ماہ ربیع الاول جس کو ماہ کامل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس ماہ عظیم حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت للعالمین، محبوب خدا، تاجدار کائنات، محسن انسانیت، معلم اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس فانی دنیا میں تشریف لائے۔ ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ.
(التوبة: 128)
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے ایک باعظمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے‘‘۔
ربیع کے معانی بہار اور اول کے معانی پہلی۔ ربیع الاول مرکبِ اضافی ہے جس کا مطلب پہلے کی بہار ہے اور یہ موسم بہار کا ہوتا ہے۔ مزاج میں خوشگوار تازگی اور سکون و قرار کی فضا طمانیت سے بھرپور ہوتی ہے۔ نہ سردی، نہ گرمی، دل و دماغ معطر ہوتا ہے۔
قارئین محترم! اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کائنات کو عدم سے وجود میں لانے سے پہلے کائنات کو جس بہار سے آشنا کیا گیا وہ بہار اول یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور نبوت تھا اور اس نور نبوت کے ظہور کے لئے جس مہینے کا انتخاب کیا گیا وہ ماہ ربیع الاول ہے یعنی اس کائنات کی سب سے پہلی بہار ماہ ربیع الاول میں آئی۔
ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح اقدس حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی دو ہزار سال قبل اللہ کی بارگاہ میں نور کی شکل میں موجود تھی اور یہ نور مقدس اللہ جل شانہ کی تسبیح و تحلیل میں مصروف تھا اور فرشتے اس نور کی تسبیح کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو یہ نور اقدس آپ علیہ السلام کی پیشانی مبارک میں رکھا اور جب تک اللہ کو منظور تھا حضرت آدم علیہ السلام بہشت کے باغوں میں اپنی بیوی حضرت حوا علیہا السلام کے ساتھ موجود رہے۔
آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو خود ارشاد مبارکہ ہے:
اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللّٰهُ نُوْرِیْ وَاَنَا مِنْ نُوْرِاللّٰهِ
’’سب سے پہلے اللہ نے میرے نورکو پیدا فرمایا اور میں اللہ کا نور ہوں‘‘۔
ماہ ربیع الاول امت مسلمہ کے لئے خوشیوں، نعمتوں، برکتوں کا عظیم تحفہ لے کر آتا ہے کیونکہ یہ وہ ماہ مبارک ہے جس میں پوری انسانیت کو گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات دلانے کے لئے اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ.
(الانبياء: 107)
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس اور بابرکت وجود نے اس کائنات کی تقدیر بدل کر رکھ دی اور جہالت میں لت پت انسانیت کو بلند وبالا مقام پر سرفراز فرمایا اور قیامت تک کے لئے ہر زمان اور مکان پر اپنی عظیم شخصیت کے پائندہ و تابندہ نقوش ثبت کردیئے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نبی ہیں جن کی خاطر کائنات کو تشکیل دیا گیا، باغ کو سجایا گیا، پھر اس باغ کا نگہبان بنایا گیا، جن کی پیدائش کے دن برائی کے دیوتائوں کو پاش پاش کردیا گیا، سسکتی انسانیت کو علم و فکر کے خزانے عطا کردیئے گئے، ختم نبوت کا تاج سر پر سجادیا گیا۔ جن کا نام نامی پیدائش سے پہلے ہی تجویز کردیا گیا۔ جن کو فتح و نصرت اور جنت کی چابیاں عطا کردی گئیں۔
آج اگر 12 ربیع الاول اور پیر کے دن کو عظمت حاصل ہے تو سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب سے ہے تو پھر کیوں نہ کہوں کہ آقا نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قدرت کاملہ کا وہ عظیم شاہکار ہیں کہ جس مہینے، دن، شہر، قبیلے یا چیز کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی وہ سب سے اعلیٰ و ممتاز ہوگیا۔ یہاں تک کہ خاک عرب کے جن ذروں کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں سے ہوئی وہ ذرے بھی آفتاب ہوگئے۔
قدم بوسی کی دولت مل گئی تھی چند ذروں کو
ابھی تک چمکتے ہیں ستاروں کی جبیں بن کر
قارئین کرام! سلسلہ نبوت ایک رابطہ تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تھا، اس لائن کے ایک سرے پر چاہت اور دوسرے پر چاہنے والا تھا، ایک طرف تڑپ اور بے قراری تھی دوسری طرف سکون تھا یہاں تک کہ رب تعالیٰ نے خود فرمادیا:
