شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ فطرت نے انھیں ایسے ملکوتی جواہر عطا کے ہیں جن کی بدولت وہ ایک مفسر، مفکر، محدث، فقیہ، مصلح، دانش مند اور عظیم لیڈر بن کر ابھرے اور چہار دانگ عالم کو منور کردیا۔ اپنے علم و فکر کی بدولت انھوں نے دینی، مذہبی، سماجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی امور میں تجدیدی فکر کا احیاء کیا۔ ان کی فکر اپنے اندر وسعت، جامعیت، ہمہ گیریت، علم ادب اور روحانیت کو سموئے ہوئے ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد مخلوق خدا کی رہنمائی ہے۔ ان کے الفاظ و اقوال علم و حکمت اور محبت و چاشنی سے لبریز ہوتے ہیں جو سننے والے اور پڑھنے والے لوگوں کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ ذیل میں ان کے چند افکار و فرامین درج کیے جاتے ہیں تاکہ قارئین ان کی فکر سے آشنا ہوسکیں جو اپنے اندر جدت، وسعت اور جامعیت رکھتی ہے۔
ایمان کے کمال کا بیان:
’’آپ فرماتے ہیں کہ ایمان کا کمال نہ خالی خوف میں ہے اور نہ خالی رجاء (امید) میں ہے بلکہ ان دونوں کو اپنانے سے خشیت الہٰی حاصل ہوتی ہے جو قربت و معرفت الہٰی کا ذریعہ ہے۔‘‘
عظمتِ مصطفیٰ ﷺ کا بیان:
’’حضورﷺ کے نور و بشر ہونے کو اپنی عقلوں اور علموں میں تولتے تولتے جن کی زندگیاں بسر ہوگئیں ان سے سوال کرنا چاہیے کہ کس بشریت کے پیمانے پر آپ ﷺ کو تولتے ہیں؟ بشریت کی دنیا کے سردار کون ہیں؟ دراصل انبیاء علیھم السلام سے اونچے درجے کی بشریت کسی انسان کی نہیں۔ وہ بشریت حضورﷺ کو حاصل ہے کوئی پیغمبر بشریت سے خالی نہیں بشمول حضورﷺ کی ذات گرامی کے۔ اس کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے جو بشریت ان کو حاصل ہے وہ ایک شان ہے۔ وہ ایک لباس ہے جو ان کو پہنا کر بھیجا جاتا ہے کیونکہ بشروں میں آرہے ہیں تو ان کو بشر بن کر آنا چاہیے جب بشروں میں بشر بن کر نہیں آئیں گے تو نظر کیسے آئیں گے۔‘‘
عظمتِ قرآن کا بیان:
قرآن مجید سے خصوصی شغف و محبت ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ اس مبارک کتاب کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’قرآن مجید ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے۔ یہ ایک ایسی واحد حقیقت ہے جو مخلوق نہیں ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ یہ نہ خالق ہے اور نہ مخلوق یہ ہمارے اندر ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں ہے ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مگر مخلوق میں سے نہیں ہے۔ گویا اللہ رب العزت نے ہمیں ایک ایسی چیز عطا کی ہے جو ہمارے درمیان موجود تو ہے لیکن مخلوق نہیں ہے۔ قرآن مجید غیر مخلوق ہے۔ اللہ کا کلام ہونے کی وجہ سے اس کی ایک صفت ہے۔ معتزلہ کا موقف یہ تھا کہ قرآن مخلوق ہے اس پر وہ عقلی دلائل دیتے تھے۔ انھوں نے خلافت عباسیہ کے حکمرانوں کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا تھا۔ اس دور میں امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر آئمہ کو محض اس وجہ سے کوڑے مارے گئے تھے کہ وہ قرآن کو مخلوق نہیں مانتے تھے۔‘‘
رمضان۔ روح انسانی کے نفس پر غلبے کا مہینہ ہے:
دین اسلام کی آفاقی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانا ان کی زندگی کا مقصد اولین ہے۔ رمضان المبارک کی اہمیت و افادیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ نفس کو روندنے اور روح کو تقویت فراہم کرنے کا بہترین موقع ہے۔ رب کائنات روح انسانی کو مضبوط اور نفس انسانی کو روح کے تابع کرنے کے لیے روزہ اور قیام اللیل کی صورت میں اسباب خود عطا فرماتا ہے۔ نفس انسانی ہمہ وقت مختلف حیلوں، بہانوں سے روح کو احسن تقویم کی بلندیوں سے ’’اسفل سافلین‘‘ کی پستیوں میں دھکیلنے کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ نفس کے بے لگام گھوڑے کو قابو میں لانے کے لیے نفس، اس کی ماہیت، افعال نفس اور ان کے اسباب سے آگاہی لازم ہے تاکہ موثر طور پر ان اسباب پر احاطہ کرتے ہوئے رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں سے بہرہ یاب ہوکر روح انسانی کو نفس پر غالب کیا جاسکے۔‘‘
حقیقتِ محمدیہ ﷺ کے لطائف و معارف کے بیان میں فرماتے ہیں:
’’بعض ذہنوں میں ایک الجھن ہوتی ہے کہ ایام اللہ، ایام بعثت، ولادت انبیاء علیھم السلام اسی طریقے سے منائیں جیسے صحابہ کرامؓ نے منایا تھا۔ اس الجھن کو دور کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں پر علمی نکتہ سمجھ لیں کہ جو طریقہ صحابہ کرامؓ نے اپنایا وہ حق ہے مگر یہ کہنا کہ صرف وہی حق ہے یہ ناحق ہے۔ ان دو باتوں میں فرق ہے۔ صحابی کا ہر عمل حق ہے اگر یہ سمجھا جائے حق صرف وہ ہے یہ نہیں ہے یا یہ کہ صحابیؓ نے جو کیا وہ حق ہے مگر یہ کہنا کہ جو نہیں کیا وہ حق ہو ہی نہیں سکتا نہ ناحق اور باطل ہے۔‘‘
اسلام کی حقانیت اور جامعیت کے بیان میں فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام نفرت کا دین نہیں بلکہ محبت، امن، اعتدال، برداشت اور وسعت کا دین ہے۔ اسلام انسانیت کی خدمت اور اللہ کی مخلوق سے محبت کرنے کا دین ہے ۔ اسلام پیار اور رواداری کا دین ہے مسلمان ساری دنیا میں اسلام کے سفیر ہیں اور سمندر پار پاکستانیوں اور مسلمانوں پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کے کردار میں جتنی محبت، برداشت اور واداری کی خوشبو ہوگی۔ اسلام کی مہک اتنی دور تک پہنچے گی۔ پس پرامن معاشرہ بننانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص پُرامن ہوجائے۔‘‘
انسانی خون کی حرمت اور عزت و آبرو کی وضاحت:
آپ فرماتے ہیں کہ ’’تعلیمات مصطفوی ﷺ کا ایک بنیادی نکتہ جسے اجاگر کرنے کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے وہ انسان کے خون کی حرمت اور اس کی عزت و آبرو کا تحفظ ہے۔ ابن ماجہؒ کی کی روایت ہے کہ ’’ایک دفعہ حضور ﷺ طواف کرتے ہوئے زراد پرر رک گئے اور خانہ کعبہ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبصہ قدرت میں میری جان ہے۔ ایک مرد مومن کی عزت و حرمت اللہ کی نظر میں تجھ سے کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘
سوچنا چاہیے کہ آج ہم تعلیمات محمدی ﷺ کی روح سے یکسر بیگانہ ہوچکے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں کتنا تضاد پایا جاتا ہے کہ ایک طرف ہم خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے تعظیم و تکریم کے خیال سے تھوکتے بھی نہیں لیکن دوسری طرف ہم مسلمانوں کی عزت و آبرو اور جان و مال سے کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔‘‘
سخاوت کی فضیلت کا بیان:
اپنے رفقاء کی شخصی تربیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اگر دل اور نفس سخی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس انسان کی شخصیت میں موجود ہے لیکن اگر انسان قلبی طور پر بخیل اور کنجوس ہے تو یہ انسانی زندگی کی سب سے بڑی ہلاکت ہے۔ ہاتھ کا کنجوس اور بخیل ہونا نچلا درجہ ہے جبکہ دل کا کنجوس اور بخیل ہونا سب سے نچلا درجہ ہے جب دل سخی نہیں رہتے تو دل میں تنگی آتی ہے۔ دوسروں کے لیے برداشت صبرو تحمل اور محبت و غم محسوس نہیں ہوتا۔ دوسروں کی عزت کو اپنی عزت سے زیادہ عزیز نہیں سمجھتا۔ اس میں خود غرضی، تنگ نظری، تعصب اور دوری آتی ہے۔ یہ تمام آفات اور بیماریاں اس شخص میں آجاتی ہے جس کادل کنجوس ہوتا ہے اور جس کا دل سخی ہوجائے اس کے بارے میں حضورﷺ کا فرمان ہے کہ ’’جنت اسخیاء کا گھر ہے۔‘‘
طہارتِ قلب کی اہمیت کا بیان:
قلب کی صفائی اور نفس کی پاکیزگی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اگر من صاف نہ ہو تو تن کے ذریعے انجام پانے والا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔ اگر من سخی ہوجائے، صاف ہوجائے تو انسان پاک ہوجاتا ہے۔ زبان کی صفائی دل کی صفائی کی آئینہ دار ہے جن لوگوں کے دل صاف ہوجاتے ہیں تو سالہا سال ان کی مجلس میں بیٹھیں، کسی کی غیبت نہیں سنیں گے، کسی کا عیب نہیں سنیں گے، کسی پر تہمت نہیں لگائیں گے، کسی کا نقصان نہیں کریں گے۔ جس زبان پر کسی کا نقص نہیں آتا سمجھ لیں کہ وہ دل نقص سے پاک ہے۔ جس گھر کو اللہ صاف دیکھتا ہے اسی کا مہمان بنتا ہے جس دل میں اللہ قیام کرے کعبہ اس کا طواف کرتا ہے۔‘‘
تجدیدیت کا پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم جامد و قدامت پر یقین نہیں رکھتے ہم اس پر یقین رکھتے ہیں جس میں ہمیشہ تحرک وتسلسل ہو۔ ہر تسلسل اپنے اندر جدت رکھتا ہے یعنی ایک صدی کا روایتی ورثہ جب اگلی صدی میں منتقل ہوتا ہے تو اس کی تجدید ہوجاتی ہے۔ ہماری جدت ہماری قدامت میں ہی ہے۔
ایمان کے دائرہ کار کی وضاحت:
انسانی کردار کے پہلوؤں کو سنوارنے کے لیے ایمان کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’راستے سے اس نیت سے پتھر ہٹا دینا کہ کسی کو ٹھوکر نہ لگے یہ عمل اپنی فطرت کے اعتبار سے سیکولر ہے۔ یہ کوئی عبادت مثلاً، حج، روزہ، زکوٰۃ، ورد وظیفہ نہیں ہے۔ پتھر ہٹادینا دیکھنے میں مذہبی عمل نہیں ہے مگر حضور ﷺ نے اسے بھی ایمان کا درجہ عطا کیا۔ معلوم ہوا کہ بے شمار ایسے اعمال ہیں جو اپنے ظاہر میں مذہبی روحانی اور عبادتی عمل دکھائی نہیں دیتے مگر فقط انسانیت کو ضرر اور اذیت سے بچانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ وہ اعمال بھی ایمان ہی کی ایک شاخ ہیں۔ پس جو عمل انسانیت کو تکلیف سے بچانے کے لیے کیا جائے اگر وہ ایمان کا حصہ ہے تو پھر وہ عمل جو انسانیت کو نفع پہنچانے کے لیے کیا جائے وہ کتنا اعلیٰ ایمان ہوگا۔
قلبِ سلیم کی علامات کی وضاحت:
انسانی دل کی مختلف کیفیات کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ شوق لقاء (ملاقاتِ خدا) میں اگر دل کو لذت ملے تو یہ دل کی راحت ہے ورنہ دعاکے طور پر تو ہر کوئی کہہ لے گا کہ اے اللہ، ہمیں اپنی ملاقات کا شوق عطا کر تاکہ ہم تیرا دیدار کرسکیں۔ اگر اس خواہش دیدار کی کیفیت میں دل کو راحت و سرور ملے تو سمجھیں کہ دل قلب سلیم ہے۔ اگر دل کا التفات اور رجحان و رغبت اللہ کے بجائے غیر کی طرف ہو تو یہ دل کی بیماری ہے۔ یعنی اگر دل کی رغبت مال، حرص ولالچ، جاہ و منصب، عزت و شہرت کی طرف ہو تو سمجھیں دل بیمار ہے۔ اگر غیر کی طرف جھک جائے تو سمجھیں کہ دل مریض ہے اور اگر غیر کا التفات چھوڑ کر صرف اللہ کی طرف رجوع کرے تو سمجھیں اس کا علاج ہوگا۔ غیر کی طرف التفات نہ کرکے دوبارہ اللہ کی طرف رجوع کرنا اس مرض کی دوا ہے۔
فضول گوئی کی شرعی حیثیت:
غیبت اور چغلی فضول گوئی میں شامل ایک قبیح فعل ہے۔ اپنے رفقاء کو غیبت اور چغلی سے اجتناب کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے کہا کہ وہ بدکار ہے اب بدکاری کرتے ہوئے اس نے آنکھوں سے دیکھا تو نہیں ہوگا۔ اسی طرح آپ کسی کے بارے میں کہہ دیں کہ وہ بڑا گناہگار ہے اور اسے آپ نے گناہ کرتے ہوئے دیکھا نہ ہو بلکہ کسی سے سنا ہو تو یہ بات یاد رکھ لیں کہ صرف دو ہستیوں سے سننے میں غلطی نہیں ہوسکتی۔ ایک اللہ تعالیٰ سے سنیں، دوسرا رسول اکرم ﷺ سے سنیں باقی ہر بشر اپنی Assessment میں غلط ہوسکتا ہے تو جب آپ نے ایسا کلمہ بولا جو کسی سے سنا تھا۔ خدا جانے اس نے آگے کسی سے سنا تھا اور بات چلتے چلتے آپ تک پہنچی۔ اب وہ بات کتنی سوچی تھی اور کتنی جھوٹی اس کی خبر نہیں۔ پھر آپ سے اس کے بارے میں قبر میں سوال بھی نہیں ہوتا کہ فلاں بدکار تھا یا نہیں تھا۔ فلاں گناہگار تھا یا نہیں تھا، منافق تھا یا نہیں تھا؟ آپ سے تو صرف یہ پوچھا جائے گا کہ تم رب کو جانتے ہو؟ اپنے دین کو جانتے ہو؟ اپنے رسول کو پہچانتے ہو؟ لہذا جو نیک اعمال کرگیا ہوگا صرف اسی کو توفیق ہوگی کہ وہ صحیح جواب دے سکے۔
اچھی صحبت کردار کو سنوارتی ہے:
اچھی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے اس کی فضیلت بھی بیان کرتے ہیں کہ زبان کی صفائی دل کی صفائی کی آئینہ دار ہے جس سے لوگوں کے دل صاف ہوجاتے ہیں تو سالہا سال ان کی مجلس میں بیٹھیں، کسی کی غیبت نہیں سنیں گے، کسی کا عیب نہیں سنیں گے، کسی پر تہمت نہیں لگائیں گے، کسی کا نقصان نہیں بیان کریں گے۔
اسلامی معاشرہ کی ترقی میں خواتین کی اہمیت اور اس کا حکم:
اسلام نے عورت کو جو مقام اور مرتبہ دیا ہے اس کی آگہی اور شعور کو اجاگر کرنے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا اہم کردار ہے وہ فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام عورت کو معاشرے میں عضو معطل بناکر ایک جگہ نہیں رکھ دینا چاہتا بلکہ عورت کے اوپر پورے معاشرے کے کردار کی تشکیل کی ذمہ داری دیتا ہے۔ عورت اپنی ذات میں انجمن ہے، اپنی ذات میں مدرسہ ہے، مکتب، کالج اور یونیورسٹی ہے۔ اس لیے کہ ہر مرد اسی کی گود سے پل کر نکلتا ہے۔ سوسائٹی کا ہر مرد وہ حاکم ہو یا محکوم، حسنؓ مجتبیٰ ہے یا امام عالی مقام امام حسینؓ، وہ غوث اعظمؓ ہیں یا کوئی اور بلند درجے کی ہستی ہیں ہر فرد نے اسی عورت کی گود میں پرورش پائی ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں کہ جس طرح مردوں کو ان کے حقوق انھیں حسب حال درجہ عطا کرتے ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق ان کے حسب حال اُن کو درجہ عطا کرتے ہیں۔ عورت کو ہم انفرادی حیثیت میں خواہ عائلی زندگی کے اعتبار سے یا تعلیمی، معاشرتی، سماجی، قانونی، آئینی اور شعوری اعتبار سے دیکھیں، جن جن اعتبارات سے دیکھیں تو اسلامی معاشرے کے اندر عورت ایک بھرپور کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسلام عورت کو عضو معطل بناکر ایک جگہ نہیں رکھ دینا چاہتا بلکہ عورت کو پورے معاشرے کی تشکیل کی ذمہ داری دیتا ہے۔
انقلابی کے لیے تقویٰ کا ہونا ضروری ہے:
سفر انقلاب، اس کے تقاضے اور انقلابی کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ایک بے نماز اور بے عمل شخص اسلامی انقلاب کی بات کرے اس سے بڑا دھوکہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ خدارا یہ ظلم اس مشن پر نہیں ہونا چاہیے۔ میں پرامید ہوں کہ جہاں آپ پہلے سے ہی بفضلہ تعالیٰ حسن عمل سے بہرہ ور ہیں، مشن کی وابستگی کی بناء پر عہد کریں کہ مرجائیں گے مگر نماز نہیں چھوڑیں گے۔ مرجائیں گے مگر روزہ نہیں چھوڑیں گے، مرجائیں گے مگر امرونہی پر عمل کی پابندی ترک نہیں کریں گے، حلال و حرام کے درمیان ہمیشہ امتیاز کریں گے۔ حلال و حرام کیا ہے؟ یہ آپ کے جسم کے ہر ہر رگ و ریشے میں بس جانا چاہیے۔ اگر زندگی میں کھانا پینا، اٹھنا بیٹھا اور سونا جاگنا حرام سے عبارت ہو اور بات تقویٰ کی کریں تو یہ بڑا دھوکہ اور ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی بات کو بے اثر و بے برکت کردیتا ہے۔‘‘
معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کا طریقہ:
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کا طریقہ بیان فرماتے ہیں کہ:
’’حالات کو بدلنے، اپنی محرومیوں کو خوشحالی میں ڈھالنے، معاشرے میں حقیقی تبدیلی لانے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اس فرمان خداوندی کی روشنی میں انسان کو خود جرات و بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی دوسری مخلوق آکر ہمیں محرومیوں سے نجات دلائے۔ ہمیں ہمارے حقوق دلوائے اور ہمارے معاشرے کو جنت نظیر بنائے۔ اگر انسان اپنے اردگرد کے حالات اور واقعات سے مایوس ہوکر بیٹھ جائے اور خاموشی سے ظلم سستا اور ظلم ہوتا دیکھتا رہے تو یہ عمل اسلامی تعلیمات کے یکسر منافی اور عذاب الہٰی کے نزول کا باعث ہے۔
رفاقت کی ضرورت و اہمیت:
تحریک کی رفاقت اور وابستگی کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اخوت و محبت ایک رشتہ ہے اور اس رشتہ کی بنیاد جس سے یہ رشتہ اللہ کے ہاں مقبول بنتا ہے وہ اللہ کی محبت ہے۔ یعنی وہ لوگ ایک دوسرے سے اللہ کے لیے محبت کرنے والے بن جاتے ہیں۔ صحبت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شیطان بھاگ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی برکات و رحمت کا نزول ہوتا ہے اس اخوت کا نفع بعد از مرگ بھی جاری رہتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے لیے ایک دوسرے کے بھائی اور جلیس بن گئے۔ تحریک منہاج القرآن کی رفاقت برائے اخوت ہے اور اگر رفاقت کے باوجود اخوت قائم نہ ہو تو پھر رفاقت، رفاقت نہیں ہے۔‘‘
’’جب کسی کے ساتھ اخوت و صحبت کا کام کیا جائے تو اللہ کے لیے ہو۔ صحبت و سنگت متعین اور پرہیزگاروں کی اختیار کی جائے۔ اس فتنہ کے دور میں کوئی تنہا شخص اپنے دین و ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ ہر شخص کو نیک صحبت کی ضرورت ہے تاکہ اس کے دین کی حفاظت ہو۔ پس کسی دینی جماعت کی وابستگی اختیار کرنی چاہیے تاکہ دین کی حفاظت اور نشوونما ہوہوسکے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص تنہا ہو تو شیطان اس کے زیادہ قریب ہوتا ہے اگر دو مل بیٹھیں تو شیطان کے لیے ورغلانا مشکل ہے اور اگر تین ہوجائیں تو شیطان کے لیے بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘
الغرض شیخ الاسلام کی شخصیت موجودہ دور میں مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمارے شیخ کو عمر خضر عطا فرمائے۔