے ذریعے انسان بہتر تبادلہ خیال کرسکتا ہے۔
علم تحریک کی قوت کا راز ہے
علم انسانی زندگی کے لیے روشنی کی حیثیت رکھتا ہے جیسے اندھیرے میں انسان کو کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔ اسی طرح علم کی روشنی کے بغیر زندگی کی حقیقت کو سمجھا نہیں جاسکتا، علم دونوں جہانوں کی کامیابی اپنے دامن میں رکھتا ہے۔ علم سے انسان کے اخلاق و کردار بدلتے ہیں۔ علم سے اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ تعلیم انسان کو انسانیت کا پیغام دیتی ہے۔ علم کی حیثیت انسان کی زندگی میں بارش کی مانند ہے جس طرح بارش بنجر زمین کو آباد کرتی ہے۔ اسی طرح علم جاہل انسان کو مہذب انسان بناتا ہے۔ علم اپنے سارے فوائد اس وقت دیتا ہے جب یہ علم عمل کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ گھر کی چھت کی سیڑھیاں گننا علم ہے اور سیڑھیاں چڑھنا اس پر عمل کرنا ہے۔ اور یہی عمل انسان کو دوسری منزل اور چھت پر پہنچاتا ہے۔
علم انسان کے عزائم کو بلند کرتا ہے اور اس کی فکر کو ارفع کرتا ہے۔ علم ہی انسان کو عمل کی دنیا میں کامیاب کرتا ہے۔ علم انسان میں خود اعتمادی کو بڑھاتا ہے علم سے انسان اپنے فن کا ماہر ہوتا ہے، علم سے انسان کی قابلیت پروان چڑھتی ہے، مخفی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں۔ علم سے انسانی عقل فروغ پاتی ہے، علم دنیا کی تمام تر قوتوں کی اصل اور جڑ ہے اور قدرت کے سربستہ راز علم سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ علم کی وجہ سے انسان کے سامنے دنیا کی وسعتیں سمٹ گئی ہیں۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئی ہیں۔ ساری دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے انسان علم کی وجہ سے فضا میں پرواز کررہا ہے۔ خلا کی وسعتوں کو چیر رہا ہے چاند پر اپنی تسخیر کا جھنڈا بلند کررہا ہے۔ علم ہی کی بنا پر مظاہرہ قدرت اس کے خاک راہ ہیں علم ہی کی بنا پر انسان کا نام مرنے کے بعد بھی زندہ ہے۔ علم کی بنا پر ہی ایجادات اور انکشافات کا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آیا ہے۔ دنیا کی تمام ترقی علم کی بنا پر ہے۔
علم کی تحصیل اور قرآن
قرآن حکیم نے علم کی ساری خوبیوں اور اس کے جملہ محاسن اور اس کی تمام تر قوتوں اور اس کی ساری صفتوں کو بڑے جامع انداز میں یوں بیان کیا ہے:
هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.