لولاک لما خلقت الافلاک کہ اے محبوب اگر ہم نے آپ کو نہ بنانا ہوتا تو ہم یہ خوبصورت کائنات کو تخلیق ہی نہ کرتے۔ بے شک اللہ سبحان تعالیٰ نے اپنی پہچان کے لئے اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا۔ پھر اپنے نام کے ساتھ محبوب کا نام اتنے پیار سے جوڑا کہ لفظ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے ہی ہر نگاہ فرط تعظیم اور فرط ادب سے جھک جاتی ہے۔ ہر سر خم ہوجاتا ہے اور ہر زبان پر درود و سلام کے زمزمے جاری ہوجاتے ہیں۔اسلام کے رکن اول یعنی شہادت توحید ورسالت کے دو حصے ہیں پہلا عقیدہ توحید یعنی لا اله الا الله اور دوسر احصہ رسالت یعنی محمد رسول الله. یوں تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعدد اسمائے گرامی ہیں اور محدثین کے مطابق اللہ رب العزت نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ننانوے ناموں سے نوازا۔ ان میں سے ہر نام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار کے کسی نہ کسی انوکھے پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔ جس طرح اللہ رب العزت کے ہزاروں نام ہیں مگر ذاتی نام صرف ایک ہی ہے وہ ہے اللہ۔ اسی طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی سینکڑوں نام ہونے کے باوجود ذاتی اور شخصی نام ایک ہی ہے اور وہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی بھی ہیں اور رسول بھی، بشیر بھی نذیر بھی اور ہادی برحق بھی مگر نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی ذات اقدس سے جو تعلق ہے وہ کسی اور صفاتی نام کو نہیں۔ یہ وہ نام ہے جو قدرت کی طرف سے روز اول ہی سے آپ کے لئے خاص کردیا گیا۔ پھر احمد، حامد اور محمود اسمائے مبارکہ میں کثرت سے تعریف کی طرف اشارہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے مبارکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف کی کثرت کے مظہر ہیں۔ کائنات حسن جب پھیلی تو لامحدود تھی اور جب سمٹی تو تیرا نام ہوکے رہ گئی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کائنات کی ہر مخلوق جن و انس اور ملائکہ اور مقربین ہی نہیں کرتے بلکہ خود اللہ رب العزت بھی ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف فرماتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا:
اِنَّ اﷲَ وَمَلٰئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ط يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا.
(الاحزاب، 33 : 56)
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔
ہزاروں کروڑوں درود و سلام سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو باعث تخلیق کائنات ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا اہل ایمان کی طرف سے محبت و عقیدت کا اظہار ہے۔ اس سے نہ صرف روحانی رشتہ مضبوط ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کے حقدار بھی ہوجاتے ہیں۔
اللہ جل شانہ نے قرآن پاک میں بہت سارے احکامات نازل فرمائے ہیں جن میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج جیسے اعمال صالحہ ہیں۔ اسی طرح بہت سارے انبیاء علیہم السلام کی تعریفیں بھی فرمائیں۔ ان کے اعزازات بھی فرمائے، حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو فرشتے کو حکم فرمایا کہ ان کو سجدہ کیا جائے لیکن کسی حکم یا اعزاز میں یہ نہیں فرمایا کہ میں بھی یہ کام کرتا ہوں تم بھی کرو۔
یہ اعزاز صرف سیدالکونین، فخرو دوعالم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے لئے ہے کہ اللہ جل شانہ نے پہلے اپنی طرف سے پھر اپنے پاک فرشتوں کی طرف سے کرنے کے بعد مسلمانوں کو حکم فرمایا کہ میں بھی یہ کام کرتا ہوں تم بھی کرو۔ اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوگی کہ وہ واحد مشترک عمل ہے جس میں اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور مومنین کی شرکت ہے۔
خدا کا ذکر کرے، ذکر مصطفی (ص) نہ کرے
ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں، خدا نہ کرے
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کو ایسا بے مثال بنایا ہے کہ صورت اور سیرت کے تذکرے قرآن مجید میں جگہ جگہ ہورہے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب نبی ہیں۔ اس لئے باری تعالیٰ نے انبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص، محامدو محاسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس میں اس طرح جمع فرمادیئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضلیت و اکملیت کا معیار آخر قرار پائے۔ اس لئے حسن و جمال کا معیار آخر بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذات مبارکہ ہے۔ شاعر بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نعتیہ اشعار کا مفہوم ملاحظہ فرمائیں۔ فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین چہرہ آج تک کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ خوبصورت شخص کسی ماں نے نہیں جنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جسمانی اور روحانی عیب سے پاک پیدا کئے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے پیدا کئے گئے ہیں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود چاہتے تھے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مذکورہ اشعار میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری و باطنی محاسن کی طرف حسین عمدگی سے اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ محتاج تفصیل نہیں، اسی لئے تو قرآن میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معجزہ نما آنکھوں سے متعلق فرماتا ہے۔ مازاغ البصر، زبان کے بارے میں فرماتا ہے الم نشرح لک صدرک، چہرہ والضحیٰ، زلفیں والیل، کملی اوڑھ لیں تو قرآن فرماتا ہے: ياايها المدثر، چادر اوڑھتے ہیں تو فرماتا ہے ياايها المزمل. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد کے لئے نکلتے ہیں تو فرماتا ہے: ياايها النبی جاهد الکفار میدان تبلیغ میں آتے ہیں تو فرماتا ہے: ياايها الرسول بلغ ماانزل اليک اور پھر اخلاق کے بارے میں فرماتا ہے: انک لعلی خلق عظيم سب کچھ کہنے کے بعد آخر میں یہ کہنا پڑتا ہے۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
مجھ سے تیری تعریف کا حق کیسے ادا ہو
صدیوں رہوں زندہ تو نہ تکمیل ثنا ہو
محترم قارئین! حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری سے مظلوم انسانیت کے لئے نجات کی نوید اور آزادی کا پیغام تھا۔ سب سے زیادہ فائدہ آپ کی بعثت کا خواتین کو ملا جو معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ تھیں، جنہیں نہ گھر کے اندر عزت حاصل تھی نہ معاشرے میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو گھر اور باہر دونوں جگہ پر عزت بخشی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو زبانی تعلیم ہی نہیں بخشی بلکہ عملی نمونہ بھی فراہم کیا، شرم و حیا عورت کا زیور اور مرد کی زینت ہے، پردے کا حکم دے کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردو عورت دونوں کو تباہی سے بچالیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کیا وہ نہ صرف مسلمان خواتین بلکہ غیر مسلم خواتین کی عزت و آبرو کی پاسبانی بھی کریں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت وہ حسین ترین لمحہ تھا جس کی خوشی پوری کائنات میں منائی گئی۔ اس عطائے نعمت عظمیٰ پر اللہ رب العزت کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے اور اس کے ساتھ دعا بھی ہے کہ وہ ہمیں آپ کی سنت پر چلنے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنے والا بنادے۔ دعا ہے کہ اللہ جل شانہ اس بار عید میلاد کی خوشیاں مناتے ہوئے وطن عزیز پاکستان پر اپنے خاص فضل و کرم اور رحمت سے اس کے مصائب، آلام اور پریشانیوں کو ختم فرمادے۔ اُسے ترقی و خوشحالی عطا فرمائے۔ اس کی بقا اور سلامتی کی حفاظت فرمائے۔ امن و سکون کے ساتھ آپس میں اتحاد و محبت کی فضا پیدا کردے اور ہر طرح کے خلفشار سے پاک کردے۔ آمین
لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب
علم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب