اللہ رب العزت جو کہ خالق کائنات ہے اس نے انسان کو اس دنیا میں بے راہ روی کا شکار کرکے نہیں چھوڑا بلکہ اس کے لئے کچھ حقوق و فرائض کی صورت میں حدود متعین کی ہیں۔ لہذا حالات و ضروریات کے مطابق ہدایات ربانی بنی نوع انسان کو ملتی رہیں لیکن اس میں ترامیم بھی ہوتی گئیں جو کہ معاشرہ میں بگاڑ کا سبب بنیں اور انسان اصل ہدایات (ربانی) کو بھول کر بے راہ روی کا شکار ہوگیا۔ جس کی وجہ سے دین ابراہیم کی اصل شکل مسخ ہو کر رہ گئی۔ لہذا ضرورت اس امر کی تھی کہ ایسا نظام بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیا جائے جو رہتی دنیا تک کے لئے ہدایات کا سرچشمہ ہو اور اس میں تمام ہائے نظام زندگی کے پہلوؤں پر ہدایات ملتی ہوں (خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، معاشی ہوں یا سیاسی، معاشرتی ہوں یا تمدنی، ملکی ہوں یا بین الاقوامی) اللہ رب العزت نے اس نظام کی تشکیل کے لئے دین اسلام کو پسند کیا جس میں بنی نوع انسان کو زندگی کے ہر پہلو پر رشد و ہدایت ملتی ہیں اور ان ہدایت کا سرچشمہ اپنے نبی آخرالزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رکھا جو داعی برحق ہیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے جہالت و گمراہ دور کے تمام رسم و رواج کو کالعدم قرار دیا اور مظلوم طبقات کو برابری کے حقوق عطا کئے۔ دختر حواء کو عزت و وقار کی بلندی پر پہنچایا۔ اسلام وہ واحد دین ہے جو کہ حقوق انسانی کو نہایت واضح انداز میں پیش کرتا ہے جبکہ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ و مذہب ایسا تصور پیش نہیں کرسکا۔ اسلام کا تصور حقوق انسانی نہ صرف مسلم افراد بلکہ غیر مسلم افراد (جو کہ اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے قانون کی پاسداری کرے) نہ صرف عام حالات بلکہ جنگ جیسے برہنگم حالات میں بھی مکمل طور پر حفاظت کا ضامن ہے اس میں کسی قسم کی (رنگ و نسل، زبان و مذہب، علاقے و قوم) تطبیق نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی تبدیلی و تنسیخ کا کسی کو مطلقاً حق ہے۔ لیکن عصر حاضر کے حالات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ تمام تر دنیا بالعموم اور ملک پاکستان بالخصوص دوبارہ اسی ظلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جہاں سے 1400 سال قبل نبی آخرالزماں رحمت للعالمین اس امت کو نکال کر لائے تھے پاکستان جس کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے جو فقط حاصل ہی اسلامی تعلیمات پر بآسانی بجا آوری اور پرامن و خوشحال زندگی بسر کرنے کے لئے کیا تھا وہ آج بدقسمتی سے ان حکمرانوں کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا ہے جن کے ضمیر بیرون ملک گروی رکھے ہوئے ہیں وہ عوام کو مختلف چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ کے تحت بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ عوام لولی پاپ کھاکر خوش ہوجائے اور یہ حکمران ان پراجیکٹ کے ذریعے بھی بیش بہا دولت سمیٹ سکیں۔
لیکن جب عوام کو کوئی ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے ’’بیداری شعور‘‘ دے تو یہی حکمران ریاستی دہشت گردی کے ذریعے ان کا قلع قمع کرنے کی تدبیر کرتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ جو لوگ جذبہ ایمانی سے سرشار ہوتے ہیں وہ ’’تلاطم خیز موجوں سے گھبرایا نہیں کرتے‘‘۔ لہذا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے باعث حکمران پاکستان عوامی تحریک کے جذبوں کو کمزور نہ کرسکے وہ اپنی جدوجہد میں مسلسل سرگرم عمل ہیں مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ماہ بعد سانحہ پشاورمیں آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ طاغوتی قوتیں یہ جان چکی ہیں کہ ملک پاکستان اس وقت نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ یوں انہوں نے بھی پے در پے حملے کرنا شروع کردیئے کبھی ایئر پورٹ پر حملہ کیا جارہا ہے تو کبھی ہماری شہ رگ ’’بچوں‘‘ پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ اسکا ذمہ دار کون ہے؟ ملک پاکستان میں پرامن فضاء کا ضامن کون ہے؟ ہمارے حکمران کیوں اس قدر بے بسی کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ پاکستانی اقوام کی قسمت کا سودا بیرون ملک آقاؤں کے پاس کررہے ہیں کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کو حاصل کرنے کا خواب علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کی؟ یا پھر جس کے لئے جہد مسلسل قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کی؟ نہیں، پاکستان کو برصغیر سے علیحدہ وطن کے طور پر اسلئے حاصل کیا گیا تھا کہ 1400 سال قبل آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے جو انسانی حقوق پر مبنی چارٹر ملت اسلامیہ کو دیا تھا اس پر عملدرآمد کرکے ہر مسلمان اور ہر پاکستانی باعزت، پروقار، پرسکون و خوشحال زندگی بسر کرسکے۔ مگر افسوس صد افسوس حالات حاضرہ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے (جو اسلامی قوانین میں مرتب ہیں) دوبارہ سے نیا پاکستان جابر حکمرانوں سے حاصل کرنا ہے اور اسی طرح سے یہ حکمران عوام کے خون سے ہولی کھیلیں گے جس طرح پاکستان بناتے وقت انسانی جانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ کیونکہ انہیں اپنے مفادات خطرے میں پڑتے دکھائی دے رہے ہیں مگر اب پاکستانی عوام بھی چپ ہوکر نہیں بیٹھیں گے وہ اپنا حق حاصل کرکے رہیں گے چاہے انہیں حکمرانوں کے مدمقابل ہی کیوں نہ آکر کھڑا ہونا پڑے۔