(الزمر، 39: 9)
’’ کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔‘‘
شیخ الاسلام نے اپنی تحریک، اپنے مشن کی فکری بنیاد حقیقی اور ثقہ علم کے فروغ اور ابلاغ پر رکھی ہے۔ ان کے سارے خطابات اور ان کی ساری تحقیقات علم سے مملو ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریک کو بھی علم کے سمندر، قرآن سے معنعون کرتے ہوئے اس کا نام منہاج القرآن رکھا ہے۔ انھوں نے اپنی نوجوانی میں منہاج القرآن کے مشن کو ایک تحریک بنانے سے قبل اس مشن کی افرادی قوت تیار کرنے کے لیے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ حتی کہ تحریک کے مرکزی ہیڈ کوارٹر کے سنگ بنیاد سے قبل اس کے لیے افرادی قوت کی تیاری کا عمل شروع کردیا تھا۔ شیخ الاسلام 1982ء میں اپنے تعلیمی اداروں کا آغاز کرتے ہیں اور 1984ء میں اپنے ادارے منہاج القرآن کی بنیاد رکھتے ہیں۔
جامعہ منہاج القرآن اور منہاج کالج برائے خواتین کا کردار:
جامعہ اسلامیہ منہاج یا منہاج کالج آف شریعہ اینڈ ماڈرن سائنسز اور منہاج کالج برائے خواتین کا مشن کے لیے افراد تیار کرنے اور تحریک کے عظیم مشن کو اندرون ملک اور بیرون ملک پھیلانے اور ہر سو عام کرنے میں بڑا دخل ہے۔ ان دونوں تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات منہاجینز نے اپنے عظیم قائد کا دست و بازو بننے کا حق ادا کیا ہے۔ ان کو ان کے عظیم مربی و معلم نے اپنے مشن کا نمائندہ بنایا ہے اور اپنا عظیم مشن کا ابلاغ و بیان، تقریر و تحریر اور اشاعت عام کا فریضہ ان کے سپرد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بالعموم دنیا بھر میں اور پاکستان میں بالخصوص منہاجینز طلبہ اور طالبات نے اس مشن کی عملی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ ان دونوں اداروں نے مرکز کی مرکزیت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اور مرکز کی تمام تر سرگرمیوں کو چار چاند لگائے ہیں۔ یہ دونوں ادارے ہر جگہ اپنی افرادی قوت کے ذریعے مشن کی عزت اور تکریم کا باعث و سبب بنے ہیں۔
آج ان دونوں اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات عملی فیلڈ میں کوئی دعوت کی ذمہ داریاں ادا کررہا ہے، کوئی تحریر وتصنیف اور تحقیق کے میدان میں مصروف عمل ہے، کوئی مرکز سے تحصیل و یونٹ کی سطح کی تنظیمی ذمہ داریاں ادا کررہا ہے۔ کوئی کسی ادارے کا پرنسپل ہے کوئی کسی ادارے کی پہچان بن کر ایک عظیم محنتی استاد ہے۔ کوئی کسی دفتر و شعبے کا سربراہ ہے، کوئی کسی شعبے کا ڈائریکٹر ہے، کوئی کسی تنظیم کا ضلعی، صوبائی، مرکزی سربراہ ہے، کوئی بیرون ملک لاکھوں اور کروڑوں روپے کی مالیت و لاگت کے جدید ادارے بنارہا ہے۔ کوئی تحریک کے مرکزی سیٹ اپ کو پاکستان کے بڑے شہروں میں قائم کررہا ہے، کوئی عوامی سٹیج پر اپنی دھاک بٹھائے ہوئے ہے اور کوئی قومی افق پر جدید علمی و فکری موضوعات کے ساتھ چھایا ہوا ہے، کوئی اپنی تقریر سے اپنے استاد کے تعارف کا باعث بن رہا ہے اور کوئی اپنی تحریر کے اسلوب سے اپنے مربی و قائد کا تعارف کرارہا ہے۔ کوئی اپنے مجموعی تحریکی کردار سے مشن اور تحریک کے نام کو روشن کررہا ہے۔ منہاجینز ایسے چراغ کی مانند ہیں، جو جہاں میں اپنے عظیم قائد کے علم، فکر، عمل، تحریک اور مشن کی روشنی کو ہر سو عام کررہے ہیں۔ ہر ایک اپنی خدمات کے اعتبار سے قابل فخر کردار اداکررہا ہے۔ شیخ الاسلام کا یہ تعلیمی تفرد ہے کہ جہاں انھوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے جدید و قدیم تعلیم کے حامل اداروں کو قائم کیا ہے اور وہیں ان سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو معاشرے کا قابل فخر رکن بنایا ہے اور وہیں انہوں نے منہاجینز تنظیم کے قیام کے ساتھ اپنے سارے طلبہ اور طالبات کو ایک مستقل لڑی میں پرودیا ہے اور ان سے ہر دم اور ہر لحظہ اپنے عظیم مشن کا کام لے رہے ہیں اور یوں ان کی نسبت تلمذ وقتی نہیں رہی ہے بلکہ دائمی بن گئی ہے۔
یہی وجہ ہے آج (کسی پروگرام میں) ان کے عالیشان تعلیمی اداروں کے موجود طلبہ و طالبات ہی صرف موجودنہیں ہوتے ہیں بلکہ ہر پروگرام اور ہر اہم موقع پر ان کے سب پڑھے ہوئے طلبہ و طالبات منہاجینز بھی موجود ہوتے ہیں۔ یوں یہ اس عظیم کے مشن پیامبر اور اپنے عظیم قائد کے دست و بازو بن جاتے ہیں۔
تحفیظ القرآن انسٹی ٹیوٹ:
ان ہی اداروں کے تسلسل میں تحفیظ القرآن کا اجراء ہوا ہے۔ جس سے اب تک ہزاروں طلبہ و طالبات حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ تحفیظ القرآن انسٹی ٹیوٹ، کالج آف شریعہ اینڈ ماڈرن سائنسز اور منہاج کالج برائے خواتین کے لیے ایک نرسری طور پر کام کررہا ہے۔ یہاں پڑھنے والے زیادہ تر طلبہ و طالبات حفظ القرآن کے بعد ان ہی دونوں اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ اپنی دینی و مذہبی تعلیم کو مضبوط و مستحکم کرتے ہیں۔ دین میں ثقہ بنیادوں پر تفقہ حاصل کرتے ہیں۔ حفظ قرآن کی بنا پر آیات قرآنی کی سعادت سے وہ پہلے ہی معمور ہوتے ہیں۔ اس بنا پر آیات قرآنی کو بآسانی بیان کرلیتے ہیں اور لکھ لیتے ہیں اور درس نظامی کی تعلیم اور عملی مشق کے ذریعے ان سے خوب استدلال و استنباط کرلیتے ہیں اور یوں پورے اعتماد کے ساتھ آگے بیان کرسکتے ہیں۔
یہ ادارہ بھی وقت کے ساتھ آگے بڑھتا ہوا آج بہت ہی عمدہ نتائج دے رہا ہے اور یہ ایک مثالی اور معیاری تعلیمی ادارے میں ڈھل چکا ہے۔ اس کا نظم و نسق اور طلبہ کا ڈسپلن ایک قابل مثال ادارے کے طور پر اس کو متعارف کرارہا ہے۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی:
اس قوم کے تمام تر مسائل کا حل اس کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں ہے۔ اس لیے شیخ الاسلام نے 1991ء میں تعلیم کو ایک تحریک بنادیا، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ عوامی تعلیمی مراکز کا نیٹ ورک بچھادیا گیا۔ قوم کو علم کی روشنی دینے کے لیے پڑھے لکھے نوجوان، ہزاروں کی تعداد میں رضا کارانہ خدمات سرانجام دینے لگے۔ ہر جگہ عوامی مراکز، تحریک منہاج القرآن کا ایک مضبوط تعارف بن گئے۔ ان مراکز سے عظیم قائد کی آواز گونجنے لگی، نہ جاننے والے جاننے لگے، غیر آشنا لوگ آشنا ہونے لگے۔ یوں غیر، اپنے ہونے لگے، ہر کوئی رفاقت کی لڑی میں پروئے جانے لگا اور یوں ان عوامی تعلیمی مراکز نے بیداری شعور میں ایک لازوال کردار ادا کیا۔ لوگوں نے اس مقصد کے لیے اپنے گھروں کو وقف کیا۔ بڑی بڑی حویلیاں عوامی تعلیمی مراکز میں تبدیل ہوگئیں۔
ان عوامی تعلیمی مراکز کے اخراجات مقامی سطح سے ہی پورے کیے جاتے تھے۔ عوام کو سہولت، عوام کے اپنے ہی وسائل سے، تحریک نے ان کو صرف ایک سمت دی اور ایک قومی بیداری کی جہت دی، ان عوامی تعلیمی مراکز نے علاقائی سطح پر قیادت سازی کا فریضہ سرانجام دیا۔ بڑے بڑے نامور لوگ ان عوامی مراکز سے پروان چڑھے۔ وقت اور حالات کا دھارا بڑی تیزی سے آگے کی طرف بہہ رہا ہے۔ تیزی سے گزرتے ہوئے وقت اور اس کے فی زمانہ تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان عوامی تعلیمی مراکز کو منہاج پرائمری اسکولز اور ہائی اسکولز میں بدل دیا گیا۔ آج ملک میں تحریک منہاج القرآن تعلیمی اداروں کا جال بچھائے ہوئے ہے۔ UNO کی رپورٹ کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی نیٹ بطور NGO منہاج القرآن چلا رہا ہے۔ آج یہ اسکولز بہت بڑی تعداد میں آگے بڑھتے ہوئے ہائی اسکولز سے ہائیر اسکولز اور کالجز میں تبدیل ہورہے ہیں اور یہ درحقیقت شیخ الاسلام کے اس قول اور اس خواب کی عملی تعبیر میں ڈھلنے جارہے ہیں۔ جس میں آپ نے فرمایا تھا، سر سید نے برصغیر پاک و ہند کو ایک علی گڑھ دیا تھا۔ میں اس طرح سو علی گڑھ اس قوم کو ان شاء اللہ دوں گا۔ یہی وجہ ہے آج ہر بڑے شہر میں منہاج کالج کے نام سے ادارے بڑی تیزی سے کھل رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں اور پہلے سے موجود ادارے ترقی کرکے اسکولز سے کالجز میں تبدیل ہورہے ہیں۔
منہاج یونیورسٹی لاہور:
منہاج یونیورسٹی بہت قلیل عرصے میں اپنے قیام کے فوری بعد پاکستانی یونیورسٹیوں او ر بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں اب تک اپنی خصوصی پہچان رکھنے والی یونیورسٹی بن چکی ہے۔ یہ یونیورسٹی بھی درحقیقت شیخ الاسلام کے تعلیمی وژن کی آئینہ دار ہے۔ شیخ الاسلام کا تعلیمی خواب اس ملک کے لیے یہ تھا کہ پاکستان کے ہر صوبے میں ایک یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔ منہاج یونیورسٹی اسی خواب کی عملی تعبیر ہے۔ آج منہاج یونیورسٹی جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج ہے اور یہ یونیورسٹی عالم اسلام کے عروج کے تعلیمی نظام کا ایک تسلسل ہے۔ جہاں دین کی بھی ساری تعلیم ہے اور دنیا کے بھی ہر شعبے کی تعلیم و تحقیق ہے۔ یونیورسٹی جہاں اپنے ظاہری ڈھانچے میں بڑی ہی خوبصورت خوشنما اور دیدہ زیب ہے وہیں یہ یونیورسٹی اپنے مختلف شعبہ جات اور ان کے نصابات اور عوامی تقاضوں میں ڈھلے ہوئے ان کے معیارات اور بعض شعبوں میں پوری پاکستانی یونیورسٹیوں میں بے مثال، عدیم النظیر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔ اس کی ریبورٹ لائبریری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
منہاج یونیورسٹی لاہور آج طلبہ و طالبات کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی ہے ہر آنے والے دن اس کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس کا معیار انٹرنیشنل یونیورسٹیوں کے معیار کا مقابلہ کررہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز خود پاکستان کی مشہور یونیورسٹیوں اور دنیا کے معروف یونیورسٹیوں میں پڑھاچکے ہیں اور ابھی بھی پڑھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر اعلیٰ اور معیاری چیز کو جو دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں ہے اس کو وہ اپنی یونیورسٹی کا حصہ بنا رہے ہیں۔ انھوں نے فیکلٹی ہائرنگ میں بڑے ہی زبردست اقدامات اٹھائے ہیں۔ دنیا کے نامور لوگوں کو اپنی یونیورسٹیوں میں اور اپنی فیکلٹی کا حصہ بنایا ہے۔ جس نئے شعبے کی شدید ضرورت قومی اور بین الاقوامی سطح پر آج دنیا کو درپیش ہے آپ نے اس کو قائم کرنے میں کوئی تامل اور کوئی تاخر کا رویہ اختیار نہیں کیا ہے۔
فی الفور آپ نے اس شعبے کو اپنی یونیورسٹی میں قائم کیا ہے مزید براں ہر سال متعدد انٹرنیشنل کانفرنسز کا انعقاد منہاج یونیورسٹی کو دنیا کے افق پر وسیع سے وسیع تعارف دے رہا ہے۔ ریسرچ جرنلز کی مسلسل اشاعت اس کی تحقیقی سرگرمیوں کو بڑھا رہی ہے۔ محترم ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد جیسے متحرک اور فعال وائس چانسلر کے ذریعے اس یونیورسٹی کا نام ہر زبان زد خاص و عام ہے۔ یہ یونیورسٹی اپنی مستقل اور مسلسل ترقی کے ساتھ ساتھ اپنی توسیع حدود اور رقبہ کے ساتھ دوسرے شہروں کی طرف بھی بڑھ رہی ہے۔
الاعظمیہ کا قیام:
شیخ الاسلام کے نزدیک تعلیم ایک کل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک اگر زمانے نے تعلیم کے جدید و قدیم تصورات متعارف کرائے ہیں تو یہ بھی حقیقت میں تفہیم انسانی کے لیے ہیں جبکہ ہر علم و تعلیم کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے معاشرے میں موجود روایتی تعلیم و علم کو بھی شیخ الاسلام نے اپنی نگاہوں میں رکھا ہے اور اس تعلیم کے بھی اصلاحی اور اجتھادی پہلوؤں سے صرف نظر نہیں کیا ہے۔ آپ نے مدارس دینیہ کے تعلیمی سلسلے کو ایک جدت کے ساتھ الاعظمیہ کے نام سے شروع کیا ہے۔ اس تعلیمی پراجیکٹ میں درس نظامی کے نصابات قدیم و جدید دونوں ہوں گے۔ اس میں سارا مروجہ درس نظامی کا نصاب بھی پڑھایا جائے گا اور اس میں پڑھنے والے طلبہ کی کفالت کی ذمہ داری بذمہ ادارہ ہوگی۔ اس ادارے کی بہت دیگر ضروری چیزیں طے کی جارہی ہیں۔ بہر حال یہ ایک منفرد اور بے مثال ادارہ ہوگا۔ جو انشاء اللہ سب کی نگاہوں کا مرکز ہوگا۔ اور اس ادارے کو حال ہی قائم کردیا گیا ہے۔
مراکزِ علم:
تحریک منہاج القرآن اور اس کے تمام ذیلی فورمز ملک بھر میں اپنی مدد آپ کے تحت بہت بڑی تعداد میں مراکز علم کا قیام عمل میں لارہے ہیں۔ یہ مراکز علم افراد معاشرہ میں عوامی بیداری اور تعلیمی ترقی اور شخصیت سازی میں انتہائی بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کے ذریعے مصطفوی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔
منہاج القرآن اسلامک سنٹرز:
دنیا بھر میں اندرون ملک اور بیرون ملک ایک بہت بڑی تعداد منہاج اسلامک سنٹرز، کلچرل سنٹرز اور دیگر مختلف ناموں سے کام کررہے ہیں۔ ان سنٹرز کے ذریعے ہی ہر سال بے شمار طلبہ و طالبات مستفید ہورہے ہیں۔ گھر گھر علم کی روشنی پھیل رہی ہے اور اسلام کا پیغام ہر ہر فرد تک پہنچ رہا ہے، حق کی آواز ہر رکن معاشرہ تک پہنچ رہی ہے۔ آج سینکڑوں منہاجینز دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے قائد کی آواز بن کر اور ان کے مشن کے پیامبر بن کر لوگوں کو دین اسلام پر گامزن کررہے ہیں اور ان کو اسلام کا عالمی برادری کے لیے پیغام امن و سلامتی دے رہے ہیں اور ان ملکوں کے معاشروں کے ماحول کے مطابق اسلام کی تعلیمات کو پیش کررہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بہت زیادہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔
خلاصہ کلام:
شیخ الاسلام نے تحریک منہاج القرآن کی صورت میں غلبہ دین اور نفاذِ اسلام کا جو عظیم مشن دیا ہے۔ اس کا ایک ایک پہلو علم و تعلیم کے ذریعے کے ساتھ بڑا گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس مشن کی ہر سرگرمی علم سے وابستہ ہے۔ حقیقی علم کا فروغ اور ابلاغ اس مشن کا طرہ امتیاز ہے اور اس عظیم مشن کے بانی و موسس کی ہر بات علم سے معمور ہے اور ان پر تقریر علم کی پہچان ہے اور ان کی ہر ہر تحریر علم سے مزین ہے۔ یہی وجہ ہے ان کی زندگی میں ہی بہت سے ملکوں میں ان کے علمی کاموں پر Ph.D ہوچکی ہے اور ہورہی ہے اور ان کے بہت سے طلبہ Ph.D کی تکمیل کا اعزاز پاچکے ہیں وہ اپنے مشن کے لیے 80ء کی دہائی میں اکیلے ہی ایک انقلابی عزم کےساتھ نکلے تھے۔ ان کے جذبوں اور ولولوں کو دیکھ کر لوگ ان کے ساتھ شامل ہوتے گئے۔ ان کے مشن کے وابستگان، رفقاء اور تاحیات ممبر بنتے چلے گئے۔ آج وہ جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یقیناًوہ یہ شعر ضرور اپنی زبان پر لاتے ہوں گے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
آج پاکستان اور دنیا میں جہاں دیکھو اور جس شعبے میں دیکھو اور جس جگہ نظر کرو۔ ان کے چاہنے والے ان کے تعلق کا دم بھرنے والے، ان کی نسبت رفاقت رکھنے والے ان کو سننے والے اور ان کو دیکھنے والے ان کی زندگی میں ہی بے شمار نظر آتے ہیں۔ ان کے افکار و نظریات کو آج امت کی ایک بہت بڑی تعداد قبول کرچکی ہے۔ ان کی راہ فکرو عمل کو بہت سے لوگ اپنی زندگیوں کی پہچان بناچکے ہیں۔ ان کے تصور دین اور ان کے مشنری و تحریکی افکار اور ان کے علمی و تعلیمی نظریات کو بڑے بڑے اہلِ علم اورمشاہیر عصر اور اپنے اپنے شعبے کے بڑے بڑے نامور لوگ ان کو قبول کرچکے ہیں۔ وہ اپنے ہزاروں خطابات اور ایک ہزار سے زائد کتابوں اور دنیا بھر میں ہزاروں اداروں اور اپنے لاکھوں وابستگان اور رفقاء اور ہزاروں تنظیمات اور ہزاروں شاگردوں اور کروڑں چاہنے والوں حتی کہ عربوں، عجمیوں، فرنگیوں میں یکساں ایک مقبول عام عالمی لیڈر کی شہرت و مقبولیت رکھنے والے بن چکے ہیں۔ زمانہ ان کی قیادت و سیادت پر گواہ و شاہد ہے۔ اپنے اور غیر اس دور کا ان کو مسیحا سمجھتے ہیں، بلاشبہ وہ سب کے احساسات اور جذبات میں اقبال کے اس شعر کا مصداق اتم نظر آتے ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا